اہل پاکستان کو بلوچستان کا تحفہ مبارک
بلوچستان کے بدنصیب عوام کو آج ان سرداروں کی سرداری سے آزادی ملی ہے
سقوط ڈھاکا کے زخم تو جب بھریں گے تب ہی آنے والی پاکستانی نسلیں خودی اور سرشاری کا یہ منظر دیکھیں گی اور کتابوں میں انھوں نے اپنی قومی کی جس رسوائی کا ذکر پڑھا ہو گا اس کی بے پناہ تلخی ذرا کم ہو گی لیکن آج ہم نے ایک اور سقوط ڈھاکا اپنی سیاسی دانش، حب وطن اور فراخدلی کے وصف سے روک دیا ہے۔ اپنے ایک صوبے اور سب سے زیادہ خوبصورت اور دولت مند صوبے میں وہاں کے عوام کی حکومت قائم کر دی ہے، آج کوئی سردار وہاں حکمران نہیں ہے اور یہ میرے لیے ایک ناقابل یقین بات ہے لیکن میڈیا نے مجھے یہی بتایا ہے۔
یوں ہم نے ایک اور سقوط ڈھاکا کا گلا ہی دبا دیا ورنہ ڈھاکا کے اس سانحے کے بعد جو بھی ذرا ناراض ہوا یا کسی وجہ سے اس کا موڈ ذرا بدلا تو پاکستان توڑنے اور اس سے الگ ہونے کی بات کرنے لگا۔ سمندر پار سے تو پاکستانی پاکستان سے علیحدگی اور خود مختاری کا اعلان کر ہی چکے ہیں، بلوچستان میں سرداروں کے بگڑے بعض نوجوان تو بات ہی علیحدگی سے شروع کرتے تھے اور پھر کسی سودے بازی کا ذکر کرتے تھے۔ کوئی ان کو روکنے والا نہیں تھا بلکہ ایک صاحب اس علیحدگی اور پاکستان دشمنی کے پیچھے کسی ان دیکھے ہاتھ کا ذکر کرتے رہے۔ پاکستان کی حکومت کاایک وزیر ہو کر یہ سب کچھ خود حکومت پاکستان برداشت کرتی تھی بلکہ یوں لگتا تھا جیسے اس کے پیچھے کوئی اور بول رہاہے، میں اس ناقابل ذکر وزیر کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ اس کے ذریعے بلوچستان کو سرکاری سطح پر الگ کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، اسی جماعت کے بانی بھٹو نے شروع میں ہی بلوچستان کے سرداری نظام کے خلاف قانون بنایا تھا جس پر برائے نام عمل بھی ہوا۔
مرحوم بگٹی نے انھی دنوں ایک بار ڈیرہ بگٹی میں سرداری نظام کا ذکر کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ یہاں تو چار پانچ روپے سالانہ وظیفے والے سردار بھی ہیں۔ بھٹو صاحب ان کو ختم کر دیں۔ ہم تو جدی پشتی اپنے قبیلے کے سربراہ اور خدمت گزار ہیں۔ یہ سردار نہ صرف باقی تھے بلکہ حکمران بھی یہی تھے۔ یہ ایک پارلیمانی لطیفہ ہے اسمبلی کے جتنے ممبر تھے وہ سب وزیر تھے اور ان میں کوئی ایک آدھ مشیر بھی تھا۔ بلوچستان کے سابق دلچسپ وزیراعلیٰ نے ایک بار کہا کہ میں بھی نواب اور گورنر بھی نواب اب عوام کے مسائل کون حل کرے اور بالکل درست کہا۔
بلوچستان کے بدنصیب عوام کو آج ان سرداروں کی سرداری سے آزادی ملی ہے اور ایک پنجابی حکمران نے دی ہے جس کے صوبے سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو بلوچستان میں چن چن کر قتل کیا جاتا تھا اور کیا جاتا ہے لیکن یہ مرنے مارنے والے سب پاکستانی تھے اور آج وہ سب ایک ہو گئے ہیں، ان کے سرداروں نے اقرار کر لیا ہے کہ وہ اب اس صوبے کے حکمران نہیں شہری ہیں، یوں کہیں کہ معزز شہری۔ آج ایک غیر سردار وزیراعلیٰ ہے۔ کیچ مکران کے عشق و عاشقی والے علاقے کی پیداوار۔ ایک متوسط خاندان کا فرد۔ پیشے سے ڈاکٹر مگر کرتا سیاست ہے اور وزارت وغیرہ کے سیاسی عہدوں پر رہا ہے۔ وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک نہ سردار ہیں نہ سرداری کریں گے، وہ اپنے صوبے کو ایک باعزت حکومت دیں گے۔ وہ ایک باعزت اور بہادر بلوچ قوم کے فرد اور وزیراعلیٰ ہیں۔ بلوچ پشت پر نہیں سینے پر گولی کھاتا ہے۔
میاں محمد نواز شریف نے اپنی قوم کو پاکستانی بلوچستان کا تحفہ دیا ہے، ان کا شکریہ ورنہ صوبے میں ان کی اکثریت تھی وہ کسی کو بھی حکومت دے سکتے تھے اور اس پر کوئی بھی جمہوری اعتراض نہیں کر سکتا تھا، رہے بلوچ عوام تو وہ تو نسل در نسل محکومیت کے عادی ہو چکے ہیں۔ میں نے ایک روشن خیال مولوی کا فتویٰ سنا ہوا ہے کہ پاکستان کے قائم ہوتے ہی بلوچستان اور ملک بھر کا سرداری نظام ختم ہو چکا ہے کیونکہ اسلام میں اس کی قطعاً گنجائش نہیں مساوات ہے لیکن ہم گنہہ گار پاکستانیوں نے ساٹھ برس سے زائد عرصہ تک یہاں کے مسلمان عوام کے ساتھ دھوکا کیا اور وہ محکوم اور محکوم ہی رہے۔میری سمجھ میں نہیں آتا اور مجھے اپنے جذبات کو بیان کرنے کے لیے ایسے الفاظ بھی کبھی مل ہی جائیں گے کہ یہی میاں نواز شریف کو اس کارنامے کی داد دے سکوں گا۔
بلوچستان کو قومی دھارے میں لانے والا اور بلوچوں کو اپنے جیسا پاکستانی سمجھنے والا ہمارا ہیرو نہیں تو اور کیا ہے۔ ہمیں فوج میں بھی ہیرو مل جائیں گے اور سول کے بعض شعبوں میں بھی لیکن سیاست میں میاں محمد نواز شریف پہلا ہیرو ہے، ہماری سیاست ولن سے تو بھری ہوئی ہے لیکن ہیرو پہلا ہے۔ میاں صاحب کے ساتھیوں کے مطابق انھیں اپنے اس کارنامے کو اقتدار پر اقدار کی فتح کہا ہے جب کہ ان کا یہ کارنامہ پاکستانی عوام کو ان کے ملک کی حکمرانی سونپ دینے کا نام ہے اور ایسے لوگوں کے ملک کو ہی کہتے ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ کل تک ہم اپنے وطن عزیز کو رسماً اسلامی جمہوریہ وغیرہ کا نام دیتے تھے ، آج ہم سینہ ٹھونک کر کہتے ہیں کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آزاد شہری ہیں اور ہمیں یہ وقار کسی غیر نے نہیں۔ اپنے ایک پاکستانی دے دیا ہے میاں محمد نواز شریف۔ ہمارا پہلا سیاسی ہیرو!۔