پتھر کی لکیر

آپ اگرنیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں توپھرآپ صرف ایک کام کریں‘آپ یہ اسٹیبلش کردیں ریاست نے جوکہہ دیاوہ پتھرکی لکیربن گیا۔


Jawed Chowhdray September 23, 2018
www.facebook.com/javed.chaudhry

وہ تقریر محض تقریر نہیں تھی وہ بم دھماکہ تھی اور اس دھماکے نے پوری کمپنی کی بنیادیں ہلا دیں۔

ایلکوا (Alcoa) دنیا میں ایلومینیم کی سب سے بڑی کمپنی ہے' کمپنی کے مالک چارلس مارٹن ہال نے 1886ء میں ایلومینیم ایجاد کیا تھا یوں یہ کمپنی ایلومینیم کی بانی بھی ہے' ایلکوا کا کاروبار 12ممالک میں پھیلا ہوا ہے اور 2017ء میں اس کا ریونیو 11بلین ڈالر تھا' ملازمین کی تعداد 14 ہزار 600ہے اور اس کے اثاثوں کی مالیت 17.45بلین ڈالر ہے۔

ایلکوا 1987ء میں مشکل ترین دور سے گزر رہی تھی ' شیئرز گر رہے تھے' ملازمین کی تنخواہوں کا شیڈول بے ترتیب تھا' قرضوں میں اضافہ ہو رہا تھا اور پے منٹس میں بے قاعدگیاں معمول بن چکی تھیں'کمپنی دیوالیہ پن کے قریب آ چکی تھی چنانچہ بورڈ نے کمپنی کا چیف ایگزیکٹو آفیسر تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا' پال اونیل(Paul O'Neill) کو نیا ''سی ای او'' بنایا گیا' اونیل سرکاری ملازم رہا تھا' اس نے امریکا میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات کنٹرول کر کے پوری دنیا میں نام کمایا تھا' وہ وزارت صحت میں ملازم تھا۔

امریکا میں ان دنوں ہر تیسری ماں کا بچہ پیدائش کے چند ماہ بعد انتقال کر جاتا تھا' اونیل نے ریسرچ کرائی'پتہ چلا امریکی خواتین اپنی خوراک کا خیال نہیں رکھتیں' یہ جسمانی لحاظ سے کمزور ہوتی ہیں' یہ کمزوری بچے میں شفٹ ہوتی ہے' بچہ ماحول کی سختی برداشت نہیں کر پاتا اور یوں یہ پیدائش کے بعد ماں کی گود میں دم توڑ دیتا ہے' اونیل نے اس کا دلچسپ حل نکالا' اس نے سیکنڈری اسکولوں کے سلیبس میں بیالوجی شامل کرا دی۔

اسکولوں میں متوازن خوراک اور انسانی بدن کی ضرورتوں کی تعلیم دی جانے لگی' وہ بچے پڑھائی کے بعد استاد بنے اور وہ اسکولوں اور یونیورسٹی کے طالب علموں کو متوازن خوراک کی آگاہی دینے لگے' بچیوں نے اپنی خوراک پر توجہ دی اور یوں امریکا میں بچوں کی شرح اموات کم ہو گئی' یہ اونیل کی حیران کن کامیابی تھی' یہ کامیابی ماڈل بنی اور یہ ماڈل دنیا کے سو سے زائد ملکوں میں متعارف ہوا۔

یہ امریکا کا پہلا سرکاری ملازم تھا جسے کسی پرائیویٹ کارپوریشن نے سربراہ بننے کی دعوت دی' ایلکوا کے پاس اونیل کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا' کمپنی ڈوب رہی تھی اور اونیل کے سوا کوئی سی ای او اس ڈوبتی کشتی میں سوار ہونے کے لیے تیار نہیں تھا' قصہ مختصر اونیل نے 1987ء میں ایلکوا جوائن کر لی' کمپنی نے نئے سی ای او کے تعارف کے لیے شاندار پارٹی کا اہتمام کیا' پارٹی میں نیویارک کے تمام بڑے اسٹاک بروکرز کو بھی بلایا گیا۔

کمپنیوں کے سی ای اوز کو بھی' سینیٹرز اور کانگریس مین کو بھی'وزراء کو بھی اور میڈیا کو بھی' پارٹی کے آخر میں اونیل کو خطاب کی دعوت دی گئی' دنیا بھر میں نئے سی ای اوز تعارفی پارٹیوں میں عموماً اپنا وژن دیتے ہیں' یہ شرکاء کو بتاتے ہیں ہماری کمپنی میں یہ خرابیاں ہیں اور میں اتنے عرصے میں یہ تمام خرابیاں دور کر دوں گا اور یوں کمپنی کا منافع یہاں سے وہاں پہنچ جائے گا وغیرہ وغیرہ' یہ عموماً حکومتی پالیسیوں' اسٹاک مارکیٹ اور کمپنی کے بورڈ اور ملازمین کی تعریف بھی کرتے ہیں اور کمپنی کے ارکان کے لیے مراعات کا اعلان بھی کرتے ہیں۔

شرکاء کا خیال تھا اونیل بھی اسی پیٹرن کے مطابق گفتگو کرے گا' تالیاںبجیں گی' فوٹوسیشن ہوگا اور لوگ اونیل کو مبارکباد پیش کر کے گھر چلے جائیں گے لیکن اونیل اسٹیج پر آیا ' چند فقرے بولے اور پورے ہال کو ہلا کر رکھ دیا' اسٹاک بروکرز اپنی کرسیوں سے اٹھے' ہوٹل کے ٹیلی فون بوتھس کی طرف بھاگے اور اپنے اپنے گاہکوں کو مشورے دینے لگے ''ایلکوا کے شیئرز سے جان چھڑا لیں۔

بورڈ نے کمپنی ایک پاگل کے حوالے کر دی ہے'' بورڈ کے ارکان بھی ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور ملازمین بھی حیرت سے اسٹیج کی طرف تکنے لگے' اونیل نے کہا ''میں ایلکوا میں صرف ایک کام کروں گا' میں ملازمین کی سیفٹی پر کوئی کمپرومائز نہیں کروں گا' ہماری کمپنی کے کسی پلانٹ میں کوئی حادثہ نہیں ہو گا اور کوئی ملازم زخمی نہیں ہوگا' میں اسے امریکا کی محفوظ ترین کمپنی بنائوں گا'' وہ یہ کہہ کر اسٹیج سے نیچے اتر گیا' دھاتوں کا کاروبار دنیا کے خطرناک ترین پیشوں میں شمار ہوتا ہے۔

ایلومینیم کی بھٹیوں میں کم از کم درجہ حرارت 1500 ڈگری ہوتا ہے' یہ درجہ حرارت آئے دن کسی نہ کسی مزدور کا کوئی نہ کوئی عضو نگل جاتا ہے' مزدور فیکٹریوں میں جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں' امریکا کی میٹل انڈسٹری میں یہ واقعات انیس سو اسی کی دھائی میں عام تھے' سیکڑوں لوگ ہر سال میٹل انڈسٹری میں جان اور اعضاء سے محروم ہوتے تھے لیکن ایلکوا زیادہ خطرناک کمپنیوں میں شامل نہیں تھی' اس میں حادثوں کی شرح بہت کم تھی لیکن اونیل نے ایلکوا کو محفوظ ترین کمپنی بنانے کا اعلان کر کے پارٹی میں شامل تمام لوگوں کو حیران کر دیا۔

دنیا نفسیاتی طور یہ مان چکی تھی دھاتوں کی فیکٹریوں میں حادثے ہوں گے اور لوگ زخمی بھی ہوں گے اور مارے بھی جائیں گے' ورکرز بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے چنانچہ میٹل کمپنیاں ملازمین کی حفاظت کے لیے زیادہ سے زیادہ انشورنس پر توجہ دیتی تھیں' یہ اچھی انشورنس کمپنیاں ہائر کر کے ملازمین اور لواحقین کو بھاری معاوضہ دلا دیتی تھیں اور حفاظتی انتظامات کا مسئلہ حل ہو جاتا تھا لیکن اونیل نے نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرنے کا اعلان کر کے شرکاء کو پریشان کر دیا۔

لوگ اسے فاتر العقل سمجھنے لگے' لوگوں نے اپنے شیئرز بھی بیچنا شروع کر دیئے اوریوں کمپنی تیزی سے نیچے آنے لگی لیکن پھر چھ ماہ بعد چمتکار ہو گیا' ڈوبتی ہوئی کمپنی نہ صرف سطح آب پر آ گئی بلکہ وہ تیزی سے دوڑنے بھی لگی' شیئرز کی ویلیو دگنی ہو گئی'قرضے ادا ہونے لگے' نقصان پورے ہو گئے' آرڈرز میں اضافہ ہوگیا اور ملازمین کو تنخواہیں وقت پر ملنے لگیں' پال اونیل 2000ء تک کمپنی کا سی ای او رہا' ان 13 برسوں میں کمپنی کی ویلیو' شیئرز اور ریونیو میں پانچ گنا اضافہ ہوا۔

ایلکوا میں ایک ملین ڈالر سرمایہ کاری کرنے والے پانچ ملین ڈالر کے مالک بن گئے اورایلکوا کے دنیا کے مختلف حصوں میں تیس نئے پلانٹس لگ گئے' اونیل نے 2000ء میں جب کمپنی کو خیرباد کہا تو ہزاروںملازمین نے اسے پوری دنیا میں کھڑے ہو کر رخصت کیا ' وہ دنیا کے کامیاب ترین سی ای او کے ٹائٹل کے ساتھ گھر واپس گیا' وہ اس وقت تک اتنا مشہور ہو چکا تھا کہ صدر جارج بش نے اسے 2001ء میں امریکا کا وزیر خزانہ بنا دیا' وہ دنیا کی طاقتور ترین معیشت کا دو سال وزیر خزانہ رہا۔

پال او نیل نے کیا چمتکار کیااور وہ کون سے اقدامات تھے جنہوں نے فاترالعقل کا ٹائٹل حاصل کرنے والے شخص کو دنیا کا کامیاب ترین سی ای او بنا یا' وہ چمتکار صرف ایک آبزرویشن تھی' اونیل نے کمپنی جوائن کرنے کے بعد اندازہ لگایا تھا ایلکوا کے مختلف پلانٹس میں ہر ہفتے ایک خوفناک حادثہ ہوتا ہے اور اس حادثے میں کوئی نہ کوئی ورکر جان سے چلا جاتا ہے یا پھر اس کے جسم کے اعضاء اڑ جاتے ہیں' یہ حادثے ورکرز کی نفسیات کا حصہ بن چکے ہیں۔

یہ نفسیاتی خوف کا شکار ہیں اور یہ اس خوف کی وجہ سے پوری پوٹینشل کے ساتھ کام نہیں کر پاتے یوں پیداوار کم اور اخراجات زیادہ ہوتے ہیں' یہ عدم توازن کمپنی کے ریونیو کو ڈسٹرب کر رہا ہے ' ایلکوا اگر ملازمین کو تحفظ کا احساس دے دے' یہ اگر ملازمین کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو جائے ایلکوا کی کسی فیکٹری میں کوئی حادثہ نہیں ہوگا اور اگر ہو گا تو اس میں کسی ورکر کو کوئی نقصان نہیں ہوگا تو ملازمین اپنی پوری کیپسٹی کے ساتھ کام کریں گے یوں پروڈکشن بڑھ جائے گی اور ایلکوا کا ریونیو ٹھیک ہو جائے گا۔

اونیل نے ورکرز کی سیفٹی پر کام کیا' وہ معمولی حادثوں پر پورا پلانٹ بند کر دیتا تھا اور وہ پلانٹ اس وقت تک نہیں کھلتا تھا جب تک وہ معمولی نقص دور نہیں ہو جاتا تھا' ایلکوا کے تمام ملازمین کے پاس اونیل کا نمبر تھا' وہ کسی بھی وقت اسے فون کر کے کسی بھی پلانٹ کی سیفٹی کی شکایت کر سکتے تھے اور شکایت کے بعد پلانٹ پہلے بند کیا جاتا تھا اور تحقیقات اس کے بعد شروع ہوتی تھیں۔

پوری دنیا سے پلانٹ سیفٹی کی اطلاعات روزانہ ہیڈ کوارٹر آتی تھیں اور ان پر سیکنڈز میں کام ہوتا تھا' وہ ملازمین کی معمولی چوٹ پر پلانٹ منیجر اور کنٹری ہیڈ تبدیل کر دیتا تھا' یہ پریکٹس چھ ماہ جاری رہی یہاں تک کہ ایلکوا کے تمام پلانٹس محفوظ ڈکلیئر ہو گئے' ملازمین نے جم کر کام کرنا شروع کر دیا اور ڈوبی ہوئی کمپنی سطح آب پر آگئی۔

یہ کہانی وزیراعظم عمران خان کے لیے تھی' ہمارے ملک کا صرف ایک ایشو ہے اور وہ ایشو عوام کا ریاست پر عدم اعتماد ہے' لوگوں کو ریاست پر یقین نہیں اور اس عدم یقین کی واحد ذمے دار ریاست ہے' آپ خود سوچئے! ریاست جب ایک رات میں اپنی پالیسیاں 180 درجے پر موڑ دے گی تو لوگ اس پر کیا اعتماد کریں گے' آپ 2018ء کا بجٹ دیکھ لیجیے' ریاست نے مئی 2018ء میں عوام کو ریلیف دیا اور اسی ریاست نے 18ستمبر 2018ء کو منی بجٹ میں زیادہ تر رعایتیں واپس لے لیں' کیا لوگ اس ''دھوکہ دہی'' کے بعد ریاست پر اعتماد کریں گے' کیا یہ ملک کو ٹیکس دیں گے اور کیا یہ بے خوفی سے اپنے اثاثے ڈکلیئر کریں گے؟ جی نہیں!

ریاستیں کریڈیبلٹی سے چلا کرتی ہیں' بدقسمتی سے ہماری ریاست کی کوئی کریڈیبلٹی نہیں' آپ اگر نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو پھر آپ صرف ایک کام کریں' آپ یہ اسٹیبلش کر دیں ریاست نے جو کہہ دیا وہ پتھر کی لکیر بن گیا' اب پتھر ٹوٹ سکتا ہے لیکن لکیر ختم نہیں ہو سکتی' آپ یقین کیجیے ریاست نے جس دن یہ کریڈیبلٹی پیدا کر دی ملک میں اس دن ٹیکس کا ایشو رہے گا اور نہ ہی ریونیو کا' ہمیں اس دن پرانے پاکستان کو نیا بنانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔