گستاخانہ خاکے اور عشقِ رسولﷺ کا تقاضا

کیا گیرٹ ولڈرز یہودی ہے؟ کیا نیدرلینڈ ایک یہودی مملکت ہے؟ نہیں۔ تو پھر ہم ہولوکاسٹ کی تصاویر کس لیے شائع کررہے تھے؟


نوید احمد September 14, 2018
حالات کی نزاکت کا تقاضا تھا کہ ہم عشقِ رسولﷺ کے جوش میں اپنے ہوش قائم رکھتے اور بالواسطہ طور پر ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کرتے جس کے جواب میں کفار کو نبی اقدسﷺ کی شان میں مزید گستاخی کرنے کا موقع ملتا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

گزشتہ دنوں برطانوی اخبار ''دی انڈیپنڈنٹ'' نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ نیدرلینڈ (ہالینڈ) کے ایک سیاستدان گیرٹ ولڈرز نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے بارے میں گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منعقد کرانے کا اعلان کیا ہے جس سے آزادیِ اظہار کا فروغ ہوسکے۔ اس خبر کے آتے ہی پوری مسلم دنیا میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی۔ مسلمانانِ عالم نے اپنی اپنی حکومتوں پر زور دینا شروع کردیا کہ وہ اس سیاستدان اور نیدرلینڈ کی حکومت کو اس مذموم حرکت سے روکنے کےلیے اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لائیں۔ مزید برأں عوام نے یورپی مصنوعات کے بائیکاٹ، سوشل میڈیا پر احتجاج اور حکومتی اراکین کو ای میلز کے ذریعے بھی اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔

مذہبی سیاسی جماعتوں نے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالیں اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ بھی کیا۔ ایوانِ بالا میں ایک مذمتی قرارداد پیش ہوئی اور وزیرِاعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں ایسے واقعات کو مسلم حکومتوں کی اجتماعی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں اٹھائیں گے۔ مزید برأں حکومتِ پاکستان اور ترک حکومت نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اقوامِ متحدہ و اسلامی سربراہی کانفرنس سمیت تمام مناسب عالمی فورمز پر تحفظِ حرمتِ رسولﷺ کےمؤقف کو مشترکہ اور مؤثر طور پر پیش کریں گے جس سے حرمتِ رسولﷺ کا دفاع ہوسکے۔

معاملات کی نزاکت، سنگینی کی سمت جارہی تھی کہ گیرٹ ولڈرز نے یہ مقابلہ منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا کیونکہ وہ مسلمانوں کے ممکنہ ردِ عمل کے نتیجے میں خود سمیت نیدرلینڈ کے لوگوں کی جان و مال کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ اس سارے معاملے میں پاکستان اور ترک حکومت کی خصوصی دلچسپی اورعرب ممالک کے سربراہان کی روایتی اور مجرمانہ خاموشی نے ایک بار پھر امتِ مسلمہ کو اپنے حقیقی نمائندگان سے روشناس کرا دیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے والہانہ محبت ہر مسلمان کے ایمان کا جزوِلاینفک ہے اور، ان شاء اللہ، روزِ قیامت شفاعتِ مصطفی ﷺ کا بھی باعث ہوگا۔ ایسی مذموم حرکت کے ارادے سے ہی عاشقانِ رسولﷺ کے جذبات کو ٹھیس پہنچی اور وہ اپنے غم و غصے کے اظہار کے لیے بے تاب نظر آئے۔ مسلم ممالک، بالخصوص پاکستان اور ترکی میں عوامی ردِعمل کے نتیجے میں امن و امان کے حالات مخدوش ہونے کے خطرات سامنے آنے لگے تھے۔

گیرٹ ولڈرز کے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کی منسوخی کے فیصلے کے بعد مسلمانانِ عالم کے جذبات کا طوفان تھم چکا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند گزارشات پیش کی جائیں۔

سوشل میڈیائی دانشوروں کے ایک گروہ نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی منصوبہ بندی کے جواب میں یہ حل پیش کیا کہ ہولوکاسٹ پر مبنی تصاویر اور ڈیٹا انٹرنیٹ پر زیادہ سے زیادہ شائع کیا جائے جس سے یہودیوں کی دل آزاری ہوگی (یہ الگ بات ہے کہ عشقِ رسولﷺ میں اور لعنت بھیج کر شیئرکی گئیں ان تصاویر کی اکثریت کا مآخذ ہالی ووڈ کی فلمیں تھیں)۔ یاد رہے کہ ہولوکاسٹ دوسری جنگِ عظیم میں ہٹلر کے ہاتھوں جرمن اور یورپی یہودیوں کی وسیع پیمانے پر نسل کشی کے حقیقی واقعات اور خود ساختہ افسانوں کے ملغوبے پر مشتمل، ہمدردیاں سمیٹنے کی ایک ایسی واردات کا نام ہے جس کے ذریعے یہودیوں نے دنیا کی نظروں میں خود کو معصوم اور مظلوم ثابت کرکے عالمی حمایت اور سرزمینِ فلسطین حاصل کی تھی۔

سوال یہ ہے کہ نیدرلینڈ (ہالینڈ) کا ہولوکاسٹ سے کیا تعلق ہے؟ کیا گیرٹ ولڈرز یہودی ہے؟ کیا نیدرلینڈ ایک یہودی مملکت ہے؟ نہیں۔ تو پھر ہم ہولوکاسٹ کی سچی یا جھوٹی تصاویر کو کیوں شائع کررہے تھے اور اس کا فائدہ کسےتھا؟ مسلمانوں یا یہودیوں کو؟

اسی تصویر کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ فرمائیے:

سورۃ الانعام کی آیت نمبر 108 میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں: (ترجمہ) ''اور جن لوگوں کو یہ مشرک خدا کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں اللہ کو بے ادبی سے بے سمجھے برا (نہ) کہہ بیٹھیں۔''

عبداللہ ابنِ عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی، بخاری شریف کی حدیث نمبر 5628 کا مفہوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنے والدین کو گالی دے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ، کیا کوئی شخص اپنے ہی والدین کو گالی دے سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ وہ کسی دوسرے کے والدین کو گالی دیتا ہے تو وہ جواب میں اس کے والدین کو گالی دیتا ہے؛ گویا وہ اپنے ہی والدین کو گالی دلوانے کی بالواسطہ وجہ بنتا ہے۔

گویا ہم ہولوکاسٹ میں یہودیوں پر ہونے والے مظالم کو (سچے یا جھوٹے کی بحث فی الحال رہنے دیجیے) سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ شیئر کرکے ایک طرف تو یہودیوں کے بیانیے کی تائید کر رہے تھے کہ دوسری جنگِ عظیم میں ان کا قتل عام ہوا اور دوسری طرف ایک ایسی قوم کے ساتھ ایک مذہبی جنگ کا آغازکرنے والے تھے جو اس وقت دنیا میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، میڈیا، عالمی معیشت و تجارت اور سیاست پر چھائی ہوئی ہے۔

حالات کی نزاکت کا تقاضا تھا کہ ہم عشقِ رسولﷺ کے جوش میں اپنے ہوش قائم رکھتے اور بالواسطہ طور پر ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کرتے جس کے جواب میں کفار کو نبی اقدسﷺ کی شان میں مزید گستاخی کرنے کا موقع ملتا۔ سورۃ کوثر کی آیت نمبر 3 پر یقینِ کامل رکھتے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''(ترجمہ) بالیقین آپﷺ کا دشمن بے نام و نشان ہی رہے گا،'' اور سورۃ الم نشرح کی آیت نمبر 4 پر بھی غور کرتے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا: ''(ترجمہ) اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا۔''

مسلم ممالک کی حکومتوں کو بھی چاہیے کہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کےلیے ایک جامع اور مستقل لائحہ عمل ترتیب دیں اور ''Oh I See'' کو ''OIC'' یعنی اسلامی سربراہی کانفرنس میں بدلیں؛ اور اقوامِ متحدہ سمیت تمام عالمی فورمز پر اس معاملے کو مؤثر طریقے سے اٹھائیں تاکہ ہم اجتماعی طور پر روزِ قیامت نبی کریمﷺ کی شفاعت و سفارش سے فیض یاب ہوسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں