نیب احتساب عدالتیں اور کرپشن کے خلاف جنگ
اگر ایک دفعہ سب سے بڑا چور پکڑا گیا تو باقی چوروں کو پکڑنا آسان ہو جائے گا۔
حالیہ انتخابات کافی حد تک کرپشن کے نعرے پر لڑے گئے ہیں۔ تحریک انصاف کرپشن کے نعرے پر ہی برسراقتدار آئی ہے۔ سب ہی ایک دوسرے کو چور چور کہہ رہے ہیں۔ کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کون چور ہے اور کون چور نہیں۔ جس کا بھی نام سامنے آتا ہے ساتھ سکینڈل بھی سامنے آجاتا ہے۔
تحریک انصاف کی جانب سے ایک تاثر یہ بھی دیا گیا کہ نواز شریف ملک کا سب سے بڑا چور ہے۔ اگر ایک دفعہ سب سے بڑا چور پکڑا گیا تو باقی چوروں کو پکڑنا آسان ہو جائے گا۔ حالانکہ ماضی میں یہ سازشی فارمولہ بری طرح فیل ہو چکا ہے لیکن پھر بھی اس بار دوبارہ قوم کو اسی فارمولہ سے دھوکا دیا گیا ہے۔
بھٹو کو جب ایک قتل کی پشت پناہی پر سزا دی جا رہی تھی تو قوم کو بتایا جا رہا تھا کہ ایک دفعہ ایک بڑا آدمی اس طرح اعانت قتل میں پھانسی لگ گیا تو دوبارہ کوئی بڑا آدمی کسی کو قتل کروانے کی جرات نہیں کرے گا۔ لیکن دیکھ لیں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ اور آج ملک میں قتل ویسے ہی ہو رہے ہیں۔ بلکہ بھٹو کو پھانسی دینے پر سارے شرمندہ ہیں۔ بہر حال ملک میںکرپشن کا بہت شور ہے اور پاکستان میں کرپشن کے خلاف کام صرف اور صرف نیب ہی کر رہی ہے۔ نیب واحد ادارہ ہے جو ملک میں ہر طرح کی بڑی چوری کو پکڑنے کا مینڈیٹ رکھتا ہے۔
الیکشن سے پہلے نیب بہت متحرک نظر آیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہر طرف نیب کا ہی شور ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی دہائی دے رہی تھیں کہ نیب کم از کم الیکشن تک تو گرفتاریاں روک دے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ نیب کے پاس گرفتاریوں کی ایک لمبی لسٹ ہے۔ الیکشن کمیشن بھی کہہ رہا تھا کہ انھوں نے نیب کو انتخابات تک گرفتاریاں روکنے کے لیے کہا ہے۔ لیکن اب تو انتخابات ہو گئے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ جو گرفتاریاں انتخابات کی وجہ سے روکی گئی تھیں۔ اب کیوں نہیں کی جا رہی ہیں۔ کیوں ایسا لگتا ہے کہ نیب کو بریک لگ گئی ہے۔
آج کل نیب قوانین میں ترمیم کا بہت شور ہے۔ کچھ جماعتیں تو نیب ختم کرنے کے حق میں ہیں۔ ایسے میں ترامیم کا پنڈورا بکس کھولنا خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتاری نہ کی جائے۔ کیا ایسے ملزمان بھاگ نہیں جائیں گے۔ نیب کے پہلے نوٹس پر ہی کئی ملزم بھاگ جاتے ہیں۔ اس طرح ثبوت دینے کی ذمے داری بھی ملزم سے نیب پر منتقل کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ اس سے تو نیب مزید مفلوج ہو جائے گا ملزمان کی موج ہو جائے گی۔ بہر حال کوئی بھی ترامیم کرنے سے پہلے نیب سے مشاورت بہت ضروری ہے۔
کیونکہ نیب کو ہی پتہ ہے کہ عملی مشکلات کیا ہیں۔ لیکن کیا ملک میں اکیلا نیب کرپشن کے خلاف جنگ جیت سکتا ہے۔ جی نہیں۔ نیب اکیلا کچھ نہیں کر سکتا۔ نیب تو بس ایک تفتیشی ادارہ ہے۔ نیب کے پاس سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔نیب کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک عدالتیں لوگوں کو کرپشن پر سزا نہیں دیں گی۔ اس ضمن میں نیب کے ریفرنسز کی سماعت کے لیے ملک بھر میں 26احتساب عدالتیں موجود ہیں۔ نیب کے اعداد و شمار کے مطابق ان 26احتساب عدالتوں میں 1210ریفرنسز زیر سماعت ہیں۔ لیکن ملک میں لگتا ہے جیسے احتساب عدالتوں میں صرف نواز شریف کے ہی ریفرنس زیر سماعت ہیں ۔ باقی کسی عدالت میں کوئی کام ہی نہیں ہو رہا۔
حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ اس وقت ملک بھر کی احتساب عدالتوں میں 895.279ارب روپے کی کرپشن کے ریفرنس زیر سماعت ہیں۔ آپ اندازہ لگا لیں اگر صرف کرپشن کی یہ رقم ہی واپس آجائے تو ملک کا کتنا فائدہ ہوگا۔ نیب کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق نیب ریفرنسز میں احتساب عدالتوں سے سزاؤں کا تناسب 77فیصد ہے۔ اس طرح اگر یہی مان لیا جائے کہ ان زیر التوا ریفرنسز میں بھی سزاؤں کا تناسب 77فیصد ہی رہے گاتو پھر بھی قوم کو 689.36ارب روپے مل سکتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان ریفرنسز کو فائل کر کے نیب نے اپنا کام مکمل کر دیاہے۔
کیس عدالت میں ہیں۔ اب تو عدالتوں نے سزائیں دینی ہیں۔ اس ضمن میں عدلیہ کو کم از کم کرپشن کے تمام کیسز میں ایمر جنسی لگانے کی ضرورت ہے۔ اس کے دو فائدے ہونگے۔ ایک تو یہ تاثر بھی ختم ہو جائے گا کہ نواز شریف کے مقدمات میں غیر ضروری تیزی دکھائی گئی ہے۔ دوسرا ملک کی لوٹی ہوئی دولت بھی واپس آجائے گی۔ ویسے تو چیف جسٹس اور چیئرمین نیب کی ملاقات ہوئی ہے۔ دشمن کچھ بھی کہیں مجھے امید ہے کہ اس میں ملک کے مفاد کی ہی باتیں ہوئی ہونگی۔ لیکن چیئرمین نیب جہاں ملک میں کرپشن کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ کسی کا دباؤ نہیں قبول کر رہے وہاں انھیں چیف جسٹس کو اس بات پر بھی قائل کرنا چاہیے کہ احتساب عدالتوں کی تعداد میں فوری اضافہ کیا جائے۔ مقدمات کو نبٹانے کی رفتار تیز کی جائے۔
اس کا ملزمان کو بھی فائدہ ہو گا۔ جو بے گناہ ہونگے وہ جلدی بری ہو جائیں گے۔ جو گناہ گار ہونگے انھیں سزا مل جائے گی۔ ان میں سے اکثر ریفرنس پانچ سال سے پرانے ہیں۔ اور چلتے جا رہے ہیں۔ اس طرح نیب کا اچھا کام بھی ضایع ہوجاتا ہے۔ یہ ڈیم کے لیے چندہ اکٹھا کرنا بھی اچھا قدم ہے۔ لیکن کرپشن کا مال واپس لانا بھی ضروری ہے۔ ہم ایک طرف چندہ مانگتے رہیں اور دوسری طرف ہماری احتساب عدالتوں میں مقدمات کئی کئی سال زیر التوا رہیں ۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ اس لیے ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
مجھے چیئرمین نیب اور وزیر اعظم کی ملاقات پر بھی تحفظات تھے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نیب کو نئی جدت دی ہے۔ انھوں نے نیب کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالی ہے۔ غیر جانبداری کی ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ احتساب سب کا جیسا سنہری اصول متعارف کروایا ہے۔ ایسے میں جاوید اقبال جیسے درویش کو وزیر اعظم سے ملنے کی کیا ضرورت تھی۔ بہت سے جاننے والوں سے یہ سوال کیا۔ بہر حال مجھے کچھ جواب مل گیا۔ سب سے پہلے تو یہ جاننے کی ضرورت تھی کہ آخر اس ملاقات کا ایجنڈاکیا تھا۔
ایک دوست نے بتایا کہ آپ کو معلوم ہی نہیں کہ ماضی میں نیب کا گلہ گھونٹنے کے لیے کیا کیا حربے استعمال کیے گئے ہیں۔ صرف چیئرمین نیب ہی اپنی مرضی کے نہیں لگائے جاتے رہے بلکہ نیب کو مفلوج کرنے کی ایک مربوط پالیسی پر بھی کام ہوتا رہا ہے۔ نیب لوٹی ہوئی رقم قوم کو واپس لوٹاتا ہے۔ اس ضمن میں بینک ڈیفالٹرز اور لینڈ مافیا کے کیس بھی نیب کے پاس آتے ہیں۔ بینک ڈیفالٹرز سے جب رقم واپس لی جاتی ہے تو بینک کی اصل رقم کے ساتھ اس پر آٹھ فیصد منافع بھی بینک کو وصول کر کے دیا جاتا ہے۔ جب کہ ڈیفالٹرز سے سولہ فیصد منافع وصول کیا جاتا ہے۔
پہلے آٹھ فیصد کا آٹھ فیصد نیب کو ملتا تھا۔جس کو ریکوری اینڈ ریوارڈ فنڈ ( R & R) کہا جاتا ہے جو نیب کے افسران میں تقسیم نہیں ہوتا تھا بلکہ نیب اس کو اپنے ملازمین کی فلاح اور بہتری پر خرچ کرتی تھی۔ لیکن 2013 میں اس آٹھ فیصد کو کم کر کے دو فیصد کر دیا گیا اور کہہ دیا گیا کہ باقی چھہ فیصد حکومت رکھے گی۔ نیب نے بادل ناخواستہ اس کوبھی قبول کر لیا۔ لیکن بعد میں یہ دو فیصد بھی روک لیا گیا۔
اور اس طرح اب تک نیب کے 1200ملین روپے رکے ہوئے ہیں۔ نیب لکھتا رہا لیکن نیب کو اس کی رقم جاری نہیں کی جاتی تھی۔ایک تواس رقم کے اجرا کے لیے نیب کا حکومت سے رابطہ ضروری تھا۔ کہ نیب کو اس کا حق مل سکے۔ اسی طرح نیب میں بڑے بڑے چوروں کی تفتیش ہوتی ہے۔ افسران ملک کی دولت واپس لانے کے لیے جان کی بازی لگاتے ہیں۔ انھیں جان سے مارنے سمیت ہر قسم کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ اس لیے نیب کے افسران کو ایک ہارڈ شپ الاؤنس ملتا تھا۔ اس الاؤنس کو بھی 2013سے ایک جگہ منجمد کر دیا گیا۔اس ضمن میں بھی حکومت سے بات ضروری تھی۔ ماضی کی حکومتیں تو سننے کے لیے تیار ہی نہیں تھیں۔ اس لیے اس نئی حکومت سے اعلیٰ سطح پر بات کرنے کی ضرورت تھی۔
شائد کسی کو اندازہ نہیں کہ نیب کے فنڈز روکے جانے کی وجہ سے مالی حالات بہت خراب ہو چکے ہیں۔ نچلے اسٹاف کو ملنے والا سستا کھانا بند ہو چکا ہے۔ نہ جاوید اقبال خود دفتر سے چائے پیتے اور نہ کسی کو پینے دیتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جب اتنے بڑے مقدمات کی تفتیش کرنے والوں کو ہم مالی طور پر تنگ رکھیں گے تو کرپشن کے خلاف جنگ کیسے جیتی جا سکتی ہے۔ نیب کے ملازمین اور افسران کو عدلیہ کی طرح اسپیشل تنخواہیں ملنی چاہیے۔ شائد پہلی حکومتیں دل سے نیب کے خلاف تھیں۔ لیکن اس حکومت کو نیب کے کہے بغیر نیب کا خیال کرنا چاہیے۔
تحریک انصاف کی جانب سے ایک تاثر یہ بھی دیا گیا کہ نواز شریف ملک کا سب سے بڑا چور ہے۔ اگر ایک دفعہ سب سے بڑا چور پکڑا گیا تو باقی چوروں کو پکڑنا آسان ہو جائے گا۔ حالانکہ ماضی میں یہ سازشی فارمولہ بری طرح فیل ہو چکا ہے لیکن پھر بھی اس بار دوبارہ قوم کو اسی فارمولہ سے دھوکا دیا گیا ہے۔
بھٹو کو جب ایک قتل کی پشت پناہی پر سزا دی جا رہی تھی تو قوم کو بتایا جا رہا تھا کہ ایک دفعہ ایک بڑا آدمی اس طرح اعانت قتل میں پھانسی لگ گیا تو دوبارہ کوئی بڑا آدمی کسی کو قتل کروانے کی جرات نہیں کرے گا۔ لیکن دیکھ لیں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ اور آج ملک میں قتل ویسے ہی ہو رہے ہیں۔ بلکہ بھٹو کو پھانسی دینے پر سارے شرمندہ ہیں۔ بہر حال ملک میںکرپشن کا بہت شور ہے اور پاکستان میں کرپشن کے خلاف کام صرف اور صرف نیب ہی کر رہی ہے۔ نیب واحد ادارہ ہے جو ملک میں ہر طرح کی بڑی چوری کو پکڑنے کا مینڈیٹ رکھتا ہے۔
الیکشن سے پہلے نیب بہت متحرک نظر آیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہر طرف نیب کا ہی شور ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی دہائی دے رہی تھیں کہ نیب کم از کم الیکشن تک تو گرفتاریاں روک دے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ نیب کے پاس گرفتاریوں کی ایک لمبی لسٹ ہے۔ الیکشن کمیشن بھی کہہ رہا تھا کہ انھوں نے نیب کو انتخابات تک گرفتاریاں روکنے کے لیے کہا ہے۔ لیکن اب تو انتخابات ہو گئے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ جو گرفتاریاں انتخابات کی وجہ سے روکی گئی تھیں۔ اب کیوں نہیں کی جا رہی ہیں۔ کیوں ایسا لگتا ہے کہ نیب کو بریک لگ گئی ہے۔
آج کل نیب قوانین میں ترمیم کا بہت شور ہے۔ کچھ جماعتیں تو نیب ختم کرنے کے حق میں ہیں۔ ایسے میں ترامیم کا پنڈورا بکس کھولنا خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتاری نہ کی جائے۔ کیا ایسے ملزمان بھاگ نہیں جائیں گے۔ نیب کے پہلے نوٹس پر ہی کئی ملزم بھاگ جاتے ہیں۔ اس طرح ثبوت دینے کی ذمے داری بھی ملزم سے نیب پر منتقل کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ اس سے تو نیب مزید مفلوج ہو جائے گا ملزمان کی موج ہو جائے گی۔ بہر حال کوئی بھی ترامیم کرنے سے پہلے نیب سے مشاورت بہت ضروری ہے۔
کیونکہ نیب کو ہی پتہ ہے کہ عملی مشکلات کیا ہیں۔ لیکن کیا ملک میں اکیلا نیب کرپشن کے خلاف جنگ جیت سکتا ہے۔ جی نہیں۔ نیب اکیلا کچھ نہیں کر سکتا۔ نیب تو بس ایک تفتیشی ادارہ ہے۔ نیب کے پاس سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔نیب کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک عدالتیں لوگوں کو کرپشن پر سزا نہیں دیں گی۔ اس ضمن میں نیب کے ریفرنسز کی سماعت کے لیے ملک بھر میں 26احتساب عدالتیں موجود ہیں۔ نیب کے اعداد و شمار کے مطابق ان 26احتساب عدالتوں میں 1210ریفرنسز زیر سماعت ہیں۔ لیکن ملک میں لگتا ہے جیسے احتساب عدالتوں میں صرف نواز شریف کے ہی ریفرنس زیر سماعت ہیں ۔ باقی کسی عدالت میں کوئی کام ہی نہیں ہو رہا۔
حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ اس وقت ملک بھر کی احتساب عدالتوں میں 895.279ارب روپے کی کرپشن کے ریفرنس زیر سماعت ہیں۔ آپ اندازہ لگا لیں اگر صرف کرپشن کی یہ رقم ہی واپس آجائے تو ملک کا کتنا فائدہ ہوگا۔ نیب کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق نیب ریفرنسز میں احتساب عدالتوں سے سزاؤں کا تناسب 77فیصد ہے۔ اس طرح اگر یہی مان لیا جائے کہ ان زیر التوا ریفرنسز میں بھی سزاؤں کا تناسب 77فیصد ہی رہے گاتو پھر بھی قوم کو 689.36ارب روپے مل سکتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان ریفرنسز کو فائل کر کے نیب نے اپنا کام مکمل کر دیاہے۔
کیس عدالت میں ہیں۔ اب تو عدالتوں نے سزائیں دینی ہیں۔ اس ضمن میں عدلیہ کو کم از کم کرپشن کے تمام کیسز میں ایمر جنسی لگانے کی ضرورت ہے۔ اس کے دو فائدے ہونگے۔ ایک تو یہ تاثر بھی ختم ہو جائے گا کہ نواز شریف کے مقدمات میں غیر ضروری تیزی دکھائی گئی ہے۔ دوسرا ملک کی لوٹی ہوئی دولت بھی واپس آجائے گی۔ ویسے تو چیف جسٹس اور چیئرمین نیب کی ملاقات ہوئی ہے۔ دشمن کچھ بھی کہیں مجھے امید ہے کہ اس میں ملک کے مفاد کی ہی باتیں ہوئی ہونگی۔ لیکن چیئرمین نیب جہاں ملک میں کرپشن کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ کسی کا دباؤ نہیں قبول کر رہے وہاں انھیں چیف جسٹس کو اس بات پر بھی قائل کرنا چاہیے کہ احتساب عدالتوں کی تعداد میں فوری اضافہ کیا جائے۔ مقدمات کو نبٹانے کی رفتار تیز کی جائے۔
اس کا ملزمان کو بھی فائدہ ہو گا۔ جو بے گناہ ہونگے وہ جلدی بری ہو جائیں گے۔ جو گناہ گار ہونگے انھیں سزا مل جائے گی۔ ان میں سے اکثر ریفرنس پانچ سال سے پرانے ہیں۔ اور چلتے جا رہے ہیں۔ اس طرح نیب کا اچھا کام بھی ضایع ہوجاتا ہے۔ یہ ڈیم کے لیے چندہ اکٹھا کرنا بھی اچھا قدم ہے۔ لیکن کرپشن کا مال واپس لانا بھی ضروری ہے۔ ہم ایک طرف چندہ مانگتے رہیں اور دوسری طرف ہماری احتساب عدالتوں میں مقدمات کئی کئی سال زیر التوا رہیں ۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ اس لیے ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
مجھے چیئرمین نیب اور وزیر اعظم کی ملاقات پر بھی تحفظات تھے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نیب کو نئی جدت دی ہے۔ انھوں نے نیب کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالی ہے۔ غیر جانبداری کی ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ احتساب سب کا جیسا سنہری اصول متعارف کروایا ہے۔ ایسے میں جاوید اقبال جیسے درویش کو وزیر اعظم سے ملنے کی کیا ضرورت تھی۔ بہت سے جاننے والوں سے یہ سوال کیا۔ بہر حال مجھے کچھ جواب مل گیا۔ سب سے پہلے تو یہ جاننے کی ضرورت تھی کہ آخر اس ملاقات کا ایجنڈاکیا تھا۔
ایک دوست نے بتایا کہ آپ کو معلوم ہی نہیں کہ ماضی میں نیب کا گلہ گھونٹنے کے لیے کیا کیا حربے استعمال کیے گئے ہیں۔ صرف چیئرمین نیب ہی اپنی مرضی کے نہیں لگائے جاتے رہے بلکہ نیب کو مفلوج کرنے کی ایک مربوط پالیسی پر بھی کام ہوتا رہا ہے۔ نیب لوٹی ہوئی رقم قوم کو واپس لوٹاتا ہے۔ اس ضمن میں بینک ڈیفالٹرز اور لینڈ مافیا کے کیس بھی نیب کے پاس آتے ہیں۔ بینک ڈیفالٹرز سے جب رقم واپس لی جاتی ہے تو بینک کی اصل رقم کے ساتھ اس پر آٹھ فیصد منافع بھی بینک کو وصول کر کے دیا جاتا ہے۔ جب کہ ڈیفالٹرز سے سولہ فیصد منافع وصول کیا جاتا ہے۔
پہلے آٹھ فیصد کا آٹھ فیصد نیب کو ملتا تھا۔جس کو ریکوری اینڈ ریوارڈ فنڈ ( R & R) کہا جاتا ہے جو نیب کے افسران میں تقسیم نہیں ہوتا تھا بلکہ نیب اس کو اپنے ملازمین کی فلاح اور بہتری پر خرچ کرتی تھی۔ لیکن 2013 میں اس آٹھ فیصد کو کم کر کے دو فیصد کر دیا گیا اور کہہ دیا گیا کہ باقی چھہ فیصد حکومت رکھے گی۔ نیب نے بادل ناخواستہ اس کوبھی قبول کر لیا۔ لیکن بعد میں یہ دو فیصد بھی روک لیا گیا۔
اور اس طرح اب تک نیب کے 1200ملین روپے رکے ہوئے ہیں۔ نیب لکھتا رہا لیکن نیب کو اس کی رقم جاری نہیں کی جاتی تھی۔ایک تواس رقم کے اجرا کے لیے نیب کا حکومت سے رابطہ ضروری تھا۔ کہ نیب کو اس کا حق مل سکے۔ اسی طرح نیب میں بڑے بڑے چوروں کی تفتیش ہوتی ہے۔ افسران ملک کی دولت واپس لانے کے لیے جان کی بازی لگاتے ہیں۔ انھیں جان سے مارنے سمیت ہر قسم کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ اس لیے نیب کے افسران کو ایک ہارڈ شپ الاؤنس ملتا تھا۔ اس الاؤنس کو بھی 2013سے ایک جگہ منجمد کر دیا گیا۔اس ضمن میں بھی حکومت سے بات ضروری تھی۔ ماضی کی حکومتیں تو سننے کے لیے تیار ہی نہیں تھیں۔ اس لیے اس نئی حکومت سے اعلیٰ سطح پر بات کرنے کی ضرورت تھی۔
شائد کسی کو اندازہ نہیں کہ نیب کے فنڈز روکے جانے کی وجہ سے مالی حالات بہت خراب ہو چکے ہیں۔ نچلے اسٹاف کو ملنے والا سستا کھانا بند ہو چکا ہے۔ نہ جاوید اقبال خود دفتر سے چائے پیتے اور نہ کسی کو پینے دیتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جب اتنے بڑے مقدمات کی تفتیش کرنے والوں کو ہم مالی طور پر تنگ رکھیں گے تو کرپشن کے خلاف جنگ کیسے جیتی جا سکتی ہے۔ نیب کے ملازمین اور افسران کو عدلیہ کی طرح اسپیشل تنخواہیں ملنی چاہیے۔ شائد پہلی حکومتیں دل سے نیب کے خلاف تھیں۔ لیکن اس حکومت کو نیب کے کہے بغیر نیب کا خیال کرنا چاہیے۔