ضمنی فنانس بل۔۔۔۔ عوام کو ریلیف مل سکے گا

حکومت و بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرین ِ معاشیات کی ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد ‘‘ میں گفتگو

حکومت و بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرین ِ معاشیات کی ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد ‘‘ میں گفتگو

حکومت نے ملک میں معاشی اصلاحات لانے کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں جنہیں عملی جامع پہنانے کے لیے حال ہی میں قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کیا گیاہے اس بل میں 1800 سی سی سے اوپر گاڑیوں پر ڈیوٹی 10 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دی گئی اور نان فائلرز کیلئے نئی گاڑیوں اور جائیداد خریدنے پر پابندی ختم کردی گئی۔

وزیراعظم، گورنرز کو رہائش اور کنوینس کی مد میں ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے اور مزدوروں کیلئے 10 ہزار نئے گھر تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ درآمدی مچھلی، کمبل، قالین، کچن آئٹمز پر ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا گیا۔ترقیاتی بجٹ میں 305 ارب روپے کی کمی جبکہ 4 سے 8 لاکھ سالانہ آمدن پر ایک ہزار روپے ٹیکس لگا دیا گیا۔

سگریٹ پر مزید ٹیکس لگایا گیا جبکہ دہی، فلیورڈ دودھ، مکھن، شہد، پولٹری، خشک میوہ جات، میک اپ، سینٹری کا سامان، بچوں کے ڈائپرز، گارمنٹس، جوتے، پھل، اخبارات کی پرنٹنگ پلیٹس، لگژری گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی بڑھانے کی تجویز پیش کی گئی۔اس ''ضمنی فنانس بل'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم اسلام آباد'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت و بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرین معاشیات نے شرکت کی۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

حماد اظہر
(وزیر مملکت برائے ریونیو)

موجودہ حکومت نے ملکی معیشت کو ریسکیو کرنے کیلئے فنانس ترمیمی بل متعارف کروادیا ہے۔ اس کے بعد اب فیڈرل بورڈ آف یونیو کی ری سٹرکچرنگ کی جائیگی جس کے لیے ٹیکس ایڈمنسٹریشن اور پالیسی کو الگ الگ کرنے سمیت مختلف تجاویز زیر غور ہیں تاہم حتمی فیصلہ ٹیکس اصلاحات کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے کیا جائے گا۔

ایف بی آر کی ری سٹرکچرنگ کا یہ عمل ایک سے ڈیڑھ برس میں مکمل ہوگا۔ ٹیکس دہندگان کی سہولت کیلئے ٹیکس ریٹرن فارم کو سادہ اور آسان بنایا جائے گا۔اس کے علاوہ ایف بی آر کی کپیسٹی بلڈنگ کی جائے گی ۔

نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے ڈیٹا بینک قائم کیا جائے گا۔ گزشتہ حکومت نے عالمی بینک کے تعاون سے ڈیٹا بینک قائم کرنے کے منصوبے میں تاخیر کی لیکن موجودہ حکومت نہ صرف ایف بی آر میں اسٹیٹ آف دی آرٹ ڈیٹا بینک قائم کرے گی بلکہ نادرا ، موٹر رجسٹریشن اتھارٹیز اور پراپرٹی رجسٹریشن اتھارٹیز سمیت دیگر اداروں کے پاس موجود ڈیٹا کو بھی ایف بی آر کے ڈیٹا بینک کے ساتھ منسلک کیا جائے گا تاکہ پوری صلا حیت کے مطابق ٹیکس وصولی ہوسکے اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جاسکے۔موجودہ حکومت فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو مکمل طور پر آزاد، خود مختار اور مضبوط ادارہ بنانے کیلئے پرعزم ہے۔

جس کیلئے ایف بی آر کے سابق چیئرمینز سمیت دیگر ماہرین سے تجاویز لی جائیں گی۔ ایف بی آر میں ماہر اورپیشہ ور افسران موجود ہیں جنہیں اپنی صلاحیتیں دکھانے کا بھرپور موقع دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس محکمے کے افسران و اہلکاروں کو ملنے والے الاونسز و مراعات کو ان کی کارکردگی کے ساتھ مشروط کیا جائے گا اور اچھی کارکردگی والے افسران اور اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کیلئے انہیں انعامات دیے جائیں گے۔

حکومت بتدریج کسٹمز ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر ریونیو بڑھانے کی بجائے نئے لوگوں کو ٹیکس میں لاکر ٹیکس نیٹ وسیع کرنے پر توجہ دے گی جبکہ سمگلنگ اور ٹیکس چوری روکنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا ۔ حکومت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر ضمنی فنانس بل لانا ضروری تھا۔ اس بل میں ملکی معیشت کی بہتری کیلئے فوری نوعیت کے اقدامات متعارف کروادیئے گئے ہیں۔ حکومت ملکی برآمدات بڑھانے کیلئے پرعزم ہے کیونکہ درکار وسائل و غیر ملکی ذرمبادلہ کے حصول کیلئے برآمدات کا فروغ انتہائی ضروری ہے۔

اس سے قبل کسی حکومت نے برآمدات کے فروغ پر اس طرح توجہ نہیں دی۔ حکومت نے ضمنی فنانس بل میں ایکسپورٹ انڈسٹری کو بڑے پیمانے پر ریلیف فراہم کیا ہے۔ایف بی آر کے آڈٹ ڈیپارٹمنٹ کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس آرڈیننس کی ختم کی جانے والی شق 214 (D)کے تحت ماضی میں منتخب شدہ آڈٹ کے لاکھوں پرانے کیسز کو نمٹانے کیلئے ٹیکس دہندگان کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ گزشتہ برس ادا کردہ ٹیکس سے 25 فیصد زائد رقم جمع کرواکر آڈٹ کیس ختم کرواسکتے ہیں۔ اس اقدام سے آڈٹ ڈیپارٹمنٹ پر بوجھ کم ہوجائے گا۔

بیورو کریسی کو مونی ٹائزیشن کے تحت ملنے والے ٹرانسپورٹ الاؤنس سمیت دیگر مراعات کے حوالے سے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں کمیشن کام کررہا ہے لہٰذا سول سروس اصلاحات میں جو بھی سفارشات سامنے آئیں گی انہیں مد نظر رکھتے ہوئے اقدامات کیے جائیں گے۔ ضمنی فنانس بل سے عام آدمی کوکوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ اس میں ٹیکس نیٹ اور برآمدات میں اضافہ ترجیح ہے۔ حکومت برآمدات کے فروغ کے لیے ایکسپورٹرز کے ساتھ ہر ممکن تعاون کر ے گی۔ ملک میں رہائشی سہولیات کے لیے گھر تعمیر کرنے کے منصوبے پر کمیٹی کام کر رہی ہے ، حکومت اپنے شہریوں کو چھت کی فراہمی کے لیے پرعزم ہے ۔

شیخ عامر وحید
(صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈ سٹری)

بجٹ میں عام عوام کا خیال نہیں رکھا گیا بلکہ بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈالا گیا ہے۔ میرے نزدیک حکومت کو بلاواسطہ ٹیکس کو فروغ دینا چاہیے تھا۔ درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے جس سے کا روباری لاگت بڑھے گی جبکہ گیس کی قیمتیں بڑھنے سے بھی کاروباری لاگت میں اضافہ ہو گا۔ 1800سی سی گاڑیوں پر جو ڈیوٹی لگائی گئی ہے اس سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔

ٹیکس سلیب میں ردو بدل کر کے حکومت نے اچھا نہیںکیا ۔ اس سے لوگوں نے اپنا جو بجٹ بنایا ہوا تھا وہ شدید متاثر ہو گا۔ میرے نزدیک ٹیکس سلیب میں تبدیلی سے ریونیو بڑھنے کی بجائے مزید کم ہو گا۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کی صورت میں 50لاکھ گھر بناکر دینے کا وعدہ کیا تھا تاہم اس منی بجٹ میں 10ہزار گھر بنانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ شہریوں کو رہائشی سہولیات کی فراہمی کے لیے شہروں میں توسیع کے بجائے نئے شہر آباد کرے ، تبھی 50 لاکھ گھر وں کی تعمیر ممکن ہو سکے گی لیکن اگر حکومت موجودہ شہروں میں ہی مزید گھر بنائے گی تو زمین مہنگی ہوجائے گی اور اس کے ساتھ پانی و بجلی کی کمی جیسے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ وزیر خزانہ نے اپنی تقریر میں گرد شی قرضے 1200ارب تک پہنچنے کا ذکر کیا ہے ۔بلاشبہ گر د شی قرضے بڑا مسئلہ ہیں لہٰذا ان کی کمی کیلئے بڑے اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔

گرد شی قرضے کم کرنے کے لیے لائن لاسز پر کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم 60 ارب ڈالر کی کیا درآمدات کر رہے ہیں۔ اس کی روشنی میں ایک طریقہ کار وضع کیا جائے اور مقامی طور پر ایسی اشیاء کی تیاری کو فروغ دیا جائے جو ہمارے ملک میں تیار ہوسکتی ہیں، اس سے گردشی قرضہ کم ہوجائے گا۔ حکومت نے ٹیکسٹائل سیکٹر کو ریلیف دیا ہے۔ ہمارے ہاں پانچ ایسے شعبے ہیں جنہیں ہمیشہ مراعات دی جاتی ہیں، دیگر شعبوں پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہمارا ہمسائیہ ملک 100ارب روپے کی برآمدات کر رہا ہے جبکہ ہم ایک ارب سے بھی کم سطح پر ہیں۔ اس کے فروغ کیلئے ہمیں موبائل ایپلی کیشن اور آئی ٹی ٹاور بنانے چاہیے۔ ہما رے ملک سے جو ماربل دیگر ممالک میں برآمد کیا جاتا ہے و ہ ویلیو ایڈیشن کے بعد دوبارہ درآمد کرکے یہاںمہنگے داموں فروخت کر دیا جا تا ہے۔ اس کے علاوہ دودھ، دالیں اور تیل بھی درآمد کیا جارہا ہے حالانکہ ہمارے ملک میں یہ تمام وسائل موجود ہیں۔ گنے اور گندم پر سبسڈی دی جا رہی ہیں ، ہمیں چاہیے کہ اب سبسڈی کے بجائے متوازن فصل کی طرف جانا چاہیے۔


زراعت میں جدید ٹیکنالوجی متعارف نہ کرانے کے باعث فی ایکڑ پید اوار کم ہے، اسے بڑھانے کیلئے ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے۔ گندم اور چاول کی پیداوار پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو دالیں ہم درآمد کر رہے ہیں، ان کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔ پاکستان میںچار موسم ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں۔ ہمارے شمالی علا قہ جا ت سمیت بے شمار علاقے اپنی خوبصورتی کے باعث سیا حوں کے لیے جنت ہے لہٰذا ہمیں سیاحت کو فروغ دینا چاہیے۔ اس حوالے سے جامع پالیسی بنائی جائے ۔

ریونیو بڑھانے کے لیے سمگلنگ پر قابو پانا ہوگا کیونکہ اس سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے۔ حکومت کا کام ریگولیشن ہونا چاہیے کہ وہ ریونیو حاصل کرنے کے ذرائع پیدا کرے نہ کہ خود کاروبار شروع کردے۔

ریلوے ، پی آئی اے اور سٹیل ملز تقریباََ 8 ارب سالانہ خسارے میں ہیں، اس سے بچنے کیلئے ان کی نجکاری کی جائے۔ ریونیو بڑھانے کے لیے حکومت کو ایس ایم ای سیکٹر پر توجہ دینی چاہیے۔ ترقیاتی بجٹ میں چاہیے مزید کمی کر دی جائے لیکن تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر پر خصوصی کام کیا جائے۔ اکنامک ایڈ وائزری کونسل کی جانب سے بھی اس منی بجٹ میں کوئی نئی چیز سامنے نہیں آئی بلکہ یہ پرانی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ حکومت نے صنعت کا روں اور تاجروں سے جو بڑے بڑے وعدے کیے تھے وہ پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔

سید تنصیر بخاری
(چیئرمین بار اینڈ بینچ کمیٹی راولپنڈی اسلام آباد ٹیکس بار ایسو سی ایشن )

حکومت نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001کے سیکشن 227سی کا خاتمہ کر دیا ہے جو میرے نزدیک ایک غلط قدم ہے ۔ سابق حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اس اقدام سے ٹیکس دہندگان کا دائرہ کا ر وسیع ہونا تھا تاہم اب اس میں اضافہ نہیں ہو سکے گا۔ جو شخص 8سے 10لاکھ کی گاڑی خرید سکتا ہے وہ صاحب حیثیت ہے لیکن اب اسے چھوٹ مل گئی ہے۔ 1800 سی سی گاڑی پر ڈیوٹی کے نفاذ کی میں حمایت کرتا ہوں۔ سابق حکومت نے ٹیکس گزاروں کو جو چھوٹ دی تھی موجودہ حکومت کی جانب سے اس میںرد و بدل کی گئی ہے، میرے نزدیک ایسا نہیں کرنا چاہیے۔

ایک طرف حکومت ترقیاتی بجٹ کم کررہی ہے مگر دوسری جانب کہا جارہا ہے کہ ہم لوگوں کو روز گار دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ ڈویلپمنٹ نہیں ہوگی تو روزگار کے نئے مواقع کیسے پیدا ہوں گے؟ سگریٹ انڈ سٹری پر ٹیکس لگانا ہر حکومت کے لیے آسان ترین ہد ف ہو تا ہے کیونکہ اس پر کوئی بولتانہیں ہے۔ افسوس ہے کہ چند اشیاء پر ہی با ر بار ٹیکس لگایا جا رہا ہے ، حکومت ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے دیگر اشیاء پر ٹیکس کیوں نہیں لگاتی۔برآمدات کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ برآمدات زیادہ اور درآمدات کم ہونے کی صورت میں ہی ملک استحکام کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔

حکومت کی جانب سے ٹیکسٹائل انڈ سٹری کو گیس کی مد میں ریلیف دیا گیا ہے جو ایک بہتر قدم ہے ، اس سے یہ صنعت دیگر ممالک کی صنعتوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل ہو گی۔ حکومت کو چاہیے دیگر سیکٹر ز کو بھی اسی طرح فروغ د ے جو مستقبل میں ہماری برآمدات میں اضافہ کرسکیں۔ 20سے 25سالوںکے دوران بینکوں نے اتنی ترقی کی کہ ان کا کاروبار گلی، محلوں تک پہنچ گیا۔ اسی طرح ہر شہر میں بے شمار بڑے بازار ہیں جہاں روزانہ کی بنیاد پربڑی تجا رتی سرگرمیاں ہو تی ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ ایف بی آر کو ضلعی سطح تک لائے جس سے صرف راولپنڈی اسلام آباد سے ہی بہت زیادہ ریونیو اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ میرے نزدیک ایف بی آر کو نچلی سطح تک لانا ہو گا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ سب کچھ آٹومیشن کے ذریعے درست نہیں ہو سکتا لہٰذاایف بی آر کا سٹرکچر تبدیل کرنا ہوگا۔ 50 لاکھ گھروں کی تعمیر موجودہ حکومت کے انتخابی منشور کا حصہ ہے لیکن ابھی تک ان کی تعمیر کیلئے کوئی واضح حکمت عملی نہیں دی بلکہ منی بجٹ میں صرف 10ہزار گھروں کی تعمیر کا عندیہ دیا ہے ، اگر اسی رفتار سے گھروں کی تعمیر ہو ئی تو پانچ سالوں یہ 50 لاکھ گھروں کا ہد ف پورا نہیں ہوسکے گا۔ بے گھر افراد کو گھروں کی فراہمی کا معاملہ انتہائی اہم ہے۔

حکومت کو اس میںپرائیویٹ سیکٹر کو بھی شامل کرنا چاہیے، ایسا کرنے سے پچا س لاکھ گھروں کی تعمیر بڑی حد تک ممکن ہو سکتی ہے۔حکومت نے گیس کے ریٹ میں اضافہ کردیا ہے جو قابل مذمت ہے، اس سے نہ صرف مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوگا بلکہ گر دشی قرضے بھی بڑھیں گے اور بوجھ عوام پر پڑے گا۔ اس وقت 1394 ایسے ادارے ہیں جو ملک کا 92فصد سے زائد ٹیکس دے رہے ہیں۔

یہی ٹیکس گزار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں ادا کر رہے تھے اور آج بھی کررہے ہیں۔ ان میں اضافے کے لیے سابق حکومت نے جو اقدامات کیے وہ موجودہ حکومت نے ختم کر دیے۔ حکومت کی جانب سے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001کے سیکشن 227سی کا خاتمہ کرنے سے نان ٹیکس فائلر ز کو فائدہ حاصل ہو گا۔افسوس ہے کہ ملک کو گودام بنا دیا گیا کہ باہر سے چیزیں خرید کر یہاں فروخت کر دی جاتی ہیں۔

ہمیں ٹریڈنگ کی بجائے مینوفیکچرنگ ملک کی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے ، تاکہ امپورٹ بل میں کمی آسکے ۔ ایکسپورٹرز کا ایک بڑا مسئلہ ٹیکس ریفنڈزہیں ۔ حکومت کو اس کے اجرا کے لیے بہتر نظام متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس گزاروں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جائیں۔ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کے لیے ایف بی آر کی ری سٹرکچرنگ کی جائے۔ میرے نزدیک کمشنر اپیل کو ایف بی آر کے نہیں بلکہ وزارت قانون کے ماتحت ہونا چاہیے۔

شہر یا ر عزیز
(معاشی تجزیہ کا ر)

سابق حکومت نے جلد بازی میں بجٹ بنایا جس میں ریونیو جنریشن کے اقدامات ختم کر دیے، کئی لوگوں کو ٹیکس نیٹ سے نکال دیا اور اخراجات میں ترقیاتی بجٹ بڑھا دیا گیا تھا لہٰذا گزشتہ برس والا بجٹ موثر نہیں تھا ۔ اس لیے اشد ضرورت تھی کہ اس بجٹ پر نظر ثانی کی جا تی۔ سرکا ری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے جن میں کمی نہیں کی جا سکتی۔

ای او بی آئی کے پنشنر ز کو بہت کم پنشن ملتی ہے، اس میں 10فیصد اضافہ اچھا اقدام ہے۔ سابق حکومت نے جا تے وقت بہت ساری اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی تھی ، اب دوبارہ لگا دی گئی ہے تاہم خام مال پر اس میں کمی کی گئی ہے تاکہ ایکسپورٹر کو فائدہ ہو سکے۔ پہلے جن اشیاء پر ڈیوٹیز لگتی تھیں، اس کا ایس آر او جا ری ہو تا تھا تاہم یہ حکومت کا خو ش آئند قدم ہے کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کیا ۔

سگریٹ پر سلیب بڑھانے سے سگریٹ کی فروخت تو بڑھ گئی تھی لیکن سگریٹ کی صنعت سے ٹیکس میں کمی ہو گئی تھی لہٰذا سگریٹ پر ٹیکس بڑھانا ایک اہم قدم ہے، اس سے ریونیو جنریشن میں اضافہ ہو گا۔ بجٹ میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ، صرف ریونیو بڑھانے کیلئے اقدامات کیے گئے ہیں۔ جن ملازمین کی تنخواہیں 24لاکھ تک ہیں ان کی ٹیکس سلیب ابھی تک قائم ہے ، اس میں کوئی فرق نہیں آیا، اس سے زیادہ آمدن والوں پر ٹیکس بڑھانا درست اقدام ہے۔ موجودہ حکومت ایف بی آر پر توجہ دے اور ٹیکس ریٹ میں اضافہ کی بجائے ٹیکس کے دائرہ کار میں اضافہ پر زور دے۔

ملک میں صرف 12لاکھ ٹیکس فائلر ز ہیں ۔ ان کی تعداد میں اضافے کے لیے ایف بی آر کے نظام میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ ایف بی آر میں چار سطحی اپیلی نظام ہے جس سے لوگ گھبراتے ہیں، اس عمل کو آسان بنایا جائے۔ لگژری اشیاء پر ٹیکس لگانا درست اقدام ہے۔ حکومت کے لیے 50لاکھ گھروں کی تعمیر کا ہد ف مشکل ٹاسک نظر آرہا ہے۔ اس حوالے سے پہلے مرحلے میں صرف 10ہزار گھر تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، اگر اسی رفتار سے گھر بنانے کے منصوبے پر عملد رآمد کیا گیا تو آئندہ پانچ سال میں صرف 50ہزار گھر ہی تعمیر کیے جا سکیں گے۔

پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے لیے حکومت کو پانی بجلی اور گیس جیسی سہولیات دینے کے بارے میں بھی باقائدہ حکمت عملی بنانی چاہیے۔ ان گھروں میں شفٹ ہونے والے بڑی تعداد میں لوگ ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو دیہاتوں اور دور دراز علاقوں سے شہروں میں آئیں، انہیںروزگار دینا بھی حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہو گا۔ حکومت کو چاہیے کہ دیہاتوں کے پاس نئے شہر آباد کرنے پر توجہ دے۔ ایسا کرنے سے شہروں میں لوگوں کی نقل مکانی نہیں ہوگی اور مسائل میں بھی کمی آئے گی۔ اگر حکومت نے اپنے منشور کے مطابق پانچ سالوں کے دوران ایک کروڑ نوکریاں دینے کے لیے کام کرے تو روزانہ کی بنیاد پر 5ہزار 4سو نوکریاں دینا پڑیں گی جو موجودہ معاشی صورتحال میں انتہائی مشکل کام ہے۔ سی پیک کے تحت صنعتی ترقی کی ضرورت ہے۔

ابھی تک سی پیک کے تحت بننے والے اقتصادی زون صرف کاغذوں تک محدود ہیں، ملکی معاشی ترقی اور برآمدات میں اضافے کے لیے جلد ازجلد اقتصادی زونز کو عملی جامع پہنانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان و بھارت سمیت دیگر ہمسائیہ ممالک سے تجار ت کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔
Load Next Story