کل کے حلیف آج کے حریف

نواز شریف کے مقابل مخدوم جاوید ہاشمی کی بطور وزیر اعظم نامزدگی

فوٹو : فائل

تقریباً پانچ برس قبل مخدوم جاوید ہاشمی نے میاں محمد نواز شریف سے خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ آصف علی زرداری کے خلاف صدارتی امیدوار بننا چاہتے ہیں۔

اس لئے پارٹی انہیں امیدوار نامزد کرے، وہ صدارتی الیکشن لڑنے کیلئے امریکہ کا دورہ نامکمل چھوڑ کر ہنگامی طور پر پاکستان پہنچے تھے، انہیں امریکہ میں پاکستانی تنظیموں نے یوم آزادی کی تقریبات میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کر رکھا تھا۔

تقریبات ادھوری چھوڑنے پر ان سے امریکی دوست بھی ناراض ہو گئے لیکن جب وہ پاکستان پہنچے تو مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے انہیں صدارتی امیدوار نامزد کرنے سے انکار کر دیا اور جسٹس (ر) وجیہہ الدین کو صدارتی امیدوار نامزد کر دیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) عددی اعتبار سے اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ وہ صدارتی انتخابات میں آصف علی زرداری کا مقابلہ کرتی۔ توقع کے مطابق لیگی امیدوار ہار گئے لیکن جاوید ہاشمی کو الیکشن لڑنے اور ہارنے کی بھی اجازت نہ دی گئی اور لیگی قیادت کے حوالے سے ان کے دل میں ابھرنے والے خدشات اور تحفظات نے مزید تقویت حاصل کر لی۔

جاوید ہاشمی کو اس سے کچھ عرصہ قبل ایک بڑا دھچکا انہیں قائد حزب اختلاف نہ بنا کر پہنچایا گیا تھا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے عرصہ اقتدار میں جب میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف ملک سے باہر چلے گئے تھے اور جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے تو یہ جاوید ہاشمی ہی تھے جنہوں نے پارٹی کو زندہ رکھا، انہیں پارٹی کا قائم مقام صدر بنایا گیا تو انہوں نے مزاحمتی سیاست کا سلسلہ جاری رکھا اور اسی مزاحمتی سیاست کے نتیجے میں وہ جنرل مشرف کے ہاتھوں جیل پہنچ گئے۔

جب لیگی قیادت جلا وطنی کے دنوں میں بیرون ملک کاروبار کرنے کے ساتھ ساتھ اطمینان کی زندگی گزار رہی تھی تو جاوید ہاشمی آمر کے خلاف مزاحمت میں مشغول تھے اور جیل میں صعوبتوں بھری زندگی گزار کر مسلسل یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ مسلم لیگ (ن) آمروں سے لڑ رہی ہے۔ جیل میں گزارے ہوئے دنوں میں انہیں جنرل مشرف کی طرف سے مسلسل پیشکش ہوتی رہی کہ وہ میاں نواز شریف کا ساتھ ترک کرکے آمریت سے مفاہمت کر لیں اور بدلے میں وزارت عظمیٰ تک لے لیں لیکن انہوں نے جیل کی صعوبتوں کو وزارت عظمیٰ پر ترجیح دی۔


ایسے ہی ایام میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور مخدوم جاوید ہاشمی نے اڈیالہ جیل میں اکٹھے وقت بھی گزارا لیکن دونوں نے ہمت کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کیا اور ارادوں میں لغزش نہ لا کر پارٹی کا پرچم اور پارٹی قیادت کا سرفخر سے بلند کیا ۔ جب میاں نواز شریف واپس آ گئے اور پارٹی انتخابات میں حصہ لے کر اپوزیشن لیڈر بنانے کی پوزیشن میں آ گئی تو اپوزیشن لیڈر تک کیلئے قرعہ فال چوہدری نثار علی کے کھاتے میں نکلا۔ لوگ حیران تھے کہ اگر جاوید ہاشمی اپوزیشن لیڈر نہیں بن سکتے' یقینی ہار جانے والی نشست پر صدارتی امیدوار نہیں بن سکتے، پارٹی قیادت ان کی بات سننے اور جائز مقام دینے کو تیار نہیں تو پھر وہ کیوں مسلم لیگ (ن) میں موجود ہیں۔

پارٹی قیادت کی بے اعتنائی نے انہیں سخت ڈپریشن میں مبتلا کر دیا اور فشار خون نے ان کی رگوں پر حملہ کر دیا۔ جس روز ان پر فالج کا اٹیک ہوا اس رات وہ سخت ذہنی اذیت میں تھے اور انہوں نے دوستوں سے اس کا اظہار بھی کیا ۔ بالآخر بیماری سے سخت مقابلے کے بعد انہیں نئی زندگی تو مل گئی لیکن نئی اذیتوں اور دکھوں سے بھری ہوئی شاید اس نئی زندگی کی ابتداء ہی میں انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اب مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ساتھ مزید نہیں چل سکتے۔ تین دہائیوں کی رفاقت چھوڑنا مشکل فیصلہ تھا لیکن ان کے پاس کوئی رستہ بھی نہیں بچا تھا اور پھر حسب توقع وہ مسلم لیگ (ن) کو خیر باد کہہ کر تحریک انصاف میں جا شامل ہوئے۔

گو عمران خان سیاست میں ان کے آگے طفل مکتب تھے لیکن انہوں نے جاوید ہاشمی کو ان کے مقام و مرتبے کے مطابق عزت دی، انہیں پارٹی کا صدر بنایا اور اپنی ہر پریس کانفرنس اور پروگرام میں انہیں ساتھ بٹھایا۔ اس صورتحال نے اچانک انہیں نئی زندگی دیدی اور وہ اپنی بیماری کو بھول کر سیاست کے میدان خار زار میں نئی توانائی کے ساتھ کود پڑے۔ وہ حالیہ انتخابات میں دو نشستوں پر الیکشن لڑے اور دونوں سے ہی جیتے۔

وقت نے ثابت کیا اور عوام نے مہر ثبت کی کہ جاوید ہاشمی کی جمہوریت کیلئے قربانی لیگی قیادت کو یاد ہو نہ ہو لیکن لوگوں کے دلوں میں موجود ہے اور اب تحریک انصاف نے انہیں وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کر دیا ہے اور وہ سابقہ قائد کے مدمقابل امیدوار ہیں۔ یہ الیکشن انہوں نے ہار جانا ہے لیکن تحریک انصاف سے ملنے والی یہ محبت انہیں ہمیشہ یاد رہے گی ۔

میاں نواز شریف نے تو انہیں اپوزیشن لیڈر بنایا اور نہ ہی صدارت کیلئے امیدوار نامزد کیا لیکن قدرت نے آج 5 برسوں بعد انہیں میاں نواز شریف کے مدمقابل وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر لاکھڑا کیا ہے۔ یہ صرف اتفاق نہیں بلکہ حسن اتفاق ہے اور سیاست کے اس سفر میں کئی داستانیں چھپی ہیں۔
Load Next Story