حکمرانوں کی عدم دلچسپی کے باعث غذائی قلت بحران کی صورت اختیار کرنے لگی

مسئلے کے حل کے لئے قلیل اور طویل المدتی اہداف مقرر کئے جائیں۔


ربیکا طارق September 20, 2018
مسئلے کے حل کے لئے قلیل اور طویل المدتی اہداف مقرر کئے جائیں۔ فوٹو: فائل

بدقسمتی! سے وطن عزیز میں خالص غذا کی فراہمی کے حوالے سے الٹی گنگا بہہ رہی ہے، آبادی بڑھنے سے غذائی ضروریات تو بڑھیں، لیکن غذا کے حصول کے ذرائع نہیں بڑھ رہے، چاہیے تو یہ تھا کہ ضروریات بڑھنے کے ساتھ ساتھ ذرائع بھی بڑھائے جاتے، لیکن ایسا نہ ہو سکا اور آج حالات اس نہج کو چھو رہے ہیں، جہاں پاکستان کو غذائی قلت کے بحران کا سامنا ہے۔

پھر بنیادی انسانی حق (غذا) کو سیاسی ایشو بنایا جا رہا ہے، جسے ہر حکومت اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لئے استعمال تو کرتی ہے، لیکن حالات کی بہتری کے لئے ٹھوس اقدامات کرتی نظر نہیں آتی۔2011ء سے قبل حکومت کی جانب سے آخری بار غذائی قلت پر قابو پانے کے لیے اقدامات کئے گئے اور وہ بھی اس سروے کے نتیجے میں، جو انٹرنیشنل ڈونرز کی جانب سے کئے گئے۔

2011ء میں پاکستان انٹی گریٹیڈ نیوٹریشن اسٹریٹجی (پی آئی این ایس) نے غذائی قلت سے متعلق اقدامات پر عملدر آمد کے لیے منافع بخش پلان ترتیب دیا، لیکن افسوس 7سال بعد بھی یہ پلان ابتدائی مراحل میں ہے۔

اب پاکستان کے چاروں صوبوں نے بھی انٹرسیکٹریل نیوٹریشن اسٹریجی تیار کرنا شروع کردی ہے۔ 2011ء کے نیشنل نیوٹریشن سروے (این این ایس) نے اس مسئلے کو اہمیت دینے پر زور دیا۔ سروے نے غذائی قلت کی شرح میں اضافے کا انکشاف کیا اور اس مسئلے کے حل کے لیے میڈیا اور سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا۔

اگرچہ غذائی قلت، کثیر شعبہ جاتی مسئلے کی جانب نشاندہی کرتی ہے مگر محکمہ صحت اور وزرائے صحت نے غذائی قلت کے حوالے سے بنائی گئی حکمت عملی پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد کو ترجیح نہیں دی، یوں ہم کہہ سکتے ہیں وہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھانے میں ناکام رہے۔ تاہم پنجاب میں پنجاب فوڈ اتھارٹی اور لائنسینگ پروسز کے آغاز کے ساتھ چند اہم اقدامات کئے گئے۔

جن کی دوسروں صوبوں نے تقلید کرتے ہوئے شعبہ صحت میں تبدیلی لانے کی سعی کی، جیسے کہ صوبائی حکومت سندھ نے کمپلسری آئیوڈنائیزیشن آف سالٹ ایکٹ 2013ء کو لازمی قراردیا جبکہ نمک بنانے کی تیاری میں، خوردنی نمک 30 پی پی ایم سے بھی کم آئیوڈین شامل کرنے کو ممنوع قرار دیا۔ لیکن خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں نمک میں آئیوڈین شامل کرنے کے لئے صوبائی سطح پر کسی بھی قسم کے اقدامات نہیں کئے گئے، تاہم خیبر پختونخوا اور بلوچستان حکومتوں نے اپنی پراونشل پیور فوڈ رولز میں ترمیم سے صوبوں میں سالٹ آئیونائیزیشن کے لئے قانون سازی کی جس کے بعد صوبے کے تمام اضلاع میں سالٹ آئیونائیزیشن کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔

لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات کے دوران کسی سیاسی پارٹی نے بھی اس مسئلے پر دلچسپی نہیں دی، نہ اسے ایشو بنایا حالانکہ ملک میں اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ صرف سیاسی جماعتیں بلکہ میڈیا اور پالیسی ساز ادارے بھی اس مسئلے کو نظر انداز کرتے رہے۔

لیکن جب پاکستان مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئی تو پنجاب میں محکمہ صحت کی کارکردگی میں زبردست اضافہ ہوا جبکہ 2016ء میں خیبر پختونخوا حکومت نے خیبر پختونخوا میں انٹگریٖٹیڈ نیوٹریشن اسٹریٹجی، کے پی پروٹیکشن آف بریسٹ فیڈنگ اور چائلڈ نیوٹریشن ایکٹ 2015 پر عملدرآمد کرنے کی درخواست کی، انہو ں نے بجٹ میں نیوٹریشن پروگرام اور پروجیکٹس کے لئے ناکافی وسائل کو پورا کرنے پر بھی زور ڈالا۔

لیکن مسئلے کی سنگینی کے مطابق اقدامات نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہو سکے اور پاکستان اپنی میلینئم ڈویلپمنٹ گولز کو پورا نہ کرسکا۔ پاکستان کو غذائی قلت کے بحران کو قابو کرنے کے لیے اپنی تمام ترتوجہ اس پر مرکوز کرنا ہوگا۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ سماجی و معاشی صورت حال کی بہتری،غربت کے خاتمے اور غذائی ضروریات کی باسہولت دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے فعال طریقے سے کام کرے۔ اگر اس مسئلے کو ترجیح دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم غذائی قلت پر قابو نہ پا سکیں۔

غذائی قلت صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے برصغیر میں غذائی قلت ایک بحران کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ لورنس ہاڈڈ، ڈویلپمنٹ ہوریزنزکی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ، جو گوبل الائنس فار امپورٹ نیوٹریشن(جی اے آئی این) کے ساتھ مل کر بھی کام کررہی ہے، بھارت میں سیاسی جماعتوں نے طویل یا مختصر عرصے کے لئے غذائی قلت کے مسئلے کو اپنے منشور میں شامل نہیں کیا۔ تاہم سرسری ذکر کیوں کیا۔

جیسے 2014ء کے الیکشن کے دوران کانگریس نے اپنی مہم کے دوران دو بارغذائی قلت کے مسئلے کاذکر کیا، بی جے پی نے 12 مرتبہ جبکہ اے اے پی نے کبھی اس مسئلے کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کی ایک تحقیق کے مطابق غذائی قلت پر قابوپانے کے لیے کئی ممالک نے اقدامات کئے، جن میں ارجنٹینا جیسے ممالک شامل ہیں، حال ہی میں ارجنٹینا کے زیرو ہنگر پروگرام کے تحت ملک میں غربت کے خاتمے خصوصاً نیوٹریشن، صحت و صفائی اور ہاؤسنگ سوشل پرواگرمنگ پر بھرپور کام کیا گیا۔ 2015جون میں آسٹریلیا کے ماحولیاتی وزیر گریگ ہنٹ نے ملک کی 10بلین ڈالر فوڈ ویسٹ بل میں نصف کمی کرنے کے لئے 2052ء زیرو ویسٹ پلان کا اعلان کیا۔

آسٹریلیا میں یہ فاقہ کشی اور غربت کے خاتمے کے لیے پروگرام چلائے جا رہے ہیں۔ بنگلہ دیشی حکمرانوں نے بھی 2014ء میں برازیل کا دورہ کرنے کے بعد ملک میں اسکولوں میں گرم کھانے پہنچانے کے لیے ڈبلیو ایف پی کے ساتھ ایک پارٹنر شپ کرتے ہوئے ایک پائلٹ پروجیکٹ کا آغاز کیا۔ اس پروگرام کا بہت اچھا ریسپانس ملا۔ مقامی کمیونٹی نے گہری دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے مقامی کسان خواتین سے کھانا بھی خریدا جبکہ انڈونیشیا کی مرکزی حکومت نے 2016 ء میں ملکی بجٹ میں سے 5 فیصد حصہ شعبہ صحت کے لئے مختص کرنے کا وعدہ کیا۔

اگرچہ غذائی قلت ایک عالمی بحران ہے، تاہم پاکستان میں اس پر مستقبل بنیادوں پر قابو پانے کے لئے حکومت کو قلیل اور طویل المدتی اہداف مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ملک بھر کے دیہی اور شہری علاقوں میں فوری طور پر غربت کے خاتمے کے لیے بلاامتیاز پروگرام چلائیں جائیں۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے، جہاں غذائی قلت کو ملکی ایجنڈے میں شامل کرنا ایک بڑا مسئلہ دکھائی دیتا ہے، لیکن ڈونر ایجنسیوں کی طرح دیگر اداروں کی مدد سے ہم ٹھوس اور عملی نیوٹریشن پروگرامز کے لئے تحریک پیدا کرنے کی امید کرسکتے ہیں۔ یہ اقدام سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کو اپنے اختلافات ختم کرنے اور ایک ٹیم کی طرح کام کرنے کے لیے بھی مجبور کرسکتا ہے تاکہ ہم غذائی قلت کو شکست دے سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔