کیا سرفراز دھوکا دے گیا
کرکٹ ٹیم گیم ہے، بلاشبہ اس میں کپتان کا کردار کلیدی ہوتا ہے، مگر جب سب کھلاڑی ایک ٹیم ہوکر کھیلتے ہیں تبھی فتح ملتی ہے
پاکستان کرکٹ ٹیم اور اس کے کپتان سرفراز احمد دونوں ہی اس وقت شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں، وہ ایشیا کپ میں اپنے روایتی حریف بھارت سے مسلسل دو میچز جو ہار چکے ہیں۔ یہ ہائی وولٹیج مقابلے ہوتے ہیں، ان میں شکست کسی صورت بھی برداشت نہیں ہوتی اور اگر چند دن کے فرق سے دو مرتبہ اور وہ بھی رسوا کن انداز میں شکست ملے تو پھر غصہ کرنا بہرحال شائقین کا حق بنتا ہے اور ایک جمہوری دور میں انہیں کسی بھی صورت اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
ان دو مقابلوں میں شکست کے حوالے سے بہت کچھ کہا، سنا اور لکھا جاچکا ہے۔ جہاں بھانت بھانت کے تبصرے سننے کو ملے وہیں ہر کوئی اپنی بساط اور کرکٹ سے واقفیت کی بنیاد پر ٹیم میں بہتری کےلیے تجاویز بھی پیش کررہا ہے، مذاق بھی اڑایا جارہا ہے اور شکست کے غم کو دلچسپ جملوں میں چھپایا بھی جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو ٹیم کی خامیاں وغیرہ چھوڑ کر لوگ اس بحث میں الجھ چکے ہیں کہ سرفراز احمد کو کپتان رہنا چاہیے یا نہیں۔
سب سے پہلے تو یہ سوچنے اور اس سے بھی زیادہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کرکٹ ایک ٹیم گیم ہے۔ بلاشبہ اس میں کپتان کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے، مگر جب سب کھلاڑی ایک ٹیم ہوکر کھیلتے ہیں تبھی فتح ملتی ہے۔ ایک تو ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم چند ایک اچھی پرفارمنس پر کسی کو بھی آسمان پر چڑھا دیتے ہیں اور اسی کو پھر چند میچز میں ناکامی پر ٹیم سے باہر کرنے کا شور مچانے لگتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جب ٹیم جیت رہی ہوتی ہے تو ہم سارا کریڈٹ کپتان کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں، اور جب ٹیم ناکامیوں سے دوچار ہوتی ہے تو پھر ہم کپتان کو بے بس و لاچار قرار دینا شروع کر دیتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ قیادت کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بھڑکنے والی آگ ٹیم کا شیرازہ بکھیرے، پی سی بی کو فوری طور پر سرفراز احمد کو کم سے کم ورلڈ کپ تک کپتان برقرار رکھنے کا اعلان کر دینا چاہیے۔ ویسے تو یہ نوجوان ٹیم اور اس میں 'شورش' کا امکان کم ہی ہے، لیکن نوجوانوں کو ہی بغاوت پر اکسانا سب سے آسان ہوتا ہے۔ دوسرے جو لوگ شعیب ملک کو کپتان بنانے کی باتیں کررہے ہیں ان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آل راؤنڈر ایک تو پہلے ہی ورلڈ کپ کے بعد ریٹائرمنٹ کا اعلان کرچکے ہیں، دوسرا ان کو پہلے کپتان بنانے کا تجربہ بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ تیسرا انہوں پاکستان سپر لیگ کے پہلے ایڈیشن میں کراچی کنگز کی قیادت کو جس طرح آخر میں چھوڑا تھا وہ بھی کسی طرح مناسب نہیں تھا۔ خود روی بوپارا نے ان کی قائدانہ صلاحیت پر سوال اٹھایا تھا۔ اس لیے کیریئر کے اختتام پر کھڑے شعیب ملک کے کندھے پر زبردستی قیادت کا بوجھ لادنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ انہیں رنز کے انبار لگانے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ وہ سرفخر سے بلند رکھتے ہوئے کھیل کو الوداع کہہ سکیں۔
ایشیا کپ کے گروپ اے میں دبئی کے اسپورٹس سٹی اسٹیڈیم پر پاکستان کے خلاف اپنے پہلے میچ میں ہانگ کانگ جیسی نوآموز ٹیم نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی اور پوری ٹیم 116 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔ جواب میں پاکستان نے صرف دو وکٹوں کے نقصان پر ہدف باآسانی حاصل کرلیا۔ اب ہانگ کانگ کا اسی گراؤنڈ پر دوسرے میچ میں بھارت کے خلاف میچ تھا، اس بار بھی ٹاس ہانگ کانگ نے ہی جیتا مگر کپتان میک چینی پہلے مقابلے سے بڑا سبق سیکھ چکے تھے۔
اس بار انہوں نے یہ جانتے اور بوجھتے ہوئے بھی کہ بھارت کی بیٹنگ لائن 'ورلڈ فیمس' ہے حریف سائیڈ کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی، جس پر عام لوگوں کا خیال تھا کہ بھارتی بیٹنگ پاور ہاؤس سب سے بڑی اننگز کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ سکتا ہے۔ مگر ہوا کیا، وہ کھینچ تان کر 7 وکٹ پر 285 رنز ہی بنا پائے اور پھر اسی بھارتی بولنگ نے جس نے آنے والے میچز میں پاکستانی ٹیم کو تگنی کا ناچ نچایا، اس کے خلاف ہانگ کانگ کے ناتجربہ کار اوپنرز نزاکت خان اور انشمان راٹھ نے ٹیم کو ریکارڈ 174 رنز کا اوپننگ اسٹینڈ فراہم کیا، اگر قسمت تھوڑا اور ساتھ دیتی اور آنے والے کھلاڑیوں کی ناتجربہ کاری آڑے نہ آتی تو شاید ہانگ کانگ کی ٹیم تاریخ کا ایک بڑا اپ سیٹ کرچکی ہوتی۔
اب دوسری جانب پاکستان ٹیم ہے، جس کا کوچنگ اسٹاف دنیا کی بڑی ٹیموں کے برابر معاوضے لیتا ہے، جس کا کپتان خود اب کافی تجربہ کار ہوچکا ہے، جس کی ٹیم میں کئی ہوشیار کھلاڑی موجود ہیں۔ وہ اسی دبئی کے اسپورٹس سٹی اسٹیڈیم پر ٹاس جیت کر پہلے خود بیٹنگ کے لئے پہنچ جاتے ہیں اور اس کے بعد جو ان کا حشر نشر ہوتا ہے وہ دنیا دیکھتی ہے۔ جواب میں ٹھیک اسی طرح جیسے بھارتی بولرز سے بھرپور کوشش کے باوجود ہانگ کانگ کے پلیئرز آؤٹ نہیں ہورہے تھے، ویسے ہی پاکستانی بولنگ اٹیک بھارتی بیٹنگ کا بال بھی بیکا نہیں کرپاتا اور بدلے میں 8 وکٹ کی شکست ہاتھ آتی ہے۔
سپر 4 کے دوسرے میچ میں بھی شومئی قسمت سے ٹاس پھر پاکستان نے جیتا اور اس نے ہانگ کانگ جیسی ٹیم سے سبق سیکھنے کے بجائے ایک بار پھر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ کوئی ان سے پوچھے کہ اللہ کے بندو! یہ بتاؤ کہ دو دن میں آپ کی بیٹنگ کو کیا سرخاب کے پر لگ گئے تھے جوکہ بھارت کو بڑا ہدف دینے کا خواب آنکھوں میں سجائے بیٹ سنبھالے میدان میں کود پڑے۔ شعیب ملک نے اچھی اننگز کھیلی اور سرفراز نے بھی ان کا کچھ ساتھ دیا، مگر ایک پروفیشنل کوچ کی ڈکشنری میں کم اسکور پر ڈھیر ہونے والے اوپنرز کے بجائے سب سے بڑے مجرم یہی دونوں کھلاڑی ہیں۔ کیونکہ جب آپ ایک بار رن ریٹ کی ایسی تیسی کرتے ہوئے وکٹ پر خود کو سیٹ کرتے ہیں تو پھر آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آخر میں بڑے شاٹ کھیل کر ٹیم کے مجموعے کو بھی مستحکم کریں۔ ہمارے سامنے اسی میچ میں شیکھر دھون اور روہت شرما کی مثال موجود ہے جنہوں نے اچھے آغاز کو سینچریوں میں تبدیل کیا۔
کسی زمانے میں آخری 10 اوورز پاکستان کی طاقت ہوا کرتے تھے، اس میں بننے والے 100 رنز ٹیم کی جیت میں نمایاں کردار ادا کرتے تھے۔ مگر اس مقابلے میں آخری اوورز ضائع کرکے یہ موقع بھی گنوایا گیا۔ کوئی تو ٹیم مینجمنٹ سے یہ پوچھے کہ آپ نے اس سے قبل والے میچ میں شاداب کو اس لیے نہیں کھلایا کہ وہ انجرڈ تھا، تو پھر اس کو بیٹنگ کے لیے کیوں بھیج دیا؟ جبکہ ان پر ہی اسپن بولنگ کی ذمہ داری بھی تھی، جب آپ کو معلوم ہے کہ آخر میں عامر کچھ بڑے شاٹس کھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کو کیوں ڈریسنگ روم میں لے کر بیٹھے رہے۔
اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، اس بار بھی دبئی میں بعد میں کھیلنے والی ٹیم نے بولرز کو گھاس نہیں ڈالی، یہ تو شیکھر رن آؤٹ ہوگئے ورنہ 10 وکٹوں سے شکست یقینی تھی۔
اب تک دبئی میں کھیلے گئے تمام میچز سے یہ نتیجہ نکل چکا ہے کہ بعد میں بولنگ کرنے والی ٹیم ہی مشکلات کا شکار رہتی ہے، اب اگر بدھ کو پاکستان بنگلہ دیشی ٹیم کو ابوظہبی میں زیر کرکے فائنل کھیلنے کا اعزاز پاتا ہے تو پھر ٹاس جیتنے کی صورت میں اس کو بعد میں بیٹنگ کا فیصلہ کرنا ہوگا، اور اگر ٹاس بھارت نے جیت کر پاکستان کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دے دی تو پھر ہمیں 'تکا' لگنے کی دعا کرنا ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ان دو مقابلوں میں شکست کے حوالے سے بہت کچھ کہا، سنا اور لکھا جاچکا ہے۔ جہاں بھانت بھانت کے تبصرے سننے کو ملے وہیں ہر کوئی اپنی بساط اور کرکٹ سے واقفیت کی بنیاد پر ٹیم میں بہتری کےلیے تجاویز بھی پیش کررہا ہے، مذاق بھی اڑایا جارہا ہے اور شکست کے غم کو دلچسپ جملوں میں چھپایا بھی جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو ٹیم کی خامیاں وغیرہ چھوڑ کر لوگ اس بحث میں الجھ چکے ہیں کہ سرفراز احمد کو کپتان رہنا چاہیے یا نہیں۔
سرفراز پراعتراض کیوں؟
سب سے پہلے تو یہ سوچنے اور اس سے بھی زیادہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کرکٹ ایک ٹیم گیم ہے۔ بلاشبہ اس میں کپتان کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے، مگر جب سب کھلاڑی ایک ٹیم ہوکر کھیلتے ہیں تبھی فتح ملتی ہے۔ ایک تو ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم چند ایک اچھی پرفارمنس پر کسی کو بھی آسمان پر چڑھا دیتے ہیں اور اسی کو پھر چند میچز میں ناکامی پر ٹیم سے باہر کرنے کا شور مچانے لگتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جب ٹیم جیت رہی ہوتی ہے تو ہم سارا کریڈٹ کپتان کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں، اور جب ٹیم ناکامیوں سے دوچار ہوتی ہے تو پھر ہم کپتان کو بے بس و لاچار قرار دینا شروع کر دیتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ قیادت کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بھڑکنے والی آگ ٹیم کا شیرازہ بکھیرے، پی سی بی کو فوری طور پر سرفراز احمد کو کم سے کم ورلڈ کپ تک کپتان برقرار رکھنے کا اعلان کر دینا چاہیے۔ ویسے تو یہ نوجوان ٹیم اور اس میں 'شورش' کا امکان کم ہی ہے، لیکن نوجوانوں کو ہی بغاوت پر اکسانا سب سے آسان ہوتا ہے۔ دوسرے جو لوگ شعیب ملک کو کپتان بنانے کی باتیں کررہے ہیں ان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آل راؤنڈر ایک تو پہلے ہی ورلڈ کپ کے بعد ریٹائرمنٹ کا اعلان کرچکے ہیں، دوسرا ان کو پہلے کپتان بنانے کا تجربہ بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ تیسرا انہوں پاکستان سپر لیگ کے پہلے ایڈیشن میں کراچی کنگز کی قیادت کو جس طرح آخر میں چھوڑا تھا وہ بھی کسی طرح مناسب نہیں تھا۔ خود روی بوپارا نے ان کی قائدانہ صلاحیت پر سوال اٹھایا تھا۔ اس لیے کیریئر کے اختتام پر کھڑے شعیب ملک کے کندھے پر زبردستی قیادت کا بوجھ لادنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ انہیں رنز کے انبار لگانے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ وہ سرفخر سے بلند رکھتے ہوئے کھیل کو الوداع کہہ سکیں۔
بھارت سے کیوں ہارے؟
ایشیا کپ کے گروپ اے میں دبئی کے اسپورٹس سٹی اسٹیڈیم پر پاکستان کے خلاف اپنے پہلے میچ میں ہانگ کانگ جیسی نوآموز ٹیم نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی اور پوری ٹیم 116 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔ جواب میں پاکستان نے صرف دو وکٹوں کے نقصان پر ہدف باآسانی حاصل کرلیا۔ اب ہانگ کانگ کا اسی گراؤنڈ پر دوسرے میچ میں بھارت کے خلاف میچ تھا، اس بار بھی ٹاس ہانگ کانگ نے ہی جیتا مگر کپتان میک چینی پہلے مقابلے سے بڑا سبق سیکھ چکے تھے۔
اس بار انہوں نے یہ جانتے اور بوجھتے ہوئے بھی کہ بھارت کی بیٹنگ لائن 'ورلڈ فیمس' ہے حریف سائیڈ کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی، جس پر عام لوگوں کا خیال تھا کہ بھارتی بیٹنگ پاور ہاؤس سب سے بڑی اننگز کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ سکتا ہے۔ مگر ہوا کیا، وہ کھینچ تان کر 7 وکٹ پر 285 رنز ہی بنا پائے اور پھر اسی بھارتی بولنگ نے جس نے آنے والے میچز میں پاکستانی ٹیم کو تگنی کا ناچ نچایا، اس کے خلاف ہانگ کانگ کے ناتجربہ کار اوپنرز نزاکت خان اور انشمان راٹھ نے ٹیم کو ریکارڈ 174 رنز کا اوپننگ اسٹینڈ فراہم کیا، اگر قسمت تھوڑا اور ساتھ دیتی اور آنے والے کھلاڑیوں کی ناتجربہ کاری آڑے نہ آتی تو شاید ہانگ کانگ کی ٹیم تاریخ کا ایک بڑا اپ سیٹ کرچکی ہوتی۔
اب دوسری جانب پاکستان ٹیم ہے، جس کا کوچنگ اسٹاف دنیا کی بڑی ٹیموں کے برابر معاوضے لیتا ہے، جس کا کپتان خود اب کافی تجربہ کار ہوچکا ہے، جس کی ٹیم میں کئی ہوشیار کھلاڑی موجود ہیں۔ وہ اسی دبئی کے اسپورٹس سٹی اسٹیڈیم پر ٹاس جیت کر پہلے خود بیٹنگ کے لئے پہنچ جاتے ہیں اور اس کے بعد جو ان کا حشر نشر ہوتا ہے وہ دنیا دیکھتی ہے۔ جواب میں ٹھیک اسی طرح جیسے بھارتی بولرز سے بھرپور کوشش کے باوجود ہانگ کانگ کے پلیئرز آؤٹ نہیں ہورہے تھے، ویسے ہی پاکستانی بولنگ اٹیک بھارتی بیٹنگ کا بال بھی بیکا نہیں کرپاتا اور بدلے میں 8 وکٹ کی شکست ہاتھ آتی ہے۔
سپر 4 کے دوسرے میچ میں بھی شومئی قسمت سے ٹاس پھر پاکستان نے جیتا اور اس نے ہانگ کانگ جیسی ٹیم سے سبق سیکھنے کے بجائے ایک بار پھر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ کوئی ان سے پوچھے کہ اللہ کے بندو! یہ بتاؤ کہ دو دن میں آپ کی بیٹنگ کو کیا سرخاب کے پر لگ گئے تھے جوکہ بھارت کو بڑا ہدف دینے کا خواب آنکھوں میں سجائے بیٹ سنبھالے میدان میں کود پڑے۔ شعیب ملک نے اچھی اننگز کھیلی اور سرفراز نے بھی ان کا کچھ ساتھ دیا، مگر ایک پروفیشنل کوچ کی ڈکشنری میں کم اسکور پر ڈھیر ہونے والے اوپنرز کے بجائے سب سے بڑے مجرم یہی دونوں کھلاڑی ہیں۔ کیونکہ جب آپ ایک بار رن ریٹ کی ایسی تیسی کرتے ہوئے وکٹ پر خود کو سیٹ کرتے ہیں تو پھر آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آخر میں بڑے شاٹ کھیل کر ٹیم کے مجموعے کو بھی مستحکم کریں۔ ہمارے سامنے اسی میچ میں شیکھر دھون اور روہت شرما کی مثال موجود ہے جنہوں نے اچھے آغاز کو سینچریوں میں تبدیل کیا۔
کسی زمانے میں آخری 10 اوورز پاکستان کی طاقت ہوا کرتے تھے، اس میں بننے والے 100 رنز ٹیم کی جیت میں نمایاں کردار ادا کرتے تھے۔ مگر اس مقابلے میں آخری اوورز ضائع کرکے یہ موقع بھی گنوایا گیا۔ کوئی تو ٹیم مینجمنٹ سے یہ پوچھے کہ آپ نے اس سے قبل والے میچ میں شاداب کو اس لیے نہیں کھلایا کہ وہ انجرڈ تھا، تو پھر اس کو بیٹنگ کے لیے کیوں بھیج دیا؟ جبکہ ان پر ہی اسپن بولنگ کی ذمہ داری بھی تھی، جب آپ کو معلوم ہے کہ آخر میں عامر کچھ بڑے شاٹس کھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کو کیوں ڈریسنگ روم میں لے کر بیٹھے رہے۔
اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، اس بار بھی دبئی میں بعد میں کھیلنے والی ٹیم نے بولرز کو گھاس نہیں ڈالی، یہ تو شیکھر رن آؤٹ ہوگئے ورنہ 10 وکٹوں سے شکست یقینی تھی۔
اب تک دبئی میں کھیلے گئے تمام میچز سے یہ نتیجہ نکل چکا ہے کہ بعد میں بولنگ کرنے والی ٹیم ہی مشکلات کا شکار رہتی ہے، اب اگر بدھ کو پاکستان بنگلہ دیشی ٹیم کو ابوظہبی میں زیر کرکے فائنل کھیلنے کا اعزاز پاتا ہے تو پھر ٹاس جیتنے کی صورت میں اس کو بعد میں بیٹنگ کا فیصلہ کرنا ہوگا، اور اگر ٹاس بھارت نے جیت کر پاکستان کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دے دی تو پھر ہمیں 'تکا' لگنے کی دعا کرنا ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔