کرن سدھوانی

تھر کی پہلی خاتون انجینئروہ اپنے علاقے کی خواتین کو بہت آگے دیکھنا چاہتی ہیں


Munira Adil September 24, 2018
تھر کی پہلی خاتون انجینئروہ اپنے علاقے کی خواتین کو بہت آگے دیکھنا چاہتی ہیں

کرن سدھوانی سندھ کے پس ماندہ علاقے تھر سے تعلق رکھتی ہیں اور اس علاقے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ابھی تک وہ ترقی نہیں کی جو کرنی چاہیے تھی، مگر ایسا نہیں ہے، اس خطے سے تعلق رکھنے والے سندھ کے بیٹوں نے تو متعدد کارنامے انجام دیے ہیں، ساتھ ہی یہاں کی بیٹیاں بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ یہ تھر ہی ہے جس کی مٹی سے ایک ایسی بیٹی نے جنم لیا ہے جس نے پورے پاکستان کو حیران کردیا ہے۔ سندھ کی اس باصلاحیت بیٹی کا نام ہے، کرن سدھوانی جو تھر کی پہلی خاتون انجینئر ہیں جن کی تھر کول پروجیکٹ (Thar Coal Project) کے لیے بہ طور انجینئر تقرری کی گئی ہے۔ کرن کے آبائی شہر کا نام مٹھی جہاں سے تعلق رکھنے والی بیش تر لڑکیاں یا تو طب کے پیشے میں جاتی ہیں یا پھر وہ تدریس کے شعبے کا انتخاب کرتی ہیں۔

کرن سدھوانی نے ان تمام شعبوں کے برعکس انجینئرنگ کا شعبہ اختیار کرنے کا فیصلہ کرکے اپنے علاقے کے مردوں کو بھی حیران کردیا اور یہاں کی بیٹیوں کو بھی ایک نیا حوصلہ اور نئی امنگ دے دی ہے۔

کرن سدھوانی نے مہران یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ یہ ایک مشکل مضمون تھا مگر کرن بھی باہمت تھیں، وہ تھر کی وہ واحد لڑکی ہے جس نے بہ طور سائٹ انجینئر بھی کام کیا ہے، یعنی کرن سدھوانی کے کریڈٹ پر یہ بات آچکی ہے کہ انہوں نے دفتر میں بیٹھ کر بہ طور انجینئر کام کرنے کے بجائے فیلڈ میں کام کرنے کا فیصلہ کیا جو بلا شبہہ ایک لڑکی ہوتے ہوئے ان کے لیے کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا، بلکہ ایک مشکل اور کٹھن فیصلہ تھا جس پر ان کو بے شمار افراد کی مخالفت اور تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا جن میں ان کے اپنے ہی اہل خانہ بھی شامل تھے، البتہ کرن سدھوانی کی یہ خوش قسمتی رہی کہ جب انہوں نے دوسری لڑکیوں کی طرح طب کے بجائے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تو اہل خانہ کی جانب سے ان کو بھرپور تعاون حاصل رہا، بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی تھی۔

جب ہم نے اس حوالے سے کرن سدھوانی سے بات چیت کی تو انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا:''مجھے اپنی برادری کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا، کیوں کہ میں نے طب یا تدریس کے شعبے کے بجائے انجینئرنگ کا انتخاب تھا جو اس برادری کے لیے ایک نئی بات تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس شعبے کا انتخاب اپنے شوق کی بنیاد پر کیا تھا۔ میں کوئی خاص امتیاز قائم نہیں کرنا چاہتی تھی، بلکہ میں نے یہ دیکھا کہ انجینئرنگ کے میدان میں بہت زیادہ مواقع ہیں تو میں اس طرف چلی گئی۔''

چناں چہ کرن سدھوانی نے اس شعبے میں قدم رکھ کر اپنی ایک منفرد اور خاص پہچان بنالی۔ اپنی ذات اور برادری کے بارے میں بات کرتے ہوئے کرن سدھوانی نے مزید بتایا کہ تھر کی برادری کی سوچ کو تبدیل کرنا اور اس میں ایک انقلاب برپا کرنا میرے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا تھا جس کے لیے جب میں نے ہمت کی اور پختہ ارادہ کرلیا تو پھر میں نے اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹائے بلکہ اپنے فیصلے پر ڈٹ گئی۔

کرن کو شروع ہی سے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اپنے بچپن سے ہی ٹیکنالوجی اور ایجادات سے خاص دل چسپی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں انجینئرنگ کے شعبے میں اپنا مستقبل تاب ناک نظر آیا اور انہوں نے اس شعبے کو پسند کرکے فائنل منتخب بھی کرلیا تھا۔

تقرری سے قبل کرن نے کراچی اور حیدر آباد کی کچھ آئی ٹی کی نجی کمپنیوں میں ملازمت کے لیے درخواستیں بھی دی تھیں۔ لیکن پھر کرن نے دفتر کی آسان ملازمت کے مقابلے میں فیلڈ کی مشکل ملازمت کو ترجیح دی۔کرن کا کہنا ہے کہ تھر کول فیلڈ کے لیے انتخاب کا طریقۂ کار بہت سخت تھا۔ لیکن اس سخت آزمائش کے طریقۂ کار میں کام یاب ہونے اور ان کے معیار پر پورا اترنے کے بعد مجھے ملازمت کی پیش کش بھی کی گئی تھی۔ ابتدا میں، میں کچھ پریشان تھی، کیوں کہ یہ تھر کے لوگوں کی ذہنی سطح اور ان کی سوچ کے مخالف عمل تھا، مگر جب میں نے ایک فیصلہ کرلیا تھا تو پھر مجھے اس پر قائم رہتے ہوئے آگے بڑھنا بھی تھا۔ لیکن آخر کار میں نے اس پیشکش کو قبول کرلیا۔تقریباً چار ہزار افراد نے اس ملازمت کے لیے درخواستیں دی تھیں اور صرف پچیس اُمیدواروں میں کرن سدھوانی واحد خاتون تھیں۔

کرن اپنی کام یابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں:

''اس کمپنی نے نہ صرف مجھے ملازمت دی بلکہ دنیا کو یہ بتایاکہ تھری خواتین بھی جذبہ و جنون میں پاکستان میں رہنے بسنے والی دیگر باہمت خواتین سے کسی طرح کم نہیں۔ وہ بھی اپنی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کرکے دنیا کو حیران کرسکتی ہیں۔''

کرن نے مزید بتایاکہ میںوہ واحد خاتون نہیں ہوں جو تھر میں تبدیلی کے لیے کوشاں ہیں بلکہ میری جیسی دیگر خواتین بھی ایسے مختلف شعبوں مثلاً ڈرائیور اور دیگر ملازمتیں جو روایتی طور پر مردوں کے لیے مخصوص سمجھی جاتی ہیں، ان میں کام کررہی ہیں۔

جب کرن سے پوچھا گیا کہ ایک ایسی جگہ جہاں ارد گرد بہت سے مرد ہوں، ان کے درمیان کام کرنا کیسا محسوس ہوتا ہے تو اس سوال کے جواب میں کرن سدھوانی نے بتایاکہ یہاں مجھے کوئی خوف نہیں ہے۔ کمپنی کی جانب سے بہت آرام دہ پیشہ ورانہ ماحول فراہم کیا گیا ہے اور مجھے اپنے ساتھ کام کرنے والے ساتھیوں کی جانب سے کبھی کسی ناگوار یا ناشائستہ رویے کا سامنا نہیں کرنا پڑا، بلکہ وہ میری ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور کام کے دوران بھی معاون ثابت ہوتے ہیں اور میرے اہل خانہ کو بھی یقین دہانی کراتے ہیں کہ میں یہاں محفوظ ہوں۔ کرن نے بتایا کہ میرے والد ابتدا میں مجھے یہاں چھوڑنے پر ہچکچارہے تھے۔ ان کے علاوہ میرے اہل خانہ بھی میرے اس طرح فیلڈ میں کام کرنے کے خلاف تھے لیکن اب وہی سب سے زیادہ معاون ثابت ہوئے ہیں، اسی لیے میں اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کو بہ حسن و خوبی جاری رکھے ہوئے ہوں۔

کرن نے یہ بھی بتایا مجھے اپنے اس فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے، بلکہ میں چاہتی ہوں کہ دیگر خواتین بھی انجینئرنگ کے میدان میں کام کرنے سے نہ گھبرائیں۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے مزید کہاکہ خواتین کو اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ ضرور دینا چاہیے۔ یہ سوچے بنا کہ دوسرے ان کے متعلق کیا سوچتے ہیں بلکہ اپنے خوابوں کو سچ کرنا چاہیے۔ یہ تصور کہ خواتین صنفِ نازک ہیں لہٰذا چند مخصوص شعبوں میں ہی وہ اپنی خدمات سرانجام دیں، یہ سب گزرے وقتوں کی باتیں ہیں۔ آج کی دنیا بدل چکی ہے، بہت تیزی سے نہ سہی لیکن بتدریج اس میں تبدیلی آرہی ہے۔ تھر کی خواتین بہت باہمت ہیں۔ ان کو مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرکے تھر پارکر کے ضلع کو ایک ایسی سرزمین میں تبدیل کردینا چاہیے جہاں ملازمت کے بے شمار مواقع ہوں۔

کرن اپنی کمپنی سے خوش ہیں اور کہتی ہیں کہ میں اپنی کمپنی کی شکرگزار ہوں کہ مجھے یہ موقع دیا گیا کہ میں لوگوں کی اس سطحی سوچ کو تبدیل کرسکوں کہ خواتین فیلڈ میں کام نہیں کرسکتیں۔

کرن کا پیغام ہے کہ ''آپ کو وہی ہونا چاہیے جو آپ چاہتے ہیں۔''کرن کی طرح کی خواتین نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر سچی لگن ہو تو آپ زندگی میں جو چاہتے ہیں وہ حاصل کرسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں