بے بسی کہوں یا بے حسی
'' ہاں یار! میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی۔ آجاؤ! ویسے ہی اس کا مزا لیتے ہیں جیسے ٹی وی پر ماہرہ خان لیتی ہے،'' مناہل نے شوخی سے جواب دیا (اور اب کمرے میں طوفان بدتمیزی برپا ہوچکا تھا کہ ہر نیا اشتہار دیکھنے کے بعد اس کی نقل کرنا ان کا مشغلہ تھا)۔
****
''احمر، آج کل سوشل میڈیا پر پاکستان کے لاپتا افراد اور چائنا میں اویغور مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کی خبریں آرہی ہیں۔ تم نے دیکھا کیا؟''
''ہاں یار دیکھا تھا! لیکن کون اب اس کی تحقیق کرتا؛ اور پھر ایسی پوسٹ کو تو ویسے بھی کوئی زیادہ لائک یا شیئر نہیں کرتا، تو میں نے بھی زیادہ دھیان نہیں دیا۔'' احمر نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
****
''فاریہ تم ڈرامہ سیریل سیٹھانی دیکھتی ہو کیا؟ کتنا زبردست ہے ناں! مجھے تو بڑا متاثر کیا ہے اس ڈرامے نے۔ ایک عورت کو ایسا ہی مضبوط ہونا چاہیے جیسا اس میں دکھایا گیا ہے،'' علینہ نے مرعوب انداز میں فاریہ سے کہا۔
''نہیں یار! یہ ڈرامے سوائے وقت ضائع کرنے کے کچھ نہیں کرتے اور میں تو ویسے بھی ان فضولیات کے سخت خلاف ہوں،'' فاریہ نے چہرے پر ناگواری کا تاثر لاتے ہوئے کہا۔
****
یہ محض مکالمے نہیں بلکہ میرے اور آپ کے گھر میں ہونے والے روزمرہ کے معاملات کا ایک عکس تھا۔ الیکٹرونک میڈیا کے سحر اور اشتہارات کے ذریعے ذہن سازی، سوشل میڈیا پر لائکس اور شیئرز کی چاہ، اور اپنی محدود ذہانت و فطانت کے ذریعے خود کو صحیح ثابت کرنے کے خبط نے آج کے نوجوان کو جس طرح اپنے شکنجے میں جکڑا ہے، اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
ابلاغ کی بات کی جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر زمانہ پچھلے زمانے سے نہ صرف مختلف ہوتا ہے بلکہ کام کرنے کی نئی جہتیں بھی ہمراہ لاتا ہے۔ لیکن یہ بھی ماننے والی بات ہے کہ اس دور کے مؤثر ذریعے یعنی پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کا صحیح استعمال کرنا تو دور کی بات، اکثر لوگ ابھی تک ان کی اہمیت کو نہ صرف سمجھ نہیں پائے بلکہ لاعلمی میں ان کی باگیں بھی ان لبرلز اور سیکولرز کے ہاتھوں میں دے دیں جن کا سارا زور اس وقت امت مسلمہ کو ایک بے حس اور ایمان و حیا جیسی صفات سے عاری قوم بنانے پر صرف ہو رہا ہے۔ ان کے مقابلے میں مخصوص دینی طبقے نے سارا زور ان ذرائع کو برا بھلا کہنے پر لگا دیا۔
رکھے گا خاک ربط وہ اس کائنات سے
جو ذرہ اپنی ذات کے اندر سمٹ گیا
انہی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے، ہمیں احساس دلائے بغیر، جس طرح ہماری محسوس کرنے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو زنگ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
صرف احساس کی بات کی جائے تو ایک باشعور و ذی عقل انسان اس بات کا بخوبی ادراک کرسکتا ہے کہ تہذیبوں کے اس تصادم میں سب سے زیادہ نقصان ایک عام مسلمان کا ہوا ہے؛ چاہے وہ اخلاقی ہو یا روحانی، دینی ہو یا فکری، سماجی ہو یا معاشرتی، ہر لحاظ سے ایک عام مسلمان ہی چکی کے دو پاٹوں میں پسا ہے۔
اپنی اقدار کی حساسیت کے حوالے سے وہ واقعہ بھی سب کو یاد ہوگا کہ جب صدر ایوب کے دور میں ایک نیوز کاسٹر کے سر سے دوپٹہ ہٹ جانے پر غیور پاکستانی قوم نے شدید احتجاج کیا تھا، لیکن آج انہی غیرت مند مسلمانوں کی نسلیں جس طرح اخلاق باختہ اشتہارات، ڈراموں میں حجلہ عروسی کے بے باک مناظر اور ایوارڈ شوز کے نام پر فحاشی و عریانی کے مناظر ماتھے پر شکن اور دل میں ناگواری لائے بغیر دیکھتی ہیں، وہ سخت قابل افسوس ہے۔
ختم نبوتﷺ جیسے سنجیدہ اور حساس معاملے میں جہاں 1974 میں پوری قوم ایک ساتھ کھڑی تھی، آج انہی کے پوتے پوتیاں قادیانیوں کے دفاع کےلیے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع استعمال کرکے جس طرح مہم چلا کر اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالتے نظر آرہے ہیں وہ بھی انتہائی تشویشناک ہے۔
اشتہارات اور بل بورڈز کے ذریعے ذہن سازی کی بات کی جائے تو اپنے بچپن کے ایک واقعے کا ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ غالباً 2003 یا 2004 میں روح افزا شربت کا بل بورڈ حیدرآباد ریلوے پھاٹک کے قریب لگا تھا جس پر آیت ''وَ كَفى بِاللَّهِ وَكيلاً'' کا ترجمہ ''اور میرے لیے میرا اللہ ہی کافی ہے'' لکھا ہوا تھا۔ والدہ سے اس کا مطلب جان لینے کے بعد وہ آیت اور بل بورڈ کبھی نہ بھولنے کےلیے میرے ذہن پر نقش ہوگئے۔ اُس وقت جو بل بورڈز انسان کو ساری زندگی کےلیے بہت بڑا سبق دے رہے ہوتے تھے، وہی بل بورڈز آج اس کی حیا اور ایمانی غیرت پر ضرب لگارہے ہوتے ہیں۔
اشتہارات کے ضمن میں قابل تعجب بات یہ بھی ہے کہ ایک دو کو چھوڑ کر باقی ہر اشتہار میں ایک چیز یکساں ہے: عورت۔ پھر چاہے وہ اشتہار فریج، ٹی وی، واشنگ مشین اور موبائل فون کا ہو یا کھانے پینے کی اشیاء کا، کسی نئے پروجیکٹ کی لانچنگ کا ہو یا فرنیچر کا، یہاں تک کہ خالص مردانہ اشیاء مثلاً بائیک اور شیو کے اشتہار میں بھی کوئی نہ کوئی عورت ضرور اپنا جلوہ بکھیرتی نظر آتی ہے... بلکہ آج کل کے اشتہارات میں تو دیوانوں کی طرح اچھل کود کرتی نظر آتی ہے۔ ان کی یہ ورزش کمپنی کو تو معلوم نہیں کتنا فائدہ پہنچاتی ہے لیکن نوعمر نوجوانوں کے کچے ذہنوں کو بری طرح متاثر کرنے کا باعث ضرور بن رہی ہے۔
اس حوالے سے ایک مضمون پڑھتے ہوئے جب ہماری استاذہ محترمہ نے ہم سب کے ذہنی غلام ہونے پر پُرزور استدلال کیا تو ہم ان سے بہت متفق نہیں تھے۔ بقول ان کے کہ ہم سرمایہ دارانہ طبقے یعنی یہودی لابی کے بچھائے ہوئے جال میں بری طرح پھنس چکے ہیں اور یہ کہ ہم وہی خریدتے ہیں جو وہ ہمیں خریدوانا چاہتے ہیں، وہی دیکھتے ہیں جو وہ ہمیں دکھانا چاہتے ہیں، اور وہی سوچتے ہیں جو وہ ہمیں 'سوچوانا' چاہتے ہیں۔
اس وقت ہمارا ذہن اس بات کو قبول کرنے کےلیے تیار نہیں تھا لیکن حال ہی میں جب ہالینڈ کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا عزم لیے مہینے بھر کا سامان لینے مارٹ میں جانے کا اتفاق ہوا تو باوجود تلاشِ بسیار، پاکستانی تو کیا دیگر اسلامی ممالک کی مصنوعات بھی نہ ملیں۔ بھاری دل کے ساتھ ہالینڈ کو چھوڑ کر باقی غیر مسلم ممالک کی مصنوعات لیے جب گھر واپس لوٹے تو اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی اور مختلف افراد کی آراء لیں۔ تقریباً سب ہی کی یہ رائے تھی کہ پاکستان کی بنائی ہوئی کوئی معیاری چیز ان کی نظر سے نہیں گزری لیکن ہمارا مشاہدہ یہ تھا کہ مارٹ میں رکھی سب چیزیں وہی تھیں جن کے اشتہارات تواتر سے دیکھنے میں آتے ہیں اور ایک عام گھریلو صارف پھر اسی چیز کو لینا پسند کرتا ہے جس کی سچی جھوٹی تعریف وہ بار بار ایک اشتہار میں دیکھ اور سن چکا ہوتا ہے۔ اس لیے دکانوں پر بھی پھر وہی چیزیں آتی ہیں جن کا وہ تقاضا کرتا ہے۔
اگر معمولی استعمال کی اشیاء کے حوالے سے اشتہارات کی اثر انگیزی کا یہ عالم ہے توذرا سوچیے کہ بار بار دکھائے جانے والے بے مقصد، فحش اور مادیت پرستی کا پرچار کرنے والے اشتہارات انسانی ذہن پر کیا اثر ڈالتے ہوں گے؟ اس کی اخلاقی اور ایمانی حس کا کیا حال کرتے ہوں گے؟ اور اسے کس طرح راہ سے بے راہ کرتے ہوں گے؟ اس کا اندازہ آج کی نوجوان نسل کو دیکھ کر ہم نہایت آسانی سے کرسکتے ہیں۔
اسی طرح ڈراموں میں دکھائے جانے والے اکثر غلط نظریات پر نوجوان نسل جس طرح سوچے سمجھے بغیر اعتقاد رکھتی ہے، وہ بے حد خطرناک ہے کہ لاعلمی اکثر گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔ بقول شاعر
جب اپنے اعتقاد کے محور سے ہٹ گیا
میں ذرّہ ذرّہ ہوکر حریفوں میں بٹ گیا
سننے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں کتنی اہمیت کی حامل ہیں اور ان کا نقصان کتنا بڑا خسارہ ہے؟ انسان کےلیے اس کا اندازہ قرآن کی اس آیت سے لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق دوزخیوں کا سب سے بڑا پچھتاوا یہی ہوگا کہ کاش انہوں نے اپنے سننے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کر لیا ہوتا: ''(ترجمہ) اور وہ کہیں گے کہ کاش ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزاواروں میں شامل نہ ہوتے۔'' (سورۃ الملک۔ آیت 10)
یہاں آپﷺ کی اپنے وصال سے قبل کی جانے والی اس وصیت کو بھی یاد رکھنا چاہیے جس میں رحمت اللعالمینﷺ کی امت مسلمہ کے سب سے بڑے فتنے ''دنیا پرستی'' میں پڑجانے کے حوالے سے فکر، دل کو عجیب کرب میں مبتلا کردیتی ہے۔
اسی طرح سوشل میڈیا اور خود کو اعلی سمجھنے کے خبط کی بات کی جائے تو آج کے سوشل میڈیا کا تقریباً ہر جوان بلا کا خطیب اور مقرر ہے۔ اپنے مظلوم مسلمان بہن بھائیوں کی عملی مدد کرنے کے حوالے سے تو یہ بے بس اور مجبور ہوتے ہیں لیکن جہاں بات آجائے دین کی تو ہر کوئی آپ اپنی ذات میں عالم اور مفتی ہے۔ دو چار کلک کرکے حاصل ہونے والی سطحی معلومات کی بنیاد پر ان جید علماء اور اسکالرز کی بات کو جھٹلانے میں دیر نہیں کرتا جنہوں نے اپنی ساری زندگی اس دشت کی سیاحی میں لگائی ہے۔ ایسے افراد سے عرض ہے کہ ایسے ہی دو چار کلک کرکے وہ کبھی ناسا والوں سے تو بحث کرکے دیکھیں، کسی سرجن سے تو انسانی جسم کے اسرار و رموز پر بات کریں، کبھی کسی انجینئر کو اس کی فیلڈ میں غلط ثابت کرکے دکھائیں، کسی پائلٹ سے تو جہاز اڑانے کی باریکیوں پر بات کریں یا اور کچھ نہیں تو کسی مصور یا خطاط کو ہی اس کے فن کی خامیوں کی نشاندہی کروا دیں۔ لیکن اگر یہ سب کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تو دین کو بھی (نعوذُ باللہ) لاوارث نہ سمجھیں جو ہر ایرے غیرے کے مشوروں کا محتاج ہو۔
زندگی کے ہر معاملے میں کسی ماہر کو ڈھونڈنے والوں کےلیے دین بھی اتنا ہی اہم معاملہ ہونا چاہیے کہ اسے جاننے کےلیے کسی ماہر سے رجوع کیا جائے۔ یہ اخلاقی پستی کی بھی انتہاء ہے کہ اتنے اہم معاملے پر بغیر علم کے کوئی بات کی جائے یا اسے ان لبرلز اور سیکولرز کے ٹویٹس اور کلکس کی روشنی میں دیکھا جائے جنہیں نماز کی بنیادی دعائیں تک یاد نہ ہوں۔ ان حضرات کےلیے بہ زبانِ فیض عرض ہے:
نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹا دیا
اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ قومیں خط غربت کی لکیر سے بھی نیچے رہ کر تو زندہ رہ سکتی ہیں لیکن جس قوم سے اس کی بنیاد و ثقافت، اس کے علم و فن کا خزانہ اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو چھین لیا جائے، تو اس کی مثال مُردوں کی مانند ہو جاتی ہے۔ آج کے ذرائع ابلاغ سے ہم کسی طور گریز اختیار نہیں کرسکتے لیکن اپنے بچوں کو ضرور بہترین تربیت کے بعد امت کا سرمایہ بنے کےلیے اس فیلڈ میں بھیج سکتے ہیں۔
یاد رکھیے کہ یہ دور نظریاتی جنگ کا ہے؛ اور اس میں وہی فتح یاب ہوگا جو اپنے نظریات کی حفاظت کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس لیے خدارا بےحسی کو بے بسی کے پردوں میں نہ لپیٹیے کہ بے بسی بھی بس قبروں میں پڑے مردوں ہی کی صفت ہے، ورنہ جسے زندگی جیسی نعمت ملی ہو وہ کسی بھی لحاظ سے بے بس اور مجبور نہیں۔ اسی امید پر اختتام کے ساتھ کہ
بے بسی کو شعور آنے دو
رہنما بھی اسی سے نکلیں گے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔