دستک

کراچی میں فکری ہم آہنگی اور بھائی چارگی کے نظریے کو پروان چڑھانے میں کراچی کے ایک سپوت کے ہم سب ہی مقروض ہیں۔

usmandamohi@yahoo.com

وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان نے اپنے پہلے دورۂ کراچی میں شہر کی ترقی کے حوالے سے کئی فیصلے کیے ہیں جو پی ٹی آئی کی نظر میں ضرور اہمیت کے حامل ہوںگے مگر کراچی کے زیادہ تر اپوزیشن رہنمائوں نے انھیں غیر موثر قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک کراچی کا اصل مسئلہ کراچی کی صحیح مردم شماری کرانا ہے۔

گزشتہ مردم شماری میں کراچی کے لاکھوں افراد کو مردم شماری میں شامل نہیں کیا گیا، یہ اہل کراچی کے ساتھ کھلی نا انصافی ہے۔ ان کے مطابق جب تک کراچی کی صحیح مردم شماری نہیں کرائی جاتی، یہاں کے مسائل کا حل نہیں نکالا جاسکتا، کراچی کے نئے ماسٹر پلان بنانے کے حوالے سے بھی ان کا کہناہے کہ یہ معاملہ بھی مردم شماری سے جڑا ہوا ہے۔

دراصل کوئی بھی پلاننگ درست مردم شماری کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بنگالیوں اور افغانوں کو پاکستانی شہریت دینے کے حوالے سے بھی انھوں نے تحفظات ظاہرکیے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بہاری جن کی پاکستانیت اور حب الوطنی پر شک وشبہ سے بالاتر ہے انھیں نہ جانے کیوں شناختی کارڈ جاری نہیں کیے جارہے ہیں جب کہ افغانی جن کا اپنا وطن پڑوس میں موجود ہے اور جنھیں اقوام متحدہ نے بھی مہاجرین قرار دیا ہے اور ان کی شناخت بھی افغانی کے طور پر ہی کی جاتی ہے انھیں کیونکر پاکستانی قرار دیا جاسکتا ہے۔

جہاں تک بنگالیوں اور برمیوں کا تعلق ہے انھیں ضرور پاکستانی شہریت کا حق دار قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ 1971 کے پہلے سے پاکستان میں مقیم ہیں اور انھوں نے پاکستان کو اپنے وطن کے طور پر اپنایا ہے۔ نئی حکومت کی غریب پروری اور بھائی چارگی کا اظہار ایک اچھی علامت ہے مگر ایک طرف ملک کی بڑھتی ہوئی معاشی بد حالی ہے تو دوسری جانب ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔

ملک کی آبادی پہلے ہی ملکی وسائل سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے اور اس میں اضافے کی روک تھام کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی جب کہ ملکی وسائل روز بروز سکڑتے جارہے ہیں۔ ایسے ماحول میں دوسرے ملک کے باشندوں کو اپنانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔

اس وقت بھی ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں لاکھوں افغانی موجود ہیں جن میں سے کم سے کم دس لاکھ ضرور پاکستان میں پیدا ہوئے ہوںگے۔ چنانچہ ان نئے پاکستانیوں کا اضافہ ہماری معیشت پر نیا بوجھ ثابت ہوگا پھر افغانوں نے پہلے ہی ہماری مہمان نوازی کا کون سا حق ادا کیا ہے۔ پاکستان مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ عمران خان ایک وقت میں طالبان کے بھرپور طرفدار تھے وہ ان سے مذاکرات کے حامی اور ان کے خلاف کسی بھی قسم کے ایکشن لینے کے خلاف تھے۔


وزیرستان کے شمالی اور جنوبی حصوں پر طالبان کے قبضوں کی وجہ سے ملک شدید دہشت گردی کی زد میں آگیا تھا۔ اس سے ملک کو بھاری مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا۔ بالآخر فوج کو مجبوراً ملک کو بچانے کے لیے آپریشن کرنا پڑا۔ پھر اس آپریشن کا دائرہ ''را'' اور اس کے ایجنٹوں تک دراز کیا گیا جس کے نتیجے میں ملک کے دیگر حصوں کی طرح کراچی میں بھی امن وامان بحال ہوگیا اور شہری رونقیں لوٹ آئیں۔

اس شہرکو پھر سے نئی زندگی دینے میں فوج کا کردار ناقابل فراموش ہے ، مگر کراچی میں فکری ہم آہنگی اور بھائی چارگی کے نظریے کو پروان چڑھانے میں کراچی کے ایک سپوت کے ہم سب ہی مقروض ہیں ۔ وہ کراچی کا ایک کامیاب متحرک اور مخلص میئر رہ چکا ہے، اس نے کراچی میں عوامی سہولیات کی فراہمی کے لیے تعمیرات کا نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اس نے کراچی میں قائم ''را'' کے نیٹ اور اس کے سہولت کاروں کے پول کھول دی تھی اس وقت ڈر و خوف کا یہ عالم تھا کہ مخالفین کی بوری میں بند لاشیں ملنا روز کا معمول بن چکا تھا۔

وہ حالیہ الیکشن میں ہار کر بھی جیت گیا ہے اس لیے کہ اس کا نظریہ کامیاب رہا جو اب بھی خوب پھل پھول رہا ہے اس طرح اس نے ایک کامیاب سیاست دان کا درجہ حاصل کرلیا ہے جب کہ کراچی کا ایک ایسا بھی سیاست دان ہے جو کامیابیوں کی بلندیوں پر پہنچ کر بھی اب کچھ نہیں رہا ہے۔ اگرچہ وہ تیس سال تک مہاجروں کی قسمتوں سے کھیلنے والے کا نائب رہا مگر شاید وہ اس دھوکے میں تھا کہ وہ لندن میں بیٹھ کر جو بھی کررہاہے وہ بالآخر ایک پاکستانی ہے مگر جب 22 اگست کو لندن سے باقاعدہ پاکستان مردہ باد کا نعرہ بلند ہوا تو اس کی تمام غلط فہمیاں دور ہوگئیں اور وہ فوراً پاکستان زندہ کی طرف پلٹ آیا۔

یہ وہ شخص ہے جو کراچی کا میئر بھی رہا قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا بار بار ممبر منتخب ہوا کبھی کراچی میں اس کے نام کی طوطی بولتا تھا ۔ اس نے بلاشبہ لندن سے علیحدگی کے بعد پارٹی کی قیادت کا حق ادا کردیا تھا۔ قیادت سنبھالنے کے فوراً بعد محمود آباد کا ضمنی صوبائی الیکشن اس کے لیے ایک چیلنج سے کم نہ تھا کچھ لوگوں کو خیال تھا کہ لندن کی اجازت کے بغیر لوگ ووٹ دینے کے لیے گھروں سے باہر نہیں نکلیں گے مگر اس نے اپنی کاوشوں سے ثابت کردیا تھا کہ قیادت کا کوئی بحران نہیں ہے بلکہ قیادت کا پہلے جو خلا تھا اس نے اسے پر کردیا ہے۔

اس کے بعد اس کی قیادت کو ایسی نظر لگی کہ وہ خود اپنی سحر زدہ حالت کو نہ سمجھ سکا، ایک ایسا شخص اس کے قریب آگیا تھا جسے وہ اپنا ہم زاد خیال کرنے لگا تھا۔ اس نو وارد کو آگے بڑھانے کے لیے اس نے خودکو وقف کردیا ۔ یہ راز لیکن کسی کی سمجھ میں نہ آسکا کہ آخر وہ کیونکر نو وارد کو صف اول کا رہنما بنانا چاہتا ہے نو وارد کے مسئلے پر پارٹی رہنمائوں کے اعتراض پر اس نے اپنا علیحدہ دھڑا بنانے تک سے گریز نہیں کیا۔

عام انتخابات کا اعلان ہوچکا تھا کچھ لوگ اس کے اس کھیل کو نو وارد کی آڑ میں لندن والوں کی انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کو کامیاب بنانے کی ایک چال سمجھے۔ آخر الیکشن سر پر آگئے بہادر آباد والوں نے اسے بہت منایا مگر اس کی ناراضگی ختم نہ ہوئی جس سے پارٹی کو بہت نقصان ہوا، پارٹی کی تقسیم کی وجہ سے عوام پارٹی سے بد دل ہوتے گئے اور دوسری پارٹیوں کا رخ کرتے رہے جب وہ تنہا رہ گیا تو بہادر آباد کا رخ کیا مگر اب اس کی وہاں پہلے جیسی ساکھ نہیں رہی تھی۔

ادھر نو وارد بھی اب اس سے دور ہوگیا۔ کیا نو وارد کا اس کے قریب آنا اس کے خلاف سازش تھی تاہم جو بھی ہو وہ اس کا سراسر خود ہی قصور وار ہے۔ کیونکہ وہ ایک زیرک سیاست دان ہوتے ہوئے اپنے خلاف سازش کو نہ سمجھ سکا اس نے الیکشن تو لڑا مگر شکست مقدر بنی پھر ضمنی الیکشن میں بھی اسے نہیں پوچھا گیا بالآخر اس نے مشتعل ہوکر پارٹی رکنیت ترک کرنے اور رابطہ کمیٹی سے ناتا توڑنے کا اعلان کردیا اور یہ بیان بھی دے ڈالا کہ اسے تحریک انصاف نے ضمنی الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ دینے کی آفرکی ہے ۔ دوسرے ہی دن پی ٹی آئی کی جانب سے اس کی تردید آگئی اب اس کا حال یہ ہے کہ نہ گھرکا رہا نہ گھاٹ کا تاہم پی ایس پی کے دروازے پر دستک دینے کا آپشن ابھی ضرور باقی ہے۔
Load Next Story