تنزلی کے باوجود 1600 پولیس اہلکاروں کا چارج چھوڑنے سے انکار
پولیس ہیڈ آفس میں تعینات آفس سپرٹنڈنٹ بھی تاحال اپنی سیٹ پر براجمان
غیر قانونی طور پر ترقیاں حاصل کرنیوالے1600سے زائد پولیس اہلکاروں کی تنزلی کا حکم نامہ جاری ہونے کے باوجود عہدوں سے چارج چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
پولیس اہلکاروں سے مبینہ طور پر رشوت لیکر انھیں افسران بنانے والے پولیس ہیڈ آفس میں تعینات آفس سپرٹنڈنٹ نہ صرف تاحال اپنی سیٹ پر براجمان ہیں بلکہ ایک اپنے من پسند اہلکاروں کی تعیناتی بھی کرا نے کی کوشش کر رہے ہیں، جمعہ کو ہونے والی تحقیقاتی کمیٹی کے اجلاس میں مبینہ طور پر رشوت لینے والے آفس سپرٹنڈنٹ اور دیگر افسران کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کرنے کیلیے آئی جی سندھ کو سفارش کر دی، تنزلی پانے والے متعدد پولیس افسران شہر کے تھانوں میں بطور ایس ایچ اوز تعینات ہیں۔
ذرائع کے مطابق سابق ایڈیشنل آئی جی کراچی اختر حسین گورچانی اور غلام شبیر شیخ کے دور میں غیر قانونی طور پر ترقیاں پانیوالے1600سے زائد اہلکاروں کو آئی جی سندھ کی جانب سے ایڈیشنل آئی جی ٹریفک ذاکر خان کی سربراہی میں ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر سندھ ثنااﷲ عباسی، ڈی آئی جی اسٹیبلشمنٹ ڈاکٹر امین یوسف زئی، ایڈیشنل آئی جی اسٹیبلشمنٹ فرخ بشیر اور ایڈیشنل آئی جی لیگل علی شیر جاکھرانی پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی نے تقریباً ایک ماہ قبل تحقیقات کے بعد ترقی حاصل کرنے والے تمام اہلکاروں کی تنزلی کے احکامات جاری کرتے ہوئے انھیں ان کے عہدوں پر واپس بھیجنے کی آئی جی سندھ سے سفارش کی تھی جنھیں آئی جی سندھ نے مبینہ نوٹیفکیشن کے ذریعے ان کے اصل عہدوں پر بھیج دیا تھا تاہم وہ اہلکار تاحال اپنے عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ15سے زاہد اہلکار تاحال شہر کے بیشتر تھانوں میں بطور ایس ایچ اوز تعینات ہیں، ذرائع نے بتایا کہ غیر قانونی طور پر ترقیاں پانے والے سب انسپکٹر معید ایس ایچ او پیر آباد، سب انسپکٹر تنویر مراد ایس ایچ او اورنگی ٹاؤن، سب انسپکٹر امان اﷲ مروت ایس ایچ او سکھن، سب انسپکٹر انظر عالم ایس ایچ او سپر مارکیٹ،سب انسپکٹر عابد تنولی ایس ایچ او بغدادی، سب انسپکٹر ناصر محمود ایس ایچ او اتحاد ٹاؤن، سب انسپکٹر بشیر حسین وٹو ایس ایچ او پاکستان بازار، سب انسپکٹر شبیر حسین ایس ایچ او قائد آباد سمیت دیگر نے اپنے تنزلی کے خلاف عدالت سے حکم امتناع لے لیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اہلکاروں سے مبینہ طور پر ڈیڑھ لاکھ روپے سے5لاکھ روپے تک مبینہ رشوت لیکر ترقیاں دینے والے پولیس ہیڈ آفس میں تعینات آفس سپرٹنڈنٹ قائم سومرو نہ صرف اپنی سیٹ پر تاحال برجمان ہیں بلکہ آئی جی آفس میں تعینات ایک کلرک سلیم تنولی کو اپنا اسسٹنٹ بنانے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں، ذرائع نے بتایا کہ سلیم تنولی کو جس سیٹ پر بٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ سب انسپکٹرز کو ڈیل کرتا ہے اس سے قبل اس سیٹ پر مراد نامی شخص تعینات تھا جس نے وہاں رشوت کا بازار گرم دیکھ کر اپنا تبادلہ پشاور پولیس ہیڈ آفس کرا لیا، ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ تحقیقاتی کمیٹی کا جمعہ کو ایک اجلاس ہوا تھا جس میں کمیٹی کے چیئر مین نے کمیٹی کے دیگر ممبران کو کہا تھا کہ مبینہ رشوت لینے والے افسران کیخلاف بھی محکمہ جاتی کارروائی ہونی چاہیے جس پر کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کرنے کے بعد راشی افسران کیخلاف کارروائی کرنے کی آئی جی سندھ کو سفارش کی ہے۔
پولیس اہلکاروں سے مبینہ طور پر رشوت لیکر انھیں افسران بنانے والے پولیس ہیڈ آفس میں تعینات آفس سپرٹنڈنٹ نہ صرف تاحال اپنی سیٹ پر براجمان ہیں بلکہ ایک اپنے من پسند اہلکاروں کی تعیناتی بھی کرا نے کی کوشش کر رہے ہیں، جمعہ کو ہونے والی تحقیقاتی کمیٹی کے اجلاس میں مبینہ طور پر رشوت لینے والے آفس سپرٹنڈنٹ اور دیگر افسران کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کرنے کیلیے آئی جی سندھ کو سفارش کر دی، تنزلی پانے والے متعدد پولیس افسران شہر کے تھانوں میں بطور ایس ایچ اوز تعینات ہیں۔
ذرائع کے مطابق سابق ایڈیشنل آئی جی کراچی اختر حسین گورچانی اور غلام شبیر شیخ کے دور میں غیر قانونی طور پر ترقیاں پانیوالے1600سے زائد اہلکاروں کو آئی جی سندھ کی جانب سے ایڈیشنل آئی جی ٹریفک ذاکر خان کی سربراہی میں ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر سندھ ثنااﷲ عباسی، ڈی آئی جی اسٹیبلشمنٹ ڈاکٹر امین یوسف زئی، ایڈیشنل آئی جی اسٹیبلشمنٹ فرخ بشیر اور ایڈیشنل آئی جی لیگل علی شیر جاکھرانی پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی نے تقریباً ایک ماہ قبل تحقیقات کے بعد ترقی حاصل کرنے والے تمام اہلکاروں کی تنزلی کے احکامات جاری کرتے ہوئے انھیں ان کے عہدوں پر واپس بھیجنے کی آئی جی سندھ سے سفارش کی تھی جنھیں آئی جی سندھ نے مبینہ نوٹیفکیشن کے ذریعے ان کے اصل عہدوں پر بھیج دیا تھا تاہم وہ اہلکار تاحال اپنے عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ15سے زاہد اہلکار تاحال شہر کے بیشتر تھانوں میں بطور ایس ایچ اوز تعینات ہیں، ذرائع نے بتایا کہ غیر قانونی طور پر ترقیاں پانے والے سب انسپکٹر معید ایس ایچ او پیر آباد، سب انسپکٹر تنویر مراد ایس ایچ او اورنگی ٹاؤن، سب انسپکٹر امان اﷲ مروت ایس ایچ او سکھن، سب انسپکٹر انظر عالم ایس ایچ او سپر مارکیٹ،سب انسپکٹر عابد تنولی ایس ایچ او بغدادی، سب انسپکٹر ناصر محمود ایس ایچ او اتحاد ٹاؤن، سب انسپکٹر بشیر حسین وٹو ایس ایچ او پاکستان بازار، سب انسپکٹر شبیر حسین ایس ایچ او قائد آباد سمیت دیگر نے اپنے تنزلی کے خلاف عدالت سے حکم امتناع لے لیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اہلکاروں سے مبینہ طور پر ڈیڑھ لاکھ روپے سے5لاکھ روپے تک مبینہ رشوت لیکر ترقیاں دینے والے پولیس ہیڈ آفس میں تعینات آفس سپرٹنڈنٹ قائم سومرو نہ صرف اپنی سیٹ پر تاحال برجمان ہیں بلکہ آئی جی آفس میں تعینات ایک کلرک سلیم تنولی کو اپنا اسسٹنٹ بنانے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں، ذرائع نے بتایا کہ سلیم تنولی کو جس سیٹ پر بٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ سب انسپکٹرز کو ڈیل کرتا ہے اس سے قبل اس سیٹ پر مراد نامی شخص تعینات تھا جس نے وہاں رشوت کا بازار گرم دیکھ کر اپنا تبادلہ پشاور پولیس ہیڈ آفس کرا لیا، ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ تحقیقاتی کمیٹی کا جمعہ کو ایک اجلاس ہوا تھا جس میں کمیٹی کے چیئر مین نے کمیٹی کے دیگر ممبران کو کہا تھا کہ مبینہ رشوت لینے والے افسران کیخلاف بھی محکمہ جاتی کارروائی ہونی چاہیے جس پر کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کرنے کے بعد راشی افسران کیخلاف کارروائی کرنے کی آئی جی سندھ کو سفارش کی ہے۔