کراچی اور پیپلز پارٹی کا تیسرا دورِاقتدار
اپنی حکومت کے قیام کے بعد بھٹو اس نعرے کو کسی حد تک حقیقت کا روپ دے سکے؟
پاکستان پیپلزپارٹی ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے۔ لگ بھگ نصف صدی پر مشتمل اپنے سیاسی سفر میں اس جماعت نے جو نشیب و فراز دیکھے اور جس طرح سرد و گرم حالات کا سامنا کیا، وہ بلاشبہ اسی کا حصہ ہے۔
ایسے تجربات و حالات سے ملک کی دوسری کوئی سیاسی جماعت نہیں گزری۔ اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اس سے پہلے ملک کے سیاسی منظرنامے کا نہ صرف یہ کہ حصہ بن چکے تھے، بل کہ ایک ذہین اور بے حد متحرک سیاسی راہ نما کی حیثیت سے اپنی شناخت بھی حاصل کرچکے تھے۔ سیاست کے مرکزی دھارے میں اُن کی جگہ بن چکی تھی اور عوام میں اُن کے اثرورسوخ کا دائرہ بھی ایک حد تک قائم ہوچکا تھا۔
تاہم 1967ء میں جب انھوں نے اپنی سیاسی جماعت بنائی اور اس کی عوامی رکنیت سازی کے لیے ملک کے طول و عرض کے دوروں پر نکلے تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ جماعت اپنے بانی رہنما کی طرح عوام میں تیزی سے مقبول ہوتی چلی گئی اور پھر مغربی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت سے ابھری۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پیپلزپارٹی پورے پاکستان میں سب سے زیادہ عوامی اثر و رسوخ رکھنے والی جماعت کی حیثیت رکھتی تھی۔
اس جماعت کی عوامی پذیرائی میں یقیناً ذوالفقار علی بھٹو کی شعلہ بار اور ولولہ انگیز تقریروں نے سب سے بڑھ کر کردار ادا کیا تھا۔ ان تقریروں میں بھٹو نے ایک نعرہ ''روٹی کپڑا اور مکان'' کا بھی دیا تھا۔ یہی وہ نعرہ تھا جس نے انھیں عوام کا ہر دل عزیز سیاسی رہنما بنایا تھا۔ اپنی حکومت کے قیام کے بعد بھٹو اس نعرے کو کسی حد تک حقیقت کا روپ دے سکے؟ یہ ایک الگ سوال ہے، ایک ایسا سوال جس کا جواب بھٹو اور ان کی سیاسی جماعت کے لیے قطعاً خوش گوار نہیں ہوسکتا۔ تاہم بھٹو کے لیے نرم گوشے کی گنجائش کے کئی ایک پہلو نکلتے ہیں جو اُن کی انفرادی اور جماعتی ساکھ کو سہارا دے سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر یہی کہ انھیں عوامی مینڈیٹ تو بے شک ملا، لیکن اُن کی حکومت کو کئی ایک بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی اتحاد کی صورت میں پیدا ہونے والا سیاسی بحران تو آخر اُن کی حکومت کو ہی نہیں لے ڈوبا، بل کہ خود بھٹو کی زندگی کے خاتمے کا سبب بھی بنا۔ اُن کے بااعتماد فوجی جنرل ضیاء الحق نے ہی ان کی حکومت کا تختہ الٹا اور انھیں تختۂ دار تک پہنچا دیا۔
بھٹو کی سزائے موت سے کچھ عرصہ پہلے سرکاری اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے اُن کی کردارکشی کی بھرپور مہم چلائی گئی جو اُن کی موت کے بعد بھی کچھ عرصہ جاری رہی۔ ظاہر ہے، اس کا مقصد بھٹو کی عوامی مقبولیت اور پیپلزپارٹی کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا تھا۔ ضیاء الحق کی حکومت ایک حد تک اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب بھی نظر آئی، لیکن اس کامیابی کا دورانیہ محض چند برس ثابت ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب بھٹو کی اہلیہ اور بچے ملک سے باہر تھے۔
اسے ایک طرح سے جلاوطنی کا زمانہ بھی کہا جاسکتا ہے، جس میں حکومتی ایما اور اس خاندان کی ذاتی منشا دونوں ہی کا دخل تھا۔ بہرحال چند برس بعد بھٹو کی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو جب ملک میں واپس آئیں تو عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے جس طرح ان کا استقبال کیا، اسی سے یہ حقیقت واضح ہوگئی تھی کہ اس پارٹی کی جڑیں عوام میں پوری طرح باقی ہیں، بل کہ مزید گہری اور مضبوط ہوئی ہیں۔ دیکھنے والوں نے پھر اس کے بعد کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ پیپلزپارٹی 1988ء کے انتخابات کے بعد کس درجہ سہولت سے اقتدار میں آگئی۔ یہ الگ بات کہ اس کے بعد بھی اس جماعت کے خلاف سیاسی سازشوں کا جال بنا جاتا رہا اور بہت کچھ ہوا۔ خیر، اس وقت پیپلزپارٹی کی سیاسی تاریخ لکھنا مقصود نہیں ہے۔ صرف اس امر کی نشان دہی کرنی تھی کہ سارے حالات گزارنے کے باوجود یہ جماعت اب بھی اپنا ایک عوامی رسوخ رکھتی ہے۔ حالیہ انتخابات میں اس نے اپنی قومی اسمبلی کی نشستوں میں بھی پھر اضافہ کیا ہے۔ اس سے پہلے سینٹ کے الیکشن میں بھی اس کی برتری کا نقشہ بہت نمایاں تھا۔ آج اسے ملک کی سب سے بڑی جماعت تو خیر نہیں کہا جاسکتا، لیکن اس کے سیاسی وجود کی نفی بھی کسی طرح ممکن نہیں ہے۔
سندھ میں یہ تیسرا مسلسل دورانیہ ہے کہ انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی نے پورے طمطراق کے ساتھ حکومت بنائی ہے۔ گذشتہ دو ادوار میں تو اُس کے سامنے ایم کیو ایم کی صورت میں ایک حزبِ اختلاف بھی تھی۔ کراچی اور حیدرآباد میں اپنے عوامی مینڈیٹ کی طاقت کے بل بوتے پر ایم کیو ایم ایک اچھی خاصی منہ زور اپوزیشن تھی۔ تاہم جس طرح یہ کچھ عرصہ پہلے مسائل سے دوچار ہوکر دھڑوں میں تقسیم ہوئی ہے، اس کی اثرانداز ہونے والی طاقت زائل ہوکر رہ گئی ہے۔ گویا اس بار سندھ میں پیپلزپارٹی من مانے اقتدار کی حامل ہے۔ پی ٹی آئی والے اس بار مرکز میں تو ضرور حکومت بناکر بیٹھے ہیں، لیکن صوبہ سندھ میں کسی مؤثر اپوزیشن کی حیثیت نہیں رکھتے، حتیٰ کہ ایم کیو ایم یا کسی اور کے ساتھ اتحاد کرنے کے باوجود بھی۔ یوں اس بار پیپلزپارٹی سندھ میں بہت مستحکم حیثیت رکھتی ہے۔
اس بار، یعنی 2018ء کے الیکشن میں بھی پیپلزپارٹی نے اپنے عوامی جلسوں میں جو نعرے لگوائے، اُن میں وہی پرانا ''روٹی، کپڑا اور مکان'' والا نعرہ بھی شامل تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اب اس نعرے کی وہ گونج محسوس نہیں ہوتی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ یہ گونج آخری بار کسی حد تک بینظیر کے جلسوں میں سنی گئی تھی۔ اس کے بعد ایسا نہ ہوسکا۔ اس لیے نہ ہوسکا کہ نعرے محض چند الفاظ سے اپنی گونج پیدا نہیں کرتے، بلکہ اُس یقین کی قوت سے کرتے ہیں جو ایک طرف پارٹی لیڈر کے بیان میں ہوتی ہے اور دوسری وہ اعتبار کی صورت میں عوام کے دھڑکتے ہوئے دلوں میں۔ بینظیر کے بعد پیپلزپارٹی نے محض عوامی جذباتی ہم دردی کے کھاتے میں حکومت حاصل کی تھی ورنہ یہ بات اُس کے بے نوا کارکن سے لے کر ایک عام سے ووٹر تک سب اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اب پارٹی میں کوئی ایسا سیاسی راہ نما نہیں جو عوامی مقبولیت رکھتا ہو۔
سوال یہ ہے کہ عوامی مقبولیت کسے کہتے ہیں اور یہ کس طرح ملتی ہے؟ سیدھی سی بات ہے، عوامی مقبولیت اس اعتبار کو کہتے ہیں جو لوگ اپنے سیاسی راہ نما کی شخصیت پر رکھتے ہیں، اور اس کو حاصل کرنا بہ یک وقت بہت آسان بھی ہے اور نہایت مشکل بھی۔ آسان اس طرح کہ دو چار یا پچاس سو نہیں، بلکہ لاکھوں کروڑوں لوگ آناً فاناً اپنے رہنما پر اعتبار کرنے لگتے ہیں اور مشکل اس طرح کہ ایک شخص کے قریبی لوگ بھی زبان سے چاہے اُس کے بارے میں جو کہیں، مگر دل سے اُس پر اعتبار نہیں کرتے۔
خیر، اگر عوام نے گذشتہ ایک دہائی کے عرصے میں پیپلزپارٹی کی قیادت کو اس اعتبار کا مستحق نہیں جانا جو بھٹو یا اُن کی بیٹی کے حصے میں آیا تھا تو خود اس جماعت کی موجودہ قیادت نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ عوام نے جو رائے اختیار کی، وہ غلط نہیں تھی۔ گزشتہ دس برس میں سندھ میں صوبائی حکومت کے مکمل اختیارات پیپلزپارٹی کے پاس تھے۔ دیکھا جانا چاہیے کہ اس عرصے میں اس کی کارکردگی کیا رہی؟ عوامی فلاح و بہبود کے کتنے منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا گیا؟
کیا کیا ترقیاتی کام ہوئے؟ وقت کے تبدیل ہوتے ہوئے تقاضوں کو کتنا یپشِ نظر رکھا گیا اور ان کے حوالے سے کیا منصوبہ بندی کی گئی؟ صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کے سلسلے میں کیا اقدامات کیے گئے؟ امن و امان کے بارے میں حکومت کا رویہ کیا رہا اور اُس کے حقیقی مظاہر کس طرح سامنے آئے؟ صوبے کے اہم شہروں (جن میں کراچی سرِفہرست ہے) کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں اور مسائل کے حوالے سے کیا اقدامات کیے گئے اور آنے والے دنوں کے لیے کیا منصوبہ بندی کی گئی؟ اگر صرف ان چند ایک سامنے کے سوالوں کو بھی پیشِ نظر رکھ کر سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت و اختیارات کے گزشتہ دو ادوار کا جائزہ لیا جائے تو کیا نتائج سامنے آتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی ایک سوال کا جواب بھی ایسا نہیں ملتا جو پیپلزپارٹی کی حکومت اور اس کی موجودہ سیاسی قیادت کے لیے عوام کے ذہنوں پر اثرانداز ہوسکے یا اُن کے دلوں میں جگہ بناکر دے سکے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ تعلیم کے شعبے کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کا نظام بالکل تباہ ہوچکا ہے۔ اخبارات میں اور الیکٹرونک میڈیا پر ایک بار نہیں، متعدد بار ایسی رپورٹس آچکی ہیں جن کے ذریعے یہ حقیقت عام آدمی تک بھی کھلے لفظوں میں پہنچ چکی ہے کہ خاص طور سے اسکول اور کالج کی سطح تک کے ادارے تو ہول ناک زبوں حالی کا نقشہ پیش کررہے ہیں۔ کتنے ہی ادارے ایسے ہیں جن میں گھوسٹ، یعنی جعلی بھرتیاں ہوئیں اور ان کی تنخواہیں اور مراعات بدستور جاری ہیں۔
اندرونِ سندھ کا حال تو بہت ہی دگرگوں ہے۔ ادارے کی عمارتیں لوگوں کے ذاتی استعمال میں ہیں، کہیں وڈیرا شاہی بدمعاشوں کے ڈیرے ہیں اور کہیں اصطبل اور باڑے بنالیے گئے ہیں۔ خود کراچی اور حیدرآباد جیسے شہروں میں جو کالج ہیں، ان کی حالت افسوس ناک ہے۔ عملہ اور اساتذہ میں ذمے دار اور دیانت دار مزاج کے لوگ فرائض کی انجام دہی کے لیے جاتے بھی ہیں تو خالی وقت گزار کر گھروں کو واپس ہوجاتے ہیں۔ اگر کہیں کچھ طلبہ حصولِ علم کے لیے آتے بھی ہیں تو حالات انھیں جلد مایوس کردیتے ہیں۔تجربہ گاہوں میں ضرورت کا سامان نہیں ہے۔ کیسا نظم و ضبط اور کیا اہتمامِ درس و تدریس۔ اس پر طرہ یہ کہ سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال اور سو طرح کے گل کھلاتا نظر آتا ہے۔
اِدھر صحت کا معاملہ دیکھیے تو یقین ہی نہیں آتا کہ جو حقائق سامنے آرہے ہیں، وہ واقعی اکیس ویں صدی میں ایک آزاد ریاست کے صوبے اور شہروں کے ہیں، جہاں خود اُس صوبے کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اقتدار سنبھالے ہوئے بیٹھی ہے۔ سندھ کے کتنے علاقے ایسے ہیں جہاں پچاس کلو میٹر کے علاقے میں ایک اسپتال نہیں ہے۔ جہاں ڈسپنسری ہے، وہاں ہنگامی حالات کے تقاضوں سے نمٹنے کے لیے عملہ ہے نہ ادویات۔ پہلی زچگی کے لیے نکلی ہوئی کتنی ہی جوان بچیاں اور ان کی کوکھ میں بچے ابتدائی طبّی امداد ملنے سے پہلے موت کے گھاٹ جا اترتے ہیں۔ ان میں ایسی بھی کتنی بچیاں ہیں کہ عذاب جھیلتی کسی جگہ پہنچ جائیں اور زندہ بچ بھی جائیں تو ایسی بیماریوں اور پریشانیوں سے دوچار ہوتی ہیں کہ پھر اس کے بعد کی زندگی خود موت سے بدتر ہوجاتی ہے۔
ترقیاتی منصوبوں کا حال جاننا ہو تو سکھر، نواب شاہ اور لاڑکانہ جیسے شہروں کو ایک نظر دیکھ لیجیے۔ بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ عوامی خوش حالی اور قومی ترقی کے دعوے کیا رہے ہیں اور حقیقتِ حال کیا ہے۔ چلیے اور سب شہروں کو چھوڑیے، صرف کراچی کو دیکھ لیجیے۔ پوری ایک دہائی کی حکومت میں پیپلزپارٹی کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے کراچی کی چند سڑکوں کو کشادہ کیا یا پھر نیا بنوایا ہے- صرف چند سڑکوں کو۔ باقی آدھے سے زیادہ شہر ادھڑا ہوا ہے جس کی طرف کسی کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی فرصت ہے اور نہ ہی ضرورت۔ سیوریج کا وہی پرانا نظام چل رہا ہے جس میں آئے دن مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ گٹر کا گندہ پانی ابل کر گلیوں میں اور سڑکوں پر پھیلتا ہے اور پھر کئی کئی دن پھیلا رہتا ہے۔
الیکٹرونک میڈیا اگر شور نہ مچائے، اخبارات میں بار بار رپورٹ نہ آئے، کالم نہ لکھے جائیں تو عین ممکن ہے کہ یہ کام دنوں نہیں مہینوں کے لیے عوامی اذیت کا سامان بن جائے۔ میڈیا کا شور بھی کچھ علاقوں کے حق میں نیک فال بن پاتا ہے، ورنہ شہر کے کتنے علاقے، مثلاً ملیر، کورنگی، اورنگی، نئی آبادی، نئی کراچی، لیاقت آباد، جہانگیرآباد اور لیاری جیسے کتنے علاقے ایسے ہیں کہ جہاں اگر ایک مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو پھر مہینوں کے لیے اس جگہ کے باسی اس کے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔
پینے کا پانی کراچی کے مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے کہ جس سے پس ماندہ علاقوں کے افراد سے لے کر اعلیٰ طبقات تک سب ہی اپنے اپنے انداز اور اپنی اپنی سطح پر متأثر ہوتے ہیں۔ لیاری سے لے کر ڈیفنس تک صاف پینے کے پانی کی دستیابی ایک مسئلہ ہے۔ کے-4 کا منصوبہ کراچی کے باسیوں کے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کب سے چل رہا ہے، لیکن خدا جانے کس سمت میں اور کس رفتار سے چل رہا ہے کہ تکمیل کے مرحلے تک پہنچتا ہی نہیں دکھائی دیتا۔ لیاری، کورنگی اور نئی آبادی کے مکین آئے دن احتجاج کرتے ہیں اور روزمرہ زندگی کی اس بنیادی ضرورت کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، لیکن اقتدار سے وابستہ افراد تک کوئی آواز نہیں پہنچ پاتی۔ بے حسی اور بے نیازی کا شرم ناک منظر مسلسل قائم ہے۔
امن و امان کی صورتِ حال رینجرز کے آپریشن کے بعد قدرے بہتر اور اطمینان بخش معلوم ہونے لگی تھی۔ اب پھر وہی سب کچھ روز ہونے لگا ہے۔ چند دن میں سو سے زیادہ بچوں کے اغوا کی خبریں آئی ہیں۔ گلی محلوں میں لوٹ مار کا بازار پھر سے گرم ہوچکا ہے۔ گھروں میں ڈاکے پھر سے زیادہ پڑنے لگے ہیں۔ سندھ پولیس کے آئی جی نئے ہیں، وہ ایک روز ابھی ٹی وی پر کہہ رہے تھے کہ عوام کے جان مال کی حفاظت کی ذمے داری اوّلین ترجیح ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ کیسا ترجیحی نظام ہے کہ جس میں بیانات تو سامنے آتے ہیں، لیکن عمل ندارد۔ آئی جی نئے ہیں، مگر وزیرِ اعلیٰ تو وہی پرانے ہیں جنھوں نے پچھلے دورِ اقتدار میں کراچی، بلکہ پورے سندھ میں ترقی، خوش حالی اور امن و امان کے لیے بڑے پرجوش عزائم کا اظہار کیا تھا۔ پچھلی بار انھیں قائم علی شاہ کو ہٹا کر لایا گیا تھا۔ چلیے وقت کم اور مقابلہ سخت تھا۔ بہت کام تھے، بہت ذمے داریاں تھیں اور نظام بالکل بگڑا ہوا تھا۔ اسے سنبھالنے اور سنوارنے کے لیے وقت درکار تھا، اور پھر الیکشن کی تیاری بھی سر پر تھی، لیکن اب تو وہ اپنے اقتدار کے تسلسل میں بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ کارکردگی میں ایسی کوتاہی کے لیے ان کے پاس اب کیا جواز ہوسکتا ہے؟
پیپلزپارٹی اگر واقعی اب بھی عوامی جماعت ہے، اگر سچ مچ عوام سے اپنے رشتے کا اسے کوئی لحاظ ہے، اگر وہ ملک کے سیاسی منظرنامے پر اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اسے اپنے سماجی حالات کو سمجھنا ہوگا، زمینی حقیقتوں کو تسلیم کرنا ہوگا، عوام کے مسائل پر توجہ دینی ہوگی۔ وہ صرف نعروں پر زندہ نہیں رہ سکتی۔ اُسے عمل سے اپنے وجود کو ثابت کرنا ہوگا۔ پیپلزپارٹی کی باقی ساری قیادت ایک طرف، لیکن بلاول زرداری کے سیاسی مستقبل کا انحصار ان کی جماعت کی حقیقی کارکردگی پر ہے۔ اگر بلاول زرداری اپنے نانا اور والدہ کے سیاسی جانشین ثابت ہونا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے سیاسی کردار کا حقیقی بنیادوں پر تعین کرنا ہوگا اور اپنی جماعت کو صرف نعروں پر نہیں، بلکہ عمل کے میدان میں فعال بنانا ہوگا۔
ایسے تجربات و حالات سے ملک کی دوسری کوئی سیاسی جماعت نہیں گزری۔ اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اس سے پہلے ملک کے سیاسی منظرنامے کا نہ صرف یہ کہ حصہ بن چکے تھے، بل کہ ایک ذہین اور بے حد متحرک سیاسی راہ نما کی حیثیت سے اپنی شناخت بھی حاصل کرچکے تھے۔ سیاست کے مرکزی دھارے میں اُن کی جگہ بن چکی تھی اور عوام میں اُن کے اثرورسوخ کا دائرہ بھی ایک حد تک قائم ہوچکا تھا۔
تاہم 1967ء میں جب انھوں نے اپنی سیاسی جماعت بنائی اور اس کی عوامی رکنیت سازی کے لیے ملک کے طول و عرض کے دوروں پر نکلے تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ جماعت اپنے بانی رہنما کی طرح عوام میں تیزی سے مقبول ہوتی چلی گئی اور پھر مغربی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت سے ابھری۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پیپلزپارٹی پورے پاکستان میں سب سے زیادہ عوامی اثر و رسوخ رکھنے والی جماعت کی حیثیت رکھتی تھی۔
اس جماعت کی عوامی پذیرائی میں یقیناً ذوالفقار علی بھٹو کی شعلہ بار اور ولولہ انگیز تقریروں نے سب سے بڑھ کر کردار ادا کیا تھا۔ ان تقریروں میں بھٹو نے ایک نعرہ ''روٹی کپڑا اور مکان'' کا بھی دیا تھا۔ یہی وہ نعرہ تھا جس نے انھیں عوام کا ہر دل عزیز سیاسی رہنما بنایا تھا۔ اپنی حکومت کے قیام کے بعد بھٹو اس نعرے کو کسی حد تک حقیقت کا روپ دے سکے؟ یہ ایک الگ سوال ہے، ایک ایسا سوال جس کا جواب بھٹو اور ان کی سیاسی جماعت کے لیے قطعاً خوش گوار نہیں ہوسکتا۔ تاہم بھٹو کے لیے نرم گوشے کی گنجائش کے کئی ایک پہلو نکلتے ہیں جو اُن کی انفرادی اور جماعتی ساکھ کو سہارا دے سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر یہی کہ انھیں عوامی مینڈیٹ تو بے شک ملا، لیکن اُن کی حکومت کو کئی ایک بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی اتحاد کی صورت میں پیدا ہونے والا سیاسی بحران تو آخر اُن کی حکومت کو ہی نہیں لے ڈوبا، بل کہ خود بھٹو کی زندگی کے خاتمے کا سبب بھی بنا۔ اُن کے بااعتماد فوجی جنرل ضیاء الحق نے ہی ان کی حکومت کا تختہ الٹا اور انھیں تختۂ دار تک پہنچا دیا۔
بھٹو کی سزائے موت سے کچھ عرصہ پہلے سرکاری اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے اُن کی کردارکشی کی بھرپور مہم چلائی گئی جو اُن کی موت کے بعد بھی کچھ عرصہ جاری رہی۔ ظاہر ہے، اس کا مقصد بھٹو کی عوامی مقبولیت اور پیپلزپارٹی کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا تھا۔ ضیاء الحق کی حکومت ایک حد تک اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب بھی نظر آئی، لیکن اس کامیابی کا دورانیہ محض چند برس ثابت ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب بھٹو کی اہلیہ اور بچے ملک سے باہر تھے۔
اسے ایک طرح سے جلاوطنی کا زمانہ بھی کہا جاسکتا ہے، جس میں حکومتی ایما اور اس خاندان کی ذاتی منشا دونوں ہی کا دخل تھا۔ بہرحال چند برس بعد بھٹو کی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو جب ملک میں واپس آئیں تو عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے جس طرح ان کا استقبال کیا، اسی سے یہ حقیقت واضح ہوگئی تھی کہ اس پارٹی کی جڑیں عوام میں پوری طرح باقی ہیں، بل کہ مزید گہری اور مضبوط ہوئی ہیں۔ دیکھنے والوں نے پھر اس کے بعد کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ پیپلزپارٹی 1988ء کے انتخابات کے بعد کس درجہ سہولت سے اقتدار میں آگئی۔ یہ الگ بات کہ اس کے بعد بھی اس جماعت کے خلاف سیاسی سازشوں کا جال بنا جاتا رہا اور بہت کچھ ہوا۔ خیر، اس وقت پیپلزپارٹی کی سیاسی تاریخ لکھنا مقصود نہیں ہے۔ صرف اس امر کی نشان دہی کرنی تھی کہ سارے حالات گزارنے کے باوجود یہ جماعت اب بھی اپنا ایک عوامی رسوخ رکھتی ہے۔ حالیہ انتخابات میں اس نے اپنی قومی اسمبلی کی نشستوں میں بھی پھر اضافہ کیا ہے۔ اس سے پہلے سینٹ کے الیکشن میں بھی اس کی برتری کا نقشہ بہت نمایاں تھا۔ آج اسے ملک کی سب سے بڑی جماعت تو خیر نہیں کہا جاسکتا، لیکن اس کے سیاسی وجود کی نفی بھی کسی طرح ممکن نہیں ہے۔
سندھ میں یہ تیسرا مسلسل دورانیہ ہے کہ انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی نے پورے طمطراق کے ساتھ حکومت بنائی ہے۔ گذشتہ دو ادوار میں تو اُس کے سامنے ایم کیو ایم کی صورت میں ایک حزبِ اختلاف بھی تھی۔ کراچی اور حیدرآباد میں اپنے عوامی مینڈیٹ کی طاقت کے بل بوتے پر ایم کیو ایم ایک اچھی خاصی منہ زور اپوزیشن تھی۔ تاہم جس طرح یہ کچھ عرصہ پہلے مسائل سے دوچار ہوکر دھڑوں میں تقسیم ہوئی ہے، اس کی اثرانداز ہونے والی طاقت زائل ہوکر رہ گئی ہے۔ گویا اس بار سندھ میں پیپلزپارٹی من مانے اقتدار کی حامل ہے۔ پی ٹی آئی والے اس بار مرکز میں تو ضرور حکومت بناکر بیٹھے ہیں، لیکن صوبہ سندھ میں کسی مؤثر اپوزیشن کی حیثیت نہیں رکھتے، حتیٰ کہ ایم کیو ایم یا کسی اور کے ساتھ اتحاد کرنے کے باوجود بھی۔ یوں اس بار پیپلزپارٹی سندھ میں بہت مستحکم حیثیت رکھتی ہے۔
اس بار، یعنی 2018ء کے الیکشن میں بھی پیپلزپارٹی نے اپنے عوامی جلسوں میں جو نعرے لگوائے، اُن میں وہی پرانا ''روٹی، کپڑا اور مکان'' والا نعرہ بھی شامل تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اب اس نعرے کی وہ گونج محسوس نہیں ہوتی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ یہ گونج آخری بار کسی حد تک بینظیر کے جلسوں میں سنی گئی تھی۔ اس کے بعد ایسا نہ ہوسکا۔ اس لیے نہ ہوسکا کہ نعرے محض چند الفاظ سے اپنی گونج پیدا نہیں کرتے، بلکہ اُس یقین کی قوت سے کرتے ہیں جو ایک طرف پارٹی لیڈر کے بیان میں ہوتی ہے اور دوسری وہ اعتبار کی صورت میں عوام کے دھڑکتے ہوئے دلوں میں۔ بینظیر کے بعد پیپلزپارٹی نے محض عوامی جذباتی ہم دردی کے کھاتے میں حکومت حاصل کی تھی ورنہ یہ بات اُس کے بے نوا کارکن سے لے کر ایک عام سے ووٹر تک سب اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اب پارٹی میں کوئی ایسا سیاسی راہ نما نہیں جو عوامی مقبولیت رکھتا ہو۔
سوال یہ ہے کہ عوامی مقبولیت کسے کہتے ہیں اور یہ کس طرح ملتی ہے؟ سیدھی سی بات ہے، عوامی مقبولیت اس اعتبار کو کہتے ہیں جو لوگ اپنے سیاسی راہ نما کی شخصیت پر رکھتے ہیں، اور اس کو حاصل کرنا بہ یک وقت بہت آسان بھی ہے اور نہایت مشکل بھی۔ آسان اس طرح کہ دو چار یا پچاس سو نہیں، بلکہ لاکھوں کروڑوں لوگ آناً فاناً اپنے رہنما پر اعتبار کرنے لگتے ہیں اور مشکل اس طرح کہ ایک شخص کے قریبی لوگ بھی زبان سے چاہے اُس کے بارے میں جو کہیں، مگر دل سے اُس پر اعتبار نہیں کرتے۔
خیر، اگر عوام نے گذشتہ ایک دہائی کے عرصے میں پیپلزپارٹی کی قیادت کو اس اعتبار کا مستحق نہیں جانا جو بھٹو یا اُن کی بیٹی کے حصے میں آیا تھا تو خود اس جماعت کی موجودہ قیادت نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ عوام نے جو رائے اختیار کی، وہ غلط نہیں تھی۔ گزشتہ دس برس میں سندھ میں صوبائی حکومت کے مکمل اختیارات پیپلزپارٹی کے پاس تھے۔ دیکھا جانا چاہیے کہ اس عرصے میں اس کی کارکردگی کیا رہی؟ عوامی فلاح و بہبود کے کتنے منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا گیا؟
کیا کیا ترقیاتی کام ہوئے؟ وقت کے تبدیل ہوتے ہوئے تقاضوں کو کتنا یپشِ نظر رکھا گیا اور ان کے حوالے سے کیا منصوبہ بندی کی گئی؟ صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کے سلسلے میں کیا اقدامات کیے گئے؟ امن و امان کے بارے میں حکومت کا رویہ کیا رہا اور اُس کے حقیقی مظاہر کس طرح سامنے آئے؟ صوبے کے اہم شہروں (جن میں کراچی سرِفہرست ہے) کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں اور مسائل کے حوالے سے کیا اقدامات کیے گئے اور آنے والے دنوں کے لیے کیا منصوبہ بندی کی گئی؟ اگر صرف ان چند ایک سامنے کے سوالوں کو بھی پیشِ نظر رکھ کر سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت و اختیارات کے گزشتہ دو ادوار کا جائزہ لیا جائے تو کیا نتائج سامنے آتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی ایک سوال کا جواب بھی ایسا نہیں ملتا جو پیپلزپارٹی کی حکومت اور اس کی موجودہ سیاسی قیادت کے لیے عوام کے ذہنوں پر اثرانداز ہوسکے یا اُن کے دلوں میں جگہ بناکر دے سکے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ تعلیم کے شعبے کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کا نظام بالکل تباہ ہوچکا ہے۔ اخبارات میں اور الیکٹرونک میڈیا پر ایک بار نہیں، متعدد بار ایسی رپورٹس آچکی ہیں جن کے ذریعے یہ حقیقت عام آدمی تک بھی کھلے لفظوں میں پہنچ چکی ہے کہ خاص طور سے اسکول اور کالج کی سطح تک کے ادارے تو ہول ناک زبوں حالی کا نقشہ پیش کررہے ہیں۔ کتنے ہی ادارے ایسے ہیں جن میں گھوسٹ، یعنی جعلی بھرتیاں ہوئیں اور ان کی تنخواہیں اور مراعات بدستور جاری ہیں۔
اندرونِ سندھ کا حال تو بہت ہی دگرگوں ہے۔ ادارے کی عمارتیں لوگوں کے ذاتی استعمال میں ہیں، کہیں وڈیرا شاہی بدمعاشوں کے ڈیرے ہیں اور کہیں اصطبل اور باڑے بنالیے گئے ہیں۔ خود کراچی اور حیدرآباد جیسے شہروں میں جو کالج ہیں، ان کی حالت افسوس ناک ہے۔ عملہ اور اساتذہ میں ذمے دار اور دیانت دار مزاج کے لوگ فرائض کی انجام دہی کے لیے جاتے بھی ہیں تو خالی وقت گزار کر گھروں کو واپس ہوجاتے ہیں۔ اگر کہیں کچھ طلبہ حصولِ علم کے لیے آتے بھی ہیں تو حالات انھیں جلد مایوس کردیتے ہیں۔تجربہ گاہوں میں ضرورت کا سامان نہیں ہے۔ کیسا نظم و ضبط اور کیا اہتمامِ درس و تدریس۔ اس پر طرہ یہ کہ سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال اور سو طرح کے گل کھلاتا نظر آتا ہے۔
اِدھر صحت کا معاملہ دیکھیے تو یقین ہی نہیں آتا کہ جو حقائق سامنے آرہے ہیں، وہ واقعی اکیس ویں صدی میں ایک آزاد ریاست کے صوبے اور شہروں کے ہیں، جہاں خود اُس صوبے کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اقتدار سنبھالے ہوئے بیٹھی ہے۔ سندھ کے کتنے علاقے ایسے ہیں جہاں پچاس کلو میٹر کے علاقے میں ایک اسپتال نہیں ہے۔ جہاں ڈسپنسری ہے، وہاں ہنگامی حالات کے تقاضوں سے نمٹنے کے لیے عملہ ہے نہ ادویات۔ پہلی زچگی کے لیے نکلی ہوئی کتنی ہی جوان بچیاں اور ان کی کوکھ میں بچے ابتدائی طبّی امداد ملنے سے پہلے موت کے گھاٹ جا اترتے ہیں۔ ان میں ایسی بھی کتنی بچیاں ہیں کہ عذاب جھیلتی کسی جگہ پہنچ جائیں اور زندہ بچ بھی جائیں تو ایسی بیماریوں اور پریشانیوں سے دوچار ہوتی ہیں کہ پھر اس کے بعد کی زندگی خود موت سے بدتر ہوجاتی ہے۔
ترقیاتی منصوبوں کا حال جاننا ہو تو سکھر، نواب شاہ اور لاڑکانہ جیسے شہروں کو ایک نظر دیکھ لیجیے۔ بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ عوامی خوش حالی اور قومی ترقی کے دعوے کیا رہے ہیں اور حقیقتِ حال کیا ہے۔ چلیے اور سب شہروں کو چھوڑیے، صرف کراچی کو دیکھ لیجیے۔ پوری ایک دہائی کی حکومت میں پیپلزپارٹی کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے کراچی کی چند سڑکوں کو کشادہ کیا یا پھر نیا بنوایا ہے- صرف چند سڑکوں کو۔ باقی آدھے سے زیادہ شہر ادھڑا ہوا ہے جس کی طرف کسی کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی فرصت ہے اور نہ ہی ضرورت۔ سیوریج کا وہی پرانا نظام چل رہا ہے جس میں آئے دن مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ گٹر کا گندہ پانی ابل کر گلیوں میں اور سڑکوں پر پھیلتا ہے اور پھر کئی کئی دن پھیلا رہتا ہے۔
الیکٹرونک میڈیا اگر شور نہ مچائے، اخبارات میں بار بار رپورٹ نہ آئے، کالم نہ لکھے جائیں تو عین ممکن ہے کہ یہ کام دنوں نہیں مہینوں کے لیے عوامی اذیت کا سامان بن جائے۔ میڈیا کا شور بھی کچھ علاقوں کے حق میں نیک فال بن پاتا ہے، ورنہ شہر کے کتنے علاقے، مثلاً ملیر، کورنگی، اورنگی، نئی آبادی، نئی کراچی، لیاقت آباد، جہانگیرآباد اور لیاری جیسے کتنے علاقے ایسے ہیں کہ جہاں اگر ایک مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو پھر مہینوں کے لیے اس جگہ کے باسی اس کے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔
پینے کا پانی کراچی کے مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے کہ جس سے پس ماندہ علاقوں کے افراد سے لے کر اعلیٰ طبقات تک سب ہی اپنے اپنے انداز اور اپنی اپنی سطح پر متأثر ہوتے ہیں۔ لیاری سے لے کر ڈیفنس تک صاف پینے کے پانی کی دستیابی ایک مسئلہ ہے۔ کے-4 کا منصوبہ کراچی کے باسیوں کے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کب سے چل رہا ہے، لیکن خدا جانے کس سمت میں اور کس رفتار سے چل رہا ہے کہ تکمیل کے مرحلے تک پہنچتا ہی نہیں دکھائی دیتا۔ لیاری، کورنگی اور نئی آبادی کے مکین آئے دن احتجاج کرتے ہیں اور روزمرہ زندگی کی اس بنیادی ضرورت کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، لیکن اقتدار سے وابستہ افراد تک کوئی آواز نہیں پہنچ پاتی۔ بے حسی اور بے نیازی کا شرم ناک منظر مسلسل قائم ہے۔
امن و امان کی صورتِ حال رینجرز کے آپریشن کے بعد قدرے بہتر اور اطمینان بخش معلوم ہونے لگی تھی۔ اب پھر وہی سب کچھ روز ہونے لگا ہے۔ چند دن میں سو سے زیادہ بچوں کے اغوا کی خبریں آئی ہیں۔ گلی محلوں میں لوٹ مار کا بازار پھر سے گرم ہوچکا ہے۔ گھروں میں ڈاکے پھر سے زیادہ پڑنے لگے ہیں۔ سندھ پولیس کے آئی جی نئے ہیں، وہ ایک روز ابھی ٹی وی پر کہہ رہے تھے کہ عوام کے جان مال کی حفاظت کی ذمے داری اوّلین ترجیح ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ کیسا ترجیحی نظام ہے کہ جس میں بیانات تو سامنے آتے ہیں، لیکن عمل ندارد۔ آئی جی نئے ہیں، مگر وزیرِ اعلیٰ تو وہی پرانے ہیں جنھوں نے پچھلے دورِ اقتدار میں کراچی، بلکہ پورے سندھ میں ترقی، خوش حالی اور امن و امان کے لیے بڑے پرجوش عزائم کا اظہار کیا تھا۔ پچھلی بار انھیں قائم علی شاہ کو ہٹا کر لایا گیا تھا۔ چلیے وقت کم اور مقابلہ سخت تھا۔ بہت کام تھے، بہت ذمے داریاں تھیں اور نظام بالکل بگڑا ہوا تھا۔ اسے سنبھالنے اور سنوارنے کے لیے وقت درکار تھا، اور پھر الیکشن کی تیاری بھی سر پر تھی، لیکن اب تو وہ اپنے اقتدار کے تسلسل میں بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ کارکردگی میں ایسی کوتاہی کے لیے ان کے پاس اب کیا جواز ہوسکتا ہے؟
پیپلزپارٹی اگر واقعی اب بھی عوامی جماعت ہے، اگر سچ مچ عوام سے اپنے رشتے کا اسے کوئی لحاظ ہے، اگر وہ ملک کے سیاسی منظرنامے پر اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اسے اپنے سماجی حالات کو سمجھنا ہوگا، زمینی حقیقتوں کو تسلیم کرنا ہوگا، عوام کے مسائل پر توجہ دینی ہوگی۔ وہ صرف نعروں پر زندہ نہیں رہ سکتی۔ اُسے عمل سے اپنے وجود کو ثابت کرنا ہوگا۔ پیپلزپارٹی کی باقی ساری قیادت ایک طرف، لیکن بلاول زرداری کے سیاسی مستقبل کا انحصار ان کی جماعت کی حقیقی کارکردگی پر ہے۔ اگر بلاول زرداری اپنے نانا اور والدہ کے سیاسی جانشین ثابت ہونا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے سیاسی کردار کا حقیقی بنیادوں پر تعین کرنا ہوگا اور اپنی جماعت کو صرف نعروں پر نہیں، بلکہ عمل کے میدان میں فعال بنانا ہوگا۔