گرمیاں آئیں اپنے ساتھ بہت کچھ لائیں
سندھ کے دیہاتی علاقوں اور میدانوں میں دور دور تک اگر نگاہ دوڑائیں گے تو آپ کو زمین سے آگ کے شعلے نکلتے ہوئے نظر آئینگے
KARACHI:
اﷲ تعالیٰ نے زمین پر چار موسم دیے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ گرمی کا موسم ہمارے پاکستان میں چلتا ہے، جس میں بہت سارے فائدے اور بہت سارے نقصان ہوتے ہیں۔ ہر موسم کا اپنا مزہ ہے لیکن زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے جس میں غریب لوگ شامل ہیں کہتے ہیں انھیں سردی کے مقابلے میں گرمی اچھی لگتی ہے۔ گرمی کا موسم اپریل سے شروع ہوتا ہے اور اس کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور 15 اکتوبر کے بعد کچھ ریلیف ملتا ہے۔
گرمی کے شروع میں گرم ہوائیں چلتی ہیں جسے لو کہتے ہیں، اس میں انسان تو انسان جانور، پرندے بھی اپنے اپنے آشیانے میں بیٹھے رہتے ہیں۔ صبح سے رات گئے تک یوں لگتا ہے جیسے آدمی کسی آگ کی بھٹی میں جل رہا ہو۔ سندھ کے دیہاتی علاقوں اور میدانوں میں دور دور تک اگر نگاہ دوڑائیں گے تو آپ کو زمین سے آگ کے شعلے نکلتے ہوئے نظر آئینگے۔ خاص طور پر جب لوگ ہائی وے یا نیشنل ہائی وے یا کسی بھی روڈ پر گاڑی میں جائینگے تو یہ منظر صاف نظر آئیگا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ زمین سوکھی ہوتی ہے اور زمین پر ابھی بارش یا پھر دریا کا پانی نہیں آیا ہے۔ درخت، پودے اور گھاس سب سوکھے اور روکھے نظر آتے ہیں۔اس کے علاوہ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے کچھ بااثر لوگ حرص اور لالچ میں آکر ہرے بھرے درخت کاٹ چکے ہیں اور اس کی جگہ کوئی نیا پودا نہیں لگاتے ہیں تاکہ وہ کٹے ہوئے درخت کی جگہ لے سکے۔ پہلے سندھ میں بہت جنگلات تھے جو اس حرص و لالچ کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔
اب لوگ اس گرمی کی تپش اور سختی کو کم کرنے کے لیے شہروں میں مشروبات پیتے ہیں مگر چھوٹے گاؤں اور درمیانے شہر کے لوگ تھادل پیتے ہیں جیسے ہم اپنے والد کے ساتھ شام کے 5 بجے کے بعد لکڑی کا ڈنڈا اور کونڈا صاف کرکے اس میں خشخش، بادام، خربوزے کے بیج، گلاب کی سوکھی پتیاں، کالی مرچیں، چھوٹی الائچی، مصری اور دوسرے اجناس ڈال کر تھادل بناتے تھے اور پھر ایک یا دو گلاس ہر فیملی ممبر پیتا تھا جس سے جسم میں ایک ٹھنڈک سی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ لسی بناتے تھے جس میں دودھ نہیں ڈلتا تھا اور وہ گاڑھی بھی نہیں ہوتی جیسے کڑاہی میں ملتی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ لسی چھاچھ کی طرح ہوتی ہے وہ دوپہر کو ضرور پیتے ہیں۔
اس کے علاوہ کیری کاٹ کر اس میں پیاز، ہرا دھنیا، ہری مرچیں، پودینا ڈال کر ایک چٹنی بنائی جاتی ہے جو دوپہر کے کھانے کے ساتھ ضرور کھائی جاتی ہے جو ٹھنڈی ہے اور ہاضمے کے لیے بھی اچھی ہوتی ہے اور یہ روزانہ کا معمول ہوتا ہے کہ آم کا اچار یا پھر لیموں کا اچار چاہے وہ سرکے میں ہو یا پھر سرسوں کے تیل میں بنا ہو دوپہر کے کھانے میں اہم آئٹم ہوتا ہے، اس کی بھی یہ خصوصیات ہیں کہ وہ کھانے کے مزے کو دوبالا کرتا ہے، ہاضمہ اچھا ہوتا ہے اور جسم کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے۔ گرمیوں کی شام بڑی مقبول اور مزیدار ہوتی ہے۔ جب شہروں میں امن تھا اور لوگ باہر گلیوں میں سوتے تھے میں بھی باہر چارپائی ڈال کر سوتا تھا مگر سورج غروب ہونے سے پہلے درجنوں پانی کی بالٹیاں گھر کے سامنے چھڑکاؤ کرتے تھے تاکہ گرمی کی بھاپ نکل جائے اور جب رات ہو تو چاروں طرف ٹھنڈک محسوس ہو۔
گرمیوں میں صبح اسکول یا دفتر جانے سے پہلے ہاتھ والے نلکے سے نہاتے تھے، پھر دوپہر کو، شام کو اور آخری بار رات کو سونے سے پہلے ضرور نہاتے تھے لیکن شام کو ایک معمول یہ تھا کہ ملتانی مٹی کو پانی میں بھگو کر رکھتے تھے جب وہ گھل جاتی تھی تو اس میں لیموں کا رس نکلے، کھال، سرسوں کا تیل، گھی شورہ ڈال کر پورے بدن پر ملتے تھے جس میں سر بھی شامل ہوتا تھا اور پھر جب وہ بالکل سوکھ جاتا تھا تو پھر ہینڈ پمپ کے نیچے بیٹھ کر نہاتے تھے۔ رات کو گھر کی چھت پر سوتے تھے اور جب ہوا نہیں چلتی تو زور سے کہتے تھے کہ دکھن کی ہوا چل پڑ اور مچھروں کو بھگادے، بجلی اتنی نہیں تھی اس لیے ہاتھ کے پنکھے چلاتے چلاتے نیند آجاتی تھی۔
سندھ میں گرمی کے موسم میں رات کے وقت چاول کھائے جاتے ہیں، جس کے ساتھ آم ہو یا پھر پکوڑے ورنہ کھجی کے ساتھ ڈنر ہوتا ہے۔ کئی غریب گھرانوں میں اب بھی یہ روایت قائم ہے کہ وہاں چاولوں کا بھرتا بناکر اسے مٹی کے برتن میں رکھا جاتا ہے اور جب وہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے تو اس کے اوپر شکر ڈال کر دودھ کے ساتھ کھاتے تھے جو جسمانی طاقت بھی دیتا ہے اور پیٹ کے لیے ہلکا اور ہضم ہونے والی خوراک ہے۔ دوپہر کو گلیوں میں برف کے گولے گنڈے والے آوازیں لگاتے پھرتے تھے اور برف کے اس گولے گنڈے کے اوپر مختلف رنگ والے شربت ڈال کر دیتے ہیں جو خاص طور پر بچوں کے لیے بڑی کشش رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ پہلے دور میں لاڑکانہ میں دو قسم کی قلفیاں بیچتے تھے ایک تو وہ تھی جس میں برف زیادہ ہوتی تھی اور تھرماس میں ڈال کر بیچنے والے لاتے تھے اور دوسرے قسم میں وہ ہوتی تھی جس میں دودھ کو پکاکر زیادہ گاڑھا بنایا جاتا ہے پھر اس میں کوئی لکڑی ڈال کر رکھتا تھا کوئی پیالی میں ڈال کر بناتے تھے جس کے اوپر ربڑ باندھ کر بند کرتے تھے جس کا ذائقہ زیادہ اچھا ہوتا ہے۔
گرمی میں شدت بڑھ جاتی تھی مگر اس کے ساتھ نہروں میں دریا کا پانی بھر جاتا تھا پھر لوگ اپنے بچوں کے سر کے بال منڈوا دیتے تھے تاکہ جب نئے نکلیں تو گھنے اور مضبوط ہوں۔ بڑے گھر والوں سے چھپ کر اپنے ساتھ پرانے ٹیوب لاکر نہر میں نہاتے تھے، جو تیرنا جانتا تھا انھیں ٹیوب کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ اس شوق میں کئی بچوں کی جانیں ڈوب جانے سے اور کئی کی چھلانگ لگانے سے کسی پتھر سے سر ٹکرانے سے ضایع ہوجاتی تھیں اس لیے ضلعی انتظامیہ نے نہانے پر نہر کے چاروں طرف دفعہ 144 نافذ کی تھی مگر پھر بھی لوگ اور بچے باز نہیں آتے تھے کیونکہ وہ اس موسم میں اس انداز کو پکنک کا نام دیتے ہیں اور اپنے ساتھ کھانا، فروٹ اور دوسرے مشروبات لاتے ہیں۔
یہ قدرت کی اہم بات ہے کہ گرمیوں میں آم، کھجور اور دھان پکتے ہیں جس سے ہماری معیشت بندھی ہوئی ہے، لوگوں کا روزگار لگا ہوا ہے، ہمیں کھانے کے لیے یہ ساری نعمتیں ملتی ہیں۔ مجھے تو سب سے زیادہ گرمیوں کی نعمت آم لگتے ہیں جس کو کھا کر دل بڑا خوش ہوتا ہے اور پھر اس کے اوپر دودھ ضرور پیا جائے جس سے آپ کو پھنسی نہیں نکلیں گی اور خون بھی زیادہ بنے گا۔ دوسرا اس موسم کی بھیانک بات یہ ہے کہ اس میں آگ لگنے کے واقعات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور خاص طور پر غریب کی جھگیاں جل جاتی ہیں جس سے نہ صرف ان کے پاس جو تھوڑا بہت سامان جل کر راکھ ہوجاتا ہے بلکہ کبھی کبھی انسانی جان کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ موسم غریبوں کا پسندیدہ موسم ہے کیونکہ انھیں زیادہ کپڑے پہننے نہیں پڑتے، جہاں چاہیں سو جاتے ہیں اور خاص طور پر گاؤں میں تو شادیاں اس موسم میں کرنا پسند کرتے ہیں کیونکہ مہمانوں کو رہائش، بسترے اور دوسرے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ مگر جب اس موسم میں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں تو ان کے کچے مکانات بھی گر جاتے ہیں جن سے ان کا مالی اور جانی نقصان ہوتا ہے۔ بچے بھی خوش ہوتے ہیں کیونکہ انھیں دو مہینے اسکول نہیں جانا پڑتا۔
اﷲ تعالیٰ نے زمین پر چار موسم دیے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ گرمی کا موسم ہمارے پاکستان میں چلتا ہے، جس میں بہت سارے فائدے اور بہت سارے نقصان ہوتے ہیں۔ ہر موسم کا اپنا مزہ ہے لیکن زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے جس میں غریب لوگ شامل ہیں کہتے ہیں انھیں سردی کے مقابلے میں گرمی اچھی لگتی ہے۔ گرمی کا موسم اپریل سے شروع ہوتا ہے اور اس کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور 15 اکتوبر کے بعد کچھ ریلیف ملتا ہے۔
گرمی کے شروع میں گرم ہوائیں چلتی ہیں جسے لو کہتے ہیں، اس میں انسان تو انسان جانور، پرندے بھی اپنے اپنے آشیانے میں بیٹھے رہتے ہیں۔ صبح سے رات گئے تک یوں لگتا ہے جیسے آدمی کسی آگ کی بھٹی میں جل رہا ہو۔ سندھ کے دیہاتی علاقوں اور میدانوں میں دور دور تک اگر نگاہ دوڑائیں گے تو آپ کو زمین سے آگ کے شعلے نکلتے ہوئے نظر آئینگے۔ خاص طور پر جب لوگ ہائی وے یا نیشنل ہائی وے یا کسی بھی روڈ پر گاڑی میں جائینگے تو یہ منظر صاف نظر آئیگا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ زمین سوکھی ہوتی ہے اور زمین پر ابھی بارش یا پھر دریا کا پانی نہیں آیا ہے۔ درخت، پودے اور گھاس سب سوکھے اور روکھے نظر آتے ہیں۔اس کے علاوہ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے کچھ بااثر لوگ حرص اور لالچ میں آکر ہرے بھرے درخت کاٹ چکے ہیں اور اس کی جگہ کوئی نیا پودا نہیں لگاتے ہیں تاکہ وہ کٹے ہوئے درخت کی جگہ لے سکے۔ پہلے سندھ میں بہت جنگلات تھے جو اس حرص و لالچ کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔
اب لوگ اس گرمی کی تپش اور سختی کو کم کرنے کے لیے شہروں میں مشروبات پیتے ہیں مگر چھوٹے گاؤں اور درمیانے شہر کے لوگ تھادل پیتے ہیں جیسے ہم اپنے والد کے ساتھ شام کے 5 بجے کے بعد لکڑی کا ڈنڈا اور کونڈا صاف کرکے اس میں خشخش، بادام، خربوزے کے بیج، گلاب کی سوکھی پتیاں، کالی مرچیں، چھوٹی الائچی، مصری اور دوسرے اجناس ڈال کر تھادل بناتے تھے اور پھر ایک یا دو گلاس ہر فیملی ممبر پیتا تھا جس سے جسم میں ایک ٹھنڈک سی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ لسی بناتے تھے جس میں دودھ نہیں ڈلتا تھا اور وہ گاڑھی بھی نہیں ہوتی جیسے کڑاہی میں ملتی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ لسی چھاچھ کی طرح ہوتی ہے وہ دوپہر کو ضرور پیتے ہیں۔
اس کے علاوہ کیری کاٹ کر اس میں پیاز، ہرا دھنیا، ہری مرچیں، پودینا ڈال کر ایک چٹنی بنائی جاتی ہے جو دوپہر کے کھانے کے ساتھ ضرور کھائی جاتی ہے جو ٹھنڈی ہے اور ہاضمے کے لیے بھی اچھی ہوتی ہے اور یہ روزانہ کا معمول ہوتا ہے کہ آم کا اچار یا پھر لیموں کا اچار چاہے وہ سرکے میں ہو یا پھر سرسوں کے تیل میں بنا ہو دوپہر کے کھانے میں اہم آئٹم ہوتا ہے، اس کی بھی یہ خصوصیات ہیں کہ وہ کھانے کے مزے کو دوبالا کرتا ہے، ہاضمہ اچھا ہوتا ہے اور جسم کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے۔ گرمیوں کی شام بڑی مقبول اور مزیدار ہوتی ہے۔ جب شہروں میں امن تھا اور لوگ باہر گلیوں میں سوتے تھے میں بھی باہر چارپائی ڈال کر سوتا تھا مگر سورج غروب ہونے سے پہلے درجنوں پانی کی بالٹیاں گھر کے سامنے چھڑکاؤ کرتے تھے تاکہ گرمی کی بھاپ نکل جائے اور جب رات ہو تو چاروں طرف ٹھنڈک محسوس ہو۔
گرمیوں میں صبح اسکول یا دفتر جانے سے پہلے ہاتھ والے نلکے سے نہاتے تھے، پھر دوپہر کو، شام کو اور آخری بار رات کو سونے سے پہلے ضرور نہاتے تھے لیکن شام کو ایک معمول یہ تھا کہ ملتانی مٹی کو پانی میں بھگو کر رکھتے تھے جب وہ گھل جاتی تھی تو اس میں لیموں کا رس نکلے، کھال، سرسوں کا تیل، گھی شورہ ڈال کر پورے بدن پر ملتے تھے جس میں سر بھی شامل ہوتا تھا اور پھر جب وہ بالکل سوکھ جاتا تھا تو پھر ہینڈ پمپ کے نیچے بیٹھ کر نہاتے تھے۔ رات کو گھر کی چھت پر سوتے تھے اور جب ہوا نہیں چلتی تو زور سے کہتے تھے کہ دکھن کی ہوا چل پڑ اور مچھروں کو بھگادے، بجلی اتنی نہیں تھی اس لیے ہاتھ کے پنکھے چلاتے چلاتے نیند آجاتی تھی۔
سندھ میں گرمی کے موسم میں رات کے وقت چاول کھائے جاتے ہیں، جس کے ساتھ آم ہو یا پھر پکوڑے ورنہ کھجی کے ساتھ ڈنر ہوتا ہے۔ کئی غریب گھرانوں میں اب بھی یہ روایت قائم ہے کہ وہاں چاولوں کا بھرتا بناکر اسے مٹی کے برتن میں رکھا جاتا ہے اور جب وہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے تو اس کے اوپر شکر ڈال کر دودھ کے ساتھ کھاتے تھے جو جسمانی طاقت بھی دیتا ہے اور پیٹ کے لیے ہلکا اور ہضم ہونے والی خوراک ہے۔ دوپہر کو گلیوں میں برف کے گولے گنڈے والے آوازیں لگاتے پھرتے تھے اور برف کے اس گولے گنڈے کے اوپر مختلف رنگ والے شربت ڈال کر دیتے ہیں جو خاص طور پر بچوں کے لیے بڑی کشش رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ پہلے دور میں لاڑکانہ میں دو قسم کی قلفیاں بیچتے تھے ایک تو وہ تھی جس میں برف زیادہ ہوتی تھی اور تھرماس میں ڈال کر بیچنے والے لاتے تھے اور دوسرے قسم میں وہ ہوتی تھی جس میں دودھ کو پکاکر زیادہ گاڑھا بنایا جاتا ہے پھر اس میں کوئی لکڑی ڈال کر رکھتا تھا کوئی پیالی میں ڈال کر بناتے تھے جس کے اوپر ربڑ باندھ کر بند کرتے تھے جس کا ذائقہ زیادہ اچھا ہوتا ہے۔
گرمی میں شدت بڑھ جاتی تھی مگر اس کے ساتھ نہروں میں دریا کا پانی بھر جاتا تھا پھر لوگ اپنے بچوں کے سر کے بال منڈوا دیتے تھے تاکہ جب نئے نکلیں تو گھنے اور مضبوط ہوں۔ بڑے گھر والوں سے چھپ کر اپنے ساتھ پرانے ٹیوب لاکر نہر میں نہاتے تھے، جو تیرنا جانتا تھا انھیں ٹیوب کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ اس شوق میں کئی بچوں کی جانیں ڈوب جانے سے اور کئی کی چھلانگ لگانے سے کسی پتھر سے سر ٹکرانے سے ضایع ہوجاتی تھیں اس لیے ضلعی انتظامیہ نے نہانے پر نہر کے چاروں طرف دفعہ 144 نافذ کی تھی مگر پھر بھی لوگ اور بچے باز نہیں آتے تھے کیونکہ وہ اس موسم میں اس انداز کو پکنک کا نام دیتے ہیں اور اپنے ساتھ کھانا، فروٹ اور دوسرے مشروبات لاتے ہیں۔
یہ قدرت کی اہم بات ہے کہ گرمیوں میں آم، کھجور اور دھان پکتے ہیں جس سے ہماری معیشت بندھی ہوئی ہے، لوگوں کا روزگار لگا ہوا ہے، ہمیں کھانے کے لیے یہ ساری نعمتیں ملتی ہیں۔ مجھے تو سب سے زیادہ گرمیوں کی نعمت آم لگتے ہیں جس کو کھا کر دل بڑا خوش ہوتا ہے اور پھر اس کے اوپر دودھ ضرور پیا جائے جس سے آپ کو پھنسی نہیں نکلیں گی اور خون بھی زیادہ بنے گا۔ دوسرا اس موسم کی بھیانک بات یہ ہے کہ اس میں آگ لگنے کے واقعات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور خاص طور پر غریب کی جھگیاں جل جاتی ہیں جس سے نہ صرف ان کے پاس جو تھوڑا بہت سامان جل کر راکھ ہوجاتا ہے بلکہ کبھی کبھی انسانی جان کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ موسم غریبوں کا پسندیدہ موسم ہے کیونکہ انھیں زیادہ کپڑے پہننے نہیں پڑتے، جہاں چاہیں سو جاتے ہیں اور خاص طور پر گاؤں میں تو شادیاں اس موسم میں کرنا پسند کرتے ہیں کیونکہ مہمانوں کو رہائش، بسترے اور دوسرے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ مگر جب اس موسم میں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں تو ان کے کچے مکانات بھی گر جاتے ہیں جن سے ان کا مالی اور جانی نقصان ہوتا ہے۔ بچے بھی خوش ہوتے ہیں کیونکہ انھیں دو مہینے اسکول نہیں جانا پڑتا۔