کچھ کر دکھانے کی ضرورت
وزیراعظم عمران خان نے کچھ کر دکھانے کے لیے سو دن قوم سے مانگے ہیں، جو ان کا بالکل حق ہے۔
لاہور:
تحریک انصاف کی حکومت اپنے اقتدارکے دوسرے ماہ میں داخل ہوچکی ہے اور عمران خان کے وزیراعظم بننے کے ثمرات ہی کے نتیجے میں اب ملک میں تحریک انصاف ہی کے صدر مملکت بھی منتخب ہوچکے، گورنروں کے تقرر ہوگئے۔ وفاق کے ساتھ پنجاب اور کے پی کے میں بچت مہم کے دوران ہی وسیع کابینائیں وجود میں آچکیں ۔
نئے محکمے بھی نئے پاکستان میں تخلیق پاچکے ، مگر پہلے ماہ میں کوئی ریلیف عوام کو نہیں دیا گیا بلکہ پہلے آتے ہی بجلی دو روپے یونٹ بڑھانے اورگیس کے نرخ بڑھائے جانے کی سرکاری خبریں سامنے آئیں مگر اپوزیشن کی کڑی تنقید دیکھ کر ارادہ بدل گیا اورکئی روز بعد تردید آگئی کہ ابھی قیمتیں نہیں بڑھائی جا رہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ قیمتیں بعد میں ضرور بڑھائی جائیںگی اور اب بڑھا بھی دی گئیں ہیں ۔
وزیراعظم عمران خان نے کچھ کر دکھانے کے لیے سو دن قوم سے مانگے ہیں، جو ان کا بالکل حق ہے کہ انھیں کام کرنے کا موقع واقعی ملنا چاہیے۔ حکومت کی سرکاری اخراجات میں کمی اور سادگی اختیار کرنے کی پالیسی بھی عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہے۔ سرکاری پروٹوکول میں کمی بھی پسندیدہ عمل ہے مگر اس میں بعد میں کسی بہانے سے اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔
سادگی کی مثال خود عمران خان سے تو شروع ہوچکی ہے وہ امریکی، چینی اور سعودی وفود سے سادگی سے ملے اور انھوں نے اپنے سوٹوں کے شوقین وزرا کی طرح کوئی دکھاوا نہیں کیا بلکہ سوٹ کی بجائے قومی لباس شلوار قمیض ہی کو ترجیح دی جس کو عوام میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا۔ شخصیت ابھرنے کا تعلق سوٹوں سے نہیں ہوتا بلکہ ذاتی اہمیت سے ہوتا ہے اور بعض لوگ اپنی اہمیت دکھانے اور منفرد نظر آنے کے لیے قیمتی سوٹوں کا سہارا لیتے ہیں مگر عمران خان نے ایسا نہیں کیا کیونکہ وزیراعظم سوٹ میں ہو یا شلوار قمیض میں وہ وزیراعظم ہی نظر آتا ہے اور مصنوعیت سے کسی کو متاثر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اہمیت عہدے اور شخصیت کی ہوتی ہے۔ عمران خان کی حکومت قرضوں میں جکڑے ہوئے ملک میں سادگی کو فروغ دینے کی اچھی روایت قائم کرچکی ہے اور اہم تقریبات میں مہمانوں کی صرف چائے بسکٹ سے تواضع کی ابتدا ہوچکی ہے۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے دس سالہ شاہانہ اخراجات کو برقرار رکھا ہوا ہے اور باقی تین صوبوں کے برعکس سندھ کے وزیراعلیٰ کا سوٹ دکھاوا مسلسل جاری ہے جب کہ پی پی کے نوجوان چیئرمین بلاول زرداری بھی ملک میں سادگی پر عمل پیرا ہیں جن کی تقلید نہیں کی جارہی۔
ایک غیر ضروری ماحول کی خوبصورتی پر بھی توجہ دی جانی چاہیے جو ملک کے تمام حکمرانوں کے اجلاسوں میں نمایاں نظر آتی ہے کہ حکمرانوں کے اجلاسوں میں ان کی میزیں مصنوعی خوبصورتی کے لیے رنگا رنگ قیمتی پھولوں سے سجی نظر آتی ہیں اور ملک بھر میں اس مصنوعی خوبصورتی کے لیے ہر ماہ کروڑوں روپے فلاور ٹھیکیداروں کو ادا کیے جا رہے ہیں ۔ ملک کی کسی بھی اسمبلی میں اجلاسوں کے دوران اسپیکر کی میزوں پر کہیں پھول نظر نہیں آتے مگر صدر، گورنر، وزرائے اعلیٰ اور وزیروں کے اجلاسوں میں پھولوں پر سرکاری فنڈ خرچ ہو رہا ہے جو بالکل غیر ضروری ہے۔ اضافی گاڑیوں اور بھینسوں کی فروخت کے ساتھ پھولوں کی فضول خرچی بھی ختم ہونی چاہیے۔
حکمران اپنی مرضی کی کابینہ بناچکے جو مثالی تو نہیں ہیں ان میں پرانے چہرے بھی نمایاں ہیں اور قابل نہ ہونے والوں کو بھی وزارتوں کا موقع دے دیا گیا ہے ملک بھر میں کابیناؤں میں نیب زدگان بھی نمایاں ہیں۔ فرشتہ کوئی نہیں اور یہ کابینہ بنانے والوں کا استحقاق ہے کہ جس کو چاہیں نواز دے جس سنیئر کو چاہیں جونیئر بنادیں مگر ملک میں دانیال عزیز اور محمد میاں سومرو جیسے سینئر لوگ بھی ہیں جو وزیر مملکت بننے سے انکار کردیں۔ محکموں کی اہمیت اور افراد کی موزونیت بھی دیکھنا ضروری ہے مگر یہاں ہر حکومت میں ایسا ہوتا آیا ہے کہ جو کبھی کونسلر نہیں بنا وہ ذاتی پسند پر اہل نہ ہونے کے باوجود وزیر بنادیا جاتا ہے۔
عمران خان کو واضح اکثریت نہ رکھنے والی حکومت ملی ہے جس میں انھیں حلیفوں کے سامنے بلیک میل ہونا پڑے گا اور ان کی خواہش پوری کرنا ہوںگی وگرنہ مفاد پرستوں کی موقع پرستی حکومت کو مزید کمزور کرسکتی ہے۔ وزیر اعظم نے غلط کہا ہے کہ انھیں کمزور اپوزیشن ملی ہے۔ حکومت کی اپوزیشن بظاہر دو حصوں میں تقسیم ہے اور سابق صدر اپنے سیاسی مفاد کے لیے کسی بھی وقت کروٹ بدل سکتے ہیں۔ کیونکہ سیاست میں یہاں سب کچھ ممکن ہے اور ماضی میں عمران خان اپوزیشن میں موجود تین رہنماؤں کے خلاف جو کچھ کہہ چکے ہیں وہ ریکارڈ پر محفوظ ہے۔
ماضی میں کے پی کے سمیت چاروں صوبوں میں کرپشن ہوئی ہے کہیں کم کہیں زیادہ مگر نئی حکومت کرپشن کا مسئلہ عدلیہ اور نیب پر چھوڑ دے اور خود ملک کے سنگین مسائل اور عوام کی ضروریات پر توجہ دے یہ وقت پرانے مردے اکھاڑنے سے زیادہ کچھ کر دکھانے کا ہے اور جنھوں نے نئے پاکستان کے لیے یہ حکومتیں بنوائی ہیں۔ عمران خان نے انھیں ہی نہیں بلکہ اپوزیشن اور عوام کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ عمران خان اپوزیشن نہیں اقتدار میں ہیں اور پورے ملک کے وزیراعظم ہیں اور انھیں کم عرصے میں بہت کچھ کرکے دکھانا ہے۔ ناتجربہ کار قرار دیے جانے والے حکمرانوں کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ان کے دعوے محض دعوے نہیں تھے اور وہ عملی طور پرکچھ کرکے دکھائیںگے۔
تحریک انصاف کی حکومت اپنے اقتدارکے دوسرے ماہ میں داخل ہوچکی ہے اور عمران خان کے وزیراعظم بننے کے ثمرات ہی کے نتیجے میں اب ملک میں تحریک انصاف ہی کے صدر مملکت بھی منتخب ہوچکے، گورنروں کے تقرر ہوگئے۔ وفاق کے ساتھ پنجاب اور کے پی کے میں بچت مہم کے دوران ہی وسیع کابینائیں وجود میں آچکیں ۔
نئے محکمے بھی نئے پاکستان میں تخلیق پاچکے ، مگر پہلے ماہ میں کوئی ریلیف عوام کو نہیں دیا گیا بلکہ پہلے آتے ہی بجلی دو روپے یونٹ بڑھانے اورگیس کے نرخ بڑھائے جانے کی سرکاری خبریں سامنے آئیں مگر اپوزیشن کی کڑی تنقید دیکھ کر ارادہ بدل گیا اورکئی روز بعد تردید آگئی کہ ابھی قیمتیں نہیں بڑھائی جا رہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ قیمتیں بعد میں ضرور بڑھائی جائیںگی اور اب بڑھا بھی دی گئیں ہیں ۔
وزیراعظم عمران خان نے کچھ کر دکھانے کے لیے سو دن قوم سے مانگے ہیں، جو ان کا بالکل حق ہے کہ انھیں کام کرنے کا موقع واقعی ملنا چاہیے۔ حکومت کی سرکاری اخراجات میں کمی اور سادگی اختیار کرنے کی پالیسی بھی عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہے۔ سرکاری پروٹوکول میں کمی بھی پسندیدہ عمل ہے مگر اس میں بعد میں کسی بہانے سے اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔
سادگی کی مثال خود عمران خان سے تو شروع ہوچکی ہے وہ امریکی، چینی اور سعودی وفود سے سادگی سے ملے اور انھوں نے اپنے سوٹوں کے شوقین وزرا کی طرح کوئی دکھاوا نہیں کیا بلکہ سوٹ کی بجائے قومی لباس شلوار قمیض ہی کو ترجیح دی جس کو عوام میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا۔ شخصیت ابھرنے کا تعلق سوٹوں سے نہیں ہوتا بلکہ ذاتی اہمیت سے ہوتا ہے اور بعض لوگ اپنی اہمیت دکھانے اور منفرد نظر آنے کے لیے قیمتی سوٹوں کا سہارا لیتے ہیں مگر عمران خان نے ایسا نہیں کیا کیونکہ وزیراعظم سوٹ میں ہو یا شلوار قمیض میں وہ وزیراعظم ہی نظر آتا ہے اور مصنوعیت سے کسی کو متاثر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اہمیت عہدے اور شخصیت کی ہوتی ہے۔ عمران خان کی حکومت قرضوں میں جکڑے ہوئے ملک میں سادگی کو فروغ دینے کی اچھی روایت قائم کرچکی ہے اور اہم تقریبات میں مہمانوں کی صرف چائے بسکٹ سے تواضع کی ابتدا ہوچکی ہے۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے دس سالہ شاہانہ اخراجات کو برقرار رکھا ہوا ہے اور باقی تین صوبوں کے برعکس سندھ کے وزیراعلیٰ کا سوٹ دکھاوا مسلسل جاری ہے جب کہ پی پی کے نوجوان چیئرمین بلاول زرداری بھی ملک میں سادگی پر عمل پیرا ہیں جن کی تقلید نہیں کی جارہی۔
ایک غیر ضروری ماحول کی خوبصورتی پر بھی توجہ دی جانی چاہیے جو ملک کے تمام حکمرانوں کے اجلاسوں میں نمایاں نظر آتی ہے کہ حکمرانوں کے اجلاسوں میں ان کی میزیں مصنوعی خوبصورتی کے لیے رنگا رنگ قیمتی پھولوں سے سجی نظر آتی ہیں اور ملک بھر میں اس مصنوعی خوبصورتی کے لیے ہر ماہ کروڑوں روپے فلاور ٹھیکیداروں کو ادا کیے جا رہے ہیں ۔ ملک کی کسی بھی اسمبلی میں اجلاسوں کے دوران اسپیکر کی میزوں پر کہیں پھول نظر نہیں آتے مگر صدر، گورنر، وزرائے اعلیٰ اور وزیروں کے اجلاسوں میں پھولوں پر سرکاری فنڈ خرچ ہو رہا ہے جو بالکل غیر ضروری ہے۔ اضافی گاڑیوں اور بھینسوں کی فروخت کے ساتھ پھولوں کی فضول خرچی بھی ختم ہونی چاہیے۔
حکمران اپنی مرضی کی کابینہ بناچکے جو مثالی تو نہیں ہیں ان میں پرانے چہرے بھی نمایاں ہیں اور قابل نہ ہونے والوں کو بھی وزارتوں کا موقع دے دیا گیا ہے ملک بھر میں کابیناؤں میں نیب زدگان بھی نمایاں ہیں۔ فرشتہ کوئی نہیں اور یہ کابینہ بنانے والوں کا استحقاق ہے کہ جس کو چاہیں نواز دے جس سنیئر کو چاہیں جونیئر بنادیں مگر ملک میں دانیال عزیز اور محمد میاں سومرو جیسے سینئر لوگ بھی ہیں جو وزیر مملکت بننے سے انکار کردیں۔ محکموں کی اہمیت اور افراد کی موزونیت بھی دیکھنا ضروری ہے مگر یہاں ہر حکومت میں ایسا ہوتا آیا ہے کہ جو کبھی کونسلر نہیں بنا وہ ذاتی پسند پر اہل نہ ہونے کے باوجود وزیر بنادیا جاتا ہے۔
عمران خان کو واضح اکثریت نہ رکھنے والی حکومت ملی ہے جس میں انھیں حلیفوں کے سامنے بلیک میل ہونا پڑے گا اور ان کی خواہش پوری کرنا ہوںگی وگرنہ مفاد پرستوں کی موقع پرستی حکومت کو مزید کمزور کرسکتی ہے۔ وزیر اعظم نے غلط کہا ہے کہ انھیں کمزور اپوزیشن ملی ہے۔ حکومت کی اپوزیشن بظاہر دو حصوں میں تقسیم ہے اور سابق صدر اپنے سیاسی مفاد کے لیے کسی بھی وقت کروٹ بدل سکتے ہیں۔ کیونکہ سیاست میں یہاں سب کچھ ممکن ہے اور ماضی میں عمران خان اپوزیشن میں موجود تین رہنماؤں کے خلاف جو کچھ کہہ چکے ہیں وہ ریکارڈ پر محفوظ ہے۔
ماضی میں کے پی کے سمیت چاروں صوبوں میں کرپشن ہوئی ہے کہیں کم کہیں زیادہ مگر نئی حکومت کرپشن کا مسئلہ عدلیہ اور نیب پر چھوڑ دے اور خود ملک کے سنگین مسائل اور عوام کی ضروریات پر توجہ دے یہ وقت پرانے مردے اکھاڑنے سے زیادہ کچھ کر دکھانے کا ہے اور جنھوں نے نئے پاکستان کے لیے یہ حکومتیں بنوائی ہیں۔ عمران خان نے انھیں ہی نہیں بلکہ اپوزیشن اور عوام کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ عمران خان اپوزیشن نہیں اقتدار میں ہیں اور پورے ملک کے وزیراعظم ہیں اور انھیں کم عرصے میں بہت کچھ کرکے دکھانا ہے۔ ناتجربہ کار قرار دیے جانے والے حکمرانوں کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ان کے دعوے محض دعوے نہیں تھے اور وہ عملی طور پرکچھ کرکے دکھائیںگے۔