صدر کا نام لئے بغیر سوئس حکام کو خط لکھنے کی پیشکش
ملک قیوم کا خط واپس لینے کیلیے یہ لکھے کہ 6 کروڑ ڈالربر آمد ہوتے ہیں تو رقم پر حکومت کا دعوٰی بر قرار ہے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) کیخلاف عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کیس میں عدالتی احکام پر نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ پر اٹارنی جنرل کے اعتراض،لارجر بینچ کی تشکیل اور سماعت عید کے بعد تک ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کر دی جبکہ اٹارنی جنرل کو ان درخواستوں کے حوالے سے حکومت سے مشورہ لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ ان درخواستوں میں اٹھائے جانے والے نکات پر فیصلہ آجانے کے بعد عمل درآمد کیس میں وزیر اعظم کے لیے تمام قانونی دروازے بند ہو جائیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت یہ کہے کہ صدر کا نام لیے بغیر سوئس حکام کو خط لکھ دیا جائے تو وہ اس معاملے پر بات کرسکتے ہیں۔ بدھ کو جب5 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل نے بینچ پر اعتراض کیا اور کہا کہ جس بینچ نے اس سے پہلے اس کیس کو سنا تھا اسے سننا چا ہیے، اس لیے عدالت جلد بازی نہ کرے اور سماعت ملتوی کرکے پانچویں جج کا انتظار کیا جائے۔
عدالت نے اعتراض مسترد کردیا اور جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فیصلہ کرنے والے 4 جج بینچ میں شامل ہیں اور جس جج نے فیصلہ لکھا وہ بھی موجود ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس مقدمے کو توہین عدالت قانون کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف اپیل سے منسلک کیا جا ئے تاہم عدالت نے اس نکتے سے بھی اتفاق نہیں کیا۔ عرفان قادر نے کہا وزیر اعظم کو خط لکھنے کا حکم غیر آئینی ہے، وزیر اعظم اپنے فرائض کی انجام دہی میں عدالت کو جواب دہ نہیں۔
انھوں نے کہا عدالت نے کیسے فرض کر لیا کہ وزیر اعظم عدالتی حکم پر خط لکھ لیں گے جس پر جسٹس سرمد جلال نے کہا کیا وزیر اعظم نے خط نہ لکھنے کی رائے قا ئم کر لی ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ابھی یہ مرحلہ نہیں آیا ہے۔ فاضل جج نے کہا کہ اگر وزیر اعظم کسی کو قتل کریں پھر بھی وہ عدالت کو جواب دہ نہیں ہو ں گے، اٹارنی جنرل کا جواب تھا کہ ذاتی فعل پر وہ جواب دہ ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا نہ تو وزیر اعظم کو فریق بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی وہ عدالت کے حکم پر عمل نہ کرنے پر جواب دہ ہو سکتے ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اس کا تو مطلب ہوا کہ وزیر اعظم آئینی طور پر عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے پابند نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ایک مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم قانون سے با لاتر ہے۔ عرفان قادر نے کہا کہ عدالت کے کس فیصلے پر عمل کرنا ہے اور کس پر نہیں اس کا تعین خود وزیراعظم نے کر نا ہے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیے کہ آئین کی یہ توجیح وہ پہلی بار سن رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل کے دلائل بہت دلچسپ ہیں اس پر الگ سے ایک فیصلہ دینا پڑے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ عدالت آئین کی تشریح کرے گی، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ تشریح آئین کے مطا بق ہونی چا ہیے۔ اگر آئین کے مطا بق نہیں تو قابل عمل بھی نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا فرض کریں، عدالت تشریح کر لیتی ہے تو پھر کون اس کا تعین کرے گا کہ تشریح آئین کے مطا بق ہے یا نہیں۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ فرض کرلیں تشریح صحیح ہے اور وزیر اعظم جواب دہ بھی نہیں تو پھر اس صورتحال کا کیا حل ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر تشریح صحیح ہے تو وزیر اعظم پابند ہے اور اس صورت میں توہین عدالت کا اطلاق بھی ہو گا لیکن زیر نظر کیس میں آرٹیکل 248 مانع ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم کو توہین عدالت کیس میں پیش نہیں ہو نا چا ہیے تھا لیکن سابق وزیر اعظم تین بار پیش ہوئے کیونکہ وہ عدالت کا احترام کرتے تھے لیکن اس کے با وجود انھیں سزا دی گئی۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اپیل کی جاتی جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم کی معاونت صحیح نہیں ہوئی۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ یہ بات اپنے کلائنٹ کو بتا دیں کہ 3 سال تک انھیں اچھا وکیل نہیں ملا تو اس میں عدالت کا کوئی قصور نہیں۔
3 دفعہ انھیں بلانا قانونی تقاضا تھا۔ عدالت نے انھیں پیشی سے استثنٰی دے کر ان پر مہربانی کی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو عدالت کہے وہ حرف آخر نہیں۔ عدالت این آر او کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے اس فیصلے کی موجو دگی میں تنازع برقرار رہے گا۔ جسٹس کھوسہ نے کہا عدالت کے حتمی فیصلے کو تبدیل کرنے کا حل تو قانون میں نہیں ہے اگر اس کا حل اٹارنی جنرل کے پاس ہے تو بتادیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا آئین سپریم ہے اس لیے فیصلے آئین کے مطا بق ہو نے چا ہئیں۔ موجودہ وزیر اعظم کے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو نا چا ہیے جو ان کے پیش رو کے ساتھ ہوا ، 12 جولائی کا حکم غیر آئینی ہے اور اس پر عمل ممکن نہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جب عدالت خود خط نہیں لکھ سکتی تو وزیر اعظم کو کیسے کہا جا سکتا ہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اگر عدالت کے احکام پر عمل نہ کرنے کی روایت شروع ہوئی تو پھر شفعہ کے مقدمے میں بھی عمل نہیں ہو گا۔ فاضل جج کا کہنا تھا کہ عدالت نے یہ نہیں کہا تھا کہ وزیر اعظم خود تکلیف کریں بلکہ اس کام کا اختیار کسی کو بھی دیا جا سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملک قیوم نے جو کیا وہ قانون کے مطا بق تھا۔
انھوں نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر سوئس حکام کو خط لکھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا یہ معاملہ عدالت کے سامنے نہیں۔ عرفان قادر کی دلیل تھی کہ استثنٰی آئین دیتا ہے اسے مانگنے کی ضرورت نہیں ۔جسٹس سرمد جلال نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا وہ استثنٰی پر فیصلہ چا ہتے ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے ہاں میں جواب دیا تاہم جسٹس کھوسہ نے انھیں مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا کہ وہ اس پر حکومت سے ہدایات حاصل کریں کیونکہ جو نکات ان نظر ثانی درخواستوں میں اٹھا ئے گئے ہیں اس پر فیصلہ آنے کے بعد سارے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اٹارنی جنرل نے فاضل جج سے اتفاق کرتے ہوئے کیس ملتوی کرنے کی درخواست کی۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر صدر کا نام نہ لیا جائے تو وہ خط لکھنے کے معاملے پر بات کرسکتے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت واضح کر چکی ہے کہ صدر کے حوا لے سے خط لکھنے کا کوئی حکم نہیں۔ عدالت کا فیصلہ یہ ہے کہ ملک قیوم نے جو خط لکھا تھا وہ غلط تھا اس لیے حکومت اس خط کو واپس لینے کے لیے خط لکھ دے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا یہ بات قومی مفاد میں ہوگی کہ حکومت یہ لکھے کہ باہمی تعاون کا جو مقدمہ چل رہا تھا اس کے نتیجے میں 6 کروڑ ڈالر سے زائد کی رقم اگر بر آمد ہو جاتی ہے تو اس رقم پر حکومت پاکستان کا دعوٰی بر قرار ہے۔ سماعت آج پھر ہوگی۔
عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ ان درخواستوں میں اٹھائے جانے والے نکات پر فیصلہ آجانے کے بعد عمل درآمد کیس میں وزیر اعظم کے لیے تمام قانونی دروازے بند ہو جائیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت یہ کہے کہ صدر کا نام لیے بغیر سوئس حکام کو خط لکھ دیا جائے تو وہ اس معاملے پر بات کرسکتے ہیں۔ بدھ کو جب5 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل نے بینچ پر اعتراض کیا اور کہا کہ جس بینچ نے اس سے پہلے اس کیس کو سنا تھا اسے سننا چا ہیے، اس لیے عدالت جلد بازی نہ کرے اور سماعت ملتوی کرکے پانچویں جج کا انتظار کیا جائے۔
عدالت نے اعتراض مسترد کردیا اور جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فیصلہ کرنے والے 4 جج بینچ میں شامل ہیں اور جس جج نے فیصلہ لکھا وہ بھی موجود ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس مقدمے کو توہین عدالت قانون کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف اپیل سے منسلک کیا جا ئے تاہم عدالت نے اس نکتے سے بھی اتفاق نہیں کیا۔ عرفان قادر نے کہا وزیر اعظم کو خط لکھنے کا حکم غیر آئینی ہے، وزیر اعظم اپنے فرائض کی انجام دہی میں عدالت کو جواب دہ نہیں۔
انھوں نے کہا عدالت نے کیسے فرض کر لیا کہ وزیر اعظم عدالتی حکم پر خط لکھ لیں گے جس پر جسٹس سرمد جلال نے کہا کیا وزیر اعظم نے خط نہ لکھنے کی رائے قا ئم کر لی ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ابھی یہ مرحلہ نہیں آیا ہے۔ فاضل جج نے کہا کہ اگر وزیر اعظم کسی کو قتل کریں پھر بھی وہ عدالت کو جواب دہ نہیں ہو ں گے، اٹارنی جنرل کا جواب تھا کہ ذاتی فعل پر وہ جواب دہ ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا نہ تو وزیر اعظم کو فریق بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی وہ عدالت کے حکم پر عمل نہ کرنے پر جواب دہ ہو سکتے ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اس کا تو مطلب ہوا کہ وزیر اعظم آئینی طور پر عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے پابند نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ایک مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم قانون سے با لاتر ہے۔ عرفان قادر نے کہا کہ عدالت کے کس فیصلے پر عمل کرنا ہے اور کس پر نہیں اس کا تعین خود وزیراعظم نے کر نا ہے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیے کہ آئین کی یہ توجیح وہ پہلی بار سن رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل کے دلائل بہت دلچسپ ہیں اس پر الگ سے ایک فیصلہ دینا پڑے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ عدالت آئین کی تشریح کرے گی، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ تشریح آئین کے مطا بق ہونی چا ہیے۔ اگر آئین کے مطا بق نہیں تو قابل عمل بھی نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا فرض کریں، عدالت تشریح کر لیتی ہے تو پھر کون اس کا تعین کرے گا کہ تشریح آئین کے مطا بق ہے یا نہیں۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ فرض کرلیں تشریح صحیح ہے اور وزیر اعظم جواب دہ بھی نہیں تو پھر اس صورتحال کا کیا حل ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر تشریح صحیح ہے تو وزیر اعظم پابند ہے اور اس صورت میں توہین عدالت کا اطلاق بھی ہو گا لیکن زیر نظر کیس میں آرٹیکل 248 مانع ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم کو توہین عدالت کیس میں پیش نہیں ہو نا چا ہیے تھا لیکن سابق وزیر اعظم تین بار پیش ہوئے کیونکہ وہ عدالت کا احترام کرتے تھے لیکن اس کے با وجود انھیں سزا دی گئی۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اپیل کی جاتی جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم کی معاونت صحیح نہیں ہوئی۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ یہ بات اپنے کلائنٹ کو بتا دیں کہ 3 سال تک انھیں اچھا وکیل نہیں ملا تو اس میں عدالت کا کوئی قصور نہیں۔
3 دفعہ انھیں بلانا قانونی تقاضا تھا۔ عدالت نے انھیں پیشی سے استثنٰی دے کر ان پر مہربانی کی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو عدالت کہے وہ حرف آخر نہیں۔ عدالت این آر او کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے اس فیصلے کی موجو دگی میں تنازع برقرار رہے گا۔ جسٹس کھوسہ نے کہا عدالت کے حتمی فیصلے کو تبدیل کرنے کا حل تو قانون میں نہیں ہے اگر اس کا حل اٹارنی جنرل کے پاس ہے تو بتادیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا آئین سپریم ہے اس لیے فیصلے آئین کے مطا بق ہو نے چا ہئیں۔ موجودہ وزیر اعظم کے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو نا چا ہیے جو ان کے پیش رو کے ساتھ ہوا ، 12 جولائی کا حکم غیر آئینی ہے اور اس پر عمل ممکن نہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جب عدالت خود خط نہیں لکھ سکتی تو وزیر اعظم کو کیسے کہا جا سکتا ہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اگر عدالت کے احکام پر عمل نہ کرنے کی روایت شروع ہوئی تو پھر شفعہ کے مقدمے میں بھی عمل نہیں ہو گا۔ فاضل جج کا کہنا تھا کہ عدالت نے یہ نہیں کہا تھا کہ وزیر اعظم خود تکلیف کریں بلکہ اس کام کا اختیار کسی کو بھی دیا جا سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملک قیوم نے جو کیا وہ قانون کے مطا بق تھا۔
انھوں نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر سوئس حکام کو خط لکھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا یہ معاملہ عدالت کے سامنے نہیں۔ عرفان قادر کی دلیل تھی کہ استثنٰی آئین دیتا ہے اسے مانگنے کی ضرورت نہیں ۔جسٹس سرمد جلال نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا وہ استثنٰی پر فیصلہ چا ہتے ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے ہاں میں جواب دیا تاہم جسٹس کھوسہ نے انھیں مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا کہ وہ اس پر حکومت سے ہدایات حاصل کریں کیونکہ جو نکات ان نظر ثانی درخواستوں میں اٹھا ئے گئے ہیں اس پر فیصلہ آنے کے بعد سارے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اٹارنی جنرل نے فاضل جج سے اتفاق کرتے ہوئے کیس ملتوی کرنے کی درخواست کی۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر صدر کا نام نہ لیا جائے تو وہ خط لکھنے کے معاملے پر بات کرسکتے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت واضح کر چکی ہے کہ صدر کے حوا لے سے خط لکھنے کا کوئی حکم نہیں۔ عدالت کا فیصلہ یہ ہے کہ ملک قیوم نے جو خط لکھا تھا وہ غلط تھا اس لیے حکومت اس خط کو واپس لینے کے لیے خط لکھ دے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا یہ بات قومی مفاد میں ہوگی کہ حکومت یہ لکھے کہ باہمی تعاون کا جو مقدمہ چل رہا تھا اس کے نتیجے میں 6 کروڑ ڈالر سے زائد کی رقم اگر بر آمد ہو جاتی ہے تو اس رقم پر حکومت پاکستان کا دعوٰی بر قرار ہے۔ سماعت آج پھر ہوگی۔