نئے پاکستان میں بلوچستان کہاں کھڑا ہوگا

اگر کوئی لیڈر واقعی نیا پاکستان بنانا چاہتا ہے تو اسے بلوچستان میں فرسودہ طرزحکمرانی کو لازماً بدلنا ہوگا


علی رضا رند September 27, 2018
موجودہ وزیراعلی بلوچستان کے والد اور دادا بھی اپنے وقت میں بلوچستان کے وزرائے اعلی رہے مگر وہ بھی صوبے کے حالات میں کوئی سدھار نہیں لاسکے۔ (فوٹو: فائل)

بلوچستان ہمیشہ سے مشکلات کا شکار رہا، اس صوبے میں جہاں اب تک پانچ مسلح شورشیں برپا ہوچکی ہیں وہیں کچھ عرصے سے مذہبی انتہا پسندی نے بھی اپنی جڑیں پکڑ لی ہیں۔ ان خطرات سے نمٹنے کےلیے صوبے میں کسی نہ کسی شکل میں فوج اور نیم فوجی دستوں کی جانب سے آپریشن بھی کیے جاتے رہے جو اب بھی ٹارگٹڈ کارروائیوں کی شکل میں جاری ہیں اور جن کی وجہ سے حالات میں کچھ بہتری ضرور آئی لیکن ان تمام حالات نے صوبے میں عام لوگوں، بنیادی انفراسٹرکچر اور سیاست، معاشرت و معیشت کو بُری طرح ہلا کر رکھ دیا ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں 26 اگست 2006 کو بزرگ بلوچ سیاستدان نواب اکبر خان بگٹی کے قتل سے اٹھنے والا طوفان کمزور ضرور ہوا لیکن ابھی پوری طرح تھما نہیں۔ گزشتہ پندرہ سال کے دوران ہزاروں افراد لاپتا ہوئے جن میں سیکڑوں کی تشدد زدہ اور مسخ شدہ لاشیں ملیں۔ دوسری جانب ان واقعات کے ردعمل میں روز صوبے کے بیشتر علاقوں میں ہڑتالوں کا سلسلہ چل نکلا جبکہ صوبے کے طول و عرض میں ہونے والے بم دھماکوں میں اب تک سیکڑوں سیکیورٹی اہلکار، وکلاء، صحافی، سیاسی رہنما، عام اور مختلف طبقہ ہائے فکر کے افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

اس دوران صوبے کے دوسرے بڑے شہر تربت اور خضدار سمیت کوہلو، ڈیرہ بگٹی، قلات، مکران، سبی اور کوئٹہ ڈویژن کے کئی شہروں سے لاکھوں لوگ اپنی جان و مال کو درپیش خطرات کے پیش نظر نقل مکانی کرگئے۔ حالات کی سنگینی سے صحافی بھی محفوظ نہیں رہے جس کی واضح مثال 2014 کو خضدار میں یکے بعد دیگر 5 مقامی صحافیوں کا قتل ہے جن کی باقاعدہ ہٹ لسٹ جاری کی گئی تھی۔

کئی آزمائشوں سے گزرنے والے بلوچستان کو کبھی اچھا طرز حکمرانی نصیب نہیں ہوا جس کی وجہ سے نہ صرف صوبے میں ترقی کی رفتار مسدود ہوکر رہ گئی بلکہ ترقیاتی منصوبوں کےلیے آنے والے اربوں روپے کے فنڈز بغیر استعمال ہوئے واپس جاتے رہے۔ صوبے کی بدقسمتی دیکھیے کہ کئی دہائیوں تک پرانے چہرے پارٹیاں بدل بدل کر حکومت میں آتے رہے۔ جب یہ سلسلہ پرانا ہوا تو مخصوص الیکٹیبلز نے گزشتہ سال مئی میں اپنی ہی پارٹی یعنی بلوچستان عوامی پارٹی بنالی جسے صوبے میں ''باپ'' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس پارٹی کے سربراہ جام کمال خان مختلف جماعتوں کے چکر کاٹنے کے بعد 2013 میں بننے والی ن لیگ کی حکومت میں وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم اور قدرتی وسائل رہے اور ''باپ'' کی تخلیق کے بعد ن لیگ سے مستعفی ہوکر اس میں شامل ہوگئے۔

''باپ'' میں ایسے لوگ بھی ہیں جو قوم پرست اور مذہبی جماعتوں سے ہوتے ہوئے ق لیگ، پی پی پی اور ن لیگ کا حصہ رہے اور ہر اس موقع پر پارٹی بدلی جب سابقہ جماعت کی اقتدار کے دن اختتام کو پہنچے۔ ان ہی لوگوں نے مارچ 2018 میں سینیٹ الیکشن سے چند روز قبل بلوچستان میں ن لیگ کے وزیر اعلی نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لاکر انہیں گھر کا راستہ دکھایا اور پھر اقتدار میں آکر نئے دور کی صف بندی شروع کردی جس کے تحت انہوں نے پارٹی بدلنے کی بجائے اپنی ہی پارٹی بناکر 2018 کے انتخابات میں 65 رکنی صوبائی اسمبلی کےلیے 15 نشستیں جیت کر کچھ مخصوص نشستوں اور پی ٹی آئی سمیت چند چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملاکر صوبائی حکومت بنالی جس کا وزیر اعلیٰ ''باپ'' کے سربراہ جام کمال خان کو بنایا گیا۔

یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ موصوف کے دادا جام غلام قادر دو مرتبہ اور والد جام محمد یوسف ایک مرتبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے لیکن صوبے کے غریب عوام کی قسمت نہیں جاگی۔

2018 کے انتخابات کی ابتداء اور اختتام تبدیلی کے نعروں کے ساتھ ہوئے، جن میں پی ٹی آئی کی جیت کے بعد کہا گیا کہ اب نیا پاکستان بنے گا اور ملک ایک نئے دور میں داخل ہوگا لیکن بلوچستان کے عوام ابھی تک یہ سوچ رہے ہیں کہ نئے پاکستان کے اثرات ان تک کیسے پہنچیں گے؟ گو کہ صوبے کے عوام نے کئی نسلوں سے اقتدار پر براجمان ''باپ'' کے متعدد امیدواروں کو چاغی، خاران، کچھی، کوہلو، ژوب، ڈیرہ بگٹی اور کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں ووٹ کی طاقت سے مسترد کردیا لیکن پھر بھی صوبے کی قسمت کا فیصلہ ہمیشہ کی طرح اسلام آباد میں کیا گیا جہاں سے اقتدار کا پروانہ ''باپ'' کو مل گیا۔

ابھی نئی صوبائی حکومت کی کابینہ مکمل ہی نہیں ہوئی تھی کہ پی ٹی آئی بلوچستان کے صدر سردار یار محمد رند نے وزیراعلیٰ جام کمال کے طرز عمل پر سوالات اٹھاتے ہوئے تحفظات کا اظہار کردیا اور ہر موقع پر ببانگ دہل یہ کہنے لگے کہ وہ نہ خود کرپشن کریں گے اور نہ ہی کسی کو کرپشن کرنے دیں گے۔ صوبے میں اکثر پرانے چہرے نئی پارٹی اور نئی وزارتوں کے ساتھ سامنے آئے، یہاں تک کہ ''باپ'' کے جو جو لوگ بری طرح الیکشن ہارے، وہ بھی حکومتی معاملات کی انجام دہی میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔

ایسے حالات میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ نئے پاکستان میں بلوچستان کہاں کھڑا ہوگا؟ کیا عمران خان کے ''تبدیلی'' کے نعرے کا اثر بلوچستان پر بھی پڑے گا یا نہیں؟ کیا صوبے میں اقتدار پر نسلوں سے قابض پرانے چہرے کوئی تبدیلی لاسکیں گے؟ جب تک ان سوالات کا جواب نہیں ملتا، نئے پاکستان کے خواب کی تعبیر ادھوری ہی رہے گی کیونکہ بلوچستان بھی پاکستان کا حصہ ہے۔ اگر کوئی لیڈر نیا پاکستان بنانا چاہتا ہے تو اسے صوبے میں مروجہ پرانے طرز حکمرانی کو تبدیل کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں