قیامت کی گرمی ایک سوچ…
گرمی، شدید گرمی۔۔۔۔ آج کل لوگوں کی زبان پر بات کرنے کے لیے اہم ترین موضوعات میں سے ابتدائی موضوع گرمی ہی ہے۔
گرمی، شدید گرمی۔۔۔۔ آج کل لوگوں کی زبان پر بات کرنے کے لیے اہم ترین موضوعات میں سے ابتدائی موضوع گرمی ہی ہے۔ پھر جب گفتگو کی ابتدا ہو جاتی ہے تو وہ گرمی سے آگے بڑھ کر لوڈ شیڈنگ، ٹریفک جام، سیاست، کرپشن اور مہنگائی تک جا پہنچتی ہے۔ اس شدید گرمی نے جہاں کئی ریکارڈ توڑ ے ہیں وہیں کئی ریکارڈ قائم بھی کیے ہیں۔
کہتے ہیں لاہور میں 1929 کے بعد یہ درجہ حرارت 49 اور 50 ڈگری سینٹی گریڈ دیکھنے میں آیا ہے اور پھر پسنی اور جیکب آباد میں تو درجہ حرارت 51 اور 52 کی سطح بھی چھو آیا ہے۔ اور پھر اس گرمی میں کے ای ایس سی نے جو عذاب شہریوں پر نازل کیا ہے اس کا تو ذکر ہر کس و ناکس کی زبان پر ہے۔ اتنی شدید گرمی میں تین تین مرتبہ بجلی کا غائب ہونا اور وہ بھی ہر مرتبہ دو سے تین گھنٹے کے لیے تو آپ ہی سوچیں لوگ بے چارے کیا کریں۔ اسی بجلی کی وجہ سے جو پانی کی عدم فراہمی پیدا ہوتی ہے تو اس کا جواز بھی لوگ کے ای ایس سی کے ذمے ڈال دیتے ہیں۔
خود سوچیں جن علاقوں میں پانی دو روز بعد صرف آدھا یا ایک گھنٹے کے لیے فراہم کیا جاتا ہو اور اس وقت بجلی موجود نہ ہو تو لوگ پانی کہاں سے حاصل کریں۔ ایسے میں گھروں میں کروائی گئی بورنگ والے بڑے خوش ہوتے ہیں کہ وہ فی گھنٹہ30 روپے کے حساب سے اپنا کھارا پانی علاقے میں فروخت کرتے ہیں اور لوگ مجبور ہوتے ہیں کہ ان سے پانی خریدیں کیونکہ ایک تو ٹینکر بھی مشکل سے ملتا ہے اور دوسرے اس کے ریٹ بھی تقریباً یہی ہیں، کھارے پانی کا 2500 سے 3000 تک اور میٹھے پانی کا 3000 اور 3500 کا۔
تیسرا یہ کہ ٹینکر والے بھی پورا ہی ٹینکر لانے پر راضی ہوتے ہیں ، آدھا یا کم پانی نہیں دینا چاہتے ہیں، اب ہمارے 80 گز کے گھروں میں اتنے بڑے ٹینک تو ہوتے نہیں ہیں کہ پورے ٹینکر کا پانی ان میں سما جائے اور ٹینکر والے افراد ٹینک بھر جانے کے بعد باقی کسی اور گھر میں دینے کے بجائے واپس لے جا کر خود بیچ دیتے ہیں لہٰذا مجبوری میں اسی بورنگ کے پانی پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ اور جب اس گرمی کے عالم میں اسکول، کالج یا فیکٹری جایا جائے تو راستے میں گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنس کر نہ صرف گرمی، پسینے، دھول اور مٹی سے سجے سنورے انسان کا حلیہ خراب ہوتا ہے بلکہ اس کا تر و تازہ اور خوشگوار موڈ بھی تھکن، بیزاری اور چڑچڑے پن میں بدل جاتا ہے۔
ایسے میں گھر واپس پہنچنے پر تھکن اتارنے، آرام کرنے اور غسل لینے کے تمام ارادے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں جب علم ہوتا ہے کہ گھر میں بجلی تین گھنٹے سے غائب ہے اور اس وجہ سے پانی بھی ختم ہو چکا ہے سر سے پاؤں تک پسینے میں شرابور، گرمی و تھکن سے نڈھال لوگ جب مایوس ہو کر گھر کے ننگے فرش یا پلاسٹک کی چٹائیوں پر اپنے تھکے جسموں کے ساتھ دراز ہوتے ہیں تو کچھ ہی دیر بعد پہلو بدلتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ جاتے، یہی لگتا ہے کہ چٹائی اور فرش گرمی سے تپ رہے ہیں اور بعض اوقات تو کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا جسم اور کپڑوں سے بھی آگ نکل رہی ہے، شدید گرمی کا احساس اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ جسم اور کپڑوں سے تپش آنے لگتی ہے۔ کے ای ایس سی اور حکومت آج کل لوگوں کی دعاؤں سے خوب نوازے جا رہے ہیں۔
ہر شخص کی زباں پر شکوہ ہے، شکایت ہے، ہر شخص ناراض نظر آتا ہے۔ پانچ لاکھ کمانے والا بھی پریشان اور شکوہ کناں ہے اور پانچ ہزار کمانے والا بھی فریادی ہے۔ کہیں حکومت سے ناراضگی ہے تو کہیں مہنگائی سے پریشانی، کہیں بجلی جانے کا شکوہ ہے تو کہیں پانی کی عدم فراہمی پر غصہ، کہیں ٹریفک جام پر تنقید ہے تو کہیں بسوں میں رش پر تبصرہ۔ کچھ اعمال اپنے ہی ہاتھوں سے کمائے گئے ہیں اور کچھ اپنی قوم کے اجتماعی اعمال ہیں جس میں اپنا حصہ ڈالنے یا نہ ڈالنے کے ہم بھی حق دار ہیں۔
اور کچھ نہیں ملتا ہے تو موسم پر ہی ہم غصہ ہونے لگتے ہیں۔ جو کہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ شاید عادت سی ہو گئی ہے ہمیں تنقید کرنے کی اور جب لوگ کل بھی اسی طرح شدید گرمی میں بجلی کے چلے جانے پر گلی کے نکڑ پر بیٹھے اس سال پڑنے والی قیامت خیز گرمی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر بحث و تبصرہ کر رہے تھے اچانک ہی بالکل اچانک دل نے جیسے کوئی سرگوشی سی میرے کان میں کی اور میں ایک دم ٹھٹھک سی گئی۔ دل پھر پکارا ''اور ذرا اس دن کا تصور کرو جب سورج سوا نیزے پر آ جائے گا، اس دن حشر کے میدان میں کوئی سایہ نہ ہو گا، جب زمین تپتے توے کی طرح گرم ہو گی اور سورج کا فاصلہ صرف سوا نیزے کا ہو گا، جس نے جیسے اعمال یا گناہ کیے ہوں گے وہ اتنے ہی زیادہ پسینے میں ڈوبا ہو گا''۔
ہم حکومت اور اداروں کو کوستے رہے مگر کیا کبھی ہم نے ایک لمحے کے لیے بھی روز حشر کے دن اور اس کی گرمی کا تصور کیا، جس دن کوئی سایہ نہ ہو گا۔ آج تو ہم اپنے لیے بڑے بڑے سایہ دار مکانات بنا لیتے ہیں مگر اس دن کے سایے کے لیے کیا کیا؟ ابھی درجہ حرات 50 پر لوگ اپنی جانوں سے جا رہے ہیں، جب سوا نیزے پر سورج ہو گا تو کتنا درجہ حرارت ہو گا اور پھر وہاں تو موت بھی نہیں ہو گی کہ مر جائیں گے۔ کیا اس دن، اس گرمی اور پھر اس سے بچنے کا ہم نے کوئی لائحہ عمل سوچا ہے؟ دل نے ایک سرگوشی اور کی کہیں ہمارے پیارے اﷲ میاں اس گرمی کے ذریعے ہم بھولے بھٹکے لوگوں کو کچھ یاد تو نہیں دلا رہے ہیں؟ ہے کوئی سننے والا، ہے کوئی سمجھنے والا؟