بھاشا ڈیم کے بارے میں کچھ حقائق

تقریباً گیارہ سال میں اپنی تکمیل کے بعد بھاشا ڈیم ملک کی موجودہ 6500 میگا واٹ بجلی میں 4500 میگا واٹ بجلی شامل کرے گا۔

ayazbabar@gmail.com

بیشتر ترقی پذیر ملکوں میں خطرے کی گھنٹی اُس وقت بجائی جاتی ہے جب خطرہ سر پر آچکا ہوتا ہے۔ پہلے سے منصوبہ بندی شاذ ونادر ہی کی جاتی ہے۔اگر زمینی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بعض منصوبوں کی نشان دہی کر بھی لی جائے تو انھیں اُس وقت تک ترجیح نہیں دی جاتی، جب تک کہ خطرہ ہمارے سر پر منڈلانا نہ شروع ہو جائے۔پاکستان کوئی مختلف ملک نہیں ہے۔

تازہ ترین مثال یہ ہے کہ اب یہ اطلاعات ہیں کہ 2025ء تک پانی کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی۔اس کے اثرات کوکم کرنے کے لیے پاکستان کو صرف ایک نہیں بلکہ کئی ڈیموں کی ضرورت ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دیا میر بھاشا ڈیم پر توجہ اور اس پراجیکٹ کو مکمل کرنے کی عجلت پر اصرار انتہائی غیر متوقع ذریعے چیف جسٹس آف پاکستان، ثاقب نثارکی طرف سے سامنے آیا ہے۔

جب میں نے2011ء میں اس ڈیم پر آرٹیکل لکھا تو اُس وقت اس پراجیکٹ کی تخمیناً لاگت 11.7 بلین ڈالر تھی،جو اب بڑھ کر 14.6 بلین ڈالر ہو چکی ہے، یہ رقم 1.7 ٹریلین روپے سے زیادہ بنتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان کا ساتھ دیا اور پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ ڈیم فنڈ میں چندہ دیں ۔

تنقید کرنے والوں کی یہ بات کسی حدتک صحیح ہے کہ اتنا بڑا ڈیم محض چندہ اکٹھا کرکے تعمیر نہیں کیا جا سکتا، مگر ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تخمیناً لاگت کی ایک دم ضرورت نہیں ہے ،کیونکہ اتنے بڑے حجم کے ڈیم کی مدت تکمیل گیارہ سال بتائی جاتی ہے۔ حکومت کے لیے یہ دانش مندانہ بات ہوگی کہ وہ اس ڈیم کی تعمیرکے لیے درکارسالانہ رقم مختص کرے ، تاہم یہ سوچتے ہوئے کہ اس پراجیکٹ کا آغاز 2006ء میں جنرل پرویز مشرف نے کیا تھا ،حکومت کی طرف سے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ کی تخصیصات میں ڈیم کے لیے کافی فنڈز فراہم نہیں کیے گئے۔اس کا نتیجہ اس انتہائی اہم منصوبے پرکام میں تاخیر کی صورت میں نکلا۔

ایک ایسے معاشرے میں جس پر سیاست بری طرح سے حاوی ہے، اس قسم کے میگا ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان کی طرف سے شروع کیا جانے والایہ سب سے بڑا پبلک سیکٹر پراجیکٹ ہے۔ پچھلا بڑا پراجیکٹ تربیلا ڈیم تھاجس پر زیادہ تر سرمایہ کاری ،سندھ طاس معاہدے پر پاکستان بھارت مفاہمت کے حصے کے طور پر عالمی بینک کی طرف سے کی گئی تھی اور اس نے42 سال قبل کام شروع کیا تھا۔ پانی کے ذخیرے کی مقدار کے حوالے سے تربیلا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ڈیم ہے۔

تقریباً گیارہ سال میں اپنی تکمیل کے بعد بھاشا ڈیم ملک کی موجودہ 6500 میگا واٹ بجلی میں 4500 میگا واٹ بجلی شامل کرے گا۔اس6500 میگاواٹ بجلی میں 4347 میگاواٹ ہائیڈرو پاور، موجودہ تربیلا اور منگلا ڈیموں کی طرف سے آتی ہے۔ایک ایسے ملک میں جہاں ''بجلی فساد'' کی نئی اصطلاح رائج ہوئی ہے ، عام طور پر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ ہم پانی سے بجلی پیدا کرنے کے وسائل کو ترقی کیوں نہیں دیتے؟ماہرین نے بارہا میڈیا پر اس سوال کا جواب دیا ہے مگر یہ وضاحتیں ختم نہیں ہوتیں اور اب بھی میڈیا کی طرف سے سوال اٹھائے جاتے ہیں۔

سب سے پہلے ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ 6500 میگاواٹ بجلی کبھی بھی دستیاب نہیں رہی ۔ اس کے بہت سے اسباب ہیں، زیادہ تر چھوٹے اور بڑے ڈیموں پر نصب شدہ جنریٹرز پرانے ہیںاور اتنی بجلی پیدا نہیں کرسکتے جتنی ان کے اوپر درج ہے، تربیلا اور منگلا ڈیم ، دونوں میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 19 فیصد کم ہوئی ہے، ہائیڈرو پاورکا انحصار سیزن پر ہوتا ہے، چونکہ سردیوں میںکم پانی ہوتا ہے اس لیے، بجلی پیدا کرنے کی گنجائش بھی کم ہو جاتی ہے اور بجلی پیدا کرنے کے لیے ڈیموں سے اسی صورت میں پانی خارج کیا جاتا ہے جب ارسا کے تمام ارکان اس پر متفق ہوںکیونکہ ان ڈیموں میں ذخیرہ کیے ہوئے پانی کوخریف اور ربیع کی فصلوں کے وقت دریاؤں کے پانی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔


ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ڈیم پانی ذخیرہ کرنے کی 5MAF سے زیادہ گنجائش سے محروم ہوچکے ہیں ۔ تربیلا کا چوتھا توسیعی پراجیکٹ بھی مکمل ہوچکا ہے۔اس پس منظر میں دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر پاکستان کی زراعت کے لیے اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتی ہے،کیونکہ یہ پاکستان کے آبی ذخیرے کی گنجائش میں مجموعی طور پر 8MAF پانی شامل کرے گا۔

واپڈا کا اندازہ ہے کہ اس پانی سے سالانہ اوسط فائدہ50 بلین روپے سے زیادہ کا ہو گا۔اگر سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی سالانہ بچت اور 106 بلین روپے کی بجلی کی پیداوار کے فائدے کو بھی شامل کیا جائے تو توقع ہے کہ ڈیم کی لاگت چھ سے آٹھ سال میں پوری ہو جائے گی۔ اگر یہ پراجیکٹ مقررہ وقت کے اندر مکمل ہو جائے اور لاگت میں کوئی اور اضافہ نہ ہو تو یہ کوئی برا سودا نہیں ہے۔

اس سے پہلے کہ میڈیا میں شک وشبہ کا اظہارکرنے والے ساتھی اور تنقید پسندیہ سوال کریں کہ 14 بلین ڈالرکہاں سے آئیں گے، میں اس سوال کا جواب دیتا ہوں ۔جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں یہ ساری رقم فوری طور پر درکار نہیں ہوگی، اگر ہم 11 سال کی تعمیراتی مدت پر اوسط نکالیں تو یہ1.27 بلین ڈالر سالانہ بنتی ہے۔اگر ملک کو اپنے وسائل سے بھی پوری کرنی پڑے تو یہ کوئی بہت بڑی رقم نہیں ہے۔ ذرا غورکیجیے کہ حکومت پبلک سیکٹرکی بیمارکمپنیوں کو سالانہ ایک ٹریلین روپے سے زیادہ کی سبسڈی دے رہی ہے ۔

جب میں نے واپڈا کے سابق چیئرمین، شکیل درانی سے اس پراجیکٹ کی فنانسنگ کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ قرض دینے والی مختلف ایجنسیوں سے بات چیت کے پیش نظر ڈیم کے لیے رقم حاصل کرنا مسئلہ نہیں ہوگا ۔انھوں نے اُس وقت ہونے والی بات چیت کی بنیاد پر اعتماد کے ساتھ کہا کہ''توقع ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک(اے ڈی بی)کنسورشیم کی قیادت کرے گا ،جس کی اعانت اسلامی ترقیاتی بینک ، یو ایس ایڈ اور جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی کی طرف سے کی جائے گی '' مگر ایسا لگتا ہے کہ بھارتی دباؤکی وجہ سے یہ ڈونرز پیچھے ہٹ گئے ہیں، جو کہتا ہے کہ گلگت، بلتستان کشمیر کا حصہ ہے اور اس طرح یہ متنازع علاقہ ہے جہاں ڈیم تعمیر نہیں کیا جانا چاہیے۔

بہت سے فعال سماجی کارکن بڑے ڈیموں کی تعمیر پر عام طور سے پریشان ہو جاتے ہیں کیونکہ لوگوں کو وہ علاقہ چھوڑنا پڑتا ہے اور آس پاس کے علاقے زیر آب آ جاتے ہیں۔چونکہ یہ ڈیم کم آبادی والے گلگت ، بلتستان میں بنایا جا رہا ہے اور اس کا آؤٹ فال ساتھ ملنے والے کے پی صوبے میں ہوگا اس لیے بے گھر ہونے والے خاندانوں کی تعداد چند ہزار ہی ہو گی، مگرکچھ مقامی رہنماؤں نے اس ڈیم کے خلاف احتجاج کیا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ معاوضے کی ادائیگی اور دوبارہ آباد کاری منصفانہ طریقے سے نہیں کی گئی۔ تاہم ڈیم پراجیکٹ مینجرز کے لیے سب سے بڑا چیلنج قراقرم ہائی وے کے لگ بھگ سوکلومیٹر حصے کی زیادہ بلندی پر دوبارہ تعمیر ہے، کیونکہ جب ڈیم بنے گا تو یہ حصہ زیر آب آ جائے گا۔

اس عام تاثرکے بر عکس کہ ہائیڈرو پاورکو نظر انداز کیا جا رہا ہے، میرا گلگت، بلتستان، فاٹا اور چترال کا دورہ ظاہرکرتا ہے کہ دریاؤں سے چلنے والے لاتعداد چھوٹے پاور پلانٹس پہلے ہی کامیابی سے کام کر رہے ہیں اور مقامی دیہات کی بجلی کی مانگ پوری کر رہے ہیں۔ چترال کا ایک بزنس مین نہ صرف ایک میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے بلکہ ایون وادی کے لوگوں کو براہ راست تقسیم بھی کر رہا ہے۔ایون کے ایک مقامی باشندے نے مجھے بتایا کہ''اس بجلی کے نرخ واپڈا کی بجلی کے نرخوں سے بہت کم ہیں۔''

واپڈا کا کہنا ہے کہ اس کے مخلف چھوٹے اور درمیانے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس پائپ لائن میں ہیں جو تکمیل کے بعد 30,000 میگا واٹ بجلی فراہم کر سکتے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر پراجیکٹس شمال گلگت بلتستان،کے پی کے اور آزاد کشمیر میں ہیں ، مگر ان22 منصوبوں پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ نیلم جہلم جیسے چند بڑے منصوبوں کو چھوڑکر ان میں سے زیادہ تر ڈرائنگ بورڈ سے آگے نہیں بڑھے۔

اس سب کچھ کے باوجود،دیامیر، بھاشا ڈیم جس کی لاگت اب بڑھ چکی ہے،ایک قابل عمل منصوبہ ہے اور یہ صرف سات سے آٹھ سالوں میں اپنی لاگت پوری کر دے گا۔
Load Next Story