شناختی کارڈ سے پہلے مردم شماری

ماضی میں بھی غیر قانونی طور پر رہنے والے تارکین وطن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

عمران خان حلف اْٹھانے کے 28 دن بعد کراچی پہنچ ہی گئے ۔ وزیر اعظم کی آمد پر مسائل میں گھرے عوام اور نو منتخب ارکان قومی وصوبائی اسمبلی سمیت گورنر سندھ کو اس بات کی امید تھی کہ وزیراعظم کراچی کے لیے بڑے پیکیج کا اعلان کرکے خوش خبری سنائیں گے۔ ایک جانب کراچی کی آبادی میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے ،اس وقت شہر کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے کراچی دنیا کے کئی ممالک کی مجموعی آبادی سے بھی بڑا ہے ۔

تشویش کی بات یہ ہے کہ تیزی سے پھیلتے ہوئے اس ساحلی، صنعتی اور تجارتی شہر کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے کبھی منظم اور سنجیدہ کوششوں نہیں کی گئی۔کراچی کے بڑے بڑے مسائل میں پانی کی فراہمی، سیوریج نظام، پبلک ٹرانسپورت، سڑکوں اور پلوں کی ابتر صورت، برساتی پانی کی بروقت نکاسی نہ ہونا، ٹریفک مینجمنٹ، پبلک ہیلتھ کا ناقص نظام، پرائمری اور سکینڈری اور ہائر سکینڈری تعلیم کی سرکاری سطح پر فراہمی میں حکومتوں کی عدم دلچسپی،کچی آبادیوں کا پھیلاؤ ،جرائم میں روز بہ روز اضافہ، اسپورٹس اور تفریحی سہولیات کی عدم فراہمی، سرکاری زمینوں اور نجی املاک پر قبضے حتیٰ کہ ندی نالوں اور دیگر آبی گزرگاہوں میں مکانات کی تعمیر،کھیل کے میدانوں، پبلک پارکس اور دیگر ایمینیٹی پلاٹس پر قبضہ مافیا کا راج اور دیگرکئی مسائل شامل ہیں۔

کراچی کے مسائل میں بنیادی وجہ اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔کراچی کے مسائل کے حل کے لیے اونر شپ کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے۔ افسوس کہ وہ اونر شپ یا وابستگی ماضی میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی طرف سے نظر نہیں آئی ۔ وفاق اور تین صوبوں میں حکومت بنانے والی تحریک انصاف کے لیے یہ امتحان ہوگا کہ انھوں نے کراچی کے حوالے سے جو بلند وبانگ دعوے کیے تھے اب اسے پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔

تحریک انصاف کوکراچی سے قومی اورصوبائی اسمبلی کی جو نشستیں ملی ہیں،اس کے بعد کراچی کی لیڈر شپ بھی یہ چاہتی ہے کہ کچھ ایساکیا جائے کہ ان کی جیت کا بھرم رہ جائے ۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ تحریک انصاف کراچی سے قومی اسمبلی کی 14نشستوں پر کامیابی کے بعد آیندہ کا مئیرکراچی بھی اپنا لانا چاہتی ہے ، اس میں گورنر سندھ عمران اسماعیل اہم کردار ادا کریں گے مگر یہ سب کچھ اس وقت ہی ممکن ہو گا جب وفاقی حکومت کی جانب سے کچھ ایسے اقدامات اْٹھائے جائیں جس سے ایک عام آدمی کو ریلیف ملے اور وہ یہ محسوس کریں کہ واقعی تبدیلی آچکی ہے، لیکن ابھی تو تبدیلی کا انتظار ہے۔

یہ بھی عجیب بات ہوئی کہ وزیر اعظم عمران خان پہلی بار کراچی آئے تو انھوں نے کراچی کو فنڈ دینے کی بجائے اْلٹا ڈیم فنڈ کے لیے کراچی کے بزنس مینوں کی جیب سے ہی پیسے نکال لیے ۔کاش عمران خان کراچی سے کچرا اْٹھانے کے لیے بزنس کمیونٹی سے فنڈنگ کرتے اور مئیر کراچی کے وہ رقم دے جاتے تو اس اقدام کو زیادہ پسند کیا جاتا ۔ عمران خان کے پہلے دورہ کراچی پر جہاں عوام مایوس ہوئے ہیں وہیں تحریک انصاف کراچی کی قیادت کو بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔


عمران خان کے دورہ کراچی اور ان کے چند فیصلوں سے تحریک انصاف کو نقصان پہنچا ہے بلکہ ان کی حلیف جماعتیں بھی ان کے فیصلوں سے خوش نہیں ہیں۔ کراچی میں امن و امان کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے فرمایا کہ''کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں انڈرکلاس بڑھتی جا رہی ہے۔ ان میں چار لاکھ بنگالی اور افغانستان کے لوگ شامل ہیں۔ ان کو شناختی کارڈ ز نہیں ملتے جس کی وجہ سے وہ جرائم کی طرف جاتے ہیں۔ ہم ان کو شناختی کارڈز اور پاسپورٹ بنا کردیں گے کیونکہ وہ یہاں پیدا ہوئے ہیں۔ہم ان کی مدد کریں گے کہ تاکہ ان کو آگے بڑھنے کا موقع ملے۔ یہ ملک تب اٹھے گا جب کمزور طبقات اوپر آئیں گے۔''وزیر اعظم صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ کراچی غیر قانونی تارکین وطن کے لیے جنت ہے ۔

ماضی میں بھی غیر قانونی طور پر رہنے والے تارکین وطن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی جس کے نتیجے میں تارکین وطن کی تعداد ہر سال بڑھتی ہی گئی۔ افغانی ، برمی، نائجیرین، سری لنکن، بنگالی اور دیگر ممالک سمیت پاکستان کے چاروں صوبوں سے بڑی تعداد میں لوگ تاحال کراچی کی طرف رخ کررہے ہیں، جنہوں نے سرکاری زمینوں پر قبضہ کرکے غیر قانونی کچی آبادیاں قائم کی ہوئی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد تقریباً 30 لاکھ کے قریب ہے۔ انھیں واپس بھیجنے کی بجائے شناختی کارڈ بنانے کی نوید سنا کر غیر قانونی تارکین وطن کی حوصلہ افزائی کرنا کراچی پر انتہائی ظلم ہوگا۔ اس طرح کے فیصلوں سے پہلے بھی کراچی کو نقصان ہوا اور اب بھی ہوگا۔

ایوب خان اور پھر جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغان جنگ کے نتیجے میں بہت بڑی تعداد میںافغانی کراچی آئے تو یہ اپنے ساتھ منشیات اور اسلحے کا پیسہ ساتھ لائے ۔ قبائلی علاقوں اور خیبرپختونخوا سے آنے والوں نے اپنا پیسہ ٹرانسپورٹ میں لگایا اورکئی گنا زیادہ منافع کمانے کے ساتھ ساتھ ان کا کراچی کی ٹرانسپورٹ پر مکمل قبضہ ہوگیا۔ اس کے ساتھ سدرن پنجاب سے بھی بہت بڑی تعداد میں لوگ کراچی آئے اور یوں کراچی کی آبادی میں مقامی کے مقابلے میں غیر مقامی اور تارکین وطن کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ۔

عمران خان کراچی کے لیے کچھ بہترکرنا چاہتے ہیں تو پہلے مرحلے پر غیر جانبدارکمیشن بنا کر کراچی کی دوبارہ مردم شماری کرائیں جس میں غیر قانونی تارکین وطن کو بھی شامل کیا جائے، اگر کراچی میں صحیح طرح سے مردم شماری ہوجائے تو بیشتر مسائل کا حل مل جائے گا جب تک کچی آبادیوں اور تارکین وطن کو مردم شماری میں شامل نہیں کیا جائے گا تب تک صحیح اعدادوشمار کا اندازہ لگاناممکن نہیں۔ صحیح اعدادوشمارکے نتیجے میں ہی یہاں کی آبادی کے بنیادی شہری حقوق مل سکیں گے۔

غیر ملکی تاریک وطن نے اپنی الگ الگ بستیاں قائم کررکھی ہیں ، ان کے پاس باقاعدہ قومی شناختی کارڈ موجود ہیں۔ غیر ملکی تارکین وطن کا مسئلہ شناختی کارڈ نہیں ہے بلکہ انھیں مردم شماری میں شامل کرنا اور انھیں آبادی کے تناسب سے وسائل اور بنیادی سہولیات دینا ہے۔ مردم شماری کے نتیجے میں کراچی کی درست آبادی سامنے آئے گی اور اس کی بنیاد پر ہی کراچی کی پلاننگ ہوسکتی ہے بغیر مردم شماری کے نہ درست پلاننگ ہوسکتی ہے اور نہ ماسٹر پلان بن سکتا ہے۔

مردم شماری کے بعد سندھ میں آباد مستقل قومیتوں کو اعتماد میں لیا جائے اور اس کے بعد ہی افغانیوں اور بنگالیوں کو شناختی کارڈ دینے کا فیصلہ کیا جائے، اگر افغانیوں اور بنگالیوںکو شناختی کارڈ دینے کا فیصلہ کرنا ہی تو سب سے پہلا حق محصورین پاکستانیوںکا ہے جو آج بھی شناختی کارڈ کے لیے دھکے کھا رہے ہیں ۔
Load Next Story