وزارتوں کیلئے لابنگ اور ن لیگ کی خاموشی
تحریک انصاف ناراض کارکنوں کی شکایات کا ازالہ کر سکے گی؟
نئی قومی اسمبلی میںجمہوری عمل باقاعدہ شروع ہو چکا ہے اور اقتدار اگلی حکومت کو منتقل ہو چکا ہے ۔
جس پر بلاشبہ پیپلز پارٹی بھی خراج تحسین کی مستحق ہے ،بیڈ گورننس، لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور کرپشن کے با وجود صدر آصف علی زرداری نے ایک جمہوری دور مکمل کروا دیا، مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بن رہے ہیں، دوسری جانب پنجاب میں بھی وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کا انتخاب یقینی ہے جبکہ رانا اقبال بطور اسپیکر دوبارہ حلف اٹھا چکے ہیں ،ملک بھر کی طرح گوجرانوالہ کے ممبران اسمبلی بھی پہلے سیشن میں حاضری کے بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں میں قدم رنجہ فرما چکے ہیں ،
ان کے چہرے کھلے ہوئے ہیں جبکہ سینے ملنے والوں کیلئے فی الحال کشادہ ہیں ،قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران کی اکثریت اب قومی و صوبائی وزارت پر نظر جمائے ہوئے ہیں ،اس کے لئے بھر پور لابنگ کی جارہی ہے ،لیکن لگتا یوں ہے کہ صوبائی سطح پر گوجرانوالہ سے تاحال کسی کا انتخاب نہیں ہو سکا جبکہ وفاقی کابینہ کیلئے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے خواجہ آصف کا نام بطور وزیر توانائی فائنل ہو چکا ہے ،خواجہ آصف میاں برادران کے قریبی ساتھی تصور کئے جاتے ہیں اور ان کے اسی اعتماد کی وجہ سے توانائی جیسی حساس وزارت کا بار خواجہ آصف کے کندھوں پر رکھا گیا ،
حقیقی بات تو یہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ کو اگر موجودہ سیاست کا سب سے بڑا ایشو قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، پیپلز پارٹی اسی لوڈ شیڈنگ کے ہاتھوں بری طرح اپنی عزت گنوا بیٹھی جبکہ ن لیگ اور تحریک انصاف نے بھی اسی لوڈ شیڈنگ کے نام پر عوام سے ووٹ حاصل کئے ،شنید یہ بھی ہے کہ پنجاب کے ان تھک ،عوامی وزیر اعلیٰ بھی خواجہ آصف کے ساتھ لوڈ شیڈنگ کے معاملہ پر نظر رکھیں گے ،انہوں نے جس طرح میٹرو بس منصوبہ مکمل کیا اس پر ان کے کام اور رفتار کی داد نہ دینا بے انصافی ہو گی، شہباز شریف کے اسی عوامی اسٹائل کی وجہ سے بعض لوگ انہیں میاں نوازشریف سے زیادہ پسند کرتے ہیں ،
وہ عوام میں رہتے ہیں ،عوام سے رابطہ رکھتے ہیں اور عوام کے دکھ درد میں خود آگے بڑھ کر پیش پیش ہوتے ہیں ،پہلی مرتبہ بیوروکریسی کو ان کی وجہ سے لانگ بوٹ خریدنا پڑے جب شہباز شریف لکشمی چو ک لاہور میں کھڑے کئی کئی فٹ پانی کے اندر خود داخل ہو گئے تو مجبوراً کمشنر، ڈی سی او سمیت تمام سیکرٹریوں کو تقلید کر نا پڑی ،خواجہ آصف کو یقینا شہباز شریف کی تیز ر فتار ی فائدہ دے گی ،وزارت کے لئے دوسرا نام نارووال سے تعلق رکھنے والے زاہد حامد کا لیا جا رہا ہے جو کہ وزیر قانون کی حیثیت سے وفاقی کابینہ میں شامل ہو سکتے ہیں ،
وہ آج کل میاں صاحب کے ساتھ ہر اجلاس میں شریک نظر آتے ہیں جبکہ نارووال سے ہی تعلق رکھنے والے احسن اقبال کو وزارت تعلیم یا اطلاعات سونپی جاسکتی ہے ،گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے انجینئر خرم دستگیر وزارت کے لئے مضبوط امیدوار ہیں لیکن مختصر وفاقی کابینہ میں ممکن ہے انہیں وزیر تجارت کی بجائے وزیر مملکت برائے تجارت بنادیا جائے ،سچ تو یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے الیکشن سے قبل اور بعد میں پارٹی کو میڈیا پر اسپورٹ کیا ،انجینئرنگ میں امریکہ اور کینیڈا سے ڈگریاں حاصل کیں، ان کے والد سابق وفاقی وزیر غلام دستگیر خان نے گوجرانوالہ میں جس حکمت عملی سے ن لیگ کو کلین سویپ کروایا، ان تمام باتوں کے پیش نظر وزیر مملکت کی بجائے انہیں مکمل وزیر بنانا چاہئے ،
گوجرانوالہ میں فلائی اوور جیسے منصوبہ کا سہرا ان کے سر ہے اور اب عوام ان سے ایک مکمل یونیورسٹی ، بڑے سرکاری ہسپتال ،بہترین پارکوں ،لوہیاانوالہ فلائی اوور کی تعمیر کی امید لگائے بیٹھے ہیں ،ان کو وزارت ملنے سے گوجرانوالہ میں ن لیگ مضبوط ہو گی جس کا فائدہ ن لیگ کے قائدین کو ہوگا، حافظ آباد سے تعلق رکھنے والی حافظہ سائرہ افضل تارڑ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ،ان کا نام پہلے بطور ڈپٹی اسپیکر لیا جارہا تھا لیکن اب ممکن ہے کہ ان کو وفاقی وزارت مل جائے ،یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہ ہوگا کہ وزیر وں کے شہر گجرات کو اس مر تبہ کوئی بھی وزارت ملتی نظر نہیں آتی ،پچھلے پندرہ، بیس سال سے گجرات وزارت کے ساتھ لازم و ملزوم تھا ،چوہدری شجاعت ،پرویز الٰہی جب مسلم لیگ ن میں تھے تو وزارت ان کے پاس تھی ،پھر ق لیگ میں تو بادشاہت مل گئی ،
پیپلز پارٹی کے دور احمد مختار وزیر پانی و بجلی رہی لیکن اس مرتبہ گجرات کو وزارت ملتی نظر نہیں آرہی ،دوسری جانب صوبائی وزارت کی بات کی جائے تو اس کیلئے ممبران اسمبلی لابنگ کرتے نظر آتے ہیں لیکن ابھی تک کسی کو بھی ن لیگ کی قیادت کی جانب سے سگنل نہیں ملا، مسلم لیگ ن کے سٹی صدر اور ایم پی اے عبدالرؤف مغل، توفیق بٹ ،عمران خالد بٹ ،نواز چوہان وزیر بننے کے خواہش مند لگتے ہیں ،اقبال گجر بھی وزارت کیلئے اہم ہیں ،جلالپور بھٹیاں سے اسد اللہ ارائیں ،لالہ موسی سے ایم این اے چوہدری جعفر اقبال ،منڈی بہاؤالدین سے چوہدری اعجاز بھی وزارت کے امیدواروں میں شامل ہیں تاہم قرعہ کس کے نام نکلتا ہے اس کا فیصلہ چند روز میں ہوجائے گا ۔
حالیہ انتخابات میں دو سری پوزیشن حاصل کرنے والی تحریک انصاف کی بات کی جائے تو ضلعی صدر رانا نعیم الرحمن کی اہلیہ ناہید نعیم تحریک انصاف کی جانب سے خواتین کی مخصوص نشست پر کامیاب ہو کر ایم پی اے بن چکی ہیں ،رانا نعیم الرحمن کی کامیابی ہے کہ اعلیٰ قیادت نے ان پر اعتماد کا اظہار کر کے ان کی اہلیہ کو پنجاب اسمبلی میں پارٹی کیلئے منتخب کیا ،ضلعی صدر رانا نعیم الرحمن پر مگر ایک اور بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ،ان کے بہت سارے ساتھی ٹکٹوں کی تقسیم اور پارٹی الیکشن میں ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے ۔
،ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو پارٹی کے ساتھ بہت مخلص تھے لیکن وہ عام انتخابات میں لاتعلق ہو گئے یا آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کو ترجیح دی ،ضلعی صدر ہونے کی حیثیت سے رانا نعیم الرحمن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بڑے پن کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ہر ایک راہنما اور کارکن سے فرداً فرداً خود ملیں اور ان کی شکایات کا ازالہ کریں ،ان کے شکوک و شبہات دور کریں اور پارٹی کی تقویت کیلئے ان کو اپنے ساتھ ملائیں ،سرمایہ داروں اور ابن الوقت لوگوں کو اپنے اردگرد سے ہٹا کر نظر یاتی مخلص ورکرز کو قریب لائیں ،اس سے نہ صرف پارٹی مضبوط ہوگی بلکہ ان کو بھی پارٹی کے سامنے سرخرو ہونے کا موقع ملے گا۔
جس پر بلاشبہ پیپلز پارٹی بھی خراج تحسین کی مستحق ہے ،بیڈ گورننس، لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور کرپشن کے با وجود صدر آصف علی زرداری نے ایک جمہوری دور مکمل کروا دیا، مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بن رہے ہیں، دوسری جانب پنجاب میں بھی وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کا انتخاب یقینی ہے جبکہ رانا اقبال بطور اسپیکر دوبارہ حلف اٹھا چکے ہیں ،ملک بھر کی طرح گوجرانوالہ کے ممبران اسمبلی بھی پہلے سیشن میں حاضری کے بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں میں قدم رنجہ فرما چکے ہیں ،
ان کے چہرے کھلے ہوئے ہیں جبکہ سینے ملنے والوں کیلئے فی الحال کشادہ ہیں ،قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران کی اکثریت اب قومی و صوبائی وزارت پر نظر جمائے ہوئے ہیں ،اس کے لئے بھر پور لابنگ کی جارہی ہے ،لیکن لگتا یوں ہے کہ صوبائی سطح پر گوجرانوالہ سے تاحال کسی کا انتخاب نہیں ہو سکا جبکہ وفاقی کابینہ کیلئے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے خواجہ آصف کا نام بطور وزیر توانائی فائنل ہو چکا ہے ،خواجہ آصف میاں برادران کے قریبی ساتھی تصور کئے جاتے ہیں اور ان کے اسی اعتماد کی وجہ سے توانائی جیسی حساس وزارت کا بار خواجہ آصف کے کندھوں پر رکھا گیا ،
حقیقی بات تو یہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ کو اگر موجودہ سیاست کا سب سے بڑا ایشو قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، پیپلز پارٹی اسی لوڈ شیڈنگ کے ہاتھوں بری طرح اپنی عزت گنوا بیٹھی جبکہ ن لیگ اور تحریک انصاف نے بھی اسی لوڈ شیڈنگ کے نام پر عوام سے ووٹ حاصل کئے ،شنید یہ بھی ہے کہ پنجاب کے ان تھک ،عوامی وزیر اعلیٰ بھی خواجہ آصف کے ساتھ لوڈ شیڈنگ کے معاملہ پر نظر رکھیں گے ،انہوں نے جس طرح میٹرو بس منصوبہ مکمل کیا اس پر ان کے کام اور رفتار کی داد نہ دینا بے انصافی ہو گی، شہباز شریف کے اسی عوامی اسٹائل کی وجہ سے بعض لوگ انہیں میاں نوازشریف سے زیادہ پسند کرتے ہیں ،
وہ عوام میں رہتے ہیں ،عوام سے رابطہ رکھتے ہیں اور عوام کے دکھ درد میں خود آگے بڑھ کر پیش پیش ہوتے ہیں ،پہلی مرتبہ بیوروکریسی کو ان کی وجہ سے لانگ بوٹ خریدنا پڑے جب شہباز شریف لکشمی چو ک لاہور میں کھڑے کئی کئی فٹ پانی کے اندر خود داخل ہو گئے تو مجبوراً کمشنر، ڈی سی او سمیت تمام سیکرٹریوں کو تقلید کر نا پڑی ،خواجہ آصف کو یقینا شہباز شریف کی تیز ر فتار ی فائدہ دے گی ،وزارت کے لئے دوسرا نام نارووال سے تعلق رکھنے والے زاہد حامد کا لیا جا رہا ہے جو کہ وزیر قانون کی حیثیت سے وفاقی کابینہ میں شامل ہو سکتے ہیں ،
وہ آج کل میاں صاحب کے ساتھ ہر اجلاس میں شریک نظر آتے ہیں جبکہ نارووال سے ہی تعلق رکھنے والے احسن اقبال کو وزارت تعلیم یا اطلاعات سونپی جاسکتی ہے ،گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے انجینئر خرم دستگیر وزارت کے لئے مضبوط امیدوار ہیں لیکن مختصر وفاقی کابینہ میں ممکن ہے انہیں وزیر تجارت کی بجائے وزیر مملکت برائے تجارت بنادیا جائے ،سچ تو یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے الیکشن سے قبل اور بعد میں پارٹی کو میڈیا پر اسپورٹ کیا ،انجینئرنگ میں امریکہ اور کینیڈا سے ڈگریاں حاصل کیں، ان کے والد سابق وفاقی وزیر غلام دستگیر خان نے گوجرانوالہ میں جس حکمت عملی سے ن لیگ کو کلین سویپ کروایا، ان تمام باتوں کے پیش نظر وزیر مملکت کی بجائے انہیں مکمل وزیر بنانا چاہئے ،
گوجرانوالہ میں فلائی اوور جیسے منصوبہ کا سہرا ان کے سر ہے اور اب عوام ان سے ایک مکمل یونیورسٹی ، بڑے سرکاری ہسپتال ،بہترین پارکوں ،لوہیاانوالہ فلائی اوور کی تعمیر کی امید لگائے بیٹھے ہیں ،ان کو وزارت ملنے سے گوجرانوالہ میں ن لیگ مضبوط ہو گی جس کا فائدہ ن لیگ کے قائدین کو ہوگا، حافظ آباد سے تعلق رکھنے والی حافظہ سائرہ افضل تارڑ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ،ان کا نام پہلے بطور ڈپٹی اسپیکر لیا جارہا تھا لیکن اب ممکن ہے کہ ان کو وفاقی وزارت مل جائے ،یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہ ہوگا کہ وزیر وں کے شہر گجرات کو اس مر تبہ کوئی بھی وزارت ملتی نظر نہیں آتی ،پچھلے پندرہ، بیس سال سے گجرات وزارت کے ساتھ لازم و ملزوم تھا ،چوہدری شجاعت ،پرویز الٰہی جب مسلم لیگ ن میں تھے تو وزارت ان کے پاس تھی ،پھر ق لیگ میں تو بادشاہت مل گئی ،
پیپلز پارٹی کے دور احمد مختار وزیر پانی و بجلی رہی لیکن اس مرتبہ گجرات کو وزارت ملتی نظر نہیں آرہی ،دوسری جانب صوبائی وزارت کی بات کی جائے تو اس کیلئے ممبران اسمبلی لابنگ کرتے نظر آتے ہیں لیکن ابھی تک کسی کو بھی ن لیگ کی قیادت کی جانب سے سگنل نہیں ملا، مسلم لیگ ن کے سٹی صدر اور ایم پی اے عبدالرؤف مغل، توفیق بٹ ،عمران خالد بٹ ،نواز چوہان وزیر بننے کے خواہش مند لگتے ہیں ،اقبال گجر بھی وزارت کیلئے اہم ہیں ،جلالپور بھٹیاں سے اسد اللہ ارائیں ،لالہ موسی سے ایم این اے چوہدری جعفر اقبال ،منڈی بہاؤالدین سے چوہدری اعجاز بھی وزارت کے امیدواروں میں شامل ہیں تاہم قرعہ کس کے نام نکلتا ہے اس کا فیصلہ چند روز میں ہوجائے گا ۔
حالیہ انتخابات میں دو سری پوزیشن حاصل کرنے والی تحریک انصاف کی بات کی جائے تو ضلعی صدر رانا نعیم الرحمن کی اہلیہ ناہید نعیم تحریک انصاف کی جانب سے خواتین کی مخصوص نشست پر کامیاب ہو کر ایم پی اے بن چکی ہیں ،رانا نعیم الرحمن کی کامیابی ہے کہ اعلیٰ قیادت نے ان پر اعتماد کا اظہار کر کے ان کی اہلیہ کو پنجاب اسمبلی میں پارٹی کیلئے منتخب کیا ،ضلعی صدر رانا نعیم الرحمن پر مگر ایک اور بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ،ان کے بہت سارے ساتھی ٹکٹوں کی تقسیم اور پارٹی الیکشن میں ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے ۔
،ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو پارٹی کے ساتھ بہت مخلص تھے لیکن وہ عام انتخابات میں لاتعلق ہو گئے یا آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کو ترجیح دی ،ضلعی صدر ہونے کی حیثیت سے رانا نعیم الرحمن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بڑے پن کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ہر ایک راہنما اور کارکن سے فرداً فرداً خود ملیں اور ان کی شکایات کا ازالہ کریں ،ان کے شکوک و شبہات دور کریں اور پارٹی کی تقویت کیلئے ان کو اپنے ساتھ ملائیں ،سرمایہ داروں اور ابن الوقت لوگوں کو اپنے اردگرد سے ہٹا کر نظر یاتی مخلص ورکرز کو قریب لائیں ،اس سے نہ صرف پارٹی مضبوط ہوگی بلکہ ان کو بھی پارٹی کے سامنے سرخرو ہونے کا موقع ملے گا۔