پی ٹی آئی کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہو گا
پارٹی اختلافات اور متوقع بلدیاتی الیکشن کے لئے نئی گروپ بندی
June 04, 2013
الیکشن کا طوفان تھم چکا ہے،جس کے مقدر میں جو لکھا تھا اسے مل گیا ہے۔تحریک انصاف کو خیبر پختونخواہ کی حکومت مل گئی جبکہ پنجاب میں اس کے حصے میں اپوزیشن لیڈری آگئی۔ بظاہر یہ بڑی کامیابی ہے ،ایک ایسی جماعت جس کی ماضی میں قومی اسمبلی میں نمائندگی صرف عمران خان تک محدود تھی اور پنجاب اسمبلی میں ایک بھی رکن نہیں تھا ،اب وہ قومی اسمبلی میں تیسری سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی ہے اور پنجاب میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت۔اسے کامیابی ہی کہا جا سکتا ہے لیکن ذرا غور کیا جائے تو تحریک انصاف کے لیے مایوسی کے بہت سے پہلو موجود ہیں۔
ان میں ایک یہ ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کو توقعات سے بہت کم کامیابی ملی ،پیپلز پارٹی میدان سے باہر تھی،ق لیگ کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا ، تحریک انصاف اس خلاء کو پر کر سکتی تھی لیکن وہ ایسا نہیں کر سکی۔عمران خان اپنے شہر لاہور میں ہار گئے ۔ اب ان کی پشاور،راولپنڈی یا میانوالی سے جیت کی اتنی اہمیت نہیں رہتی۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے میاں نواز شریف لاہور سے ہار جاتے اور سرگودھا سے جیت جاتے ۔ تحریک انصاف کو پنجاب میں جو چند ایک نشستیں ملی ہیں ان میں سے بھی عمران خان کو میانوالی جبکہ شاہ محمود قریشی کو ملتان کی نشست خالی کرنا ہے۔
جاوید ہاشمی بھی دو نشستیں جیتے ہیں، انہیں بھی ایک نشست چھوڑنی ہے۔ان نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوگا اور روایت یہی رہی ہے کہ برسر اقتدار پارٹی ضمنی الیکشن جیتتی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو میانوالی ،اسلام آباد اور ملتان کی تینوں نشستوں کو دوبارہ جیتنا عمران خان کیلئے مشکل ثابت ہوگا ۔ تحریک انصاف کا اصل بیس کیمپ پنجاب ہے اور یہاں اس کا ہیڈ کوارٹر لاہور ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی شکست کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں سر فہرست یہ ہے کہ عمران خان نے انتخابی مہم میں جتنی بھی تقریریں کیں ان میں وہ عوام کو اپنا واضح پروگرام اور پیغام دینے میں ناکام رہے۔
ہر تقریر پہلی جیسی باتوں پر ہی مشتمل ہوتی یا تو وہ ڈرون حملوں کی مخالفت کر رہے ہوتے تھے یا پھر شریف برادران اور مسلم لیگ(ن) سمیت آصف علی زرداری پر تبرا کرتے۔ انہوں نے نچلی سطح کے پنجابی کیلئے کوئی بات نہیں کی۔وہ یوتھ کو اپنی طاقت قرار دیتے رہے لیکن انہوں نے دیہاتوں اور پسماندہ گلی محلوں کے نوجوانوں پر اتنی توجہ نہیں دی جتنا کہ وہ شہری یوتھ پر دیتے رہے۔ پنجاب کے عوام کا مسئلہ لوڈ شیڈنگ اورگیس کی فراہمی تھا، میاں نواز شریف نے اپنی تقاریر میں اسی بارے بات کی اور عوام کو اپنی جانب کھینچ لیا۔
تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈ میں ٹکٹوں کی تقسیم کے فیصلے میرٹ پر ہوتے تو یقینا نتائج مختلف آتے لیکن وہاں مخصوص سوچ کی اجارہ داری نے ہر ضلع میں جیتنے والے امیدواروں کو ''پی ٹی آئی فیس''کے نام پر مسترد کردیا ۔ عبدالعلیم خان اور میاں محمود الرشید پارلیمانی بورڈ کے سامنے چیختے چلاتے رہ گئے کہ کچھ رحم کریں پارٹی پر اور پنجاب کے ہر ضلع میں کم از کم ایک ایم این اے اور اس کے نیچے دو ایم پی ایز کا ایسا پینل بنا دیں جو جیت سکتا ہے، اس پینل کیلئے نئے چہرے اور پی ٹی آئی فیس کی کسوٹی مت رکھیں لیکن ان دونوں کی ایک نہیں سنی گئی۔
گزشتہ دنوں تحریک انصاف گلبرگ ٹاون لاہور کے صدر نذیر چوہان نے عبدالعلیم خان کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کیا تو تحریک انصاف کے اندر سے بہت حیران کن رد عمل دیکھنے میں آیا حتی کہ ماضی میں جو لوگ عبدالعلیم خان کی مخالفت کرتے رہے ہیں ان کا بھی یہ کہنا تھا کہ نذیر چوہان انگلی کٹوا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ۔عبدالعلیم خان اس وقت ضلع لاہور کے منتخب صدر ہیں اور پارٹی ڈسپلن کے تحت نذیرچوہان کو اس طرح کے بیان سے اجتناب کرنا چاہیئے تھا۔ اس حوالے سے پارٹی کے اندر ہونے والی گفتگو میں کہا جارہا ہے کہ درحقیقت نذیر چوہان کو اس بات پر برہمی ہے کہ عام انتخابات میں عبدالعلیم خان نے انہیں ٹکٹ لے کر نہیں دی ۔
نذیر چوہان پی پی152 سے الیکشن لڑنے کے خواہشمند تھے لیکن عمران خان کی ذاتی پسند کی وجہ سے مراد راس کو ٹکٹ مل گئی جس کے بعد نذیر چوہان پی پی 147 میں الیکشن لڑنا چاہتے تھے لیکن وہاں شعیب صدیقی کو ٹکٹ دے دیا گیا ۔ بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سابق بلدیاتی نمائندوں پر مشتمل ''میاں گروپ'' آئندہ بلدیاتی الیکشن میں لاہور میں من پسند فیصلے چاہتا ہے اور اس مقصد کیلئے پارٹی میں نئی گروپنگ ہو رہی ہے۔نذیر چوہان اور عبدالعلیم خان کی دوستی بہت گہری رہی ہے، امید ہے کہ صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آجائے گا۔
لاہور کی سیاسی اہمیت سے ہر ایک بخوبی آگاہ ہے۔ اپوزیشن کے حوالے سے سے بھی تمام سرگرمیاں اسی شہر میں ہونا ہیں ۔میاں محمود الرشید جیسا منجھا ہوا سیاسی ورکر اپوزیشن لیڈر کے طور پر ایوان کے اندر رول نبھائے گا تو لاہور میں تنظیمی سرگرمیوں کو زندہ اور موثر رکھنے کیلئے عبدالعلیم خان جیسے صدر کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ اعجاز چوہدری اور ان کی ٹیم کو چاہیے کہ وہ پنجاب کے دیگر35 اضلاع میں تحریک انصاف کی سرگرمیوں کو بڑھائیں اور اپنی سابقہ خامیوں کا ازالہ کیا جائے۔اعجاز چوہدری اور جنر ل سیکرٹری ڈاکٹر یاسمین راشد کے ''آمرانہ نما'' رویے پر بھی پارٹی رہنماوں اور کارکنوں کی بڑی تعداد کو شدید تحفظات ہیں ۔ پارٹی تقریبات اور پریس کانفرنسز میں یہ دونوں عہدیدار ''مولا جٹ''سٹائل اپنانے اور دوسروں کو ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جسے پسند نہیں کیا جارہا۔
یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ تحریک انصاف خواتین ونگ کی سابق مرکزی صدر فوزیہ قصوری بھی پارٹی قیادت کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر پارٹی چھوڑ رہی ہیں اور اس حوالے سے ان کے مریم نوز شریف کے ساتھ معاملات طے پا چکے ہیں۔ فوزیہ قصوری کا چلے جانا پی ٹی آئی کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہوگا ۔وہ ایک باوقار اور مدلل گفتگو کرنے والی خاتون ہیں جنہوں نے عمران خان کے نظریے کو اجاگر کرنے کیلئے دن رات محنت کی ہے۔ سب کو علم ہے کہ فوزیہ قصوری الیکشن میں حصہ لیتی تو آج منزہ حسن کی جگہ وہ خواتین ونگ کی صدر ہوتیں۔
حامد خان نے انٹرا پارٹی الیکشن میں جو کردار ادا کیا وہ کافی متنازعہ ہے بالخصوص مرکزی سیکرٹری جنرل کے عہدے کیلئے جہانگیر ترین کو یہ جواز پیش کر کے نا اہل قرار دے دیا کہ پارٹی کا چیئرمین اور جنرل سیکرٹری ایک صوبے سے نہیں ہو سکتا ۔ یہ جواز بہت ہی مضحکہ خیز ہے اور کوئی بھی اسے تسلیم نہیں کرتا ۔ جہانگیر ترین پاکستان کے ان گنے چنے سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جن کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔عملی طور پر تو وہ طویل عرصے سے ملک بھر میں پارٹی کیلئے کام کر رہے ہیں، اگر انہیں تنظیمی عہدہ مل جاتا تو یہ پارٹی کیلئے فائدہ مند ہوتا ۔ تحریک انصاف کو ابھی سے پنجاب میں اپنی نئی صف بندی پر توجہ دینا چاہیے۔
لاہور میں عبدالعلیم خان مورچہ سنبھالیں اور دیگر اضلاع میں اعجاز چوہدری ریجنل صدور کی رہنمائی کریں جبکہ میاں محمود الرشید ایوان کے اندر تحریک انصاف کا پرچم بلند رکھیں ۔جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کو مجموعی طور پر پنجاب میں سیاسی ایشوز پر نگاہ رکھنا ہوگی اور انہیں تمام ناراض گروپس کویکجان کرنے کا مشکل کام بھی مکمل کرنا چاہیے۔