اڈیالہ جیل میں حنیف عباسی کی تصاویر معاملے کی تحقیقات شروع
کمیٹی میں ڈی آئی جی جیل فیروز شوکت اور اے آئی جی ملک صفدر نواز شامل ہیں
اڈیالہ جیل میں نواز شریف اور حنیف عباسی کی تصاویر کے معاملے پر تحقیقات کرنے والی حکومت پنجاب کی کمیٹی نے کام شروع کر دیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اڈیالہ جیل سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ حنیف عباسی کی موجودگی اور تصاویر کا نوٹس لیا تھا اور دورکنی تشکیل دی تھی، کمیٹی میں ڈی آئی جی جیل فیروز شوکت اور اے آئی جی ملک صفدر نواز شامل ہیں جو آج سے اپنا کام شروع کردے گی۔
وزیرجیل خانہ جات پنجاب کا کہنا ہے کہ 2 رکنی تحقیقاتی کمیٹی آج خلاف قانون تمام امور کا جائزہ لے گی اور 72 گھنٹے میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ کمیٹی تحقیقات کرے گی کہ جیلر کے کمرے میں تصاویر بنانے کی اجازت کس نے دی؟ ایفی ڈرن کیس کے مجرم حنیف عباسی کو ایڈمن بلاک میں جانے کی اجازت کس نے اور کیوں دی اور انہیں تصاویر بنانے کے لئے موبائل فون اور نوازشریف کی رہائی کی خوشی میں مٹھائی کس نے فراہم کی۔
واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف، صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کی رہائی سے قبل اڈیالہ جیل میں نواز شریف کی حنیف عباسی اور دیگر لیگی رہنماؤں نے تصویریں بنوائی تھیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔ جس پر وزیراعلیٰ پنجاب اور آئی جی جیل خانہ جات نے ایکشن لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اڈیالہ جیل سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ حنیف عباسی کی موجودگی اور تصاویر کا نوٹس لیا تھا اور دورکنی تشکیل دی تھی، کمیٹی میں ڈی آئی جی جیل فیروز شوکت اور اے آئی جی ملک صفدر نواز شامل ہیں جو آج سے اپنا کام شروع کردے گی۔
وزیرجیل خانہ جات پنجاب کا کہنا ہے کہ 2 رکنی تحقیقاتی کمیٹی آج خلاف قانون تمام امور کا جائزہ لے گی اور 72 گھنٹے میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ کمیٹی تحقیقات کرے گی کہ جیلر کے کمرے میں تصاویر بنانے کی اجازت کس نے دی؟ ایفی ڈرن کیس کے مجرم حنیف عباسی کو ایڈمن بلاک میں جانے کی اجازت کس نے اور کیوں دی اور انہیں تصاویر بنانے کے لئے موبائل فون اور نوازشریف کی رہائی کی خوشی میں مٹھائی کس نے فراہم کی۔
واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف، صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کی رہائی سے قبل اڈیالہ جیل میں نواز شریف کی حنیف عباسی اور دیگر لیگی رہنماؤں نے تصویریں بنوائی تھیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔ جس پر وزیراعلیٰ پنجاب اور آئی جی جیل خانہ جات نے ایکشن لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا تھا۔