شہر میں شورِمحشر برپا
بڑھتی ہوئی صوتی آلودگی صحت کے مسائل بڑھا رہی ہے۔
سریلی اور نقرئی آواز اللہ تعالیٰ کی دی گئی بہترین نعمتوں میں سے ایک ہے۔
قدرت نے ہر شے کو اعتدال میں رکھا ہے، بارش کی بوندوں کی ٹپ ٹپ سے بننے والی جلترنگ، بلند و بالا پہاڑوں سے گرتے آبشاروں کی مُدھر آواز، بہتے جھرنوں کی گنگناہٹ، سمندری لہروں کا شور، چڑیوں کی چہچاہٹ، کوئل کی کوکو، ہوا سے لہراتے سبز پتوں کی سرسراہٹ، یہ سب ایسی آوازیں ہیں جو کہ نعمت خداوندی ہیں۔
سریلی اور نقرئی آواز کی مدح سرائی میں کئی مشہور شاعروں نے دیوان کے دیوان لکھ دیے۔ لیکن حرص کا شکار انسان خود اپنے ہاتھوں اپنی بربادی کا سامان پیدا کر رہا ہے۔ شہری علاقوں سے کوئل کی کوک اور چڑیوں کی چہچہاہٹ کو روٹھے عرصہ گزر گیا۔
چاروں جانب سے بند گھروں نے ہمیں بارش کی جلترنگ سننے سے محروم کردیا۔ ان سریلی آوازوں کی جگہ پولیس موبائل، ایمبولینسوں کے ہوٹرز، تشہیری، سیاسی اور مذہبی مقاصد کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے بے ہنگم شور، مرکزی شاہراہوں پر فٹنس نام کی چیز سے نا آشنا بے ہنگم طریقے سے شور مچاتی بسوں، رکشوں اور موٹر سائیکلوں کی غراہٹوں نے لے لی ہے۔
یہ سب مل کر ہمارے شہروں خاص طور پر شہرِقائد کراچی کے عوام کو صوتی آلودگی کی شکل میں ایسا زہر دے رہیں ہیں جو نہ صرف یہاں کہ باسیوں کو آہستہ آہستہ سماعت سے محروم کر رہا ہے، بل کہ انہیں چڑچڑے پن، بلند فشار خون، ہارٹ اٹیک اور مختلف نفسیاتی عوارض میں مبتلا کر رہا ہے۔ کرۂ ارض کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت اور موسمی تغیرات کے باعث پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک نے آلودگی میں کمی اور کلائمیٹ چینج جیسے مسائل پر سنجیدگی سے کام کرنا شروع کردیا ہے۔ تاہم پاکستان میں اکثریت کے نزدیک آلودگی کا مطلب صرف فضائی یا آبی آلودگی ہے، لیکن آلودگی کو صرف دو، تین درجوں تقسیم کرنا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ آلودگی کی ایک سب سے غیرمعروف لیکن سب سے نقصان دہ شکل صوتی آلودگی ہے۔
صوتی آلودگی قدرتی ماحول میں غیرفطری طریقے سے پیدا ہونے والی منفی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ آلودگی ہمارے صوتی حصوں کو متاثر کرتی ہے۔ انسانی طرزحیات میں ترقی کے نام پر کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر، سرمایہ کاری نظام کے لیے پیدا کی جانے والی مصنوعات اور ان کی تشہیر کے لیے استعمال کیے جانے والے صوتی آلات، مواصلاتی نظام کی ترسیل کے لیے تعمیر کیے جانے والے بلند وبالا موبائل فون ٹاورز سے پیدا ہونے والا شور نہ صرف صوتی آلودگی میں اضافہ کر رہاہے بل کہ غیرمحسوس طریقے سے بنی نوع انسان کو نفسیاتی اور بہت سے جسمانی عوارض میں بھی مبتلا کر رہے ہیں، جن میں ارتکاز توجہ میں کمی، لوگوں میں قوت برداشت کی کمی جیسے جسمانی اور نفسیاتی عوارض شامل ہیں۔
صوتی آلودگی دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں کو زیادہ تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق رہنے کے لیے مناسب گھر دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ جُڑا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ رہائش کے لیے بڑے پیمانے پر درختوں، جنگلوں کو کاٹ کر چٹیل میدانوں کی شکل دی گئی۔
ایک صدی قبل تک رہائش کے لیے کچے یا ایک منزلہ روشن و ہوادار گھر بنانے کا رجحان تھا۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور رہائش کے لیے جگہ کی تنگی نے کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر کو فروغ دیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس رقبے پر پہلے ایک یا دو گھر بنتے تھے اور دس پندرہ افراد رہا کرتے تھے، اسی جگہ کو فلیٹوں کی شکل دے کر سیکڑوں افراد کی رہائش کے قابل بنا دیا گیا۔ ان تمام تر عوامل کے نتیجے میں نہ صرف لوگ تازہ ہوا اور سورج کی روشنی سے محروم ہوئے بل کہ اس جگہ پیدا ہونے والے شور کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔ بڑے پیمانے پر ہونے والی ناقص اور بے ہنگم تعمیرات، پبلک ٹرانسپورٹ کے غیرمعیاری نظام اور پتھاروں نے دنیا بھر میں صوتی آلودگی کی شرح میں تیزی سے اضافہ کیا۔ ماہرین کے مطابق کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر سے نہ صرف اس علاقے اور شہر کی صوتی اور مادی خصوصیات میں منفی اثرات وقوع پذیر ہوتے ہیں بل کہ یہ قدرتی ماحول کو تباہ کرکے اس شہر کی خوب صورتی کو بھی کم کردیتی ہے۔
دنیا بھر میں طویل عرصے تک شور سے پیدا ہونے والی آلودگی کو نظرانداز کیا جاتا رہا، تاہم اب ترقی یافتہ ممالک صوتی آلودگی کے سدباب اور اس پر قابو پانے کے لیے سنجیدگی سے کوششیں کر رہے ہیں۔ دورحاضر میں ''صوتی آلودگی'' ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے لیکن ہم ابھی تک شُترمرغ کی طرح ریت میں سر چپھائے اس اہم مسئلے سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین ماحولیات صوتی آلودگی میں کمی کے لیے مختلف تدابیر اختیار کر رہے ہیں، لیکن پاکستان میں اس کے بالکل برعکس ہورہا ہے۔
مذہبی تہوار ہو یا سیاسی جلسہ، جشن آزادی ہو یا کھیل کے میدان میں فتح ، ہم لاؤڈ اسپیکر، ہارن، تیز موسیقی اور موٹر سائیکلوں کے ہارن نکال کر شور مچانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم دانستہ اور نادانستہ طور پر شور کی آلودگی کو نظرانداز کر رہے ہیں جب کہ اسی صوتی آلودگی کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں سماعت اور ذہنی دباؤ جیسے مسائل بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ آواز کے دباؤ کی پیمائش ''ڈیسی بل' میں کی جاتی ہے۔ اوسطاً ایک عام آدمی زیرو ڈیسی بل تک کی آواز سن سکتا ہے۔ پتوں کی سرسراہٹ زیرو ڈیسی بل ہوتی ہے۔ 85 ڈیسی بل یا اس سے زیادہ ایکسپوژر سے کانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ صوتی آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں فالج اور دل کی بیماریاں سرفہرست ہیں۔ علمی ادارہ صحت کے مطابق صوتی آلودگی موٹاپے اور بے خوابی جیسے مسائل میں بھی اضافہ کر رہی ہے۔ زیادہ شور والی جگہ میں رہنے والے افراد درج بالا بیماریوں کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مسائل سر درد، بے چینی اور متلی کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
شور کی آلودگی بھی ماحولیاتی آلودگی کی ایک قسم ہے، جسے ہمارے ملک میں کسی بھی طور اہمیت نہیں دی جارہی، حالاںکہ یہ ان دیکھی آلودگی ہماری زندگیوں، جسمانی و ذہنی صحت اور ترقی پر براہِ راست اور بلاواسطہ بہت زیادہ اثرات مرتب کررہی ہے۔ مثلاً شور کے حد سے زیادہ بڑھنے سے یہ سننے کی حِس کو بری طرح تباہ کردیتی ہے۔ اگر اس کا مقابلہ گرمی اور روشنی کی آلودگی سے کیا جائے تو شور کی آلودگی کے عناصر ہمیں کہیں نہیں دکھائی دیں گے مگر آواز کی لہریں قدرتی لہروں کی موجودگی میں خطرات کو بڑھادیتی ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت (WHO)نے شور کی سطح کے معیار مقرر کر رکھے ہیں۔ شور کا پیمانہ ڈیسی بل ہے اور عالمی ادارۂ صحت کے مطابق رہائشی علاقوں میں شور کی حد 45، کمرشیل علاقوں میں 55 اور صنعتی علاقوں میں 65 ڈیسی بل ہے۔ کچھ عرصہ قبل یورپ میں صوتی آلودگی اور امراضِ قلب کے مابین ربط کو جاننے کے لیے ایک سروے کیا گیا۔ محققین نے یورپ کے 5 شہروں سوئیڈن، ناروے، جرمنی، ڈنمارک اور اسپین کے چالیس ہزار شہریوں کا 5 سے 9 سال تک جائزہ لینے کے ساتھ ہر ہفتے ان شہروں میں صوتی آلودگی کی جانچ بھی کی۔ سروے میں سامنے آیا کہ وہ علاقے جہاں شور کی سطح بلند تھی ان علاقوں کے رہائشیوں میں ہائی بلڈ پریشر کی ابتدائی علامات ظاہر ہونا شروع ہوگئی۔
دنیا بھر میں صوتی آلودگی میں سب سے اہم کردار ٹریفک کے شور کا ہے۔ پاکستان اقتصادی سروے کے مطابق کراچی میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد سوا کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، جن میں بل ڈوزر، واٹر ٹینکرز، بسیں، موٹر سائیکل، کار اور ٹرک وغیرہ شامل ہیں۔ کراچی میں ان گاڑیوں اور ان میں بجنے والے پریشر ہارن کا شور، موسیقی کا شور، ریل گاڑیوں کا شور اور ہر محلے میں چلنے والے درجنوں کی تعداد میں جنریٹر کے شور نے شہریوں کی اکثریت کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کردیا ہے۔ چند سال قبل کراچی میں ٹریفک کی وجہ سے ہونے والی آلودگی پر ایک تحقیق کی گئی۔
اس ریسرچ میں کراچی کے مصروف ترین علاقوں میں صوتی آلودگی کی پیمائش کی گئی، جس کے مطابق صوتی آلودگی پھیلانے میں سرفہرست آٹو رکشا رہے۔ آٹو رکشوں سے پیدا ہونے والا کم سے کم شور 81ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ 115ڈیسی بل ریکارڈ کیا گیا۔ شور پیدا کرنے میں دوسرے نمبر پر منی بس رہی ، جس سے پیدا ہونے والا کم از کم شور 85 ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ 115ڈیسی بل، بس سے پیدا ہونے والا شور کم از کم 83 ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ 100ڈیسی بل، موٹر سائیکل سے پیدا ہونے والا کم ازکم شور 82 ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ 115ڈیسی بل، ٹرک سے پیدا ہونے والا کم از کم شور 85 ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ 100ڈیسی بل، پک اپ سے پیدا ہونے والا کم از کم شور86 ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ 100ڈیسی بل، واٹر ٹینکر سے پیدا ہونے والا کم از کم شور 95ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ شور100ڈیسی بل اور کار سے پیدا ہونے والا کم از کم شور 65ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ شور 80 ڈیسی بل ریکارڈ کیا گیا۔ جب کہ تجارتی علاقوں میں شور کی اوسط سطح 96ڈیسی بل اور رہائشی علاقوں میں 60ڈیسی بل ریکارڈ کی گئی، جو کہ بین الاقومی معیار کے مطابق بہت زیادہ ہے۔ اس تحقیق میں شامل کراچی کے رہائشی اور تجارتی علاقوں میں شور کی سطح کچھ اس طرح رہی۔
٭صوتی آلودگی کی وجہ سے ظاہر ہونے والی علامات
جو کان شور سے متاثر ہوچکے ہوتے ہیں، ان کے متاثر ہونے کی علامت یہ ہے کہ متاثرہ شخص کو اپنے کان میں ہلکی سی سیٹی کی آواز آنا شروع ہوجاتی ہے جب کہ یہ آواز ماحول میں کہیں بھی موجود نہیں ہوتی اور ساتھ ہی آہستہ آہستہ یہ آواز مستقل ہوجاتی ہے۔ کچھ لوگوں کو سر درد کی شکایت بھی ہوتی ہے جب کہ بعض افراد کو اونچا سنائی دینے لگتا ہے۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق درخت بھی شور کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں کیوںکہ درخت شور کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا بڑے شہروں میں زیادہ سے زیادہ درخت لگنے چاہییں تاکہ وہ ماحول کی آلودگی کے ساتھ شور کی آلودگی کو بھی کم کریں۔ ایک اور تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی ان لوگوں پر خاص طور پر منفی اثرات ڈالتی ہے جو کھلی فضا میں کام کرتے ہیں جیسے مزدور اور کسان وغیرہ۔ ماہرین کے مطابق یہ کھلی فضا میں کام کرنے والے افراد کی استعداد کو متاثر کرتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی کارکردگی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔
حال ہی میں کیے گئے سروے کے مطابق گنجان آباد علاقوں میں شور کا تناسب پچھلے 10سال میں تیزی سے بڑھا ہے۔ ماہرین کے مطابق رہائشی علاقوں میں شور کا تناسب 80 ڈیسی بل ہونا چاہیے مگر کراچی کے رہائشی علاقوں میں شور کا تناسب مختلف وجوہات کی بنا پر تیزی سے بڑھتا جارہا ہے، آواز کی آلودگی کے بہت سے عوامل عوام کی روزمرہ کی زندگی میں شامل ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے سب سے زیادہ 10 سال سے کم عمر بچے متاثر ہو رہے ہیں، بڑوں میں بھی مستقل شور والے ماحول میں رہنے کے سبب سر درد، چڑچڑے پن اور دیگر نفسیاتی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
کراچی میں خصوصاً خستہ حال بسوں میں بجنے والے پریشر ہارن کا شور،موسیقی کا شور، ہوائی جہاز، ریل گاڑیوں کا شور، ہر محلے میں میں چلنے والے درجنوں کی تعداد میں جنریٹرز کے شور نے عوام کو مستقل رہنے والی ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔ سونے پر سہاگہ وہ افراد جو کسی فیکٹری یا ریلوے ٹریک کے اطراف رہتے ہیں ان میں قوت سماعت متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ ماہرینِ ماحولیات کے مطابق کراچی میں مختلف آوازوں کے امتزاج سے شہر میں صوتی آلودگی پیدا ہوگئی ہے، جو نہ صرف انسان کی قوت سماعت بل کہ بہت سی چیزوں کی خوب صورتی کو بھی متاثر کررہی ہے۔
صوتی آلودگی کے اسباب
صوتی آلودگی کا سبب بننے والے عوامل تو بے تحاشا ہیں، لیکن یہاں ان میں سے چند اہم عوامل کا ذکر کیا جارہا ہے۔
٭ انڈسٹریلائزیشن : صوتی آلودگی کے پھیلاؤ میں اہم کردار صنعتوں کا بھی ہے۔ بھاری مشینوں کے استعمال سے شور پیدا ہوتا ہے، جب کہ ان مشینوں کو چلانے کے لیے استعمال ہونے والے کمپریسر، جنریٹرز، ایگزاسٹ فین، گرائنڈنگ مشینیں مل کر اس شور میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو اس ماحول میں کام کرنے والے افراد شو ر سے تحفظ کے لیے ایئر پلگ استعمال کرتے ہیں، تاہم پاکستان میں ماسوائے کثیرالقومی کمپنیوں کے اس طرح کے حفاظتی آلات کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے کارخانوں، فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی اکثریت اونچا بولنے اور اونچا سننے کی عادی ہوجاتی ہے۔
٭ناقص شہری پلاننگ: تنگ و تاریک گلیوں، چھوٹے گھروں، ایک گھر میں زیادہ افراد کی رہائش، شہری آبادیوں کے نزدیک بس اڈوں، ریلوے اسٹیشنز اور ہوائی اڈوں کی تعمیر غیرمحسوس طریقے سے اس کے گردونواح میں رہنے والے افراد کی سننے کی حس ختم کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کسی بھی قسم کی تعمیرات ٹاؤن پلاننگ کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہیں۔ گیس، پیٹرول اسٹیشن گھروں سے کتنا دور ہونا چاہیے ، مرکزی سڑک، بس اڈے یا ایئر پورٹ سے شہری آبادی کتنی دور ہونی چاہیے، گلیوں محلوں میں تعمیرات کس طرح ہونی چاہییں، کسی بھی شہر کی آباد کاری میں سب سے پہلے ان باتوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ لیکن پاکستان خصوصاً کراچی جیسے گنجان آباد شہر میں شہری منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے۔
٭ سماجی تقریبات : پاکستان میں موسیقی، لاؤڈ اسپیکر اور شور شرابہ ہر سماجی تقریب کی خاصیت ہوتے ہیں۔ تقریب چاہے سیاسی ہو، شادی کی ہو، یا کسی مذہبی دن کی، اس کے منتظمین بڑے بڑے لاؤڈ اسپیکر کی مدد سے اپنی تقریب میں پڑوسیوں کو شامل کرنا اہم فرض سمجھتے ہیں۔ آپ اگر کسی عبادت گاہ، شادی ہال یا کسی ایسی جگہ جو سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہو کے قریب رہتے ہیں تو پھر آپ کو باقاعدگی سے کسی ای این ٹی یا آڈیولوجسٹ سے اپنا چیک اب کرواتے رہنا چاہیے۔ تقریبات کے علاوہ شہرقائد میں گذشتہ چند سال سے پیدا ہونے والے ایک نئے رجحان نے بھی صوتی آلودگی میں اپنا حصہ شامل کرنا شروع کردیا ہے۔ کسی بڑے شاپنگ مال کا افتتاح ہو یا گلی کے نکڑ پر کھلنے والی دودھ کی دکان، افتتاح کے پہلے ہفتے اخلاقیات کو پامال کرتے ہوئے بلند آواز میں سات سات، دس دس گھنٹے تک کان پھاڑ دینے والی آواز میں گانے چلانا ایک روایت بنتی جا رہی ہے، جو نہ صرف اس ماحول میں رہنے والوں بل کہ اطراف کے لوگوں کی سننے کی حس کو متاثر کر رہی ہے۔
٭ ذرایع آمدورفت: اگر کبھی آپ کو کراچی کے پُرانے علاقوں صدر، گولیمار، ایم اے جناح روڈ جانے کا اتفاق ہوا ہو تو پھر یقیناً آپ اس تجربے سے بھی گزر چکے ہوں گے کہ آپ ایک خوانچہ فروش کے لاؤڈاسپیکر پر بلند آواز میں اس پراڈکٹ کی خصوصیت پر غور کر رہے ہوتے ہیں کہ اسی اثنا میں کسی موٹر سائیکل، رکشہ، ٹیکسی یا بس کے کان پھاڑ دینے والے ہارن کی آواز آپ کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کردیتی ہے۔ ایمبولینسوں، پولیس موبائلوں کا بلاضرورت ہوٹر کا استعمال، پابندی کے باجود ممنوعہ ہارن کا استعمال نہ صرف عام شہریوں بلکہ اس طرح کے گنجان آباد علاقوں میں رہنے والے افراد کو سماعت سے محروم کر رہا ہے، اس کا دل چسپ پہلو تو یہ ہے کہ ہارن، ہوٹر کے بے جا استعمال کے قانون کو لاگو کروانے کی پابند ٹریفک پولیس ہی چند روپوں کے عوض اس اہم مسئلے سے چشم پوشی کر رہی ہے اور صوتی آلودگی سے متاثر بھی سب سے زیادہ ٹریفک پولیس اہل کار ہی ہورہے ہیں۔ کراچی کی سڑکوں پر فٹنس سے محروم کان پھاڑ دینے والے رکشوں کی آواز کئی دہائیوں تک صوتی آلودگی میں برابر کا حصہ ڈالتی رہی۔ تاہم کچھ سال قبل ان پر مکمل پابندی عاید کردی گئی۔
٭گھریلو سرگرمیاں: دنیا بھر میں ٹیکنالوجی میں ہونے والی نت نئی جدت نے عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں پیدا کیں۔ ٹیلی ویژن، اسمارٹ فون، انٹرنیٹ سے دنیا آپ کی انگلی کی نوک پر آگئی تو دوسری جانب سل بٹے کی جگہ مسالا پیسنے کے لیے برقی مشین، گوشت گلانے کے لیے پریشر کوکر، صفائی کے لیے جھاڑو کی جگہ ویکیوم کلینر، کپڑے دھونے اور سکھانے کے لیے واشنگ مشین اور ڈرائر، پنکھے کی جگہ روم کولر اور ایئر کنڈیشنرز نے لے لی۔ بہ ظاہر ان سب چیزوں نے انسانی زندگی کو مزید سہل بنادیا، لیکن دیگر ماحولیاتی نْقصانات کے ساتھ ساتھ یہ آلات صوتی آلودگی میں بھی حصہ بہ قدر جثہ ادا کر رہے ہیں۔ ان آلات سے پیدا ہونے والا شور بہ ظاہر ہمارے معمولات زندگی کا ایک حصہ بن چکا ہے، لیکن اس کا مشاہدہ اس وقت ہوتا ہے جب اچانک بجلی چلی جائے تو کمرے میں موجود خاموشی اس قدر دبیز ہوتی ہے کہ سوئی گرنے کی آواز بھی سنائی دے۔ ان میں سے کچھ آلات بہ ظاہر یہ آلات اتنی آواز پیدا نہیں کرتے جو انسانی کانوں کو متاثر کرسکیں، لیکن ان آلات سے پیدا ہونے والی معمولی آواز پرندوں، حشرات الارض اور دیگر جانوروں کے لیے موت کا پیغام ہے۔
صوتی آلودگی سے صحت پر مرتب ہونے والے نقصانات
جب کوئی آواز ناگوار گزرے یا اتنی زیادہ ہو کہ زندگی کو متاثر کرنے لگے تو ہم اسے شور کا نام دیتے ہیں۔ شور کی آلودگی ہمارے کس حد تک نقصان دہ ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر کامل خان کا کہنا ہے،''ہمیں سب سے پہلے شور کی تعریف کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے کہ شور کہتے کسے ہیں؟ شور سے متعلق بہت کم لوگوں کو آگاہی ہے۔ شور ہماری زندگی میں آہستہ آہستہ داخل ہوتا ہے اور اگر شور حد سے بڑھ جائے یا ہم مستقل اس کے دائرے میں رہیں تو ہماری سماعت متاثر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔'' ڈاکٹر کامل خان کے مطابق شور اسی دن پیدا ہوگیا تھا جس دن ٹیکنالوجی نے جنم لیا تھا اور ٹیکنالوجی اس دن پیدا ہوئی جب انسان نے پہیا ایجاد کرلیا۔ پہیا ہمارے آباؤ اجداد سے لے کر آج تک ہماری ٹیکنالوجی کا ایک اہم رکن ہے، جس دن پہیا وجود میں آیا اس نے شور مچانا شروع کر دیا اور اسی دن سے شور ہماری زندگی میں داخل ہوگیا۔ ان کا کہنا ہے،''بنیادی طور پر شور کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، اول، ٹریفک کا شور، دویم ہوائی جہازوں کا شور جو کہ ہوائی اڈوں اور اس کے ملحقہ علاقوں میں پایا جاتا ہے اور تیسرا صنعتی شور۔اب ہم بات کرتے ہیں انسانی کان کی۔
انسانی کان ایک پیچیدہ آلہ ہے جو کہ ہمارے اعصاب بل کہ مرکزی عصبی نظام سے جُڑا ہوتا ہے ۔ عمومی طور پر ایک نارمل انسان بیس، پچیس ہزار ہرٹز تک کی مختلف آوازیں سُن سکتا ہے۔ ہمیں روز مرہ کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ 60 سے 65 ڈیسی بَل تک کی آوازوں سے واسطہ رہتا ہے، اس سے زیادہ شور انسانی کان کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے، 85 ڈیسی بَل آگے کا شور بہ مطابقِ دورانیہ عارضی یا مستقل بہرے پن کا سبب بنتا ہے۔ مسلسل شور میں رہنے سے قوّت سماعت متاثر ہوتی ہے۔
متاثرہ فرد چِِڑچِڑے پن اور بد خوابی کا شکار ہوجاتا ہے۔ مختلف نفسیاتی عوارض پیدا ہوجاتے ہیں۔ اعتماد کی کمی و احساس کمتری (جو نفسیاتی امراض کی ماں ہے) ہوجاتی ہے۔ زیادہ شور میں رہنے والے بوڑھے اور اور ادھیڑ عمر کے افراد کو دل کے اور دل کی نالیوں کے امراض کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے، خاص کر تیز دھمَک دل کے دورے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ شور حاملہ خواتین اور خاص کر ان کے حمل کے لیے نقصان دہ ہے۔ کان کے ایک لاعلاج مرض'' Tinnitus''(اس مرض میں کانوں میں سیٹیاں سی بجنی شروع ہوجاتی ہیں، جب کہ یہ آواز ماحول میں کہیں موجود نہیں ہوتی) کا سبب بھی بہت سے ماہرین صوتی آلودگی کو قرار دیتے ہیں، تاہم ابھی تک اس کی کوئی واضح وجہ سامنے نہیں آسکی ہے لیکن مسلسل و مستقل شور بھی ایک اہم وجہ ہوسکتی ہے۔
اگر ہم بات کریں اس کے تدارُک کی تو بہ ظاہر یہ کچھ مشکل نظر آتا ہے۔ خاص کر شہری اور صنعتی علاقوں میں چوںکہ عمومی شور گاڑیوں ٹریفک اور مشینوں کا ہی ہوتا ہے۔ بالخصوص ان میں موجود طرح طرح کے ہارن، مخصوص کُھلے ہُوئے سائیلنسرز جو کہ آج کل ایک فیشن کی صورت اختیار کر گئے ہیں، جب کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے تقریباً ہر گھر میں جنریٹرز کا استعمال بھی عام ہوگیا ہے اور ان سے پیدا ہونے والا شور بھی صوتی آلودگی بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ کچھ لوگوں کو سر درد کی شکایت ہوتی ہے، جب کہ بعض افراد کو اونچا سنائی دینے لگتا ہے۔
یہ واحد علامت ہے جسے سب سے پہلے گھر والے نوٹ کرتے ہیں۔ ان جگہوں پہ جہاں شور مُستقل اور مجبوراً بہت زیادہ ہورہا ہے۔ انفرادی طور پر اپنے کانوں میں حفاظتی آلات یا کم از کم ایئر پَلگ لگا کر کانوں کی حفاظت کی جاسکتی ہے، جو بہت سادہ آسان اور سستا حل ہے۔ اجتماعی طور پر عوامی آگاہی مہم چلانی چاہیے۔ آلودگی سے متعلق موجود قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
صوتی آلودگی کے بچوں پر بھی بہت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بچوں میں چڑچڑاپن، بے زاری، ارتکاز توجہ اور سیکھنے سمجھنے کی صلاحیت میں انتہائی کمی، الفاظ و تلفظ کی ادائیگی میں مشکل، چیخ چیخ کر بلند آواز میں بولنا، جلدبازی کا مُظاہرہ، تنہائی پسندی و ملنساری کا فقدان، نشوونما اور تخلیقی صلاحیتوں میں کمی بھی ان کی صوتی آلودگی سے متاثر ہونے کی چند علامتوں میں سے ہے۔ آج کل کے نوجوان ہیڈ فون استعمال کر رہے ہیں جو انتہائی مُضر ہے۔ جسمانی اعتبار سے تو سماعت کا متاثر ہونا لازمی امر ہے۔
یہاں تک کہ اگر ایئر بَڈز جو کان کو بالکل بند کرنے کا باعث ہوتے ہیں کے مستقل اور کئی گھنٹوں استعمال سے کان کے پردے کی سوزش یا پردے کا پھٹ جانا، عارضی اور یہاں تک کہ ناقابلِ علاج اعصابی بہرا پن سامنے آسکتا ہے۔ نفسیاتی طور پر معاشرے سے لاتعلقی و دوری (ISOLATION & Disorientation )کا سبب بھی ہے جو کہ پاگل پن کا پہلا زینہ ہوتا ہے۔ صوتی آلودگی نہ صرف انسانوں بل کہ جنگلی حیات خاص کر پرندوں اور آبی حیات کے لیے تو بہت ہی نقصان دہ ہے۔ شور ہمارے فطری نظام پر بہت منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے پرندے جو کہ رابطے کے لیے مخصوص آواز استعمال کرتے ہیں، آہٹ کی بنیاد پر اپنا شکار کرتے ہیں، افزائشِ نسل کے لیے بھی آوازوں سے ہی رابطہ کرتے ہیں۔
صوتی آلودگی ان کی یہ ساری کی ساری صلاحیتیں زائل کر رہی ہے۔ ڈاکٹر کامل خان کا کہنا ہے،''فیکٹری کے شور کو کم کروانے کے لیے ماحولیاتی اداروں کو چاہیے کہ وقتاً فوقتاً فیکٹریوں کا دورہ کرتے رہیں اور انہیں شور کو کم کرنے کے لیے پابند کریں کہ وہ شور کو 86 ڈیسی بَل سے کم کریں تاکہ سماعت کو نقصان نہ پہنچیں۔'' ٹریفک کے شور سے بھی حفاظت ممکن ہے، ہارن کے غیر ضروری استعمال کے ساتھ ساتھ پریشر ہارن، شور مچانے والے رکشوں اور بغیر سائلینسر موٹر سائیکلوں پر کنٹرول کیا جائے۔
قدرت نے ہر شے کو اعتدال میں رکھا ہے، بارش کی بوندوں کی ٹپ ٹپ سے بننے والی جلترنگ، بلند و بالا پہاڑوں سے گرتے آبشاروں کی مُدھر آواز، بہتے جھرنوں کی گنگناہٹ، سمندری لہروں کا شور، چڑیوں کی چہچاہٹ، کوئل کی کوکو، ہوا سے لہراتے سبز پتوں کی سرسراہٹ، یہ سب ایسی آوازیں ہیں جو کہ نعمت خداوندی ہیں۔
سریلی اور نقرئی آواز کی مدح سرائی میں کئی مشہور شاعروں نے دیوان کے دیوان لکھ دیے۔ لیکن حرص کا شکار انسان خود اپنے ہاتھوں اپنی بربادی کا سامان پیدا کر رہا ہے۔ شہری علاقوں سے کوئل کی کوک اور چڑیوں کی چہچہاہٹ کو روٹھے عرصہ گزر گیا۔
چاروں جانب سے بند گھروں نے ہمیں بارش کی جلترنگ سننے سے محروم کردیا۔ ان سریلی آوازوں کی جگہ پولیس موبائل، ایمبولینسوں کے ہوٹرز، تشہیری، سیاسی اور مذہبی مقاصد کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے بے ہنگم شور، مرکزی شاہراہوں پر فٹنس نام کی چیز سے نا آشنا بے ہنگم طریقے سے شور مچاتی بسوں، رکشوں اور موٹر سائیکلوں کی غراہٹوں نے لے لی ہے۔
یہ سب مل کر ہمارے شہروں خاص طور پر شہرِقائد کراچی کے عوام کو صوتی آلودگی کی شکل میں ایسا زہر دے رہیں ہیں جو نہ صرف یہاں کہ باسیوں کو آہستہ آہستہ سماعت سے محروم کر رہا ہے، بل کہ انہیں چڑچڑے پن، بلند فشار خون، ہارٹ اٹیک اور مختلف نفسیاتی عوارض میں مبتلا کر رہا ہے۔ کرۂ ارض کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت اور موسمی تغیرات کے باعث پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک نے آلودگی میں کمی اور کلائمیٹ چینج جیسے مسائل پر سنجیدگی سے کام کرنا شروع کردیا ہے۔ تاہم پاکستان میں اکثریت کے نزدیک آلودگی کا مطلب صرف فضائی یا آبی آلودگی ہے، لیکن آلودگی کو صرف دو، تین درجوں تقسیم کرنا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ آلودگی کی ایک سب سے غیرمعروف لیکن سب سے نقصان دہ شکل صوتی آلودگی ہے۔
صوتی آلودگی قدرتی ماحول میں غیرفطری طریقے سے پیدا ہونے والی منفی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ آلودگی ہمارے صوتی حصوں کو متاثر کرتی ہے۔ انسانی طرزحیات میں ترقی کے نام پر کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر، سرمایہ کاری نظام کے لیے پیدا کی جانے والی مصنوعات اور ان کی تشہیر کے لیے استعمال کیے جانے والے صوتی آلات، مواصلاتی نظام کی ترسیل کے لیے تعمیر کیے جانے والے بلند وبالا موبائل فون ٹاورز سے پیدا ہونے والا شور نہ صرف صوتی آلودگی میں اضافہ کر رہاہے بل کہ غیرمحسوس طریقے سے بنی نوع انسان کو نفسیاتی اور بہت سے جسمانی عوارض میں بھی مبتلا کر رہے ہیں، جن میں ارتکاز توجہ میں کمی، لوگوں میں قوت برداشت کی کمی جیسے جسمانی اور نفسیاتی عوارض شامل ہیں۔
صوتی آلودگی دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں کو زیادہ تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق رہنے کے لیے مناسب گھر دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ جُڑا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ رہائش کے لیے بڑے پیمانے پر درختوں، جنگلوں کو کاٹ کر چٹیل میدانوں کی شکل دی گئی۔
ایک صدی قبل تک رہائش کے لیے کچے یا ایک منزلہ روشن و ہوادار گھر بنانے کا رجحان تھا۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور رہائش کے لیے جگہ کی تنگی نے کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر کو فروغ دیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس رقبے پر پہلے ایک یا دو گھر بنتے تھے اور دس پندرہ افراد رہا کرتے تھے، اسی جگہ کو فلیٹوں کی شکل دے کر سیکڑوں افراد کی رہائش کے قابل بنا دیا گیا۔ ان تمام تر عوامل کے نتیجے میں نہ صرف لوگ تازہ ہوا اور سورج کی روشنی سے محروم ہوئے بل کہ اس جگہ پیدا ہونے والے شور کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔ بڑے پیمانے پر ہونے والی ناقص اور بے ہنگم تعمیرات، پبلک ٹرانسپورٹ کے غیرمعیاری نظام اور پتھاروں نے دنیا بھر میں صوتی آلودگی کی شرح میں تیزی سے اضافہ کیا۔ ماہرین کے مطابق کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر سے نہ صرف اس علاقے اور شہر کی صوتی اور مادی خصوصیات میں منفی اثرات وقوع پذیر ہوتے ہیں بل کہ یہ قدرتی ماحول کو تباہ کرکے اس شہر کی خوب صورتی کو بھی کم کردیتی ہے۔
دنیا بھر میں طویل عرصے تک شور سے پیدا ہونے والی آلودگی کو نظرانداز کیا جاتا رہا، تاہم اب ترقی یافتہ ممالک صوتی آلودگی کے سدباب اور اس پر قابو پانے کے لیے سنجیدگی سے کوششیں کر رہے ہیں۔ دورحاضر میں ''صوتی آلودگی'' ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے لیکن ہم ابھی تک شُترمرغ کی طرح ریت میں سر چپھائے اس اہم مسئلے سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین ماحولیات صوتی آلودگی میں کمی کے لیے مختلف تدابیر اختیار کر رہے ہیں، لیکن پاکستان میں اس کے بالکل برعکس ہورہا ہے۔
مذہبی تہوار ہو یا سیاسی جلسہ، جشن آزادی ہو یا کھیل کے میدان میں فتح ، ہم لاؤڈ اسپیکر، ہارن، تیز موسیقی اور موٹر سائیکلوں کے ہارن نکال کر شور مچانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم دانستہ اور نادانستہ طور پر شور کی آلودگی کو نظرانداز کر رہے ہیں جب کہ اسی صوتی آلودگی کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں سماعت اور ذہنی دباؤ جیسے مسائل بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ آواز کے دباؤ کی پیمائش ''ڈیسی بل' میں کی جاتی ہے۔ اوسطاً ایک عام آدمی زیرو ڈیسی بل تک کی آواز سن سکتا ہے۔ پتوں کی سرسراہٹ زیرو ڈیسی بل ہوتی ہے۔ 85 ڈیسی بل یا اس سے زیادہ ایکسپوژر سے کانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ صوتی آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں فالج اور دل کی بیماریاں سرفہرست ہیں۔ علمی ادارہ صحت کے مطابق صوتی آلودگی موٹاپے اور بے خوابی جیسے مسائل میں بھی اضافہ کر رہی ہے۔ زیادہ شور والی جگہ میں رہنے والے افراد درج بالا بیماریوں کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مسائل سر درد، بے چینی اور متلی کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
شور کی آلودگی بھی ماحولیاتی آلودگی کی ایک قسم ہے، جسے ہمارے ملک میں کسی بھی طور اہمیت نہیں دی جارہی، حالاںکہ یہ ان دیکھی آلودگی ہماری زندگیوں، جسمانی و ذہنی صحت اور ترقی پر براہِ راست اور بلاواسطہ بہت زیادہ اثرات مرتب کررہی ہے۔ مثلاً شور کے حد سے زیادہ بڑھنے سے یہ سننے کی حِس کو بری طرح تباہ کردیتی ہے۔ اگر اس کا مقابلہ گرمی اور روشنی کی آلودگی سے کیا جائے تو شور کی آلودگی کے عناصر ہمیں کہیں نہیں دکھائی دیں گے مگر آواز کی لہریں قدرتی لہروں کی موجودگی میں خطرات کو بڑھادیتی ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت (WHO)نے شور کی سطح کے معیار مقرر کر رکھے ہیں۔ شور کا پیمانہ ڈیسی بل ہے اور عالمی ادارۂ صحت کے مطابق رہائشی علاقوں میں شور کی حد 45، کمرشیل علاقوں میں 55 اور صنعتی علاقوں میں 65 ڈیسی بل ہے۔ کچھ عرصہ قبل یورپ میں صوتی آلودگی اور امراضِ قلب کے مابین ربط کو جاننے کے لیے ایک سروے کیا گیا۔ محققین نے یورپ کے 5 شہروں سوئیڈن، ناروے، جرمنی، ڈنمارک اور اسپین کے چالیس ہزار شہریوں کا 5 سے 9 سال تک جائزہ لینے کے ساتھ ہر ہفتے ان شہروں میں صوتی آلودگی کی جانچ بھی کی۔ سروے میں سامنے آیا کہ وہ علاقے جہاں شور کی سطح بلند تھی ان علاقوں کے رہائشیوں میں ہائی بلڈ پریشر کی ابتدائی علامات ظاہر ہونا شروع ہوگئی۔
دنیا بھر میں صوتی آلودگی میں سب سے اہم کردار ٹریفک کے شور کا ہے۔ پاکستان اقتصادی سروے کے مطابق کراچی میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد سوا کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، جن میں بل ڈوزر، واٹر ٹینکرز، بسیں، موٹر سائیکل، کار اور ٹرک وغیرہ شامل ہیں۔ کراچی میں ان گاڑیوں اور ان میں بجنے والے پریشر ہارن کا شور، موسیقی کا شور، ریل گاڑیوں کا شور اور ہر محلے میں چلنے والے درجنوں کی تعداد میں جنریٹر کے شور نے شہریوں کی اکثریت کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کردیا ہے۔ چند سال قبل کراچی میں ٹریفک کی وجہ سے ہونے والی آلودگی پر ایک تحقیق کی گئی۔
اس ریسرچ میں کراچی کے مصروف ترین علاقوں میں صوتی آلودگی کی پیمائش کی گئی، جس کے مطابق صوتی آلودگی پھیلانے میں سرفہرست آٹو رکشا رہے۔ آٹو رکشوں سے پیدا ہونے والا کم سے کم شور 81ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ 115ڈیسی بل ریکارڈ کیا گیا۔ شور پیدا کرنے میں دوسرے نمبر پر منی بس رہی ، جس سے پیدا ہونے والا کم از کم شور 85 ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ 115ڈیسی بل، بس سے پیدا ہونے والا شور کم از کم 83 ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ 100ڈیسی بل، موٹر سائیکل سے پیدا ہونے والا کم ازکم شور 82 ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ 115ڈیسی بل، ٹرک سے پیدا ہونے والا کم از کم شور 85 ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ 100ڈیسی بل، پک اپ سے پیدا ہونے والا کم از کم شور86 ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ 100ڈیسی بل، واٹر ٹینکر سے پیدا ہونے والا کم از کم شور 95ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ شور100ڈیسی بل اور کار سے پیدا ہونے والا کم از کم شور 65ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ شور 80 ڈیسی بل ریکارڈ کیا گیا۔ جب کہ تجارتی علاقوں میں شور کی اوسط سطح 96ڈیسی بل اور رہائشی علاقوں میں 60ڈیسی بل ریکارڈ کی گئی، جو کہ بین الاقومی معیار کے مطابق بہت زیادہ ہے۔ اس تحقیق میں شامل کراچی کے رہائشی اور تجارتی علاقوں میں شور کی سطح کچھ اس طرح رہی۔
٭صوتی آلودگی کی وجہ سے ظاہر ہونے والی علامات
جو کان شور سے متاثر ہوچکے ہوتے ہیں، ان کے متاثر ہونے کی علامت یہ ہے کہ متاثرہ شخص کو اپنے کان میں ہلکی سی سیٹی کی آواز آنا شروع ہوجاتی ہے جب کہ یہ آواز ماحول میں کہیں بھی موجود نہیں ہوتی اور ساتھ ہی آہستہ آہستہ یہ آواز مستقل ہوجاتی ہے۔ کچھ لوگوں کو سر درد کی شکایت بھی ہوتی ہے جب کہ بعض افراد کو اونچا سنائی دینے لگتا ہے۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق درخت بھی شور کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں کیوںکہ درخت شور کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا بڑے شہروں میں زیادہ سے زیادہ درخت لگنے چاہییں تاکہ وہ ماحول کی آلودگی کے ساتھ شور کی آلودگی کو بھی کم کریں۔ ایک اور تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی ان لوگوں پر خاص طور پر منفی اثرات ڈالتی ہے جو کھلی فضا میں کام کرتے ہیں جیسے مزدور اور کسان وغیرہ۔ ماہرین کے مطابق یہ کھلی فضا میں کام کرنے والے افراد کی استعداد کو متاثر کرتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی کارکردگی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔
حال ہی میں کیے گئے سروے کے مطابق گنجان آباد علاقوں میں شور کا تناسب پچھلے 10سال میں تیزی سے بڑھا ہے۔ ماہرین کے مطابق رہائشی علاقوں میں شور کا تناسب 80 ڈیسی بل ہونا چاہیے مگر کراچی کے رہائشی علاقوں میں شور کا تناسب مختلف وجوہات کی بنا پر تیزی سے بڑھتا جارہا ہے، آواز کی آلودگی کے بہت سے عوامل عوام کی روزمرہ کی زندگی میں شامل ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے سب سے زیادہ 10 سال سے کم عمر بچے متاثر ہو رہے ہیں، بڑوں میں بھی مستقل شور والے ماحول میں رہنے کے سبب سر درد، چڑچڑے پن اور دیگر نفسیاتی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
کراچی میں خصوصاً خستہ حال بسوں میں بجنے والے پریشر ہارن کا شور،موسیقی کا شور، ہوائی جہاز، ریل گاڑیوں کا شور، ہر محلے میں میں چلنے والے درجنوں کی تعداد میں جنریٹرز کے شور نے عوام کو مستقل رہنے والی ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔ سونے پر سہاگہ وہ افراد جو کسی فیکٹری یا ریلوے ٹریک کے اطراف رہتے ہیں ان میں قوت سماعت متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ ماہرینِ ماحولیات کے مطابق کراچی میں مختلف آوازوں کے امتزاج سے شہر میں صوتی آلودگی پیدا ہوگئی ہے، جو نہ صرف انسان کی قوت سماعت بل کہ بہت سی چیزوں کی خوب صورتی کو بھی متاثر کررہی ہے۔
صوتی آلودگی کے اسباب
صوتی آلودگی کا سبب بننے والے عوامل تو بے تحاشا ہیں، لیکن یہاں ان میں سے چند اہم عوامل کا ذکر کیا جارہا ہے۔
٭ انڈسٹریلائزیشن : صوتی آلودگی کے پھیلاؤ میں اہم کردار صنعتوں کا بھی ہے۔ بھاری مشینوں کے استعمال سے شور پیدا ہوتا ہے، جب کہ ان مشینوں کو چلانے کے لیے استعمال ہونے والے کمپریسر، جنریٹرز، ایگزاسٹ فین، گرائنڈنگ مشینیں مل کر اس شور میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو اس ماحول میں کام کرنے والے افراد شو ر سے تحفظ کے لیے ایئر پلگ استعمال کرتے ہیں، تاہم پاکستان میں ماسوائے کثیرالقومی کمپنیوں کے اس طرح کے حفاظتی آلات کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے کارخانوں، فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی اکثریت اونچا بولنے اور اونچا سننے کی عادی ہوجاتی ہے۔
٭ناقص شہری پلاننگ: تنگ و تاریک گلیوں، چھوٹے گھروں، ایک گھر میں زیادہ افراد کی رہائش، شہری آبادیوں کے نزدیک بس اڈوں، ریلوے اسٹیشنز اور ہوائی اڈوں کی تعمیر غیرمحسوس طریقے سے اس کے گردونواح میں رہنے والے افراد کی سننے کی حس ختم کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کسی بھی قسم کی تعمیرات ٹاؤن پلاننگ کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہیں۔ گیس، پیٹرول اسٹیشن گھروں سے کتنا دور ہونا چاہیے ، مرکزی سڑک، بس اڈے یا ایئر پورٹ سے شہری آبادی کتنی دور ہونی چاہیے، گلیوں محلوں میں تعمیرات کس طرح ہونی چاہییں، کسی بھی شہر کی آباد کاری میں سب سے پہلے ان باتوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ لیکن پاکستان خصوصاً کراچی جیسے گنجان آباد شہر میں شہری منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے۔
٭ سماجی تقریبات : پاکستان میں موسیقی، لاؤڈ اسپیکر اور شور شرابہ ہر سماجی تقریب کی خاصیت ہوتے ہیں۔ تقریب چاہے سیاسی ہو، شادی کی ہو، یا کسی مذہبی دن کی، اس کے منتظمین بڑے بڑے لاؤڈ اسپیکر کی مدد سے اپنی تقریب میں پڑوسیوں کو شامل کرنا اہم فرض سمجھتے ہیں۔ آپ اگر کسی عبادت گاہ، شادی ہال یا کسی ایسی جگہ جو سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہو کے قریب رہتے ہیں تو پھر آپ کو باقاعدگی سے کسی ای این ٹی یا آڈیولوجسٹ سے اپنا چیک اب کرواتے رہنا چاہیے۔ تقریبات کے علاوہ شہرقائد میں گذشتہ چند سال سے پیدا ہونے والے ایک نئے رجحان نے بھی صوتی آلودگی میں اپنا حصہ شامل کرنا شروع کردیا ہے۔ کسی بڑے شاپنگ مال کا افتتاح ہو یا گلی کے نکڑ پر کھلنے والی دودھ کی دکان، افتتاح کے پہلے ہفتے اخلاقیات کو پامال کرتے ہوئے بلند آواز میں سات سات، دس دس گھنٹے تک کان پھاڑ دینے والی آواز میں گانے چلانا ایک روایت بنتی جا رہی ہے، جو نہ صرف اس ماحول میں رہنے والوں بل کہ اطراف کے لوگوں کی سننے کی حس کو متاثر کر رہی ہے۔
٭ ذرایع آمدورفت: اگر کبھی آپ کو کراچی کے پُرانے علاقوں صدر، گولیمار، ایم اے جناح روڈ جانے کا اتفاق ہوا ہو تو پھر یقیناً آپ اس تجربے سے بھی گزر چکے ہوں گے کہ آپ ایک خوانچہ فروش کے لاؤڈاسپیکر پر بلند آواز میں اس پراڈکٹ کی خصوصیت پر غور کر رہے ہوتے ہیں کہ اسی اثنا میں کسی موٹر سائیکل، رکشہ، ٹیکسی یا بس کے کان پھاڑ دینے والے ہارن کی آواز آپ کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کردیتی ہے۔ ایمبولینسوں، پولیس موبائلوں کا بلاضرورت ہوٹر کا استعمال، پابندی کے باجود ممنوعہ ہارن کا استعمال نہ صرف عام شہریوں بلکہ اس طرح کے گنجان آباد علاقوں میں رہنے والے افراد کو سماعت سے محروم کر رہا ہے، اس کا دل چسپ پہلو تو یہ ہے کہ ہارن، ہوٹر کے بے جا استعمال کے قانون کو لاگو کروانے کی پابند ٹریفک پولیس ہی چند روپوں کے عوض اس اہم مسئلے سے چشم پوشی کر رہی ہے اور صوتی آلودگی سے متاثر بھی سب سے زیادہ ٹریفک پولیس اہل کار ہی ہورہے ہیں۔ کراچی کی سڑکوں پر فٹنس سے محروم کان پھاڑ دینے والے رکشوں کی آواز کئی دہائیوں تک صوتی آلودگی میں برابر کا حصہ ڈالتی رہی۔ تاہم کچھ سال قبل ان پر مکمل پابندی عاید کردی گئی۔
٭گھریلو سرگرمیاں: دنیا بھر میں ٹیکنالوجی میں ہونے والی نت نئی جدت نے عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں پیدا کیں۔ ٹیلی ویژن، اسمارٹ فون، انٹرنیٹ سے دنیا آپ کی انگلی کی نوک پر آگئی تو دوسری جانب سل بٹے کی جگہ مسالا پیسنے کے لیے برقی مشین، گوشت گلانے کے لیے پریشر کوکر، صفائی کے لیے جھاڑو کی جگہ ویکیوم کلینر، کپڑے دھونے اور سکھانے کے لیے واشنگ مشین اور ڈرائر، پنکھے کی جگہ روم کولر اور ایئر کنڈیشنرز نے لے لی۔ بہ ظاہر ان سب چیزوں نے انسانی زندگی کو مزید سہل بنادیا، لیکن دیگر ماحولیاتی نْقصانات کے ساتھ ساتھ یہ آلات صوتی آلودگی میں بھی حصہ بہ قدر جثہ ادا کر رہے ہیں۔ ان آلات سے پیدا ہونے والا شور بہ ظاہر ہمارے معمولات زندگی کا ایک حصہ بن چکا ہے، لیکن اس کا مشاہدہ اس وقت ہوتا ہے جب اچانک بجلی چلی جائے تو کمرے میں موجود خاموشی اس قدر دبیز ہوتی ہے کہ سوئی گرنے کی آواز بھی سنائی دے۔ ان میں سے کچھ آلات بہ ظاہر یہ آلات اتنی آواز پیدا نہیں کرتے جو انسانی کانوں کو متاثر کرسکیں، لیکن ان آلات سے پیدا ہونے والی معمولی آواز پرندوں، حشرات الارض اور دیگر جانوروں کے لیے موت کا پیغام ہے۔
صوتی آلودگی سے صحت پر مرتب ہونے والے نقصانات
جب کوئی آواز ناگوار گزرے یا اتنی زیادہ ہو کہ زندگی کو متاثر کرنے لگے تو ہم اسے شور کا نام دیتے ہیں۔ شور کی آلودگی ہمارے کس حد تک نقصان دہ ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر کامل خان کا کہنا ہے،''ہمیں سب سے پہلے شور کی تعریف کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے کہ شور کہتے کسے ہیں؟ شور سے متعلق بہت کم لوگوں کو آگاہی ہے۔ شور ہماری زندگی میں آہستہ آہستہ داخل ہوتا ہے اور اگر شور حد سے بڑھ جائے یا ہم مستقل اس کے دائرے میں رہیں تو ہماری سماعت متاثر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔'' ڈاکٹر کامل خان کے مطابق شور اسی دن پیدا ہوگیا تھا جس دن ٹیکنالوجی نے جنم لیا تھا اور ٹیکنالوجی اس دن پیدا ہوئی جب انسان نے پہیا ایجاد کرلیا۔ پہیا ہمارے آباؤ اجداد سے لے کر آج تک ہماری ٹیکنالوجی کا ایک اہم رکن ہے، جس دن پہیا وجود میں آیا اس نے شور مچانا شروع کر دیا اور اسی دن سے شور ہماری زندگی میں داخل ہوگیا۔ ان کا کہنا ہے،''بنیادی طور پر شور کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، اول، ٹریفک کا شور، دویم ہوائی جہازوں کا شور جو کہ ہوائی اڈوں اور اس کے ملحقہ علاقوں میں پایا جاتا ہے اور تیسرا صنعتی شور۔اب ہم بات کرتے ہیں انسانی کان کی۔
انسانی کان ایک پیچیدہ آلہ ہے جو کہ ہمارے اعصاب بل کہ مرکزی عصبی نظام سے جُڑا ہوتا ہے ۔ عمومی طور پر ایک نارمل انسان بیس، پچیس ہزار ہرٹز تک کی مختلف آوازیں سُن سکتا ہے۔ ہمیں روز مرہ کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ 60 سے 65 ڈیسی بَل تک کی آوازوں سے واسطہ رہتا ہے، اس سے زیادہ شور انسانی کان کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے، 85 ڈیسی بَل آگے کا شور بہ مطابقِ دورانیہ عارضی یا مستقل بہرے پن کا سبب بنتا ہے۔ مسلسل شور میں رہنے سے قوّت سماعت متاثر ہوتی ہے۔
متاثرہ فرد چِِڑچِڑے پن اور بد خوابی کا شکار ہوجاتا ہے۔ مختلف نفسیاتی عوارض پیدا ہوجاتے ہیں۔ اعتماد کی کمی و احساس کمتری (جو نفسیاتی امراض کی ماں ہے) ہوجاتی ہے۔ زیادہ شور میں رہنے والے بوڑھے اور اور ادھیڑ عمر کے افراد کو دل کے اور دل کی نالیوں کے امراض کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے، خاص کر تیز دھمَک دل کے دورے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ شور حاملہ خواتین اور خاص کر ان کے حمل کے لیے نقصان دہ ہے۔ کان کے ایک لاعلاج مرض'' Tinnitus''(اس مرض میں کانوں میں سیٹیاں سی بجنی شروع ہوجاتی ہیں، جب کہ یہ آواز ماحول میں کہیں موجود نہیں ہوتی) کا سبب بھی بہت سے ماہرین صوتی آلودگی کو قرار دیتے ہیں، تاہم ابھی تک اس کی کوئی واضح وجہ سامنے نہیں آسکی ہے لیکن مسلسل و مستقل شور بھی ایک اہم وجہ ہوسکتی ہے۔
اگر ہم بات کریں اس کے تدارُک کی تو بہ ظاہر یہ کچھ مشکل نظر آتا ہے۔ خاص کر شہری اور صنعتی علاقوں میں چوںکہ عمومی شور گاڑیوں ٹریفک اور مشینوں کا ہی ہوتا ہے۔ بالخصوص ان میں موجود طرح طرح کے ہارن، مخصوص کُھلے ہُوئے سائیلنسرز جو کہ آج کل ایک فیشن کی صورت اختیار کر گئے ہیں، جب کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے تقریباً ہر گھر میں جنریٹرز کا استعمال بھی عام ہوگیا ہے اور ان سے پیدا ہونے والا شور بھی صوتی آلودگی بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ کچھ لوگوں کو سر درد کی شکایت ہوتی ہے، جب کہ بعض افراد کو اونچا سنائی دینے لگتا ہے۔
یہ واحد علامت ہے جسے سب سے پہلے گھر والے نوٹ کرتے ہیں۔ ان جگہوں پہ جہاں شور مُستقل اور مجبوراً بہت زیادہ ہورہا ہے۔ انفرادی طور پر اپنے کانوں میں حفاظتی آلات یا کم از کم ایئر پَلگ لگا کر کانوں کی حفاظت کی جاسکتی ہے، جو بہت سادہ آسان اور سستا حل ہے۔ اجتماعی طور پر عوامی آگاہی مہم چلانی چاہیے۔ آلودگی سے متعلق موجود قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
صوتی آلودگی کے بچوں پر بھی بہت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بچوں میں چڑچڑاپن، بے زاری، ارتکاز توجہ اور سیکھنے سمجھنے کی صلاحیت میں انتہائی کمی، الفاظ و تلفظ کی ادائیگی میں مشکل، چیخ چیخ کر بلند آواز میں بولنا، جلدبازی کا مُظاہرہ، تنہائی پسندی و ملنساری کا فقدان، نشوونما اور تخلیقی صلاحیتوں میں کمی بھی ان کی صوتی آلودگی سے متاثر ہونے کی چند علامتوں میں سے ہے۔ آج کل کے نوجوان ہیڈ فون استعمال کر رہے ہیں جو انتہائی مُضر ہے۔ جسمانی اعتبار سے تو سماعت کا متاثر ہونا لازمی امر ہے۔
یہاں تک کہ اگر ایئر بَڈز جو کان کو بالکل بند کرنے کا باعث ہوتے ہیں کے مستقل اور کئی گھنٹوں استعمال سے کان کے پردے کی سوزش یا پردے کا پھٹ جانا، عارضی اور یہاں تک کہ ناقابلِ علاج اعصابی بہرا پن سامنے آسکتا ہے۔ نفسیاتی طور پر معاشرے سے لاتعلقی و دوری (ISOLATION & Disorientation )کا سبب بھی ہے جو کہ پاگل پن کا پہلا زینہ ہوتا ہے۔ صوتی آلودگی نہ صرف انسانوں بل کہ جنگلی حیات خاص کر پرندوں اور آبی حیات کے لیے تو بہت ہی نقصان دہ ہے۔ شور ہمارے فطری نظام پر بہت منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے پرندے جو کہ رابطے کے لیے مخصوص آواز استعمال کرتے ہیں، آہٹ کی بنیاد پر اپنا شکار کرتے ہیں، افزائشِ نسل کے لیے بھی آوازوں سے ہی رابطہ کرتے ہیں۔
صوتی آلودگی ان کی یہ ساری کی ساری صلاحیتیں زائل کر رہی ہے۔ ڈاکٹر کامل خان کا کہنا ہے،''فیکٹری کے شور کو کم کروانے کے لیے ماحولیاتی اداروں کو چاہیے کہ وقتاً فوقتاً فیکٹریوں کا دورہ کرتے رہیں اور انہیں شور کو کم کرنے کے لیے پابند کریں کہ وہ شور کو 86 ڈیسی بَل سے کم کریں تاکہ سماعت کو نقصان نہ پہنچیں۔'' ٹریفک کے شور سے بھی حفاظت ممکن ہے، ہارن کے غیر ضروری استعمال کے ساتھ ساتھ پریشر ہارن، شور مچانے والے رکشوں اور بغیر سائلینسر موٹر سائیکلوں پر کنٹرول کیا جائے۔