ڈائریکٹر اور رائٹر بننا چاہتی تھی پاپا میرے آئیڈیل ہیں سونم کپور
رشی کپور کے بیٹے کی بھی یہ پہلی فلم تھی۔ تاہم مقبولیت کی دوڑ میں رنبیر، سونم سے کہیں آگے نکل گیا ہے۔
KARACHI:
سینیئر اداکار انیل کپور کی بیٹی نے ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی کی فلم '' سانوریا '' میں رنبیر کپور کے مقابل ہیروئن کے رول سے سلوراسکرین پر کیریئر کی ابتدا کی تھی۔
رشی کپور کے بیٹے کی بھی یہ پہلی فلم تھی۔ تاہم مقبولیت کی دوڑ میں رنبیر، سونم سے کہیں آگے نکل گیا ہے۔ اس کا شمار صف اول کے ہیروز میں ہونے لگا ہے جب کہ سونم ابھی تک جدوجہد کے دور سے گزر رہی ہے۔ '' سانوریا'' کے بعد اگرچہ اس نے کئی فلموں میں اچھی پرفارمینس دی مگر فلمی مبصرین اور فلم بیں ابھی تک اسے صف اول کی اداکارہ تسلیم نہیں کرتے۔
ستائیس سالہ سونم کو آنے والی فلم '' رانجھنا'' سے کافی امیدیں ہیں۔ اس فلم کے نمایاں اداکاروں میں دھانوش اور ابھے دیول بھی شامل ہیں۔ اس رومانوی فلمی کے موسیقار اے آر رحمان ہیں جب کہ ہدایات آنند ایل رائے نے دی ہیں۔ اداکارہ کا کہنا ہے کہ'' رانجھنا '' اس کے کیریئر کو استحکام دے گی۔ سونم کی یہ بات کس حد تک درست ثابت ہوتی ہے یہ تو اس فلم کی ریلیز کے بعد ہی پتا چل سکے گا، یہاں ہم قارئین کی دل چسپی کے لیے اس کا تازہ انٹرویو پیش کررہے ہیں۔
٭فلموں میں اداکاری کیا شروع ہی سے آپ کا مقصد تھا؟
جب میں پیدا ہوئی تھی تو میرے والدین چمبور میں رہتے تھے۔ انھوں نے میرا نام سونم رکھا جس کا مطلب ہے 'خوش قسمت'۔ میں ایک مہینے کی تھی جب میری فیملی جوہو کے اس گھر میں منتقل ہوگئی جہاں ہم آج رہتے ہیں۔ اس وقت تک میرے والد نام ور اداکار بن چکے تھے۔
میرا اسکول گھر سے پانچ منٹ کی دوری پر تھا اور میں بستہ اٹھاکر پیدل ہی چلی جایا کرتی تھی۔ میری والدہ چاہتی تھیں کہ ان کے بچوں کا بچپن عام بچوں کی طرح گزرے اس لیے ہمارے گھر میں فلمی میگزین بھی نہیں آتے تھے۔ بعدازاں مجھے سنگاپور کے ایک بورڈنگ اسکول میں داخل کروادیا گیا جہاں میں نے آرٹ اور تھیئٹر کی تعلیم حاصل کی۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں ڈائریکٹر اور رائٹر بننا چاہتی تھی۔ جب میں انڈیا واپس آئی تو ان دنوں ہماری فیملی فرینڈ رانی مکرجی، جنھیں میں بے حد پیار کرتی ہوں، سنجے لیلا بھنسالی کی فلم '' بلیک'' کی شوٹنگ کا آغاز کرنے والی تھیں۔
انھوں نے مجھے سنجے کی اسسٹنٹ بنوادیا۔ اس فلم کی شوٹنگ کے دوران سنجے نے مجھ سے کہا کہ وہ مجھے اپنی اگلی فلم کی ہیروئن بنانا چاہتے ہیں اور یوں انھوں نے میری تربیت شروع کردی۔ '' بلیک'' سے پہلے میں صرف ایک بار فلم کے سیٹ پر گئی تھی، اور وہ میرے والد کی فلم '' روپ کی رانی چوروں کا راجا'' تھی۔ بعدازاں میں نے روشن تنیجا صاحب، جیاتی بھاٹیا اور فیروز عباس خان سے اداکاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ ان ہی لوگوں نے مجھے اداکاری کی جانب راغب کیا اور '' سانوریا '' کے بعد تو میں نے فیصلہ کرلیا کہ مرتے دم تک اداکاری کروں گی۔
٭آپ مطالعے سے شغف رکھتی ہیں۔ کتابوں کے مطالعے نے آپ کی شخصیت پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟
جب میں تین سال کی تھی تو امی سونے سے پہلے مجھے کوئی نہ کوئی کتاب پڑھ کر سنایا کرتی تھیں۔ میں امی سے کہانیاں سنتی رہی، پھر خود کتابیں پڑھنے لگی۔ اب ایسی عادت ہوگئی ہے کہ کتاب کا مطالعہ کیے بغیر نیند نہیں آتی۔
یہ دوسری بات ہے کہ کتاب پڑھنے کے بعد بھی نیند بہت دیر تک میری آنکھوں سے دور رہتی ہے کیوں کہ میں جو کچھ پڑھتی ہوں، پھر اسے متصور کرنے میں گُم ہوجاتی ہوں۔ چوں کہ میں نے انٹرمیڈیٹ تک پڑھا ہے اس لیے بھی اپنی تعلیم کو متوازن کرنے کی غرض سے کتابیں پڑھتی ہوں۔ مجھے رومانوی کہانیوں پر مبنی اور ادبی، دونوں طرح کی تخلیقات پسند ہیں۔ مطالعے نے مجھے وسیع النظر اور بہتر اداکارہ بنادیا ہے۔ آپ مجھے کتابی کیڑا بھی کہہ سکتے ہیں۔ جب میں ایک کتاب شروع کرتی ہوں تو پھر اسے ختم کرکے ہی دم لیتی ہوں۔
٭فلمی دنیا میں آپ کے دوست ہیں؟
جی ہاں، اور یہ سب کی سب ہیروئنیں ہیں۔ جیکولین فرنانڈس، اسین، کرینا اور شہلا خان میری بہت اچھی سہیلیاں ہیں۔ ان میں شہلا میرے سب سے قریب ہے۔ اور اب عمران خان اور دھانوش سے بھی میری اچھی دوستی ہوگئی ہے۔
٭آپ کئی برسوں سے فلم نگر کی باسی ہیں، مگر ابھی تک آپ کا کوئی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔ اس کی کیا وجہ ہے جب کہ یہاں اسکینڈل بنتے دیر نہیں لگتی؟
( مسکراہٹ ) میں نے اب تک جن اداکاروں کے ساتھ کام کیا ہے ان میں رنبیر کے علاوہ سب ہی شادی شدہ تھے یا پھر کسی نہ کسی اداکارہ کے ساتھ ان کی دوستی چل رہی تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں اس بات کا بہت خیال رکھتی ہوں کہ کچھ ایسا نہ ہو جس سے میرے گھر والوں کو ذہنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔
٭آپ کا آئیڈیل کون ہے؟
میرے والد۔ انھوں نے خود کو ہمیشہ اپنی فیملی کے لیے وقف کیے رکھا ہے۔ اگرچہ یہ بات کچھ پرانے زمانے کی معلوم ہوگی مگر میری نانی اب بھی یہی کہتی ہیں کہ ان کے جیسا آدمی ڈھونڈنا بہت مشکل ہے ( مسکراہٹ )۔