تھر میں بچوں کی مسلسل اموات
زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم تھری عوام اپنی غربت کے ساتھ ایک تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔
ایک بات سمجھ سے باہر حیرت انگیز ہے کہ برسوں بلکہ عشروں سے تھر پارکر میں معصوم بچے بھوک اور بیماری سے موت کا شکار ہو رہے ہیں اور ان اموات کو روکنے کی عملی اور موثرکوشش نظر نہیں آتی۔ تھر ایک پسماندہ علاقہ ہے جہاں سندھ کے غریب عوام رہتے ہیں۔
زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم تھری عوام اپنی غربت کے ساتھ ایک تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ اس پر ان کے معصوم بچوں کی موت کا نہ رکنے والا سلسلہ ذہنی اذیت کا باعث بنا ہوا ہے، بچوں کی اموات کی خبریں جب میڈیا میں آنے لگیں توکراچی سے حکومت کا ایک وفد ان اموات کی تحقیق کے لیے بھیجا گیا ۔ اس کے بعد میڈیا میں یہ خبریں آئیں کہ معصوم بچوں کی لگاتار اموات کی تحقیق کے لیے جانے والا وفد پکنک منا کر واپس آگیا ۔ان خبروں کے میڈیا میں آنے کے بعد ہر طرف سے لعنت ملامت کی گئی، لیکن جس طرح چکنے گھڑے سے پانی پھسل جاتا ہے، اسی طرح ہمارے حکمرانوں کے سر سے تنقید پھسل جاتی ہے۔
اس حوالے سے جب میڈیا میں یہ خبریں آئیں کہ تھری معصوم بچے بھوک کی وجہ سے موت کا شکار ہو رہے ہیں تو ہمارے محترم حکمرانوں نے یہ اسٹینڈ لیا کہ تھری بچے بھوک سے نہیں مر رہے ہیں بلکہ بیماری سے مر رہے ہیں۔ ملک کے اہل علم حیران رہ گئے ہیں حکومت کی طرف سے یہ عذر پیش کیا گیا کہ بچے بھوک سے نہیں بلکہ بیماری سے مر رہے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی لاعلاج بیماری ہے جس میں تھرکے معصوم بچے مبتلا ہوکر موت کا شکار ہو جاتے ہیں؟
یہ المناک سلسلہ برسوں بلکہ عشروں سے جاری ہے اور حکومت اس حوالے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس حوالے سے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں صرف کینسر ہی ایک ایسی بیماری ہے جس کا ابھی تک حتمی علاج دریافت نہیں ہوسکا۔ کیا تھر کے ہزاروں معصوم بچے کینسر میں مبتلا ہو رہے ہیں کہ جس کا علاج ممکن نہیں؟ تھر چاند پر آباد نہیں بلکہ پاکستانی سرزمین پر آباد ہے اور تھر کو آسانی سے جایا جاسکتا ہے پاکستان میں ہر بیماری کے اسپیشلسٹ موجود ہیں پھر تھر کے بچوں کو وہ کون سی بیماری لاحق ہوگئی ہے جس کا علاج ہی دستیاب نہیں؟
سندھ میں عشروں سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اورپاکستانی سیاست میں بھٹو نے پی پی کو غریبوں، کسانوں، مزدوروں کی پارٹی کی حیثیت سے متعارف کرایا تھا، لیکن یہ کس قدر افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی اب غریبوں کی پارٹی نہیں رہی یہ تبدیلی اگرچہ بھٹو کے دور ہی میں آگئی تھی ، جب بھٹو مرحوم نے پیپلز پارٹی کے اصل بانیوں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبورکردیا اور بھٹو کے مخلص دوستوں کی جگہ وڈیروں نے لے لی۔
پارٹی کی ماہیت میں اس معنوی تبدیلی کے بعد عوام پیپلز پارٹی سے دور ہوتے چلے گئے اور پارٹی اپنے اثاثے یعنی عوام سے محروم ہوتی چلی گئی جس کا اندازہ حالیہ الیکشن کے نتائج سے ہوسکتا ہے ۔ پروگرام اور منشور کے حوالے سے پیپلز پارٹی ایک لبرل جماعت رہی ہے جب کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں عملی سیاست میں رجعت پسندی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
آج اس مسئلے پر قلم اٹھانے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ اخبار میں بھی تین تھری بچوں کی موت اور پچاس بچوں کی ہاسپٹلائزیشن کی خبریں لگی ہیں۔ ہر دوسرے تیسرے دن اس قسم کی المناک خبریں چھپتی رہتی ہیں ،کیا یہ خبریں حکمرانوں کی نظروں سے نہیں گزرتیں اگر گزرتی ہیں تو اس ظلم کی روک تھام کی کوششیں کیوں نہیں کی جاتیں۔ میں حیران ہوں کہ تھرکے بچوں کے ماں باپ کیا مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ اپنے معصوم بچوں کی لگا تار موت کے خلاف احتجاج نہیں کرتے۔
ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی طرف سے بھی ایک پر اسرار خاموشی دیکھی جاسکتی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے منہ جمہوریت کا وظیفہ پڑھتے پڑھتے خشک ہوجاتے ہیں ۔ کیا جمہوریت اسی کا نام ہے کہ ملک کی ایک غریب آبادی کے معصوم بچے مسلسل برسوں سے موت کا شکار ہو رہے ہیں اور سیاسی جماعتوں کے منہ پر تالے پڑے ہوئے ہیں؟
ہمارے ملک میں ڈاکٹروں کی ایک مضبوط تنظیم پی ایم اے ہے ،کیا پی ایم اے کے اکابرین کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ تھر کے معصوم بچے برسوں سے موت کا شکار ہو رہے ہیں اور اب تک ہزاروں بچے موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ پی ایم اے ڈاکٹروں کی تنظیم ہے جس میں ڈاکٹر ٹیپو جیسے روشن خیال ڈاکٹر موجود ہیں کیا بحیثیت ڈاکٹروں کی نمایندہ تنظیم پی ایم اے نے تھری بچوں کی اموات کی وجہ جاننے کی کوشش کی؟ عوام پی ایم اے سے بھی یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں۔
ہمارے ملک میں قدم قدم پر انسانی حقوق کی تنظیموں کے دفاتر ہیں۔ کیا تھری بچوں کا جانی نقصان انسانی حقوق کی توہین نہیں ہے؟
ہمارے چیف جسٹس مظلوم عوام کی داد رسی کرتے نظر آتے ہیں کیا تھر کے موت کا شکار ہونے والے بچوں کے ماں باپ کا شمار مظلوم لوگوں میں نہیں ہوتا؟ اگر ہوتا ہے تو چیف جسٹس اس ظلم کا ازخود نوٹس لے کر ذمے دار لوگوں سے باز پرسی کریں۔ یہ کوئی انفرادی مسئلہ ہے نہ اتفاقی مسئلہ ہے یہ برسوں سے تھری بچوں پر ہونے والا قابل شرم ظلم ہے۔ تھری عوام چیف جسٹس سے اس حوالے سے ازخود نوٹس لینے کے مطالبے میں حق بجانب ہیں۔
انتخابات کے سیزن میں عالی مرتبت سیاستدان جھولی پھیلائے غریب بستیوں کے چکرکاٹتے ہیں اور جب غریب عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آتے ہیں تو پھر غریبوں کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھتے۔ تھرپارکر ایک انتہائی پسماندہ علاقہ ہے یہاں رہنے والے یقینا غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہوں گے۔ غریب عوام کی غربت دورکرنا تو دور کی بات ہے تھری بچوں کی افسوسناک اموات کی روک تھام کرنا تو ناممکنات میں سے نہیں۔
تھری بچوں کی لگاتار اموات کی تحقیق ہونی چاہیے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تھری بچے کیا غذائی قلت کی وجہ سے موت کا شکار ہو رہے ہیں یا کسی پراسرار بیماری کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ عوام کا یہ حق ہے کہ نہ صرف اس المیے کے تحقیق کی جائے بلکہ ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔