نواز شریف خوش قسمت ہیں

نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی کی رہائی سے نون لیگ کی قوتوں اور توانائیوں میں بے پناہ اضافہ ہُوا ہے۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

یہ عجب اتفاق ہے کہ میاں محمد نواز شریف، اُن کی صاحبزادی مریم نواز اور اُن کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے اُس وقت رہائی نصیب ہُوئی جب ملک میں وزیر اعظم موجود تھے نہ سپہ سالارِ پاکستان۔ عمران خان سعودی عرب میں تھے اور جنرل قمر جاوید باجوہ چین میں۔ شنید ہے دونوں بڑوں کے دونوں دَورے کامیاب ہُوئے ہیں۔ دونوں صاحبان کو سعودیہ اور چین کی طرف سے مبینہ طور پر خوش کن یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں۔

اللہ کرے یہ یقین دہانیاں عمل کی شکل اختیار کرکے وطنِ عزیز کے لیے مفید اور طاقت ثابت ہوں۔ اور یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ جس وقت پاکستان میں سابق وزیر اعظم کو جیل سے سزا کی معطلی کے نتیجے میں رہا کیا جارہا تھا، عین اُس وقت ملائشیا کے سابق وزیر اعظم ، نجیب رزاق، کو اربوں ڈالر کی کرپشن کے سنگین الزامات میں گرفتار کیا جارہا تھا۔ اُن کی ساری ضمانتیں منسوخ ہو گئی تھیں۔

لوگ کہتے ہیں کہ بدعنوانی کے شرمناک الزامات کے بعد نجیب رزاق اتنے بھی نجیب نہیں رہے۔اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان کی عدالتیں اتنی آزاد اور خود مختار ہیں کہ وہ حیران کن فیصلے کر رہی ہیں۔ نواز شریف اور اُن کے دو قریب ترین عزیزوں کی سزاؤں میں معطلی حیران کن فیصلہ ہی تو ہے۔ اِس فیصلے نے لاریب نون لیگ کے لاتعداد حامیوں کے دلوں میں ایک نئی شمع روشن کی ہے اور پی ٹی آئی کی صفوں میں ایک عجب انداز کی مایوسی اور کھلبلی دیکھی جارہی ہے۔

نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی کی رہائی سے نون لیگ کی قوتوں اور توانائیوں میں بے پناہ اضافہ ہُوا ہے۔ نواز شریف، مریم نواز اور محمد صفدر کی رہائی اور سزاؤں کی تعطلی سے ساری نون لیگ کو نیا حوصلہ اور نئی امنگ ملی ہے۔ انتخابی شکست کا داغ تو ابھی نہیں دھل سکتا لیکن نواز شریف نے باہر آکر ایک ہلچل سی مچا دی ہے۔ 19ستمبر2018ء کی شام دُنیا بھر کے میڈیا میں نواز شریف کی رہائی ہی لِیڈ نیوز تھی۔ برطانوی، امریکی اور بھارتی میڈیا کی ٹی وی اسکرینیں اور ویب اخبار اِسی ایک خبر اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات سے گونج رہے تھے۔

نواز شریف نے اپنی سیاسی زندگی میں کئی ایسے کارنامے انجام دیے ہیں جو پاکستان کے کئی مقتدر سیاستدانوں کا نصیب نہیں بن سکے ہیں۔ ان سیاسی کامیابیوں میں کئی المیاتی لمحات بھی ہیں ۔ تین بار منتخب ہوکر وزیر اعظم بننا اور منفرد تاریخ رقم کرنا اور تینوں بار ہی اپنی مدتِ وزارتِ عظمیٰ پوری نہ کر سکنا۔اٹک قلعہ میں سخت سزائیں کاٹنا اور پھر کئی برسوں کے لیے جلاوطن کیا جانا۔ اور ابھی چند دن پہلے انھوں نے یہ غم جھیلا ہے کہ وہ جیل میں تھے اور لندن میں اُن کی اہلیہ محترمہ اسپتال میں اللہ کو پیاری ہو گئیں۔

آخری لمحات میں جاتے جاتے نہ بیگم کلثوم اپنے شوہر کے ساتھ تھیں نہ شوہر جاتی ہُوئی شریکِ حیات سے کوئی بات کر سکے۔ یہ معمولی المیہ اور معمولی احساسِ محرومی نہیں ہے۔ ان واقعات میں حسرت بھی ہے، افسوس بھی اور دکھ بھی ۔لوگ کہتے ہیں : نواز شریف غصے میں بھرا بیٹھا رہتا ہے، انتقام لینا چاہتا ہے، زیادتی کرنے والوں کو بھلاتا نہیں ہے، دل میں بات رکھتا ہے۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ جس شخص کے ساتھ اتنے سانحات ہو چکے ہوں، کیا وہ غصے کا اظہار بھی نہ کرے؟

وہ انسان نہیں ہے کہ اُسے زیادتی اور ظلم پر ردِ عمل کا اظہار نہیں کرنا چاہیے؟ نواز شریف کے نقاد کہتے ہیں: نہ نواز شریف کرپشن کرتے اور نہ جیل جاتے ۔ نواز شریف اور اُن کے چاہنے والے مگر استفسار کرتے ہیں کہ پھر کرپشن کا الزام فیصلے میں ثابت کیوں نہ کیا جا سکا؟ سوا دو ماہ قبل جو فیصلہ سنایا گیا تھا، اُس میں اُن کی کرپشن اور بدعنوانی کے ثابت کیے جانے کے واضح الفاظ کیوں نہیں ملتے؟ فیصلے کے بین السطور الفاظ کی محض توجیحات اور توضیحات ہی کیوں؟


جناب نواز شریف ، مریم نواز اور محمد صفدر نے اڈیالہ جیل میں کوئی دس ہفتے سزاکاٹی ہے۔ باپ بیٹی کو تو دس اور سات سال کی سزائیں سنائی گئی تھیں اور محمد صفدر کو ایک سال۔ دونوں باپ بیٹی کو ایون فیلڈ ریفرنس میں مجموعی طور پر 100لاکھ پونڈز کا جرمانہ بھی سنایا گیا تھا۔ نواز شریف جیل کے دوران دیگر دو ریفرنسوں کے کیسوں میں متعلقہ عدالت میں بھی باقاعدہ حاضر ہوتے رہے۔

یہ حاضریاں ہمارے میڈیا کے لیے اہم ترین ایونٹ ثابت ہوتی رہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اُن کے زندانی ایام کے دوران اُن کے کروڑوں چاہنے والوں نے انھیں فراموش کیا نہ اُن کی یاد کو مدہم ہونے دیا۔ قومی میڈیا اور سوشل میڈیا میں اُن کا مسلسل چرچا رہا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اُن کے نام کی بلند بازگشت سنائی دیتی رہی۔ مریم نواز شریف نے اپنے والد صاحب کے تیسرے اقتدار کے دوران اپنی سوشل میڈیا ٹیم پر جو محنت کی ، اُس کا انھیں شاندار صلہ ملا ہے۔ یہ ثمر حاصل کرنے کے لیے مریم نواز نے خاصی جدو جہد کی تھی۔

سوشل میڈیا کے حوالے سے مریم نواز کی کوششوں کو اُن کے سیاسی مخالفین شدید تنقید کی باڑ پر رکھتے رہے لیکن وہ اپنی ہٹ پر قائم رہیں۔ وہ جدید سیاست کے جدید تقاضوں سے بخوبی آگاہ ہیں؛ چنانچہ وہ اپنے کئی اہداف میں کامیاب رہی ہیں۔ مریم نواز کی سیاسی تربیت کرنے میں میاں نواز شریف نے جو سنجیدگی دکھائے رکھی، اُس کے بھی مثبت نتائج نکلے ہیں۔

نون لیگ کے نقص نگاروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف اب زیادہ تر مریم نواز کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں، اُن پر اُن کا انحصار بڑھ گیا ہے۔ تو کیا نہیں بڑھنا چاہیے؟ نواز شریف اِس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہیں کہ انھیں مریم ایسی بیٹی ملی ہے۔وہی اب اُن کا اثاثہ اور مستقبل ہیں۔

نواز شریف خوش بخت ہیں کہ وہ جیل ہی میں تھے کہ انھیں پسِ دیوارِ زنداں ایک اور انداز کی سیاسی کامیابی کی نوید ملی تھی۔ اُن کے سیاسی مخالفین نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے توسط سے کوشش کی کہ نون لیگ سے نواز شریف کے نام کو مٹادیا جائے لیکن یہ کوشش کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی۔ الیکشن کمیشن نے نون لیگ اور نواز شریف کے خلاف کی گئی استدعا اصولوں کی بنیاد پر مسترد کر دی۔

نون لیگ اور نواز شریف کے نقص نگاروں کا یہ بھی اصرار ہے کہ مریم نواز کو صفِ اوّل میں کھڑا کرکے نواز شریف محض اپنے خانوادے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ نون لیگ کے کسی کارکن کو آگے لانا چاہیے ۔ اصولاً یہ بات درست ہے۔ لیکن جو اَب منتخب ہو کر اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہُوئے ہیں، وہ بھی خیر سے اِسی راستے پر گامزن ہیں۔ دوست نوازی ، خاندان پروری اور ورثے کی سیاست کو فروغ دینے میں یہ بھی کسی سے کم نہیں پائے گئے ہیں۔ ایک مہینے ہی میں دوست نوازی کی کئی مثالیں رقم کر دی گئی ہیں۔ تو پھر چھلنی کس بنیاد پر چھاج کو طعنے مہنے دے سکتی ہے؟

نواز شریف کی رہائی اور کئی سزاؤں میں معطلی کے فیصلے نے نواز شریف کو ایک بار پھر خوش قسمت ثابت کر دیا ہے۔ اُن کی رہائی مقتدر پی ٹی آئی کے لیے کئی چیلنجوں کو جنم دے گی۔ اتحادی سیاست کی بیساکھیوں پر کھڑی پی ٹی آئی کی حکومت مسائل کا شکار بنے گی۔ اگلے ماہ ہونے والے ضمنی انتخابات میں نون لیگ کا گراف بلند ہوگا۔ زیادہ توقع یہی ہے کہ مریم نواز کی سیاسی تگ وتاز میں زیادہ اضافہ ہوگا ۔ اُن کی مقبولیت بھی مزید بڑھے گی۔

نواز شریف کے جیل چلے جانے سے نون لیگ میں اگر کہیں کمزوری اور دراڑ بھی آئی تھی تو اب یہ کمزوری پھر سے نئی توانائی میں تبدیل ہو گی اور بہت ہی جلد۔ کئی پرندے واپس آ جائیں گے۔ اور جو لوگ نواز شریف اور مریم نواز کی سیاست کے بارے میں یہ پیشگوئیاں کرتے ہُوئے سنائی دے رہے تھے کہ ''پارٹی اِز اووَر'' تو انھیں خبر ہو کہ پارٹی پھر سے شروع ہو چکی ہے۔ گیم ختم ہُوئی تھی نہ ہُوئی ہے۔ ہمیں بے بنیاد سیاسی درفنطنیاں چھوڑنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
Load Next Story