ایک دلچسپ سیاسی روداد

جنرل پرویز مشرف پر ان دنوں میاں محمد نواز شریف خوب خوب مہربان تھے۔ انھوں نے قائد عوام کے نقش قدم ...


Sagheer Ali Siddiquie June 04, 2013

جنرل پرویز مشرف پر ان دنوں میاں محمد نواز شریف خوب خوب مہربان تھے۔ انھوں نے قائد عوام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سینئر جنرلز کو نظر انداز کر کے اپنے رفقاء کے مشورے سے جنرل پرویز مشرف کو COAS کے منصب پر فائز کر دیا، بات ابھی ختم نہ ہوئی جلد ہی ان کو قائم مقام جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کا چیئرمین بھی بنا دیا گیا۔

اس طرح دونوں کلیدی عہدے ایک ہی فرد کو سونپ دیے گئے۔ جنرل صاحب کی چال اور ڈھال میں خاصا فرق آ گیا تھا۔ دوسری جانب ہیوی مینڈیٹ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف بھی کچھ کم زوروں پر نہ تھے، جنرل کرامت کا استعفیٰ، سردار محمد فاروق لغاری کی منصب صدارت سے علیحدگی، چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب جسٹس سید سجاد علی شاہ کی بے توقیری اور سپریم کورٹ کے خلاف حکمرانوں کے ناپسندیدہ اقدامات کی وجہ سے ہیوی مینڈیٹ میں مزید طاقت آ گئی اور کہنے والوں نے میاں صاحب کو امیر المومنین بن جانے کے لیے قانون سازی کا مشورہ بھی دے ڈالا جب کہ دوسری جانب وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان کی دفاعی لائن کو مزید توانا بنانے کے لیے ایٹمی دھماکا کر ڈالا، امریکی صدر کلنٹن ان کو ایٹمی دھماکے سے روکنے کے لیے اپنے تمام تر طریقہ کار استعمال کرتے رہے لیکن نواز شریف نے تمام خطرات کو مول لیتے ہوئے اور ہر قسم کی آفرز کو ٹھکراتے ہوئے ایٹمی دھماکا کر کے پاکستان کو دنیا کے نقشے پر دنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت بنا دیا۔

اس اقدام سے پوری دنیا میں ان کا قد بڑھا اور اندرون ملک بھی ان کی شہرت میں اضافہ ہوا جب کہ دوسری جانب جنرل پرویز مشرف اپنے محسن پر کاری ضرب لگانے کی تیاری کر چکے تھے کیونکہ بھٹو صاحب کی تاریخ کو دہرایا جانا بھی ضروری تھا۔ لہٰذا جنرل نے وزیر اعظم کو کارگل کے مسئلے پر گھیر لیا جس کے نتیجے میں وزیر اعظم پاکستان کو آخر کار صدر امریکا بل کلنٹن کے پاس جانا پڑا۔ اندرون خانہ اس مسئلے پر وزیر اعظم اور جنرل پرویز مشرف میں شدید اختلافات پیدا ہو گئے اور پرویز مشرف نے اب نواز شریف کو اقتدار سے رخصت کرانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

اسی دوران اختلافات اپنے عروج پر تھے کہ سیاسی قیادت نے بھی ان سے جان چھڑانے کی مکمل تیاری کر لی۔ جنرل صاحب غیر ملکی دورے پر تھے کہ نواز شریف نے جنرل ضیاء الدین بٹ کو پاک آرمی کا دوسرا نیا چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کر دیا۔ اس اقدام سے آرمی جنرلز ناراض ہو گئے اور انھوں نے پرویز مشرف کے آنے سے قبل ہی سیاسی حکومت کو ٹھکانے لگا دیا۔ میاں نواز شریف اور ان کے رفقا کو اقتدار کے ایوانوں سے باہر نکال پھینکا۔ اس موقعے پر ملک میں کہیں بھی کوئی احتجاج نہ ہوا۔ چند ہی لمحوں میں ساری سیاسی بساط لپیٹ دی گئی۔

یوں ایک مرتبہ پھر ملک میں وردی والوں کی حکمرانی قائم ہو گئی، جنرل پرویز مشرف وطن واپس آ گئے اسی اثناء میں انھوں نے اپنے محسن کے خلاف بھرپور انتقامی کارروائی کا آغاز کر دیا تھا ان کا یہ خواب تھا کہ جس طرح جنرل ضیاء الحق نے اپنے محسن کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا تھا بالکل اسی طرح وہ بھی نوازشریف کو بھی پھندے پر لٹکائیں۔ اس مقصد کے لیے دہشت گردی کی عدالت سے نوازشریف کو سزا دلوائی، پرویز مشرف کے عزائم یہی تھے کہ وہ ان کو سزائے موت دلوا دیتے لیکن کچھ فیصلے کہیں اور بھی ہوتے ہیں جس کو نہ کوئی تبدیل کر سکا ہے اور نہ ہی تبدیل کروا سکتا ہے۔

آخر کار امریکی صدر بل کلنٹن اور ایک اسلامی ریاست نے جنرل پرویز مشرف کو اس اقدام سے باز رکھا اور میاں صاحب کی سزا کو ختم کروا کر 10 سال جلا وطنی کا معاہدہ کروا کر انھیں پاکستان سے رخصت کروا دیا۔ اس مدت میں میاں صاحب پر پابندی لگائی گئی کہ وہ مذکورہ پیریڈ میں سیاست میں حصہ نہیں لیں گے۔ جنرل پرویز مشرف کی اعلیٰ عدلیہ نے پذیرائی کی، نواز شریف حکومت کے خاتمے کے اقدام کو درست قرار دیا۔ 3 سال تک پرویز مشرف کو قانون سازی کی اجازت دے دی گئی، بعد از مدت انتخابات کروا کر اقتدار عوامی نمایندوں کو سونپنے کے احکامات صادر ہو گئے۔

COAS نے موقع غنیمت جانا اور مرضی کے عین مطابق قوانین وضع کیے، انھوں نے نظریہ ضرورت، LFO اور ہنگامی قانون کے تحت اپنی حکمرانی کو یقینی بنایا، سینیٹ قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیاں اور سینیٹ توڑی جا چکی تھیں، آئین معطل تھا، پوری ریاست کا اقتدار اعلیٰ فرد واحد کے پاس تھا۔ COAS ، CJCOS چیف ایگزیکٹو، صدر پاکستان غرض یہ کہ وہ کون کون سے بڑے عہدے نہ تھے جو ان کے پاس نہ تھے، انھوں نے NAB بنائی قوم کو تھوڑی سی امید بنی کے شاید قوم کی دولت لوٹنے والوں کا محاسبہ ہو گا لیکن کوئی گنجائش دکھائی نہیں دی۔ NAB کے ذریعے سیاست دانوں کو دھمکا کر حکومت کا اتحادی بنا دیا گیا۔ لہٰذا اب تمام معاملات ان کے ہاتھ میں تھے غرض یہ کہ پاکستان کا ہر شعبہ جنرل پرویز مشرف کو مضبوط کرتا جا رہا تھا۔ ہر طرف جنرل پرویز مشرف ہی تھے۔

اعلیٰ عدلیہ کی ہدایات کی روشنی میں جنرل پرویز مشرف نے عام انتخابات کرائے۔ کامیاب ہونے والوں نے مسلم لیگ (ق) بنا ڈالی اس کا صدر اپنے لوگوں کو بنا ڈالا۔ بڑی تعداد میں لوگ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ آ ملے۔ اقتدار کو گھر کی لونڈی بنا لیا گیا تھا۔ آپ کا یہ اعلان تھا کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کبھی پاکستان نہیں آئیں گے لیکن ان کے ہاتھوں نے ہی بے نظیر بھٹو کے ساتھ NRO کا معاہدہ کیا اور ان کی موجودگی میں ہی وہ پاکستان واپس آئیں اور میاں نواز شریف بھی آئے اور دونوں پارٹیوں نے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور دونوں پارٹیوں کو بڑی تعداد میں ووٹ پڑے۔

اقتدار کی پارٹی پی پی پی قرار پائی اور حزب اختلاف مسلم لیگ (ن) قرار پائی، دونوں پارٹیوں نے مل کر جنرل پرویز مشرف کو اقتدار کے ایوان سے رخصت کرایا۔ جنرل پرویز مشرف نے اختتامی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا، انھوں نے میاں برادران کو اپنے والد کی تدفین میں شرکت کی اجازت تک نہیں دی۔ اب وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی والدہ دبئی میں بیمار ہیں وہ ان کی عیادت کرنا چاہتے ہیں لیکن اس معاملے کو وہ باقاعدگی کے ساتھ عدالت میں پیش نہیں کر رہے ہیں جب کہ عدالتیں ان کے اس موقف پر ان کو بھر پور طریقے سے سننا چاہتی ہیں۔

جنرل پرویز مشرف آج کل عدالتوں میں حاضر ہو رہے ہیں، یہ سب کچھ کسی کا کیا ہوا نہیں یہ ان کا اپنا کیا ہوا ہے، جو انھوں نے کل بویا تھا وہ آج اقتدار سے باہر ہو کر کاٹ رہے ہیں۔ پاکستان کا سب سے طاقت ور فرد آج ضمانتوں کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ دنیا میں لیکچر دینے والا شخص آج خود لیکچر لے رہا ہے۔ قدرت قدرت ہے، اﷲ کا نظام ہی باقی ہے، سب کچھ فنا ہونے والا ہے، کچھ بھی باقی نہیں رہنا۔ جب انسان پر وزن آئے تو اس کو جھک جانا چاہیے۔ دنیا نے بڑے بڑے اہلکاروں، فنکاروں، حکمرانوں کو روند ڈالا۔ نہ یہ طاقتور باقی رہے اور نہ ہی اپنے آپ کو طاقتور سمجھنے والے۔ اﷲ تعالیٰ سب کو اپنے حساب سے چلاتا ہے۔ لہٰذا آج کے حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ان حالات اور واقعات سے سبق سیکھیں اور اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں، سب کچھ اسی سے ملنا ہے۔ اول اور آخر طاقت اسی کی ہے۔ اس نے انسان کو کتنے دن دنیا میں رکھنا ہے اور وہ اس سے کیا کام لینا چاہتا ہے لہٰذا ہمیں اس کی قدرت کے آگے ہر لمحہ سر بسجود ہونے کی ضرورت ہے۔ وہی ہمارا مالک اور خالق ہے اور اسی کے قبضے میں ہماری جان ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔