ماحولیات کا عالمی دن اور غذائی بحران
1970 کی ابتداء سے ہی دنیا نے اس حقیقت کو محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ منفی انسانی سرگرمیوں اور ہوس زر...
1970 کی ابتداء سے ہی دنیا نے اس حقیقت کو محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ منفی انسانی سرگرمیوں اور ہوس زر کے لالچ کی وجہ سے کرۂ ارض کے قدرتی ماحول میں گراؤٹ کا عمل خطرناک حد تک تیز ہو گیا ہے۔ 1970 سے 1980کے درمیانی عرصے میں بین الاقوامی برادری نے ماحولیاتی انحطاط کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو اجاگر کرنا اور ان کے حوالے سے عالمی سطح پر مختلف دنوں کو منانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس دہائی میں ماحولیاتی مسائل کی خلاف مزاحمتی تحریکوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ اس حوالے سے منائے جانے والے دنوں میں سب سے بڑا دن ماحولیات کا عالمی دن کہلاتا ہے۔
یہ دن ہر سال 5 جون کو منایا جاتا ہے۔ دیگر ماحولیاتی مسائل کے دنوں کی طرح ماحولیات کے عالمی دن کا بھی ایک موضوع تخلیق کیا جاتا ہے جو اس امر کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کرۂ ارض پر رہائش پذیر 7 ارب انسان کتنے سنگین مسائل سے دوچار ہو چکے ہیں اور ان سے نپٹنے کے لیے حکومتوں کے ساتھ ساتھ عام انسانوں کو بھی اس عمل کا حصہ بننا ہو گا۔ سال 2013کے ماحولیاتی دن کا موضوع ''سوچ کے کھاؤ اور بچاؤ'' ہے۔ یہ موضوع اس امر کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ عالمی حکومتیں غذائی کمی کے بحران کو روکنے میں مصروف ہیں اور انھیں کرۂ ارض پر رہائش پذیر 7 ارب انسانوں کو غذا اور وسائل کی فراہمی میں زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ واضح رہے کہ 2050میں دنیا کی آبادی 9 ارب تک پہنچ جائے گی۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک میں رہائش پذیر افراد خوراک کی شدید قلت کا شکار ہیں تو دوسری جانب امریکا میں مجموعی خوراک کا 30 فیصد حصہ ضایع کر دیا جاتاہے جس کی قیمت کا اندازہ 48.3 بلین امریکی ڈالر لگایا گیا ہے جب کہ برطانوی گھرانے اوسطاً 6.7 ملین ٹن خوراک ہرسال ضایع کرتے ہیں تو دوسری جانب ترقی پذیر ملکوں سے تعلق رکھنے والے 790 ملین افراد غذائی امراض میں مبتلا ہیں۔ اندازوں کے مطابق ترقی یافتہ دنیا سے تعلق رکھنے والے تقریباً 222 ملین ٹن خوراک ضایع کر دیتے ہیں۔
دنیا بھر میں موجود غذائی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی تیار کردہ فالتو خوراک ہر سال بڑی مقدار میں سمندر بُرد کر دیتی ہیں جس سے دنیا میں موجود خوراک کی کمی کو کافی حد تک پورا کیا جا سکتا ہے۔ عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے اندازوں کے مطابق ہر سال ایک ارب 30 کروڑ ٹن خوراک ضایع کر دی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ضایع کی جانے والی خوراک کی یہ مقدار دنیا بھر میں پیدا ہونے والے سالانہ غلے کی پیداوار کی نصف سے زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 5 سال سے کم عمر کے 20 ہزار سے زائد بچے فاقہ کشی اور بیماریوں کے باعث ہر روز موت سے ہم کنار ہو جاتے ہیں۔
ان کی بڑی تعداد غریب اور پسماندہ ملکوں سے تعلق رکھتی ہے۔ عالمی سطح پر خوراک کے وسیع پیمانے پر ضیاع کی وجہ سے دنیا بھر میں موجود قدرتی وسائل جن میں پانی، توانائی اور زمین پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں تو دوسری طرف محنت اور سرمائے کے ضیاع کے ساتھ ساتھ گرین ہاؤس گیسوں کے غیر ضروری اخراج کے سبب گلوبل وارمنگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہے کہ غذائی اشیاء کو ضایع کرنے سے وہ تمام قدرتی وسائل اور اس پر آنے والے اخراجات بھی ضایع ہو جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے جائزوں کے مطابق متعدد ملکوں کے عوام اپنی آمدنی کا 3 چوتھائی حصہ خوراک پر صرف کر دیتے ہیں۔ ماحول دوست زراعت اور موسمیاتی تبدیلی پر بنائے گئے بین الاقوامی کمیشن کی ایک رپورٹ جس کا عنوان ''قدم اٹھائیے یا خوراک کی عالمی قلت کا سامنا کیجیے'' تھا، میں خوراک کی عالمی قلت سے بچنے کے متعدد تبدیلیاں اور اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر تجویز کردہ تبدیلیوں پر عمل نہیں کیا گیا تو 2050 تک بھوک سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 2 ارب تک پہنچ جائے گی۔
بین الاقوامی زرعی تحقیقی پروگرام برائے موسمیاتی تبدیلی کے مشاورتی گروپ نے خوراک پر موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں پاکستان، بھارت، افغانستان سمیت میکسیکو، شمالی و مشرقی برازیل اور کئی افریقی ملکوں کو شامل کیا ہے۔
عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے جائزوں کے مطابق پاکستان میں 37.5 ملین لوگ غذائی کمی کا شکار ہیں۔ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں زرعی ترقی کا ہدف 2.4 فیصد سالانہ ہے جب کہ ہر سال 2.8 فیصد کی شرح سے ملک کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
منصوبہ برائے پائیدار زمینی نظام کے اندازوں کے مطابق پاکستان کی کل 79.6 ملین ہیکٹر اراضی میں 68 ملین ہیکٹر اراضی ایسے علاقوں پر مشتمل ہے جہاں 300 ملی لیٹر سالانہ سے کم بارش ہوتی ہے۔ ملک کے کل رقبے میں صرف 20 ملین ہیکٹر اراضی زراعت کے لیے موزوں ہے۔ ماہرین کے مطابق غذائی عدم تحفظ کی شرح ملک میں 58 فیصد ہے اور آنے والے 5 برسوں میں اس شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں ملک میں سنگین نوعیت کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
5 برسوں سے ملک کے طول و عرض میں جاری توانائی بحران اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ جس کے باعث بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ جس سے ملک کے عوام مزید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہونے کے باعث ملک کے قدرتی وسائل تیزی سے کم ہو جاتے جا رہے ہیں اور انھیں محفوظ کرنے کے لیے ہمارے پاس کسی بھی قسم کی ٹھوس حکمت عملی اور منصوبہ بندی موجود نہیں ہے۔ غذائی اشیا کی بربادی کا عمل ہماری آنکھوں کے سامنے جاری ہے اور ہم من حیث القوم اس عمل میں دانستہ یا نادانستہ شامل ہیں۔
ہر سطح پر ہونے والی تمام اقسام کی تقریبات میں جس طرح خوراک کی بربادی ہو رہی ہے۔ اس کا مجموعی اثر ہمارے قدرتی وسائل پر بھی پڑ رہا ہے۔ سستی خوراک کا حصول پاکستانی شہری کے لیے ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ہم نے بنیادی غذائی اشیا کے لیے عوام کو قطار لگاتے اور لڑتے جھگڑتے دیکھا جو ملک میں خوراک کی شدید کمی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ ملک میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ایک نئی اسمبلی وجود میں آ چکی ہے۔ انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔ نئی حکومت کے سامنے بے پناہ چینلجز ہیں۔ وسائل کی کمی بھی ہے۔ اس کے باوجود ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ نئی حکومت کے لیے جہاں توانائی کے بحران سے نمٹنا ایک چیلنج ہے وہیں کرپشن، بے روزگاری، امن و امان کی صورتحال کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل بھی منہ کھولے کھڑے ہیں۔ انھیں حل کرنے کے لیے جہاں حکومت کو اپنا بنیادی کردار ادا کرنا ہو گا وہیں عوام کو بھی اپنے طرز عمل اور طرز زندگی پر غور کرنا ہو گا کیونکہ حکومتی اقدامات اسی وقت کارگر ہوتے ہیں جب ان میں عوام کی بھرپور شرکت ہو۔
یہ دن ہر سال 5 جون کو منایا جاتا ہے۔ دیگر ماحولیاتی مسائل کے دنوں کی طرح ماحولیات کے عالمی دن کا بھی ایک موضوع تخلیق کیا جاتا ہے جو اس امر کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کرۂ ارض پر رہائش پذیر 7 ارب انسان کتنے سنگین مسائل سے دوچار ہو چکے ہیں اور ان سے نپٹنے کے لیے حکومتوں کے ساتھ ساتھ عام انسانوں کو بھی اس عمل کا حصہ بننا ہو گا۔ سال 2013کے ماحولیاتی دن کا موضوع ''سوچ کے کھاؤ اور بچاؤ'' ہے۔ یہ موضوع اس امر کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ عالمی حکومتیں غذائی کمی کے بحران کو روکنے میں مصروف ہیں اور انھیں کرۂ ارض پر رہائش پذیر 7 ارب انسانوں کو غذا اور وسائل کی فراہمی میں زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ واضح رہے کہ 2050میں دنیا کی آبادی 9 ارب تک پہنچ جائے گی۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک میں رہائش پذیر افراد خوراک کی شدید قلت کا شکار ہیں تو دوسری جانب امریکا میں مجموعی خوراک کا 30 فیصد حصہ ضایع کر دیا جاتاہے جس کی قیمت کا اندازہ 48.3 بلین امریکی ڈالر لگایا گیا ہے جب کہ برطانوی گھرانے اوسطاً 6.7 ملین ٹن خوراک ہرسال ضایع کرتے ہیں تو دوسری جانب ترقی پذیر ملکوں سے تعلق رکھنے والے 790 ملین افراد غذائی امراض میں مبتلا ہیں۔ اندازوں کے مطابق ترقی یافتہ دنیا سے تعلق رکھنے والے تقریباً 222 ملین ٹن خوراک ضایع کر دیتے ہیں۔
دنیا بھر میں موجود غذائی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی تیار کردہ فالتو خوراک ہر سال بڑی مقدار میں سمندر بُرد کر دیتی ہیں جس سے دنیا میں موجود خوراک کی کمی کو کافی حد تک پورا کیا جا سکتا ہے۔ عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے اندازوں کے مطابق ہر سال ایک ارب 30 کروڑ ٹن خوراک ضایع کر دی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ضایع کی جانے والی خوراک کی یہ مقدار دنیا بھر میں پیدا ہونے والے سالانہ غلے کی پیداوار کی نصف سے زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 5 سال سے کم عمر کے 20 ہزار سے زائد بچے فاقہ کشی اور بیماریوں کے باعث ہر روز موت سے ہم کنار ہو جاتے ہیں۔
ان کی بڑی تعداد غریب اور پسماندہ ملکوں سے تعلق رکھتی ہے۔ عالمی سطح پر خوراک کے وسیع پیمانے پر ضیاع کی وجہ سے دنیا بھر میں موجود قدرتی وسائل جن میں پانی، توانائی اور زمین پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں تو دوسری طرف محنت اور سرمائے کے ضیاع کے ساتھ ساتھ گرین ہاؤس گیسوں کے غیر ضروری اخراج کے سبب گلوبل وارمنگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہے کہ غذائی اشیاء کو ضایع کرنے سے وہ تمام قدرتی وسائل اور اس پر آنے والے اخراجات بھی ضایع ہو جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے جائزوں کے مطابق متعدد ملکوں کے عوام اپنی آمدنی کا 3 چوتھائی حصہ خوراک پر صرف کر دیتے ہیں۔ ماحول دوست زراعت اور موسمیاتی تبدیلی پر بنائے گئے بین الاقوامی کمیشن کی ایک رپورٹ جس کا عنوان ''قدم اٹھائیے یا خوراک کی عالمی قلت کا سامنا کیجیے'' تھا، میں خوراک کی عالمی قلت سے بچنے کے متعدد تبدیلیاں اور اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر تجویز کردہ تبدیلیوں پر عمل نہیں کیا گیا تو 2050 تک بھوک سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 2 ارب تک پہنچ جائے گی۔
بین الاقوامی زرعی تحقیقی پروگرام برائے موسمیاتی تبدیلی کے مشاورتی گروپ نے خوراک پر موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں پاکستان، بھارت، افغانستان سمیت میکسیکو، شمالی و مشرقی برازیل اور کئی افریقی ملکوں کو شامل کیا ہے۔
عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے جائزوں کے مطابق پاکستان میں 37.5 ملین لوگ غذائی کمی کا شکار ہیں۔ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں زرعی ترقی کا ہدف 2.4 فیصد سالانہ ہے جب کہ ہر سال 2.8 فیصد کی شرح سے ملک کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
منصوبہ برائے پائیدار زمینی نظام کے اندازوں کے مطابق پاکستان کی کل 79.6 ملین ہیکٹر اراضی میں 68 ملین ہیکٹر اراضی ایسے علاقوں پر مشتمل ہے جہاں 300 ملی لیٹر سالانہ سے کم بارش ہوتی ہے۔ ملک کے کل رقبے میں صرف 20 ملین ہیکٹر اراضی زراعت کے لیے موزوں ہے۔ ماہرین کے مطابق غذائی عدم تحفظ کی شرح ملک میں 58 فیصد ہے اور آنے والے 5 برسوں میں اس شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں ملک میں سنگین نوعیت کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
5 برسوں سے ملک کے طول و عرض میں جاری توانائی بحران اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ جس کے باعث بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ جس سے ملک کے عوام مزید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہونے کے باعث ملک کے قدرتی وسائل تیزی سے کم ہو جاتے جا رہے ہیں اور انھیں محفوظ کرنے کے لیے ہمارے پاس کسی بھی قسم کی ٹھوس حکمت عملی اور منصوبہ بندی موجود نہیں ہے۔ غذائی اشیا کی بربادی کا عمل ہماری آنکھوں کے سامنے جاری ہے اور ہم من حیث القوم اس عمل میں دانستہ یا نادانستہ شامل ہیں۔
ہر سطح پر ہونے والی تمام اقسام کی تقریبات میں جس طرح خوراک کی بربادی ہو رہی ہے۔ اس کا مجموعی اثر ہمارے قدرتی وسائل پر بھی پڑ رہا ہے۔ سستی خوراک کا حصول پاکستانی شہری کے لیے ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ہم نے بنیادی غذائی اشیا کے لیے عوام کو قطار لگاتے اور لڑتے جھگڑتے دیکھا جو ملک میں خوراک کی شدید کمی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ ملک میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ایک نئی اسمبلی وجود میں آ چکی ہے۔ انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔ نئی حکومت کے سامنے بے پناہ چینلجز ہیں۔ وسائل کی کمی بھی ہے۔ اس کے باوجود ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ نئی حکومت کے لیے جہاں توانائی کے بحران سے نمٹنا ایک چیلنج ہے وہیں کرپشن، بے روزگاری، امن و امان کی صورتحال کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل بھی منہ کھولے کھڑے ہیں۔ انھیں حل کرنے کے لیے جہاں حکومت کو اپنا بنیادی کردار ادا کرنا ہو گا وہیں عوام کو بھی اپنے طرز عمل اور طرز زندگی پر غور کرنا ہو گا کیونکہ حکومتی اقدامات اسی وقت کارگر ہوتے ہیں جب ان میں عوام کی بھرپور شرکت ہو۔