سویلین شہداء عثمان بزدار اور ایک التجاء
اب تصوراتی دنیا سے باہر آکر دیکھیں تو ایسے افراد کو ’’ نام نہاد سویلین شہداء ‘‘ کہا جاتا ہے!
ذراتصور کیجیے! ایک لاکھ سے زیادہ خاندانوں کے افراد اُن بم دھماکوں، خودکش حملوں، فائرنگ اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوگئے جو ریاست کی غفلت، ناقص سیکیورٹی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ''اہم اتحادی''ہونے اورغلط حکومتی فیصلوں کی بھینٹ چڑھ گئے، اب یہ خاندان کس حال میں زندگی بسر کر رہے ہوں گے، اُن کے گھر کی خواتین مہنگائی کے اس دور میں کس طرح گزر بسر کر رہی ہوں گی، ذرا تصور کیجیے! اُن کے بزرگ، اُن کے بچے کہاں اور کس حال میں ہوں گے؟ بچوں کے اسکول کی فیسیں کون دیتا ہوگا؟ ماں کا علاج کون کراتا ہوگا؟ اُن کے چہروں پر مسکراہٹیں کون لاتا ہوگا؟ ذرا ایک منٹ کے لیے یہ بھی تصور کر لیجیے کہ اگر وہ کرائے کے مکان میں رہتے ہوں گے تو اب اُن کا پرسان حال کون ہوگا؟یہ تصور بھی کرنا چاہیے کہ کہیں اُن کے بچے جرائم پیشہ تو نہیں بن گئے؟ یہ تصور بھی کر لینا چاہیے کہ مذکورہ خاندان کے افراد فاقہ کشی کا شکار تو نہیں؟ ہمیں شاید یہ بھی تصور کر لینا چاہیے کہ حکومت کی غفلتوں کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے عام شہری کی بیوی نے بچوں سمیت نہر میں چھلانگ تو نہیں لگا لی؟اب تصوراتی دنیا سے باہر آکر دیکھیں تو ایسے افراد کو '' نام نہاد سویلین شہداء '' کہا جاتا ہے!کیوں کہ یہ وہ شہداء اور اُن کے خاندان ہیں جنھیں سرکاری سطح پر نہ توکہیں یاد کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے خاندان کے پاس کوئی سرکار کا نمایندہ جاتا ہے۔
بس! گھر سے کسی کام کے لیے نکلو،کہیں کوئی بلاسٹ ہوا اور ''شہید'' ہو جائو۔ سرکار نے اُس کے لواحقین کی دلجوئی کے لیے 5، 7لاکھ روپے کا ''انعام'' دیا اور پھر اللہ اللہ خیر صلا... ہمارے ہاں رواج ہیں کہ مرگ پر آئے ہوئے افراد کی بھی جب تک آئو بھگت نہ ہو جائے تو دل کی تسلی نہیں ہوتی۔ لہٰذاسارا ''انعام'' اسی آئو بھگت میں لگ جاتا ہے۔اُس کے بعد وہ خاندان کیا کر تاہے؟ بھیک مانگ کر گزارہ کر تا ہے یا زکوٰۃ پر چلتا ہے کسی کو کچھ علم نہیں۔ یہ وہ خیالات و تصورات ہیں جنھیں ذہن میں رکھ کر راقم نے کئی جگہ آواز اُٹھائی،کئی کالم لکھے مگر نہ تو اس حوالے سے آج تک سرکار کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔بقول اقبال ؒ
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں، لا الہٰ الا اللہ
اتفاق سے گزشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سے وزیر اعلیٰ آفس میں کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای)کے وفد کی ملاقات ہوئی، راقم بھی بحیثیت ممبر اس ''خاص ملاقات'' میں شامل تھا، موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اپنا دیرینہ ''مطالبہ'' ''سویلین شہداء'' کے حقوق کا موضوع بھی چھیڑ دیا۔ اور مطالبہ کیا کہ ان شہداء کے خاندانوں کو بھی وہ مقام و مرتبہ دیا جائے جو پاکستان کی افواج، پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے شہداء اور اُن کے خاندانوں کو حاصل ہے۔ بہت اچھا لگتا ہے اُس وقت جب یوم شہدائے پاک فوج اور پولیس کے خاندانوں کو تقریبات میں بلایا جاتا ہے اور انھیں بڑے بڑے گھروں، رقوم اور پنشنز وغیرہ سے نوازا جاتا ہے ۔ عین اُسی وقت ''سویلین '' خاندان بھی حسرت سے اُن خاندانوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ میں نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس کار خیر میں ذاتی فائدہ حاصل نہیں کرنا، محض یہ التجاء کرنا مقصود ہے کہ جس طرح 6ستمبر(جنگ ستمبر اور فوجی شہداء کو یاد کرنے کا دن)، 4اگست (یوم شہدائے پولیس )اور اس جیسے دوسرے دن منائے جاتے ہیں،گھر دیا جاتا ہے، پلاٹ دیے جاتے ہیں، ان فورسز کی اہمیت کو اُجاگر کیا جاتا ہے، اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ہم آپ کو بھولے نہیں! بالکل اسی طرح ہم عام شہریوں کے لیے بھی ایک مخصوص دن ہونا چاہیے۔ ان مواقعوں پرہم اُن ہزاروںبلکہ لاکھوں ''سویلین شہداء''کو کیوںبھول جاتے ہیںجو سیکیورٹی اداروں کی غفلت سے شہید ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں تو ایسا نہیں ہوتا ، شمعیں روشن کرنے سے لے خاندان کے ہر فرد کے Settledہونے تک سرکار چین سے نہیں بیٹھتی۔ کیوں کہ وہ سمجھتی ہے کہ اس خاندان کا واحد خود کفیل حکومت کی غفلت کی وجہ سے جاں بحق ہوا ہے۔ اس لیے یہ آپ جیسے حکمرانوں کو سوچنا پڑے گا ، معلوم کرنا پڑے گا، ڈیٹا اکٹھا کرنا پڑے گا کہ کونسا خاندان کس حال میں زندگی گزار رہا ہے؟ عثمان بزدار صاحب! یہ حساب میں نے نہیںحکمران نے روز قیامت دینا ہے کہ آپ ان شہداء کو بھول چکے ہیں۔ عوام کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ڈرون حملوں میں آج تک 13ہزار عام شہری شہید ہوچکے ہیںجن کے خاندان والوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے وہ پاکستان سے متنفر ہوتے جا رہے ہیں، انھیں حوصلہ دینے اور سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ امریکی عوام کس طرح ہر سال نائن الیون کے واقعہ کو یاد کرکے تقریبات کا اہتمام کرتی ہے، نئی منصوبہ بندی کرتی ہے تاکہ دوبارہ کوئی بڑا سانحہ نہ ہو۔ کئی کئی بے گناہ لوگ اپنی جان سے جاتے اور کئی اپنے اعضاء سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کے لواحقین پر کیا گزر رہی ہوگی کبھی کسی نے سوچا؟اللہ کرے کسی کی ماں کی گود نہ اجڑے، نہ کوئی اولاد اپنے باپ سے محروم ہو اور نہ ہی کسی بوڑھے باپ کو اپنی جوان اولاد کے جنازے کو کاندھا دینا پڑے کیونکہ یہ جو درد ہیں انھیں صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جو اس سے گزر چکا ہو، باقی افراد بس افسوس اور مذمت کر کے اگلے لمحے بھول بھی جاتے ہیں۔ بقول شاعر
حرف تسلی تو اک تکلف ہے
جس کا درد، اسی کا درد، باقی سب تماشائی
عثمان بزدار صاحب ! میں آپ کو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے مقابلے میں بہتر سمجھتا ہوںاس لیے آپ سے دست بستہ گزارش ہے کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں۔ اس میں سب کا بھلا ہے اورسا تھ ساتھ تحریک انصاف کا اپنا بھی بھلا ہے کیوں کہ پی ٹی آئی کا گڑھ خیبر پختونخواہ سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا ہے۔ ایک لاکھ سویلین شہداء میں سے 56ہزار شہداء کا تعلق کے پی کے سے ہے۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو کسی ایک ایسے خاندان سے ملاقات ضرور کریں جو دہشت گردی سے متاثر ہوا ہے، یقینا اس کے بعد آپ کو خود علم ہو جائے گا کہ وہ خاندان کس کیفیت سے گزر رہا ہے۔مجھے اُمید ہے کہ آپ کو اس حوالے سے زیادہ اخراجات اُٹھانے کی ضرورت نہیں ہوگی، کیوں کہ اس حوالے سے اگر آپ ''وزیر اعلیٰ سویلین شہداء فنڈ'' بھی قائم کردیں گے تو عوام کو آپ کی نیک نیتی پر شک نہیں ہوگااور لوگ زیادہ سے زیادہ اس میں حصہ ڈالیں گے۔عوام کو اس وقت محض اعتماد دینے کی ضرورت ہے ورنہ تو ہم لوگ دنیا بھر میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والے لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو (آمین)۔