چیف جسٹس صاحب کوئلے کے کان کن بھی ایک ’’سوموٹو‘‘ کے منتظر ہیں
عالی جاہ! یہ انتہائی قیمتی جانیں آپ کےلیے اہمیت نہ رکھتی ہوں، مگر اپنے گھر والوں کےلیے بہت قیمتی ہیں
صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر کوہاٹ کی تحصیل درہ آدم خیل کے علاقے آخوروال میں واقع کوئلے کی کان میں گیس بھرنے سے تیرہ کان کن جاں بحق ہوگئے۔ گزشتہ دنوں یہ خبر آپ نے میڈیا پر ضرور دیکھی اور پڑھی ہوگی۔ خبر نشر ہوئی، تھوڑی بہت ہلچل ہوئی اور ایک بار پھر خاموشی چھاگئی... لیکن کوئلے کے جفاکش کان کنوں کے دیرینہ مسائل حکامِ بالا کے سامنے اسی طرح حل طلب رہے جیسے کہ ماضی میں تھے۔
برصغیر میں کوئلے کی کان کنی کا آغاز 1885 کے لگ بھگ، برطانوی سرکار کے زمانے میں ہوا۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک، اکہتر سال کے دوران، سیاسی اونچ نیچ اور قبائلی تعصبات کی بناء پر خیبر پختونخوا میں کوئلے کی تلاش کا کام نہ صرف سست روی کا شکار رہا، بلکہ کانوں سے کوئلہ نکالنے کے طریقے بھی روایتی ہی رہے۔
جدید آلات، مشینری، کان کنوں کا ذاتی حفاظتی سامان، سانس کےلیے ماسک، چشمے، آکسیجن سلنڈر، گیس کی مقدار ناپنے والے آلات، غرض کہ احتیاطی تدابیر کے بغیر سولہ سے اٹھارہ گھنٹے کام کرنے والے یہ کان کن اس غیر انسانی اور غیر محفوظ ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ غربت کے مارے، پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے یہ مزدور اپنے لیے بنائے گئے حفاظتی قوانین سے آگاہ تک نہیں۔ وہ تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ انہیں ہر روز اپنی جان پر کھیل کر کان میں اُترنا ہے، کوئلہ نکالنا ہے اور اس مزدوری کا معاوضہ وصول کرنا ہے ورنہ وہ فاقوں مرجائیں گے۔
یہ کانیں ایک ہزار فٹ سے پانچ ہزار فٹ تک گہری ہوتی ہیں۔ مگر کان کن روایتی طریقوں سے کام کرنے پر مجبور ہیں جن میں ان کی جان کو شدید ترین خطرات لاحق ہیں۔ دوسری جانب کان مالکان چونکہ انتہائی بااثر ہوتے ہیں اس لیے کوئی بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن ایسے حادثات کی خبریں ٹی وی پر چلتی رہتی ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی لیکن اگر وزیراعظم کی خصوصی میٹنگ میں چائے کے ساتھ صرف بسکٹ مل جائیں تو یہ فریاد بار بار بریکنگ نیوز بنا دی جاتی ہے۔
ہر روز مرنے اور مر مر کر جینے والے یہ مظلوم کان کن، کسی میڈیا ہاؤس کی ترجیحات میں آتے ہیں نہیں۔ کوئی اینکر پرسن انہیں اس قابل ہی نہیں سمجھتا کہ ان کے مسائل بھی ایوان میں براجمان بااثر شخصیات تک پہنچائے تاکہ ان کی داد رسی ہو۔ اور کچھ نہ سہی، چیف جسٹس صاحب ہی اس پر سوموٹو نوٹس لے لیں۔
اس کے برعکس، وزیراعظم ہاؤس اندر سے کیسا ہے؟ اس میں کتنے بیڈرومز ہیں؟ لان کی کیا ہیئت کیسی ہے؟ فرنیچر کیسا ہے؟ ایسی باتوں کو مختلف زاویوں اور بیک گراؤنڈ میوزک کا تڑکا لگا کر ایک گھنٹے کا خصوصی ایئرٹائم تو مل سکتا ہے مگر ایسے حادثات کی کوئی فوٹیج، کوئی ٹاک شو، کوئی خصوصی نشریات، حتیٰ کہ کوئی صدائے احتجاج تک بلند نہیں ہوتی۔ دیگر صنعتوں کی نسبت کوئلے کی کان کنی کی صنعت میں انسانی حقوق کی جس قدر خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، ان پر کوئی سوموٹو ایکشن نہیں لیا جارہا۔
اس ملک میں مزدور ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں جو اپنی برداشت سے زیادہ بوجھ اٹھائے زندگی جینے کی کوشش کر رہے ہیں؛ اور جب کوئی محنت کش اپنی زندگی کی بازی ہار جاتا ہے تو بھی کوئی چیف جسٹس اس کی طرف نگاہ نہیں ڈالتا۔ آخر کیوں ایسے حادثات میں دسیوں افراد کی ہلاکت پر ملک کے طول و عرض میں کوئی شور نہیں اٹھتا؟
یہ سال بھی ان اموات کی بازگشت سے گونجتا ہی جا رہا ہے۔ مئی میں کوئٹہ کے علاقے مرور میں تئیس کان کن اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جون میں کوئٹہ کے علاقے سنجدی کی ایک کان میں گیس بھرنے سے چار کان کن ہلاک ہوئے اور پھر 12 اگست 2018 کے روز اسی علاقے کی ایک اور کان میں کان کنوں کی مزید انیس قیمتی جانیں کوئلے کی کان میں دم توڑ گئیں... اور اب ستمبر میں، ایک بار پھر، کوئلے کی کان کنی نے تیرہ انسانی جانوں کا نذرانہ وصول کیا؛ جن میں ایک نو سالہ مزدور بھی شامل تھا جو اپنے والد کے ساتھ جان کی بازی ہار گیا۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مطابق ہر سال تقریباً 100 سے 200 افراد کوئلے کی کانوں میں پیش آنے والے حادثات کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ان واقعات کی اصل وجہ بلاسٹ کے بعد کان میں ''میتھین گیس'' کا بھرجانا یا کان کا منہدم ہو جانا ہے۔ حفاظتی انتظامات نہ ہونے پر موت ہی ان کا مقدر بنتی ہے۔
پاکستان کوئلے کے ذخائر کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے، اس کے چاروں صوبوں میں مجموعی طور پر 185.175 ارب ٹن کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ اگرچہ اس ضمن میں تھر کا کوئلہ زیادہ مشہور ہے تاہم بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سنگم پر پھیلے ہوئے پہاڑوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار بہترین کوئلے میں ہوتا ہے۔ حالیہ اندازوں کے مطابق، خیبر پختونخوا کے پہاڑوں میں تقریباً 12 کروڑ ٹن کوئلہ موجود ہے۔
کان کن کی صحت، جان کی حفاظت، اوقات کار انگریز کے زمانے میں مائنز لیبر ایکٹ مجریہ 1923 میں طے شدہ تھے۔ پاکستان میں یہ ایکٹ اب بھی نافذ ہے مگر اس پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
ڈیڑھ سو سال گزر جانے کے باوجود کان کنی کے طریقہ کار میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوئی۔ کان میں اترنے سے پہلے گیس چیک کی جاتی ہے نہ ہی کان کنوں کو حفاظتی آلات اور اوزار دیئے جاتے ہیں، اور نہ ہی کان میں متبادل راستہ بنایا جاتا ہے کہ حادثے کی صورت میں وہاں سے نکلا جا سکے۔ یہاں اکثر کانیں رجسٹر بھی نہیں ہوتیں۔ یہاں کان کنی کے شعبے پر ٹھیکداری نظام کا مکمل غلبہ ہے اور ٹھیکیداروں کو صرف اپنے نفعے سے غرض ہے۔ یہ نہ تو کارکن کے ساتھ قانونی معاہدہ کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس حاضری رجسٹر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہلاکتیں ہوتی ہیں تو پتا ہی نہیں چلتا کہ کان میں کتنے مزدور کام کررہے تھے۔ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر کارکن جان سے ہاتھ دھوتے ہیں مگر ان کی ہلاکتوں کی خبریں کم ہی منظر عام پر آتی ہیں یا زیادہ تر رپورٹ ہی نہیں ہوتیں۔
کان مالکان کان کن کو فی ٹن 700 روپے دیتے ہیں، جبکہ مارکیٹ ریٹ کے حساب سے ایک ٹن کوئلہ مارکیٹ میں آٹھ ہزار سے 13 ہزار تک فروخت ہوتا ہے۔ بدقسمتی دیکھیے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے یہ غریب مزدور پھر بھی کام کرنے پر مجبور ہیں۔
رونے کےلیے تو ایک حادثہ بھی کافی ہے، آخر کیوں کوئلے کی کانیں چلانے والی کمپنیوں سے سوال نہیں کیا جاتا کہ وہ مزدوروں سے ہفتے میں کتنے دن، اور روزانہ کتنے گھنٹے کام لے رہی ہیں؟ اور ادائیگی کس حساب سے کر رہی ہیں؟ مزدوروں کے قیام و طعام، سیکیورٹی، میڈیکل کےلیے کمپنیوں نے کیا انتظامات کر رکھے ہیں؟ اور کیا مزدوروں کو تین ہزار فٹ کی گہرائی میں اتارنے اور کام کرنے کی بنیادی اور مناسب تربیت دی گئی ہے؟ کیا ان کے پاس آکسیجن ماسک تھے؟ کیا مائننگ (کان کنی) کی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا؟
کان کنی میں تسلسل سے ہونے والے جان لیوا اور دردناک واقعات اور حادثات کیا اس بات کا ٹھوس ثبوت نہیں کہ اس شعبے میں کس قدر غفلت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے؟ انسانی جانوں کے ساتھ مسلسل یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے جس پر ناقص انتظامات، حکومتی عدم توجہی اور بے حسی انتہائی قابل مذمت ہیں۔
عالی جاہ! یہ انتہائی قیمتی جانیں آپ کےلیے اہمیت نہ رکھتی ہوں، مگر اپنے گھر والوں کےلیے بہت قیمتی ہیں۔ ایک کنبہ جو انہیں ملنے والے چند ہزار روپوں سے اپنے لیے روکھی سوکھی روٹی کا بندوبست کرتا ہے، اس کےلیے اس مزدور کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے۔ ایسے حادثات کا شکار ہوجانے والوں کے ورثا کےلیے بڑی مالی امداد کا صرف اعلان نہ کیا جائے، بلکہ فی الفور یہ رقم ورثا کو سرکاری ذمہ داران کی نگرانی میں پہنچائی بھی جائے نیز متاثرہ خاندان کے بچوں کےلیے سرکار کی طرف سے تعلیمی اخراجات اٹھانے کا اعلان بھی کیا جائے۔
یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ بہت بڑا نقصان ہے، اس میں صرف ایک مزدور ہلاک نہیں ہوتا بلکہ اس مزدور کا پورا کنبہ متاثر ہوتا ہے۔
مزدوروں کےلیے اگر قانون بنایا گیا ہے تو اس پر عملدرآمد کروانا بھی آپ پر فرض ہے۔ دوسرا مزدور کی ہلاکت پر جو معاوضہ لاکھ دو لاکھ مقرر کیا جاتا ہے، اس مہنگائی کے دور میں یہ انتہائی کم ہے۔ ایک تو اسے بڑھایا جائے، دوسرا ان مزدوروں کی بھی پنشن مقرر کی جائے تاکہ بیماری یا معذوری کے باعث اگر یہ کام نہ کرسکیں تو ان کے گھر کے چولہے ٹھنڈے نہ ہوں، ان کے بچے اسکولوں سے محروم نہ ہوں اور روٹی کا حصول انہیں خودکشی کی طرف راغب نہ کر سکے۔
اس کنبے کی طرف سے پیش کیا گیا یہ بیش قیمت تحفہ آپ کی صنعت کو سانس دیتا ہے، خدارا مزدور کی قدر کیجیے۔ اسے کوئلہ برد نہ کیجیے!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
برصغیر میں کوئلے کی کان کنی کا آغاز 1885 کے لگ بھگ، برطانوی سرکار کے زمانے میں ہوا۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک، اکہتر سال کے دوران، سیاسی اونچ نیچ اور قبائلی تعصبات کی بناء پر خیبر پختونخوا میں کوئلے کی تلاش کا کام نہ صرف سست روی کا شکار رہا، بلکہ کانوں سے کوئلہ نکالنے کے طریقے بھی روایتی ہی رہے۔
جدید آلات، مشینری، کان کنوں کا ذاتی حفاظتی سامان، سانس کےلیے ماسک، چشمے، آکسیجن سلنڈر، گیس کی مقدار ناپنے والے آلات، غرض کہ احتیاطی تدابیر کے بغیر سولہ سے اٹھارہ گھنٹے کام کرنے والے یہ کان کن اس غیر انسانی اور غیر محفوظ ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ غربت کے مارے، پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے یہ مزدور اپنے لیے بنائے گئے حفاظتی قوانین سے آگاہ تک نہیں۔ وہ تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ انہیں ہر روز اپنی جان پر کھیل کر کان میں اُترنا ہے، کوئلہ نکالنا ہے اور اس مزدوری کا معاوضہ وصول کرنا ہے ورنہ وہ فاقوں مرجائیں گے۔
یہ کانیں ایک ہزار فٹ سے پانچ ہزار فٹ تک گہری ہوتی ہیں۔ مگر کان کن روایتی طریقوں سے کام کرنے پر مجبور ہیں جن میں ان کی جان کو شدید ترین خطرات لاحق ہیں۔ دوسری جانب کان مالکان چونکہ انتہائی بااثر ہوتے ہیں اس لیے کوئی بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن ایسے حادثات کی خبریں ٹی وی پر چلتی رہتی ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی لیکن اگر وزیراعظم کی خصوصی میٹنگ میں چائے کے ساتھ صرف بسکٹ مل جائیں تو یہ فریاد بار بار بریکنگ نیوز بنا دی جاتی ہے۔
ہر روز مرنے اور مر مر کر جینے والے یہ مظلوم کان کن، کسی میڈیا ہاؤس کی ترجیحات میں آتے ہیں نہیں۔ کوئی اینکر پرسن انہیں اس قابل ہی نہیں سمجھتا کہ ان کے مسائل بھی ایوان میں براجمان بااثر شخصیات تک پہنچائے تاکہ ان کی داد رسی ہو۔ اور کچھ نہ سہی، چیف جسٹس صاحب ہی اس پر سوموٹو نوٹس لے لیں۔
اس کے برعکس، وزیراعظم ہاؤس اندر سے کیسا ہے؟ اس میں کتنے بیڈرومز ہیں؟ لان کی کیا ہیئت کیسی ہے؟ فرنیچر کیسا ہے؟ ایسی باتوں کو مختلف زاویوں اور بیک گراؤنڈ میوزک کا تڑکا لگا کر ایک گھنٹے کا خصوصی ایئرٹائم تو مل سکتا ہے مگر ایسے حادثات کی کوئی فوٹیج، کوئی ٹاک شو، کوئی خصوصی نشریات، حتیٰ کہ کوئی صدائے احتجاج تک بلند نہیں ہوتی۔ دیگر صنعتوں کی نسبت کوئلے کی کان کنی کی صنعت میں انسانی حقوق کی جس قدر خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، ان پر کوئی سوموٹو ایکشن نہیں لیا جارہا۔
اس ملک میں مزدور ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں جو اپنی برداشت سے زیادہ بوجھ اٹھائے زندگی جینے کی کوشش کر رہے ہیں؛ اور جب کوئی محنت کش اپنی زندگی کی بازی ہار جاتا ہے تو بھی کوئی چیف جسٹس اس کی طرف نگاہ نہیں ڈالتا۔ آخر کیوں ایسے حادثات میں دسیوں افراد کی ہلاکت پر ملک کے طول و عرض میں کوئی شور نہیں اٹھتا؟
یہ سال بھی ان اموات کی بازگشت سے گونجتا ہی جا رہا ہے۔ مئی میں کوئٹہ کے علاقے مرور میں تئیس کان کن اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جون میں کوئٹہ کے علاقے سنجدی کی ایک کان میں گیس بھرنے سے چار کان کن ہلاک ہوئے اور پھر 12 اگست 2018 کے روز اسی علاقے کی ایک اور کان میں کان کنوں کی مزید انیس قیمتی جانیں کوئلے کی کان میں دم توڑ گئیں... اور اب ستمبر میں، ایک بار پھر، کوئلے کی کان کنی نے تیرہ انسانی جانوں کا نذرانہ وصول کیا؛ جن میں ایک نو سالہ مزدور بھی شامل تھا جو اپنے والد کے ساتھ جان کی بازی ہار گیا۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مطابق ہر سال تقریباً 100 سے 200 افراد کوئلے کی کانوں میں پیش آنے والے حادثات کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ان واقعات کی اصل وجہ بلاسٹ کے بعد کان میں ''میتھین گیس'' کا بھرجانا یا کان کا منہدم ہو جانا ہے۔ حفاظتی انتظامات نہ ہونے پر موت ہی ان کا مقدر بنتی ہے۔
پاکستان کوئلے کے ذخائر کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے، اس کے چاروں صوبوں میں مجموعی طور پر 185.175 ارب ٹن کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ اگرچہ اس ضمن میں تھر کا کوئلہ زیادہ مشہور ہے تاہم بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سنگم پر پھیلے ہوئے پہاڑوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار بہترین کوئلے میں ہوتا ہے۔ حالیہ اندازوں کے مطابق، خیبر پختونخوا کے پہاڑوں میں تقریباً 12 کروڑ ٹن کوئلہ موجود ہے۔
کان کن کی صحت، جان کی حفاظت، اوقات کار انگریز کے زمانے میں مائنز لیبر ایکٹ مجریہ 1923 میں طے شدہ تھے۔ پاکستان میں یہ ایکٹ اب بھی نافذ ہے مگر اس پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
ڈیڑھ سو سال گزر جانے کے باوجود کان کنی کے طریقہ کار میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوئی۔ کان میں اترنے سے پہلے گیس چیک کی جاتی ہے نہ ہی کان کنوں کو حفاظتی آلات اور اوزار دیئے جاتے ہیں، اور نہ ہی کان میں متبادل راستہ بنایا جاتا ہے کہ حادثے کی صورت میں وہاں سے نکلا جا سکے۔ یہاں اکثر کانیں رجسٹر بھی نہیں ہوتیں۔ یہاں کان کنی کے شعبے پر ٹھیکداری نظام کا مکمل غلبہ ہے اور ٹھیکیداروں کو صرف اپنے نفعے سے غرض ہے۔ یہ نہ تو کارکن کے ساتھ قانونی معاہدہ کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس حاضری رجسٹر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہلاکتیں ہوتی ہیں تو پتا ہی نہیں چلتا کہ کان میں کتنے مزدور کام کررہے تھے۔ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر کارکن جان سے ہاتھ دھوتے ہیں مگر ان کی ہلاکتوں کی خبریں کم ہی منظر عام پر آتی ہیں یا زیادہ تر رپورٹ ہی نہیں ہوتیں۔
کان مالکان کان کن کو فی ٹن 700 روپے دیتے ہیں، جبکہ مارکیٹ ریٹ کے حساب سے ایک ٹن کوئلہ مارکیٹ میں آٹھ ہزار سے 13 ہزار تک فروخت ہوتا ہے۔ بدقسمتی دیکھیے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے یہ غریب مزدور پھر بھی کام کرنے پر مجبور ہیں۔
رونے کےلیے تو ایک حادثہ بھی کافی ہے، آخر کیوں کوئلے کی کانیں چلانے والی کمپنیوں سے سوال نہیں کیا جاتا کہ وہ مزدوروں سے ہفتے میں کتنے دن، اور روزانہ کتنے گھنٹے کام لے رہی ہیں؟ اور ادائیگی کس حساب سے کر رہی ہیں؟ مزدوروں کے قیام و طعام، سیکیورٹی، میڈیکل کےلیے کمپنیوں نے کیا انتظامات کر رکھے ہیں؟ اور کیا مزدوروں کو تین ہزار فٹ کی گہرائی میں اتارنے اور کام کرنے کی بنیادی اور مناسب تربیت دی گئی ہے؟ کیا ان کے پاس آکسیجن ماسک تھے؟ کیا مائننگ (کان کنی) کی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا؟
کان کنی میں تسلسل سے ہونے والے جان لیوا اور دردناک واقعات اور حادثات کیا اس بات کا ٹھوس ثبوت نہیں کہ اس شعبے میں کس قدر غفلت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے؟ انسانی جانوں کے ساتھ مسلسل یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے جس پر ناقص انتظامات، حکومتی عدم توجہی اور بے حسی انتہائی قابل مذمت ہیں۔
عالی جاہ! یہ انتہائی قیمتی جانیں آپ کےلیے اہمیت نہ رکھتی ہوں، مگر اپنے گھر والوں کےلیے بہت قیمتی ہیں۔ ایک کنبہ جو انہیں ملنے والے چند ہزار روپوں سے اپنے لیے روکھی سوکھی روٹی کا بندوبست کرتا ہے، اس کےلیے اس مزدور کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے۔ ایسے حادثات کا شکار ہوجانے والوں کے ورثا کےلیے بڑی مالی امداد کا صرف اعلان نہ کیا جائے، بلکہ فی الفور یہ رقم ورثا کو سرکاری ذمہ داران کی نگرانی میں پہنچائی بھی جائے نیز متاثرہ خاندان کے بچوں کےلیے سرکار کی طرف سے تعلیمی اخراجات اٹھانے کا اعلان بھی کیا جائے۔
یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ بہت بڑا نقصان ہے، اس میں صرف ایک مزدور ہلاک نہیں ہوتا بلکہ اس مزدور کا پورا کنبہ متاثر ہوتا ہے۔
مزدوروں کےلیے اگر قانون بنایا گیا ہے تو اس پر عملدرآمد کروانا بھی آپ پر فرض ہے۔ دوسرا مزدور کی ہلاکت پر جو معاوضہ لاکھ دو لاکھ مقرر کیا جاتا ہے، اس مہنگائی کے دور میں یہ انتہائی کم ہے۔ ایک تو اسے بڑھایا جائے، دوسرا ان مزدوروں کی بھی پنشن مقرر کی جائے تاکہ بیماری یا معذوری کے باعث اگر یہ کام نہ کرسکیں تو ان کے گھر کے چولہے ٹھنڈے نہ ہوں، ان کے بچے اسکولوں سے محروم نہ ہوں اور روٹی کا حصول انہیں خودکشی کی طرف راغب نہ کر سکے۔
اس کنبے کی طرف سے پیش کیا گیا یہ بیش قیمت تحفہ آپ کی صنعت کو سانس دیتا ہے، خدارا مزدور کی قدر کیجیے۔ اسے کوئلہ برد نہ کیجیے!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔