یہ آبرو یہ جنگ یہ توقیر مرحبا
حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد آپؓ جسم اطہر کو دیکھا گیا۔ اس پر 33 نشان نیزوں کے اور 34 نشان دوسری ضربوں کے آئے۔
حضرت امام حسینؓ، حضرت علیؓ و سیدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزہراؓ کے فرزند اور پیغمبر اسلام رسول اللہ ﷺ ومحترمہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ کے نواسے اور شہید مظلوم حضرت امام حسنؓ کے بھائی تھے ۔ آپؓ 3 شعبان المعظم 4 ہجری کو مدینہ طیبہ میں پیدا ہوئے۔
مشکوٰۃ میں بحوالہ بیہقی ام فضلؓ بنت حارث سے منقول ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت بابرکت میں پیش ہوئیں اور عرض کیا '' یا رسول اللہ ﷺ ! میں نے آج شب ایک بہت برا خواب دیکھا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا وہ کیا؟ ام فضلؓ نے عرض کیا بہت ہی سخت خواب ہے، حضور ﷺ نے پھر دریافت فرمایا آخر کیا؟ ام فضلؓ نے عرض کیا ''میں نے دیکھا کہ ایک ٹکڑا آپ ﷺ کے جسم مبارک کا کاٹا گیا اور میری گود میں رکھ دیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ''خواب تم نے اچھا دیکھا، انشاء اللہ فاطمہ ؓ کا ایک بچہ پیدا ہوگا وہ تمہاری گود میں رہے گا۔''
چنانچہ (ام فضلؓ کہتی تھیں کہ) فاطمہؓ سے حسینؓ پیدا ہوئے اور انھوں نے میری گود میں پرورش پائی، جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا پھر میں ایک روز حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش ہوئی اور میں نے حسینؓ کو آپ ﷺ کی گود میں بٹھادیا ۔ اس کے بعد میں دوسری طرف دیکھنے لگی پھر جو دیکھا تو رسول اللہ کی چشم مبارک نم تھیں اور آنسو بہہ رہے ہیں، میں نے عرض کیا ''یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں آپ ﷺ کیوں اشک بار ہیں؟ فرمایا کہ جبرائیل امین علیہ السلام میرے پاس آئے اور انھوں نے مجھ سے کہاکہ اس بیٹے کو شہید کردیا جائے گا، میں نے پوچھا اس کو (حسینؓ) ؟ فرمایا ! ہاں، اور وہ میرے پاس اس کی تربت کی سرخ مٹی بھی لائے۔ (ازالۃ الخفاء ص596)
4 ہجری میں پیدا ہونے والے اس شہزادے نے 61 ہجری کو میدان کربلا میں اپنا تن من دھن قربان کرکے اسلام کو حیاتِ جاودانی بخش دی، آپؓ نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دی اور پھرکربلا کا سفر اختیار فرمایا، آغاز سفر پر محمد ابن حنفیہ کے نام لکھے گئے وصیت نامے میں تحریر فرمایا ''نہ میں سرکشی اور جنگ و جدال کا ارادہ رکھتا ہوں نہ ہی میرا مقصد فساد پھیلانا ہے نہ کسی پر ظلم، میں تو نانا کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں، میری غرض امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اپنے جد اور بابا کی سیرت کی پیروی ہے۔''
آپؓ نے 28 رجب 60 ہجری میں اپنے نانا کے شہر کو ہمیشہ کے لیے ترک کیا، 3 شعبان المعظم شب جمعہ 60 ہجری کو وارد حرم الٰہی ہوئے آپؓ نے چار ماہ اور پانچ دن خانہ خدا میں عبادت کے عالم میں گزارے ،کوفے کے مصلحت پسندوں نے امام حسینؓ کو متعدد خطوط لکھے کہ وہ کوفے تشریف لائیں آپؓ نے اپنے سفیر حضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا تاکہ وہ وہاں کے حالات سے خبردار کریں، جنھیں دو بچوں سمیت کوفے میں بے دردی سے شہید کردیا گیا۔
8 ذی الحج کو آپؓ مکے سے عازم کربلا ہوئے۔ آپ کے ہمراہ بوڑھے، جوان، عورتیں اور بچے تھے۔ آپؓ کو مدینہ طیبہ سے عبداللہ ابن عباس، محمد بن حنفیہ اور حرم رسول ﷺ حضرت اُم سلمہؓ نے روکا تھا ، جب کہ امام حسینؓ نے یہ کہہ کر رختِ سفر باندھا کہ اسلام کے لیے ہر قربانی دوںگا۔''
مکے سے نکلتے ہی آپؓ کے چچا زاد عبداللہ ابن جعفر طیار کا خط ملا جس میں عراق نہ جانے کا مشورہ تھا، جسے آپؓ نے قبول نہ فرمایا، امام عالی مقام حضرت حسینؓ کی راہ میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی، منزل حاجر سے آپؓ نے کوفے والوں کو خط تحریر فرمایا جس میں انھیں ان کا وعدہ یاد دلایا گیا۔
قصر بن مقاتل پر عبداللہ بن حرملے، آپؓ نے محرم الحرام کا چاند دیکھا اور یہیں پر لشکر حر سے ملاقات ہوئی اور حر سمیت لشکریوں نے امام عالی مقام حضرت حسینؓ کے پیچھے نماز ادا کی، آپؓ نے حکم دیا لشکر حرکو پانی پلایا جائے باقی ماندہ پانی ان کے گھوڑوں کو پلادیا گیا۔ حر نے امام حسینؓ سے کہا ہمیں حکم ہے کہ آپؓ کو زندہ گرفتار کرکے کوفے لے جائیں آپؓ نے اپنے جواب سے دنیا بھر کے انقلابی اذہان کو ایک خط فکر عطا فرمایا اور واضح کردیاکہ میرے لیے ممکن نہیں کہ کوفے میں خاموشی سے قتل کردیا جائوں۔''
امام عالی مقام حضرت حسینؓ یزیدی افواج سے انتہائی بہادری و جرأت کے ساتھ لڑے اور جام شہادت نوش فرما کر ایک روشن تاریخ رقم کی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔
حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد آپؓ جسم اطہر کو دیکھا گیا۔ اس پر 33 نشان نیزوں کے اور 34 نشان دوسری ضربوں کے آئے۔ حضرت امام حسینؓ کے ساتھ 72 جانثار شہید ہوئے، شہدائے کربلا کی قربانیوں نے دین اسلام کو زندہ جاوید کردیا۔
آئی ندائے غیب کہ شبیرؓ، مرحبا
اس ہاتھ کے لیے تھی یہ شمشیر، مرحبا
یہ آبرو، یہ جنگ، یہ توقیر، مرحبا
دکھلادی ماں کے دودھ کی تاثیر، مرحبا
مشکوٰۃ میں بحوالہ بیہقی ام فضلؓ بنت حارث سے منقول ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت بابرکت میں پیش ہوئیں اور عرض کیا '' یا رسول اللہ ﷺ ! میں نے آج شب ایک بہت برا خواب دیکھا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا وہ کیا؟ ام فضلؓ نے عرض کیا بہت ہی سخت خواب ہے، حضور ﷺ نے پھر دریافت فرمایا آخر کیا؟ ام فضلؓ نے عرض کیا ''میں نے دیکھا کہ ایک ٹکڑا آپ ﷺ کے جسم مبارک کا کاٹا گیا اور میری گود میں رکھ دیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ''خواب تم نے اچھا دیکھا، انشاء اللہ فاطمہ ؓ کا ایک بچہ پیدا ہوگا وہ تمہاری گود میں رہے گا۔''
چنانچہ (ام فضلؓ کہتی تھیں کہ) فاطمہؓ سے حسینؓ پیدا ہوئے اور انھوں نے میری گود میں پرورش پائی، جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا پھر میں ایک روز حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش ہوئی اور میں نے حسینؓ کو آپ ﷺ کی گود میں بٹھادیا ۔ اس کے بعد میں دوسری طرف دیکھنے لگی پھر جو دیکھا تو رسول اللہ کی چشم مبارک نم تھیں اور آنسو بہہ رہے ہیں، میں نے عرض کیا ''یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں آپ ﷺ کیوں اشک بار ہیں؟ فرمایا کہ جبرائیل امین علیہ السلام میرے پاس آئے اور انھوں نے مجھ سے کہاکہ اس بیٹے کو شہید کردیا جائے گا، میں نے پوچھا اس کو (حسینؓ) ؟ فرمایا ! ہاں، اور وہ میرے پاس اس کی تربت کی سرخ مٹی بھی لائے۔ (ازالۃ الخفاء ص596)
4 ہجری میں پیدا ہونے والے اس شہزادے نے 61 ہجری کو میدان کربلا میں اپنا تن من دھن قربان کرکے اسلام کو حیاتِ جاودانی بخش دی، آپؓ نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دی اور پھرکربلا کا سفر اختیار فرمایا، آغاز سفر پر محمد ابن حنفیہ کے نام لکھے گئے وصیت نامے میں تحریر فرمایا ''نہ میں سرکشی اور جنگ و جدال کا ارادہ رکھتا ہوں نہ ہی میرا مقصد فساد پھیلانا ہے نہ کسی پر ظلم، میں تو نانا کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں، میری غرض امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اپنے جد اور بابا کی سیرت کی پیروی ہے۔''
آپؓ نے 28 رجب 60 ہجری میں اپنے نانا کے شہر کو ہمیشہ کے لیے ترک کیا، 3 شعبان المعظم شب جمعہ 60 ہجری کو وارد حرم الٰہی ہوئے آپؓ نے چار ماہ اور پانچ دن خانہ خدا میں عبادت کے عالم میں گزارے ،کوفے کے مصلحت پسندوں نے امام حسینؓ کو متعدد خطوط لکھے کہ وہ کوفے تشریف لائیں آپؓ نے اپنے سفیر حضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا تاکہ وہ وہاں کے حالات سے خبردار کریں، جنھیں دو بچوں سمیت کوفے میں بے دردی سے شہید کردیا گیا۔
8 ذی الحج کو آپؓ مکے سے عازم کربلا ہوئے۔ آپ کے ہمراہ بوڑھے، جوان، عورتیں اور بچے تھے۔ آپؓ کو مدینہ طیبہ سے عبداللہ ابن عباس، محمد بن حنفیہ اور حرم رسول ﷺ حضرت اُم سلمہؓ نے روکا تھا ، جب کہ امام حسینؓ نے یہ کہہ کر رختِ سفر باندھا کہ اسلام کے لیے ہر قربانی دوںگا۔''
مکے سے نکلتے ہی آپؓ کے چچا زاد عبداللہ ابن جعفر طیار کا خط ملا جس میں عراق نہ جانے کا مشورہ تھا، جسے آپؓ نے قبول نہ فرمایا، امام عالی مقام حضرت حسینؓ کی راہ میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی، منزل حاجر سے آپؓ نے کوفے والوں کو خط تحریر فرمایا جس میں انھیں ان کا وعدہ یاد دلایا گیا۔
قصر بن مقاتل پر عبداللہ بن حرملے، آپؓ نے محرم الحرام کا چاند دیکھا اور یہیں پر لشکر حر سے ملاقات ہوئی اور حر سمیت لشکریوں نے امام عالی مقام حضرت حسینؓ کے پیچھے نماز ادا کی، آپؓ نے حکم دیا لشکر حرکو پانی پلایا جائے باقی ماندہ پانی ان کے گھوڑوں کو پلادیا گیا۔ حر نے امام حسینؓ سے کہا ہمیں حکم ہے کہ آپؓ کو زندہ گرفتار کرکے کوفے لے جائیں آپؓ نے اپنے جواب سے دنیا بھر کے انقلابی اذہان کو ایک خط فکر عطا فرمایا اور واضح کردیاکہ میرے لیے ممکن نہیں کہ کوفے میں خاموشی سے قتل کردیا جائوں۔''
امام عالی مقام حضرت حسینؓ یزیدی افواج سے انتہائی بہادری و جرأت کے ساتھ لڑے اور جام شہادت نوش فرما کر ایک روشن تاریخ رقم کی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔
حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد آپؓ جسم اطہر کو دیکھا گیا۔ اس پر 33 نشان نیزوں کے اور 34 نشان دوسری ضربوں کے آئے۔ حضرت امام حسینؓ کے ساتھ 72 جانثار شہید ہوئے، شہدائے کربلا کی قربانیوں نے دین اسلام کو زندہ جاوید کردیا۔
آئی ندائے غیب کہ شبیرؓ، مرحبا
اس ہاتھ کے لیے تھی یہ شمشیر، مرحبا
یہ آبرو، یہ جنگ، یہ توقیر، مرحبا
دکھلادی ماں کے دودھ کی تاثیر، مرحبا