کشمیریو ں کو بھی ملنے دو

پاک بھارت حکومتیں مذہبی بنیادوں پر مختلف بارڈرز کھول سکتی ہیں تو انسانی بنیادوں پر کشمیریوں کیلئے بھی ایسا ممکن ہے


September 15, 2018
دونوں حکومتوں کو طرفین کے کشمیریوں کو بھی آپس میں ملنے اور رابطہ پیدا کرنے کے مختلف زیر تجویز طریقوں پر سوچنا چاہیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لاہور: پاکستان کی نئی حکومت کی جانب سے ہندوستان سے تعلقات کا اچھا آغاز کرنے کیلئے کرتار پور بارڈر کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ بی بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں پاکستان کے وزیر اطلاعات کا کہنا تھا، ''پاکستان انڈیا سے آنے والے سکھ یاتریوں کیلئے کرتار پور بارڈر کھول دے گا جس کے بعد یاتری ویزے کے بغیر گوردوارہ دربار صاحب کے درشن کر سکیں گے۔'' اس اعلان پر عملی اقدامات پاکستان بھارت تعلقات کا ایک نیا باب ہوگا۔ 1965 کے بعد پہلا موقع ہوگا کہ ہندوستان سے سکھ یاتری بغیر ویزا پاکستان کا سفر کرسکیں گے۔ مذہبی بنیادوں پر پاکستان اور بھارت کے عوام دونوں ممالک کا سفر کرتے ہیں تاہم پاکستان اور ہندوستان کے درمیان متنازع ریاست جموں و کشمیر میں مذہبی بنیادوں پر عبادت گاہیں ابھی تک نہیں کھولی جاسکیں اور نہ ہی کشمیریوں (سوائے منقسم خاندانوں کے) کو ادھر ادھر سفر کی اجازت ہے۔

2003 میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے واجپائی حکومت سے مل کر کشمیریوں کو ملانے اور بااختیار بنانے کیلئے چار نکاتی فارمولا پیش کیا تھا۔ جب مشرف نے کشمیر کے حوالے سے اپنا فارمولا پیش کیا تو اس کا پہلا نکتہ ہی دونوں اطراف کے کشمیری عوام کو آپس میں ملانا تھا، جس میں واضح کہا گیا تھا: ''بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سرحدوں (سیزفائر لائن) کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے اور دونوں جانب سے لوگوں کو آزادانہ آنے جانے کی اجازت دی جائے۔'' (یعنی یہ لائن آف کنٹرول پاکستان اور بھارت کیلئے ہوگی۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے عوام کے مابین کوئی لائن آف کنٹرول نہیں ہوگی۔ دونوں طرف کے کشمیریوں کو ایک کارڈ جاری کیا جائے گا جس پر ان کی سکونت ریاست جموں و کشمیر ظاہر کی جائے اور وہ اس کارڈ پر ریاست میں ہر جگہ آ جا سکیں گے۔)

اس فارمولے پر عملدرآمد تو نہ ہو سکا تاہم اس کے پہلے نکتے پر جزوی عمل ضرور ہوا جس کے نتیجے میں مظفرآباد تا سری نگر اور راولاکوٹ تا پونچھ بس سروس کا آغاز ہوا جو کئی مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود اب بھی جاری ہے۔ اس سروس کے ذریعے دونوں اطراف بسنے والے کئی منقسم خاندان دہائیوں بعد ایک دوسرے سے مل سکے۔ اس کے علاوہ ایل او سی ٹریڈ کا آغاز بھی ہوا اور وہ بھی کئی رکاوٹوں کے باوجود جاری رہا۔ بس سروس کے ذریعے صرف منقسم خاندانوں کو ملنے کی اجازت ہے، عام کشمیریوں کو ایک دوسرے سے ملنے کا تاحال کوئی اقدام نہ کیا جاسکا۔

ان حالات میں سوشل میڈیا سے اطراف کے کشمیریوں کے رابطے ہوئے لیکن بہ نفس نفیس ملنے کا کوئی نظام نہیں بن سکا۔

موجودہ حکومت نے مذہبی بنیادوں پر کرتار پور بارڈر کھولنے کا عندیہ دیا ہے تو وہیں دونوں حکومتوں کو چاہیے کہ وہ انسانی بنیادوں پر دونوں اطراف کے کشمیریوں کو بھی ملنے دیں۔ اس کیلئے بارڈر (سیزفائر لائن) کو سافٹ کریں یا کچھ اور اقدامات کریں۔ تاہم دونوں حکومتوں کی جانب سے ایسے اقدامات ہونے چاہئیں کہ منقسم ریاست کے دونوں اطراف کے عوام آپس میں بہ نفس نفیس مل سکیں۔ اس کیلئے اگر حکومتیں چاہیں تو لائن آف کنٹرول پر موجود زمینی راستوں یا مناسب پوائنٹس پر مشترکہ پارکس قائم کریں جہاں دونوں اطراف کے کشمیریوں کو آنے جانے کی اجازت ہو، جس سے دونوں اطراف کے کشمیری آپس میں مل سکیں۔ اس کیلئے دونوں اطراف کی مقامی حکومتیں کوئی مکینزم بناسکتی ہیں۔

اس سے قبل بھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی سابق وزیراعلی محبوبہ مفتی ہندوستان کی مرکزی حکومت سے سکردو کرگل شاہراہ کھولنے کا مطالبہ بھی کرچکی ہیں اور ریاست کو آپس میں ملانے والے دوسرے راستوں کو کھولنے کی بات بھی کرتی رہی ہیں۔ مقامی حکومت کے اس مطالبے کو ہندوستان حکومت نے شاید سنجیدہ نہیں لیا یا اس وقت پاک بھارت تعلقات اس نہج پر نہیں تھے کہ دونوں حکومتیں اس مطالبے پر سوچ بچار کر سکتیں۔ تاہم اس وقت پاکستان کی جانب سے کیے گئے اعلان سے پاکستان اور بھارت میں اعتماد کی فضا قائم ہوگی اور تعلقات کے نئے باب کا آغاز ہوگا۔ اس اعتماد کو زیادہ مؤثر کرتے ہوئے دونوں حکومتوں کو طرفین کے کشمیریوں کو بھی آپس میں ملنے اور رابطہ پیدا کرنے کے مختلف زیر تجویز طریقوں پر سوچنا چاہیے اور متنازع علاقے کی حکومتوں کو بھی مرکزی حکومتوں سے عوامی رابطوں کیلئے مطالبہ کرنا چاہیے۔

منقسم ریاست کے عوام کو ملانے کیلئے کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً اگر مشرف فارمولے ہی کو بنیاد بنا کر کام کیا جائے تو متنازع خطے کے کئی زمینی راستوں کو کھولا جا سکتا ہے۔ آزاد کشمیر اور بلتستان میں موجود مذہبی عبادت گاہوں کو طرفین کیلئے کھولا جاسکتا ہے۔ (واضح رہے کہ مظفر آباد، راولاکوٹ اور میرپور میں سکھ گوردوارے ہیں جہاں سکھ یاتری آنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح کوٹلی اور شاردہ میں ہندوؤں اور بودھ مذہب کے کئی معبد موجود ہیں جہاں کشمیری پنڈت اور بودھ عبادت کیلئے آنا چاہتے ہیں۔ مزید یہ کہ آزاد کشمیر کے عوام درگاہ حضرت بل اور شاہ ہمدان کے مزار پر جانا چاہتے ہیں جبکہ سکرود میں بودھ مذہب کی عبات گاہیں موجود ہیں۔)

کم از کم اقدام کے طور پر کچھ پوائنٹس پر ''مشترکہ پارکس'' بنائے جائے سکتے ہیں۔ اگر عوام کو مظفرآباد سے سری نگر اور لداخ سے استور آنے جانے کی اجازت نہیں ملتی تو کم از کم کچھ مشترکہ پارکس کا قیام عمل میں آنا چاہیے۔ جیسے آزاد کشمیر میں دو جگہ سے بس سروس گزرتی ہے وہاں مشترکہ پارکس کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حاجی پیر اور کیرن میں بھی مشترکہ پارکس بنانے کیلئے مناسب جگہیں ہیں۔ اسی طرح گلگت بلتستان اور لداخ و کرگل کے عوام کو ملانے کیلئے ''فرانو گاؤں'' (بلتستان) سے ٹیاقشی دوتھنگ گاؤں (لیہ)، الڈینگ گاؤں (بلتستان) اور کرگت ہندرمو گاؤں (کرگل)، گلتری (سکردو) سے دراس (کرگل) کے درمیان اور منی مرگ دومیل (استور) سے سری نگر کو ملنے والی سرحدوں (لائن آف کنٹرول) پر پارکس بنائے جاسکتے ہیں جن میں دونوں اطراف کے عوام مختصر وقت کیلئے آپس میں مل سکیں۔ اس پارک کے دونوں اطراف کی سیکیورٹی فورسز کا مکینزم موجود ہو یا مقامی حکومتیں اس کا مکینزم بنا سکیں۔

پاک بھارت حکومتیں اگر مذہبی بنیادوں پر مختلف بارڈرز کھول سکتی ہیں تو انسانی بنیادوں پر منقسم ریاست کے عوام کیلئے بھی اقدامات کرنے چاہئیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک بڑی پیش رفت ہوگی۔ اس سے طرفین کے کشمیری، کم وقت کیلئے ہی سہی لیکن، اپنے پیاروں سے مل سکیں گے اور اطراف کے عوام کو ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں