مذاکرات ہی امن کا راستہ ہے
پاکستان کے جذبہ خیرسگالی کے جواب میں بھارت کے پیچھے ہٹنے سے افسوس ہوا
مسئلہ کشمیر سمیت باہمی تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی پاکستانی پیشکش کے جواب میں بھارتی حکومت نے ماضی کی اپنی روایت کو برقرار رکھتے اور حسب عادت پاکستان پر الزام تراشی کا ڈھول پیٹتے ہوئے مذاکرات کی دعوت قبول کرنے کے اگلے ہی روز راہ فرار اختیار کر لی۔ بھارتی حکومت کی اس پسپائی پر پردہ ڈالنے اور عالمی سطح پر شرمندگی سے بچانے کے لیے بھارتی آرمی چیف نے پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ مذاکرات کی اس کوشش کو سبوتاژ کرنے کے کھیل اور بھارتی سول و عسکری قیادت کے منفی رویے سے خطے میں امن قائم کرنے کی آس ایک بار پھر دم توڑتی نظر آ رہی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ایک انٹرویو میں بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت کے بیان کو غیر ذمے دارانہ قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے، پاکستان ایٹمی قوت ہے اور جنگ کے لیے تیار ہے،کسی بھی قسم کا ایڈونچر ہوا تو منہ توڑ جواب دیا جائے گا، پاکستان کی آج بھی آفر ہے، آئیں میز پر بیٹھ کر بات چیت کریں، بھارتی فوج اپنی ملکی سیاست میں گھری ہوئی ہے،عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کے لیے جنگ کی باتیںکر رہی ہے، امن کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں،امن کو خراب نہیں ہونے دینگے، پاکستان کبھی مذاکرات سے پیچھے نہیں ہٹا، ہمیشہ بھارت ہی بھاگا ہے، بھارت سرجیکل اسٹرائیک کا ثبوت اپنی پارلیمنٹ میں نہیں دے سکا، انڈیا جتنی بھی کوشش کرلے، جھوٹ ہمیشہ جھوٹ ہی رہے گا۔ ادھر وزیراعظم عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں مذاکرات کی دعوت ٹھکرانے پر بھارتی قیادت کو بصیرت سے عاری قرار دیتے ہوئے اس کے منفی اور متکبرانہ رویے کو افسوسناک قرار دیا۔
پاکستان کی جانب سے بھارت کو مذاکرات کی دعوت نئی بات نہیں اس سے پیشتر بھی اسے بارہا اس کی دعوت دی جاتی رہی ہے لیکن اس نے ہر بار کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ کر اسے سبوتاژ کرنے کا مذموم کھیل کھیلا' اب نئی آنے والی حکومت نے خطے میں امن قائم کرنے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ باہمی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی پالیسی اپناتے ہوئے بھارت کو مذاکرات کی دعوت کا ڈول ڈالا ' شاید پاکستانی حکومت کی یہ خوش فہمی تھی کہ اس کی اس پیشکش کے جواب میں بھارت مثبت رویہ اپناتے ہوئے دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کی جانب قدم بڑھائے گا۔
جب بھارت نے وزیراعظم عمران خان کے خط کے جواب میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان 27ستمبر کو نیویارک میں مذاکرات کی پیشکش کو قبول کیا تو یہ امید بندھی کہ اب مخاصمانہ پالیسی کو چھوڑ کر دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آ جائیں گے لیکن پاکستانی حکومت کو اس وقت سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب مذاکرات کی پیشکش قبول کرنے کے اگلے ہی روز بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورت حال کا بہانہ بنا کر وزرائے خارجہ ملاقات منسوخ کر دی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکا روانگی سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے جذبہ خیرسگالی کے جواب میں بھارت کے پیچھے ہٹنے سے افسوس ہوا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق ملاقات کی اس منسوخی کے پس منظر میں بھارت کے اندرونی حالات اور آیندہ الیکشن کے موقع پر سیاسی دباؤ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کے اس انکار کے باوجود پاکستان اب بھی اسے مذاکرات کی پیشکش سے پیچھے نہیں ہٹا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عندیہ دیا کہ بھارت ایک قدم بڑھائے ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے' مذاکرات ہوں گے تو باوقار اور باعزت طریقے سے ہوں گے' ہم نہ پہلے انکاری تھے نہ اب گھبراہٹ ہے' تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے' بھارت ان عناصر کی پشت پناہی کر رہا ہے جو بلوچستان کو عدم استحکام سے دوچار کررہے ہیں۔ بھارت کی سول قیادت نے جہاں پسپائی اختیار کی وہاں اس کی عسکری قیادت بھی گیدڑ بھبھکیوں سے باز نہیں آئی' بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے بڑھک لگاتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج سے بدلہ لینے کا وقت آ گیا۔
اس کو ان کی زبان میں جواب دیا جائے گا' ہم اپنی اگلی کارروائی کی تفصیلات نہیں بتا سکتے' پاکستان کو سرپرائز دیں گے۔ بھارتی آرمی چیف کے ہوش ٹھکانے لگانے کے لیے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے واضح کر دیا کہ پاکستان جنگ کے لیے تیار ہے' کسی بھی قسم کا ایڈونچر ہوا تو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ انھوں نے بھارت پر واضح کیا کہ پاکستان کی آج بھی پیشکش ہے آئیں اور میز پر بیٹھ کر بات کریں' ہم امن پسندی کو آگے لے کر چلنا چاہتے ہیں' پاکستان کو پہلے پارٹ آف پرابلم کہا جاتا تھا اب پاکستان پارٹ آف سیلوشن ہے۔ بہتر ہے بھارتی حکومت جارحانہ رویہ ترک کر کے مذاکرات کی میز پر آئے یہی خطے کی بہتری اور خوشحالی کا واحد راستہ ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ایک انٹرویو میں بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت کے بیان کو غیر ذمے دارانہ قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے، پاکستان ایٹمی قوت ہے اور جنگ کے لیے تیار ہے،کسی بھی قسم کا ایڈونچر ہوا تو منہ توڑ جواب دیا جائے گا، پاکستان کی آج بھی آفر ہے، آئیں میز پر بیٹھ کر بات چیت کریں، بھارتی فوج اپنی ملکی سیاست میں گھری ہوئی ہے،عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کے لیے جنگ کی باتیںکر رہی ہے، امن کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں،امن کو خراب نہیں ہونے دینگے، پاکستان کبھی مذاکرات سے پیچھے نہیں ہٹا، ہمیشہ بھارت ہی بھاگا ہے، بھارت سرجیکل اسٹرائیک کا ثبوت اپنی پارلیمنٹ میں نہیں دے سکا، انڈیا جتنی بھی کوشش کرلے، جھوٹ ہمیشہ جھوٹ ہی رہے گا۔ ادھر وزیراعظم عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں مذاکرات کی دعوت ٹھکرانے پر بھارتی قیادت کو بصیرت سے عاری قرار دیتے ہوئے اس کے منفی اور متکبرانہ رویے کو افسوسناک قرار دیا۔
پاکستان کی جانب سے بھارت کو مذاکرات کی دعوت نئی بات نہیں اس سے پیشتر بھی اسے بارہا اس کی دعوت دی جاتی رہی ہے لیکن اس نے ہر بار کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ کر اسے سبوتاژ کرنے کا مذموم کھیل کھیلا' اب نئی آنے والی حکومت نے خطے میں امن قائم کرنے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ باہمی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی پالیسی اپناتے ہوئے بھارت کو مذاکرات کی دعوت کا ڈول ڈالا ' شاید پاکستانی حکومت کی یہ خوش فہمی تھی کہ اس کی اس پیشکش کے جواب میں بھارت مثبت رویہ اپناتے ہوئے دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کی جانب قدم بڑھائے گا۔
جب بھارت نے وزیراعظم عمران خان کے خط کے جواب میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان 27ستمبر کو نیویارک میں مذاکرات کی پیشکش کو قبول کیا تو یہ امید بندھی کہ اب مخاصمانہ پالیسی کو چھوڑ کر دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آ جائیں گے لیکن پاکستانی حکومت کو اس وقت سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب مذاکرات کی پیشکش قبول کرنے کے اگلے ہی روز بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورت حال کا بہانہ بنا کر وزرائے خارجہ ملاقات منسوخ کر دی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکا روانگی سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے جذبہ خیرسگالی کے جواب میں بھارت کے پیچھے ہٹنے سے افسوس ہوا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق ملاقات کی اس منسوخی کے پس منظر میں بھارت کے اندرونی حالات اور آیندہ الیکشن کے موقع پر سیاسی دباؤ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کے اس انکار کے باوجود پاکستان اب بھی اسے مذاکرات کی پیشکش سے پیچھے نہیں ہٹا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عندیہ دیا کہ بھارت ایک قدم بڑھائے ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے' مذاکرات ہوں گے تو باوقار اور باعزت طریقے سے ہوں گے' ہم نہ پہلے انکاری تھے نہ اب گھبراہٹ ہے' تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے' بھارت ان عناصر کی پشت پناہی کر رہا ہے جو بلوچستان کو عدم استحکام سے دوچار کررہے ہیں۔ بھارت کی سول قیادت نے جہاں پسپائی اختیار کی وہاں اس کی عسکری قیادت بھی گیدڑ بھبھکیوں سے باز نہیں آئی' بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے بڑھک لگاتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج سے بدلہ لینے کا وقت آ گیا۔
اس کو ان کی زبان میں جواب دیا جائے گا' ہم اپنی اگلی کارروائی کی تفصیلات نہیں بتا سکتے' پاکستان کو سرپرائز دیں گے۔ بھارتی آرمی چیف کے ہوش ٹھکانے لگانے کے لیے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے واضح کر دیا کہ پاکستان جنگ کے لیے تیار ہے' کسی بھی قسم کا ایڈونچر ہوا تو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ انھوں نے بھارت پر واضح کیا کہ پاکستان کی آج بھی پیشکش ہے آئیں اور میز پر بیٹھ کر بات کریں' ہم امن پسندی کو آگے لے کر چلنا چاہتے ہیں' پاکستان کو پہلے پارٹ آف پرابلم کہا جاتا تھا اب پاکستان پارٹ آف سیلوشن ہے۔ بہتر ہے بھارتی حکومت جارحانہ رویہ ترک کر کے مذاکرات کی میز پر آئے یہی خطے کی بہتری اور خوشحالی کا واحد راستہ ہے۔