سیدھی سی بات

شاکر بولے جارہا تھا ’’میاں (بڑے والے) کے دونوں بیٹے حسن، حسین کہتے ہیں ’ہم انگلستان کے شہری ہیں


Saeed Parvez September 24, 2018

بات تو سیدھی سی ہے، سیدھی ہی بات کو گھمن گھیری بنا دیا گیا ہے۔ سیدھی صاف بات کو گھمایا جارہا ہے۔ اتوار کا دن تھا، چھٹی کا دن، محمد شاکر صبح ہی آگیا تھا، وہ اور میں بیٹھک میں بیٹھے تھے، جسے اب ڈرائنگ روم کہا جاتا ہے۔ محمد شاکر بہت پریشان تھا، وہ کہہ رہا تھا ''دم بھر کو سکون ملا تھا کہ تبدیلی آگئی ہے، اب ملک آگے بڑھے گا، مگر لگتا ہے جیسے ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں''۔ میں خاموش بیٹھا تھا اور شاکر بول رہا تھا۔

تقریباً دو سال معاملہ عدالت عظمیٰ میں چلا، کہتا جاتا رہا، 'میاں صاحب! منی ٹریل دیں اور گھر چلے جائیں، مگر میاں صاحب آخر میاں صاحب تھے، وہ اور ان کے وکلا نے منی ٹریل نہیں دی، بھئی لندن والے اپارٹمنٹ آخر کس کے ہیں؟ یہ سیدھی سی بات ہے، اس سیدھے سے سوال کا کوئی جواب نہیں دے رہا۔ جے آئی ٹی بنی، وہاں بھی مہینوں کیس چلتا رہا۔ میاں صاحبان کے خزانچی اسحاق ڈار لندن جاکر اسپتال میں لیٹ گئے، ان کے بیڈ کے چاروں طرف طبی مشینیں لگادی گئیں، بلڈ پریشر، شوگر لیول، دل کی لمحہ بہ لمحہ صورتحال، اور پھر یہ تصویر دنیا بھر میں پھیلا دی گئی اور کہا گیا ''مریض شدید بیمار ہے'' کسی بھی اشرف بندے کو یہ فکر نہیں کہ ''ملک لب مرگ ہے''۔

شاکر بولے جارہا تھا ''میاں (بڑے والے) کے دونوں بیٹے حسن، حسین کہتے ہیں 'ہم انگلستان کے شہری ہیں، ہم پر پاکستان کا قانون لاگو نہیں ہوتا'۔پاکستان کی عدالتیں خزانچی صاحب اور میاں صاحب کے لڑکوں کو بلا رہی ہیں، اور وہ آنے سے انکاری ہیں۔ خزانچی بھی بستر مرگ سے اٹھ گیا ہے، چل پھر رہا ہے۔'' شاکر نے پہلو بدلا اور چیختے ہوئے بولا ''یہ ہمارا ملک کیسے بچے گا؟ یہ ہمارے ملک کے ساتھ کیا کیا جارہا ہے؟ اب تو کچھ بھی نہیں رہا، کچھ بھی نہیں بچا، راکھ کا ڈھیر ہے اور چنگاریاں ہیں، اور یہ 'دل کے کالے' ممبران سینیٹ و اسمبلی، اور ان کے سنگی ساتھی، ان سب کے فارم ہاؤسز سرسبز و شاداب ہیں، ان کے محل شاد و آباد ہیں، ان کے کھیت کھلیان لبالب بھرے ہوئے ہیں، دولت کے نشے میں چور یہ سب ایک مٹھی میں متحد ہیں، ان کے پاس اندر باہر جو کچھ پائی پیسہ ہے، غریبوں کے خون پسینے کی کمائی ہے۔ ان چند صد ظالموں سے غریبوں کا لوٹا ہوا مال واپس لے لو، اسی کام میں ملک کی سلامتی ہے، یوں ہی ملک بچے گا''۔

شاکر بول رہا تھا اور سچ بول رہا تھا، وہ کہہ رہا تھا ''یہ میرا ویسپا اسکوٹر ہے جس پر میں آیا ہوں، اور جو تمھارے گھر کے باہر کھڑا ہے، تم مجھ سے پوچھ سکتے ہو کہ یہ اسکوٹر تم نے کیسے خریدا اور کتنے میں خریدا؟ تو تمھارے اس سوال کا جواب مجھے دینا ہے کہ میرا اسکوٹر اپنے پیسوں میں خریدا، اور زیور بیچ کر خریدا۔ اب اگر میں الٹا تم سے کہوں کہ تم ثابت کرو کہ یہ اسکوٹر میں نے کتنے میں اور کیسے خریدا تو یہ تو غیر اصولی بات ہوگی۔ یار یہ ملک کیسے بچے گا؟'' شاکر بہت بے چین تھا۔ وہ کہہ رہا تھا ''جنرل پرویز مشرف کو سرکاری اہلکار عدالت میں پیش کرنے چلے تھے، اور وہ ان کو اسپتال لے گئے، ڈاکٹروں نے معائنے کے بعد رپورٹ دی کہ کمر میں شدید درد ہے، کمر کے مہرے ہل گئے ہیں اور ان کا علاج بیرون ملک ہوگا۔

چلو جناب، جنرل صاحب نے پاکستان سے اڑان بھری اور ڈیڑھ گھنٹے میں دبئی پہنچ گئے اور جاتے ہی اپنی بیگم کے ساتھ ایک ڈانس پارٹی میں محوِ رقص نظر آئے۔ جنرل صاحب بھی مفرور ملزم ہیں، وہ بھی پاکستان نہیں آرہے۔ یہ ملک کیسے بچے گا جہاں ڈاکٹر جھوٹی رپورٹیں لکھتے ہیں۔ شراب غائب، زیتون اور شہد حاضر۔ شرجیل میمن سے کیسا گلہ کیسی شکایت، یہاں تو ملک دشمنوں کا ایک جم غفیر ہے۔ ہم ہندوستان کی دشمنی کا ذکر کیا کریں، یہاں تو اپنے اندر ہی دشمن کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ کیا پارٹی لیڈران، اینکر خواتین و حضرات، کیا کالم نویس، تجزیہ نگار، کس کس کا رونا روئیں، چاروں طرف سے ملک پر 'اپنوں' کی یلغار ہے، غربت یوں ختم کی جارہی ہے کہ 'غریبوں کو مارا جارہا ہے'۔''

شاکر کی باتیں سن کر میں بھی سلگ رہا تھا، وہ بول رہا تھا ''جو رہنما پھانسی چڑھ گئے، یا قتل کردیے گئے، ان مرنے والوں کی اب تو قد آدم تصاویر لگا کر لیڈران بھاشن دیتے ہیں، مجھے ان تصاویر کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے قصائی کی دکان سجی ہو اور گوشت بک رہا ہو۔ میاں صاحب اپنی اربوں کھربوں کی جائیداد کے دفاع میں اڈیالہ جیل میں آگئے، بیٹی مریم اور داماد صفدر بھی ان کے اڈیالہ میں بند ہوگئے۔ اب کلثوم نواز کی تصویریں بھی سج جائیں گی، رائیونڈ فارم میں تیسری قبر بھی بن گئی ہے، وسیع و عریض سبزہ زار میں تین قبریں، جاتی امرا، شریف میڈیکل کمپلیکس، ماڈل ٹاؤن''۔ شاکر بول رہا تھا۔

''ہمیں ایک لکیر کھینچنا ہوگی، ہم کروڑوں پاکستانی ایک طرف اور چند صد ملک لوٹنے والے دوسری طرف''۔ شاکر کہہ رہا تھا ''لٹیروں کی لوٹ مار میں ان کے گھر والے بھی شامل ہوتے ہیں، جو لوٹ مار کرنے پر اپنے شوہر یا مائیں اپنے بیٹوں کو نہیں روکتیں۔'' شاکر بول رہا تھا ''ہم لٹنے والے اور یہ لوٹنے والے، ہمارا ان سے کوئی رشتہ، ناتا، تعلق بنتا نہیں، پھر ان سے کیا کہنا سننا، ہماری ان لٹیروں سے کھلی جنگ ہے۔ کبھی تو فیصلہ کرنا تھا، سو اب وقت آگیا ہے، اب یہی کرنا ہوگا، ان لٹیروں سے غمی، خوشی سب ختم۔ اب تو ملک بچانا ہے۔''جالب نے پچاس سال پہلے کہا تھا، جب پاکستان اور بنگلہ دیش مل کر دس کروڑ تھے۔

ملک کو بچاؤ بھی، ملک کے نگہبانو

دس کروڑ انسانوں

اور اب ہم ملک کے نگہبان 22 کروڑ ہیں، ہم ہی نے ملک بچانا ہے، کیونکہ ہمارا ہے۔ بھاگنے والے تو کہہ چکے ''ہم انگلستان کے شہری ہیں''۔ شاکر بول رہا تھا، عوام اٹھیں گے تو ہی ملک بچے گا، ان لٹیروں کا کیا ہے، یہ تو اپنے اپنے ملکوں میں بھاگ جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں