درس حسین ؓکیا ہے
آخرکار امام کو یہ محسوس ہوگیا کہ مدینہ منورہ میدان جنگ بنے گا اور ایسا ہونا یزیدی فوج کے لیے مشکلات پیدا کرتا۔
ذرا سا غورکرنے کی بات ہے جو بھی شخص نبی اکرمؐ محمد مصطفیٰ کے قریب بیٹھا اور اس نے آپ کا چہرہ مبارک کا جمال و جلال دیکھا وہ معتبرکہلایا اور اس کو صحابی کے لقب سے نوازا گیا۔ اس پہلو پر مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کا اجماع ہے، وہ ایک الگ موضوع گفتگو ہے کہ کس صحابی کا کیا مقام ہے ۔ اس کا تعلق آنحضرتؐ سے قربت اور ان کی سیرت کے اکتساب سے ہے ۔
لہٰذا اگر اسی پیمانے کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو یہ واضح ہوجائے گا کہ حسنین کا کیا مقام، محض نسبت کی بنیاد پر کیا ہوگا نہ کہ خود اس مرد باصفا نے اسلام کے دامن میں کیسے کیسے لعل و جواہر کا اضافہ کیا کہ جس کی بدولت دنیا کے مختلف مذاہب کے ماننے والے آج بھی نہایت عظمت سے ان کا نام لیتے ہیں۔ اس سے ایسا محسوس ہوتا کہ یہ شخص گلدستہ جمال اوصاف عالیہ تھا اور بیک وقت جِِست و فولاد کا قلعہ معلیٰ بھی جس کا اسم گرامی خود آنحضرتؐ نے تجویزکیا وہ حسینؓ ہے ۔ وہ حسینؓ جس نے بوقت سہ پہر میدان کربلا میں تن تنہا ہونے کے باوجود حکومتی افواج کے رو برو بھی زبردست تاریخی جنگ کی، بقول علامہ اقبال:
نقش الااللہ در صحرا نوشت
ہزاروں کے مقابل سپر نہ ڈالی، یہ تو تھا عالی مرتبت حسینؓ کا مقام جس میں پیارے نواسے کے لیے آنحضرتؐ کے اقوال زریں بھی شامل ہیں، آج کے دن کے اعتبار سے ضروری ہے کہ واقعہ کربلا کا سیاسی پس منظر اور پیش منظر کا کچھ تذکرہ کیا جائے۔
دنیا کے بلند پایہ لیڈروں اور انبیا کی قربانیوں کے تذکرے موجود ہیں مگر ایسی قربانی جس کو توریت میں ذبح عظیم کے نام سے پیش کیا گیا، ایک مثالی پیش گوئی کا نام دیا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ ایسی قربانی نہ ماضی میں دی گئی اور نہ ہی مستقبل میں کوئی مثال ممکن ہے۔ کیونکہ دنیا بدل چکی ہے، بڑی سے بڑی ہلاکتیں ممکن ہیں مگر ثابت قدمی سے لق و دق بیابان میں دریائے فرات سے کچھ فاصلے پر جو 72 نفوس انسانی کی قربانی دی گئی، یہ تاریخ کا افسوس ناک ترین اور ساتھ ہی یہ انسانی قربانی کا دمکتا صبر، انسانی اور انسانی حقوق کا یادگار دن ہے، جس کا مقابلہ حکومت کے خلاف حکمت اور بہادری سے حسینؓ ابن علی نے کیا ۔جب یزید کی جانشینی کی بازگشت سنائی دینے لگی تو عام ساکنان عرب بشمول سرداران کے، یزید کی جانشینی اور بیعت کے لیے تیارہو رہے تھے مگر اصل سوال نبیؐ زادے، ابن علیؓ کو منانے کا تھا۔
حسینؓ ابن علی کا اثر اور شہرت ملک کے مختلف شہروں میں ہے۔ یہاں تک کہ عراق اور شام میں بھی کافی اثرات ہیں۔ یزید کے مشیروں کا خیال تھا کہ اگر حسینؓ کو کسی حکمت اور طریقے سے اپنا ہمنوا بنا لیا جائے یا پھر طاقت استعمال کی جائے تو ہماری منزل آسان ہوجائے گی۔ حسینؓ کی ہمنوائی سے عام تاثر یہ پھیلے گا کہ یہ خلافت راشدہ کا تسلسل ہے۔ کیونکہ حضرت علیؓ نے بھی خلافت راشدہ کے خلاف کوئی عملی قدم نہ اٹھایا اور بہت سے فوجی معاملات اور فتوحات میں حضرت عمرؓ کی معاونت کی لہٰذا یہ تجویز یزید اور ان کی فوج کے رہنماؤں نے مان لی اور جب حضرت حسینؓ کسی طرح بھی بیعت پر تیار نہ ہوئے تو حسینؓ کو فوجی حصار میں لانے کی کوشش کی گئی۔
آخرکار امام کو یہ محسوس ہوگیا کہ مدینہ منورہ میدان جنگ بنے گا اور ایسا ہونا یزیدی فوج کے لیے مشکلات پیدا کرتا لیکن مدینہ منورہ کی بے حرمتی کا خدشہ تھا ۔ حسینؓ جیسی روحانی اور اسلامی شخصیت نے عام لوگوں کو پریشانی میں ڈالنے سے گریز کرتے ہوئے مدینہ چھوڑنے کا عزم کرلیا اور دیگر شہروں اور ملکوں کے لوگوں تک اپنے سفیر روانہ کرنے شروع کردیے جن میں مسلم بن عقیل کو عراق اور دیگر لوگوں کو دیگر شہروں اور دیگر ملکوں میں یزیدی حکومت کے عزائم اور طرز حکمرانی خصوصاً محض فوائد دنیاوی کی آرزو اور عمل کے ساتھ بادشاہت اور عیش پرستی کا حصول راگ و رنگ کی دنیا کی افزائش اسراف بے جا پر عمل پیرا ہونا، ظاہر ہے کہ ایسے حاکم کے لیے بیعت حسینؓ کوئی آسان عمل نہ تھا، لہٰذا حسینؓ کو اپنے احباب اور کنبے کو مدینہ چھوڑنا ضروری ہوگیا تھا۔
امام حسینؓ کے خطوط اور پیغامات کو بڑی اہمیت دی گئی تھی ۔ بہرحال نبیؐ کے نواسے نے دنیا میں اسلامی تبلیغ کے لیے وفود ہندوستان بھی روانہ کیے تھے۔ جس کو علامہ نے اپنی نظم میں یوں باندھا کہ اس وقت موسم اور تہذیب کے اعتبار سے یہ علاقہ اہمیت کا حامل تھا جس پر ایک موقعے پر یہ فرمان تھا: میرِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے۔
واقعہ شق القمر کا تذکرہ عیسائیوں اور چینی مورخوں کے علاوہ بھارت کے شہر امروہہ کے صوفی بزرگ کے حوالے سے یہ تذکرہ ملتا ہے کہ ان کے بچپن میں یہ تذکرہ سنا گیا کہ امروہہ پوری طرح سے بسا نہ تھا جو صوفی بزرگ شرف الدین کے مزار پر جہاں بچھو ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں یہ بچھو بعض بیماریوں پھوڑا پھنسی کے علاج اور بلڈ پریشر اور دیگر امراض میں استعمال کرتے ہیں، بچھو کو پیر صاحب کی قسم دی جاتی ہے اور وہ چند یوم کے لیے لوگ گھر لے جاتے ہیں وہاں روزانہ وہ ایک یا دو بار ڈنک مارتے ہیں مگر مزار پر کوئی بچھو نہیں کاٹتا۔ بہرحال امروہوی حضرات اس قصے سے واقف ہیں۔
خیر بھارت کے شہر امروہہ میں اسلام کا جلوہ سب نے دیکھا تھا اور دت برہمن بھی جو حسینی برہمن کہلاتے ہیں وہاں پہنچے تھے مگر کوئی مستقل رابطہ ایسا موجود نہ تھا جیساکہ آج کل ہوتا ہے ، لہٰذا اسلام بھارت کے لیے کوئی گمنام نہ تھا ۔ غرض حسینؓ جیسے نبی زادے پر جب کڑا وقت آیا تو ہند میں ایک شور بپا تھا اور حسینی برہمنوں نے اس موقعے پر جنگ میں شرکت کی تیاری کرلی تھی۔ مگر یہ قافلہ وقت اور فاصلے کی قید کی وجہ سے نصرت کو بروقت نہ آسکا اور یہ قافلہ مختار ثقفی کی فوج کے ہمراہ قاتلان حسین کو تہہ تیغ کرنے پہنچا تھا اور اس نے کامیابی بھی حاصل کی ۔
مختار کی فوج نے جب یزیدی گروہ کو تہہ تیغ کیا تو امام زین العابدین نے سب سے پہلے حرملہ کے متعلق مختار سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے تو مختار نے جواب دیا، وہ ہماری قید میں ہے۔ جب امام کا حرملہ سے سامنا ہوا تو اس نے کہا کہ مولا میرے تین تیر چلے۔ ایک مشک سکینہ پر، دوسرا حلق علی اصغر اور تیسرا تیر شیر خدا کے فرزند پر جب وہ کئی گھنٹے یلغار کو تہہ تیغ کرتے رہے اور سکینہ بنت حسینؓ ذوالجناح کے پاؤں سے لپٹی ہوئی تھیں کیونکہ یہ عصر کی نماز کا وقت تھا، حسینؓ زمین پر آنا چاہتے تھے جب کہ ہر تیر میں تین پھل تھے بقول میر انیس:
ہزار نو صد و پنجاہ زخم کھائے ہوئے
حسین خاک پہ بیٹھے ہیں سر جھکائے ہوئے
ایسے موقعے پر اختتام سے قبل حسینؓ کے اوصاف پر ایک نظر شجاعت، بلاغت، فصاحت، سخاوت میں یکتائے روزگار تھے۔ کربلا کی جنگ کے دنیا کے تمام مذاہب اور مکاتب فکر پر زریں اثرات پڑے ۔آپ کا یہ قول عالمگیر شہرت رکھتا ہے کہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔ آپ کی سیاسی سوچ اور باطل سے ٹکرانے کی ہمت نے ایک نئی صنف سخن رثائی ادب کو جنم دیا اور شاید ہی کوئی فرد دنیا میں آیا ہو جس کی اس قدر پذیرائی کی گئی ہو کہ جس شخص نے تن تنہا یزیدی سلطنت اور اس کے لشکر سے ٹکرانے سے چند روز قبل یہ فرمایا کہ میں بیعت کا طوق تمہاری گردن سے اتار دیتا ہوں، تم آج سے بالکل آزاد ہو اور جہاں اور جس کے ساتھ چاہو جا ملو کیونکہ مخالف فوج ایک انبوہ کثیر ہے اور حکومت کو صرف میری طلب ہے۔
یہ تھا تین روز کے پیاسے کا استقلال ایسے موقعے پر حسینی فوج کے سربراہ کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگا۔ اس مرد ذی وقار کا نام ہے برادر حسین ابن علیؓ جس پر (wikipedia) میں یہ کہا گیا ہے جب حضرت عباس علمدار مشک سکینہ لے کے نکلے تو فرات پر تقریباً دس ہزار افواج تھیں، ان کو پسپا کرکے مشک سکینہ بھری مگر حسینؓ سے پیار کا یہ عالم کہ تین روز کی پیاس کے باوجود حلق میں ایک گھونٹ نہ اتارا، اس پر انیس نے کہا:
ایسا بھی ہے کوئی تیرے وہم و قیاس میں
لاکھوں سے جو لڑائے بہترکو پیاس میں