بھولی بسری یادیں

بچوں کے والدین کے علاوہ معززین شہر کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ عین اس وقت جب میچ جوبن پر تھا

sardarqureshi1944@gmail.com

WASHINGTON:
بوڑھے ہونے کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ آدمی کی یادداشت پہلی سی نہیں رہتی اور بہت سی باتیں ذہن کے تختہ سیاہ سے حرف غلط کی طرح مٹ جاتی ہیں مثلاً ہزار کوشش کے باوجود مجھے اپنے زمانہ طالبعلمی کے اس ہندو کلاس فیلو کا نام یاد نہیں آیا جو ایک سادھو کا بیٹا تھا، جسے مقامی لوگ ''باوا'' کہا کرتے تھے۔

پاٹ پڑھنے، بھجن گانے اور دوسری تمام مذہبی رسومات ادا کرنے کے باوجود پیشے کے اعتبار سے وہ ایک درزی تھا، گیرو رنگ کے کپڑے پہنے اور گلے میں موٹے دانوں کی لمبی مالا لٹکائے رکھتا تھا۔ قبل از تقسیم کے پرانے شاہی بازار کے آخری سرے پر انور پکوڑے والے کے ٹھیے سے ملحق کپڑے کی دکان کے چبوترے پر اس کی پیر سے چلنے والی سلائی مشین رکھی ہوتی تھی اور وہ کبھی اس پر بیٹھا کپڑے سی رہا ہوتا تو کبھی وہیں پڑے ہوئے لکڑی کے تختے پر ان کی کٹنگ کررہا ہوتا تھا۔ اسکول سے واپسی پر بیٹا بھی کام میں باپ کا ہاتھ بٹایا کرتا، یوں پڑھائی کے ساتھ ساتھ کم عمری سے ہی روزی روٹی کمانے کے قابل بنانے کے لیے اس کی عملی تربیت بھی جاری تھی۔

جس کا اس زمانے میں عام رواج تھا۔ ایک دن جب ہم اسکول کے صحن میں روزانہ صبح کو ہونے والی اسمبلی میں اپنی اپنی کلاس روم کے سامنے قطار بنائے کھڑے تھے اور سامنے دالان کے گول محرابی دروازوں میں کھڑے اساتذہ کرام خاموش نگاہوں سے اپنے شاگردوں کا تنقیدی جائزہ لینے میں مصروف تھے، اس نے اپنے غیر معمولی کام سے سب کو چونکا دیا۔ جوں ہی ہیڈ ماسٹر سائیں موج علی شاہ نے پہلا گھنٹہ بجتے ہی پوچھا آج کون تلاوت کرے گا، وہ اپنی قطار سے نکل کر ان کے برابر جا کھڑا ہوا اور نماز کی طرح ہاتھ باندھ کر تلاوت شروع کردی۔ اس نے سورۂ رحمان کی خوبصورت اور پرسوز تلاوت سے سماں باندھ دیا۔ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ کسی کو کچھ سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اساتذہ کرام سمیت سب کو یہ جاننے کا خیال بعد میں اس وقت آیا جب وہ تلاوت ختم کرکے واپس قطار میں اپنی جگہ جا کھڑا ہوا کہ یہ تو ہندو ہے، اس نے قرآن پاک کی تلاوت کیسے کی؟

عربی کے پیریڈ میں جو عموماً آخر میں ہوا کرتا تھا یہ عقدہ کھلا کہ ان کے پڑوس میں کوئی صاحب فجر کی نماز کے بعد واپسی پر باآواز بلند تلاوت کیا کرتے تھے جو یہ اپنے بستر پر لیٹے لیٹے سنا کرتا تھا، یوں اسکو سورۂ رحمان اور کئی دوسری سورتیں زبانی یاد ہوگئی تھیں۔ اس کے بقول جب وہ گھر میں جلانے کی لکڑیاں جمع کرنے جنگل کی طرف جاتا تو انھی کی طرح باآواز بلند قرأت کیا کرتا، اس پر بے خودی کی سی کیفیت طاری ہوجایا کرتی اور اسے یہ سب کرنا اچھا لگتا تھا۔

سائیں موج علی شاہ بھی بتاتے تھے کہ اس روز ان کے استفسار پر جب یہ اپنی قطار سے نکلا تو انھوں نے غور ہی نہیں کیا کہ تلاوت کرنے کون آرہا ہے، بس ان کے بقول یہ ہونا تھا سو ہوگیا۔ اس واقعے کے بعد وہ بہت محتاط ہوگئے تھے اور اس ڈر سے کہ یہ کہیں شہر میں فساد کا باعث ہی نہ بن جائے، وہ سادھو کے لڑکے پر خاص نظر رکھا کرتے تھے۔ ہمارے عربی ٹیچر مولوی نبی حسن البتہ اپنے پیریڈ میں اس کو اکثر ''مشقِ سخن'' جاری رکھنے کا موقع دیا کرتے۔ ان کی دیکھا دیکھی ہیڈ ماسٹر کی غیر موجودگی میں جب چارج ہمارے کلاس ٹیچر سائیں خان محمد سانگی کے پاس ہوا کرتا، وہ بھی اس کی قرأت سے محظوظ ہوا کرتے پھر یہ ہوا کہ سادھو کو کسی طرح اپنے بیٹے کی کارستانی کا پتہ چل گیا، غریب پریشان ہوگیا کہ کسی نے ورغلا کر اسے مسلمان تو نہیں کرلیا، اپنے اطمینان کے لیے وہ کئی بار اسکول بھی آیا، ہیڈ ماسٹر سمیت اساتذہ سے مل کر اس حوالے سے معلومات حاصل کیں اور یہ یقین آجانے کے بعد مطمئن ہوگیا کہ اس کے تمام اندیشے محض وسوسے تھے، کسی نے اس کے بیٹے کو نہیں بہکایا تھا بلکہ اس نے سب کچھ اپنے طور پر کیا تھا۔


سادھو کو مولوی نبی حسن کی اس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا کہ اگر کوئی مسلمان لڑکا تمہاری نقل اتارتے ہوئے بھجن گانے لگے تو کیا ہم سمجھیں کہ وہ ہندو ہوگیا ہے؟ وہ تو مطمئن ہوگیا لیکن اس کے بیٹے نے اپنا شوق جاری رکھا اور پڑوسی کی مہربانی سے قرآن یاد کرتا رہا۔ اسے جب بھی کوئی نئی سورۃ یاد ہوتی، ہم تین چار قریبی دوستوں کو لے کر بولٹی کنارے آم کے باغ کے عقب میں کچھ فاصلے پر واقع انجینئری بنگلے پہنچتا، جو ایک مدت سے ویران پڑا تھا اور وہاں بیٹھ کر ہمیں قرآن سنایا کرتا۔ میرا جگری یار اقبال آرائیں بھی ان دنوں حکیم عبدالقادر شاہ کے والد (جنھیں سب حافظ دادا کہا کرتے تھے) سے قرآن مجید حفظ کررہا تھا۔ کبھی ایسا ہوتا کہ سادھو کا بیٹا جو سورۃ تلاوت کرتا وہ اقبال کو بھی یاد ہوتی تو دونوں مل کر تلاوت کیا کرتے جس سے سننے کا مزہ دوبالا ہوجاتا۔

اس جیسا ایک دوسرا لڑکا وزیر بھی ہمارے ساتھ پڑھتا تھا جس کو بہروپ بھرنے میں مہارت حاصل تھی۔ کہیں دور سے آیا تھا اس لیے ہاسٹل میں رہتا تھا۔ ایک پستہ قد بڑھیا جس کی کمر جھکی ہوئی تھی لاٹھی کی ٹیک سے پیدل چلتی ہوئی کسی قریبی گاؤں سے جمعرات کے جمعرات بھیک مانگنے شہر آیا کرتی تھی۔ سندھی میں جمعرات کو خمیس کہتے ہیں، اس مناسبت سے لوگوں نے بڑھیا کا نام ہی مائی خمیسی رکھ چھوڑا تھا۔ اسی کو دیکھ کر انھیں یاد آتا کہ آج خمیس (جمعرات) ہے۔ یوں بھی ہوتا کہ اسے دیکھ کر لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے کہ آج کیا خمیس ہے؟ ایک روز جب آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے، ہمارے اسپورٹس ٹیچر کی سفارش پر اسکول سے ملحقہ گراؤنڈ پر کرکٹ میچ کا اہتمام کیا گیا۔

بچوں کے والدین کے علاوہ معززین شہر کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ عین اس وقت جب میچ جوبن پر تھا، ایک ٹیم اپنی اننگز کھیل چکی تھی، دوسری اسکور چیز کرنے میں مصروف تھی اور کسی بھی وقت ہار جیت کا فیصلہ متوقع تھا، اچانک بھیڑ میں سے مائی خمیسی اپنے مخصوص انداز میں نمودار ہوئی اور گراؤنڈ کا چکر لگاکر چاروں طرف بیٹھے اور کھڑے ہوئے لوگوں سے بھیک وصول کرتی رہی۔ سب میچ دیکھنے میں ایسے محو تھے کہ کسی کو بھی یہ خیال نہیں آیا کہ آج جمعرات (خمیس) تو ہے نہیں پھر یہ مائی خمیسی کہاں سے آ ٹپکی۔ وہ جب اپنا کام ختم کرکے ہیڈ ماسٹر کے سامنے پہنچی اور سکوں سے بھری اپنی جھولی ان کے سامنے انڈیل کر سیدھی کھڑی ہوئی تب یہ راز کھلا کہ وہ مائی خمیسی نہیں بلکہ وزیر تھا جس نے اس کا بہروپ بھرا تھا۔ سب نے زوردار تالیاں بجا کر اسکو بہروپ بھرنے کے کامیاب مظاہرے پر داد دی۔

دوسری مرتبہ جب ہم اسکول کے سب لڑکے اپنے اساتذہ کے ساتھ نیو دمبالو نہر پر ایکسکرشن منا رہے تھے، یہ انکشاف ہوا کہ وزیر ایک ماہر تیراک بھی تھا۔ اس زمانے میں نہر کے پرانے پل پر تھوڑے فاصلے پر دو بڑے ریگولیٹر نصب تھے جہاں سے کئی چھوٹی نہریں مختلف سمتوں کو نکلتی تھیں۔ آج کل کی طرح پانی کی قلت کا کوئی مسئلہ نہیں تھا اور نہریں لبالب بھری رہتی تھیں۔ آئے دن ان میں شگاف پڑنے اور وسیع علاقے زیر آب آنے کی خبریں ملا کرتی تھیں (جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے گزشتہ دس سال کے دوران اخبارات میں سندھ کے کسی بھی علاقے کی کسی نہر میں شگاف پڑنے کی کوئی خبر شایع نہیں ہوئی جسکی وجہ بہتر واٹر مینجمنٹ سے زیادہ پانی کی کمیابی ہے)۔

ریگولیٹر پر پانی کا اس قدر شدید دباؤ ہوا کرتا تھا کہ دونوں پھاٹکوں کے درمیان اس کی زور آزمائی دیکھ کر ڈر لگتا تھا کہ کہیں وہ کئی ٹن وزنی آہنی دروازوں کو بہا کر نہ لے جائے اور اس کا شور ایک میل دور تک سنائی دیتا تھا۔ ہمارے عربی ٹیچر بھی بہت اچھے تیراک تھے، کسی نے ان سے شرط لگائی کہ اگر وہ دونوں پھاٹکوں کی درمیانی جگہ نہر میں کود کر بہاؤ کی طرف گیٹ کے نیچے سے نکل کر دکھادیں تو وہ انھیں بڑا تیراک مان لے گا، اور وہ اﷲ کے بندے کچھ سوچے سمجھے بنا کود بھی گئے۔ بھلا ہو وزیر کا جو وہاں موجود تھا، اس نے فوراً نہر میں چھلانگ لگادی اور مولوی صاحب کو ایسی حالت میں باہر نکال لایا کہ وہ بے ہوش اور آہنی دروازوں سے ٹکرانے کی وجہ سے لہو لہان تھے۔
Load Next Story