خرگئی درگئی مالاکنڈ ایجنسی سے ایک خط
ریحانہ کو سب سے پہلے میں اس بات کی مبارک باد دوں کہ وہ اتنی بہادر ہیں کہ اپنا گردہ بھائی کو دینے کے لیے تیار ہیں۔
ہم کالم نگاروں کے نام خط آتے رہتے ہیں ۔کچھ تعریف و توصیف سے بھرے ہوئے اورکچھ ناراض پڑھنے والوں کے خط۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے دل خون روتا ہے ۔ چند دنوں پہلے ایک ایسا ہی خط مالاکنڈ ایجنسی کے ایک دور دراز گاؤں سے موصول ہوا۔ ریحانہ بی بی نے وہ خط روشنائی سے نہیں ، خونِ دل سے لکھا تھا جس میں آنسوؤں کی آمیزش تھی ۔
پہلے تو مجھے اس کے مندرجات پر یقین نہیں آیا ، اس لیے کہ وہ جہاں سے لکھا گیا تھا ، وہاں کے بارے میں ہر دوسرے چوتھے روز خبریں چھپتی ہیں کہ وہاں صحت کی سہولتیں ہر شخص کی دسترس میں ہیں ۔ بیماروں کے لیے دوا اور علاج کے تمام مرحلے آسان ہوچکے ہیں ۔ میں نے کوشش کی کہ اس علاقے میں علاج کی سہولتیں بہم پہنچانے کے لیے وہاں کی حکومت نے جو کچھ کیا ہے،ا س کی حقیقت جانوں تاکہ کوئی غلط بات اس علاقے کے بیماروں کو ملنے والی سہولتوں کے بارے میں قلم سے نکل نہ جائے اور پھر مجھے مجبور ہونا پڑا کہ درگئی کی ریحانہ بی بی کا خط کسی کتربیونت کے بغیر آپ کے مطالعے کے لیے پیش کردیا جائے ۔ خط کا آغاز اس طرح ہوا ہے ۔
محترمہ زاہدہ حنا ، آداب !
میرا نام ریحانہ بی بی ہے ، میں ایک پرائیوٹ اسکول میں اسلامیات کی ٹیچر ہوں ۔ مالاکنڈ ایجنسی میں رہائش پذیر ہوں ۔ میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے ۔ ہم تین بھائی اور دو بہنیں ہیں ۔ میں ان میں دوسرے نمبر پر ہوں ۔ میرا بڑا بھائی ناصر خان دو برس سے گردوں کے مرض میں مبتلا ہے ۔ اپنے بھائی کی فائلیں میں مختلف اسپتالوں کے ڈاکٹروں کو دکھا دکھا کر تھک چکی ہوں۔ سرکاری اسپتال کی ڈائیلاسس مشین اکثر خراب رہتی ہے۔ اس لیے عموماً میں اپنے بھائی کا پرائیویٹ طور پر ہفتے میں ایک بار اور مہینے میں چار مرتبہ ڈائیلاسس کراتی ہوں ۔ فی ڈائیلاسس 5 ہزار روپے جب کہ مہینے کے 20ہزار روپے کے اخراجات آتے ہیں ۔ میں آج کل انسٹیٹیوٹ آف کڈنی ڈائیلاسس حیات آباد پشاور سیکٹر 1فیز 5 سے اپنے بھائی کا علاج کرا رہی ہوں ۔ اسپتال کا فون نمبر 091-9217257ہے ۔ اس سے پہلے بھائی جان کا علاج مختلف شفا خانوں سے کرواچکی ہوں مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ ہمارے پاس جتنا سونا موتی اور دو قطعہ زمین تھی وہ سب بیچ کر بھائی کے علاج پر خرچ ہوگئے ۔ ڈاکٹروں نے مجھے ایک امید کی کرن دکھائی ہے کہ آپ کے خاندان میں اگرکوئی اس کو گردہ دینا چاہے تو آپ کا بھائی ٹھیک ہوسکتا ہے ۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے بھائی کو اپنا گردہ دے دوں ۔ میرا اور بھائی جان کا DNAمیچ ہے ۔
انسٹیٹیوٹ آف کڈنی ڈائیلاسس حیات آباد پشاور کے ڈاکٹروں کے ایک بورڈ نے مجھے بتایا کہ آپ کا بھائی بالکل ٹھیک ہوسکتا ہے لیکن اس کے اخراجات بہت زیادہ ہیں ۔ ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ الشفاء اسپتال اسلام آباد یا آغا خان اسپتال کراچی میں آپ کے بھائی کا ٹرانسپلانٹ ہوسکتا ہے ۔ جس پر اخراجات تقریباً 20 لاکھ روپے ہیں ۔ ہم نہایت غریب لوگ ہیں ، اتنی بڑی رقم ہم کہاں سے لائیں ۔ غربت اور بیماری جب کسی کے گھرکا رخ کرتے ہیں تو اس کی ہر چیز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر بکھر جاتی ہے اور دنیا کی ہر چیز ہر رنگینی اور خوشی اسے بے مزہ اور بے رنگ لگتی ہے ۔ میں ایک پرائیوٹ اسکول میں پڑھاتی ہوں ایک بھائی دیہاڑی پر مزدوری کرتا ہے جب کہ دو چھوٹے بھائی گلی میں بھٹے بیچتے ہیں۔ والدہ اور چھوٹی بہن ایک گھر میں صفائی وغیرہ کا کام کرتی ہیں۔ میری 15ہزار روپے تنخواہ ہے میں ان پیسوں میں بھائی کا علاج بمشکل کراتی ہوں ۔ پاکستان بیت المال اور زکوٰۃ کے دفتروں سے پہلے ہی مایوس ہوچکی ہوں ۔
بیت المال اور زکوٰۃ والے کہتے ہیں کہ اتنی بڑی رقم ہمارے اختیار میں نہیں ہے ۔ میرا بھائی ڈگری کالج مالاکنڈ میں تھرڈ ائیرکا اسٹوڈنٹ تھا ۔ بیماری کی وجہ سے روز روز غیر حاضری پر اسے کالج سے نکال دیا گیا ۔ وہ ہم سب کا سہارا ہے میں نے اپنے بھائی کے لیے کوئی ایسی جگہ نہیں چھوڑی جہاں پر اپنے بیمار بھائی کے علاج کے لیے درخواست نہ دی ہو ۔ انتخابات سے پہلے بلاول بھٹو زرداری مالاکنڈ ایجنسی جلسہ کرنے کے لیے آئے تھے ۔ وہاں انھوں نے رات بھی گزاری ۔ میں اپنے بھائی کے علاج کی درخواست وہاں لے گئی ۔ ملاقات تو دورکی بات ہے ، مجھے پولیس والوں نے دروازے سے ہی رخصت کردیا ۔ کافی پریشان ہوں بھائی کو تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتی سمجھ میں نہیں آتا کہ بھائی کا علاج کس طرح کروں ۔ مجھے اسکول کی استانیوں اور پرنسپل نے مشورہ دیا کہ کسی بڑے اخبار کے کالم نگار کو اپنے بھائی کے بارے میں خط لکھو ۔ میں نے وہ بھی نہیں چھوڑا میں نے پاکستان کے بڑے بڑے اخبارات کے کالم نگاروں کو اپنے بھائی کی بیماری کے بارے میں خطوط لکھے مگر وہ بھی اتنے سنگ دل ہیں کہ انھوں نے مجھے جھوٹی تسلی بھی نہیں دی ۔میرے خطوط ردی کی ٹوکری کی نذر کردیے ۔
یہاں پر میں یہ ضرور لکھوں گی کہ یہ کالم نگار بھی کسی ایم این اے اور کسی گریڈ 22 بیورو کریٹ سے کم نہیں ۔ میں نے بہت مشکل سے کچھ کالم نویسوں کے فون نمبر اخبار کے دفتر سے حاصل کیے ۔ اسی امید پر کہ بھائی جان کے علاج کے بارے میں ان کو آگاہ کروں ۔ اللہ پاک کی قسم میں خود ان کو فون کرتے کرتے تھک گئی مگر وہ ہم جیسے غریبوں کا فون بھی نہیں اٹھاتے کیونکہ ہمارے پاس کسی ایم این اے ، منسٹر یا بیورو کریٹ کا سفارشی رقعہ نہیں ہے ۔ بھائی جان کی صحت دن بہ دن خراب ہوتی جارہی ہے تو آج مجبور ہوکر دوبارہ کوشش کررہی ہوں کہ اپنے بھائی کے بارے میں آپ لوگوں کو ایک بار پھر خطوط لکھوں کیونکہ اب حکومت بھی تبدیل ہوگئی ہے اور شاید آپ سب کالم نگاروں کے دلوں میں بھی تبدیلی آئی ہو تو مجھے ان شاء اللہ العزیز پوری امید ہے اور بھروسہ بھی ہے کہ آپ مجھے اپنی بیٹی ، بہن سمجھ کر میرے بھائی کو اپنا بیٹا یا بھائی سمجھ کر اس کے لیے چند الفاظ اپنے کالم میں ضرور لکھیں گی یا کوئی مخیر شخص الشفاء اسپتال اسلام آباد یا آغا خان اسپتال کراچی میں 20 لاکھ روپے جمع کرکے ہمیں اطلاع کرے اس کے بدلے میں ، میری والدہ اور میرے چھوٹے بہن بھائی اپنے ننھے منے ہاتھوں سے تمام عمر ڈھیروں ساری دعائیں دیں گے ۔
مجھے امید ہے کہ کوئی نہ کوئی اللہ کا نیک انسان میرے بھائی کے علاج کے لیے مجھ سے یا میرے بھائی سے اس نمبر پر 0308-5895077 پر ضرور رابطہ کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ آپ سب لوگوں کو شاد وآباد رکھے اور اس کام میں مدد کرنے والوں کو جزائے خیر دے۔ (آمین)
آپ سب کی بیٹی ریحانہ بی بی بنت نور محمد (مرحوم) گاؤں خرگئی درگئی ، مالاکنڈ ایجنسی ۔
ریحانہ کو سب سے پہلے میں اس بات کی مبارک باد دوں کہ وہ اتنی بہادر ہیں کہ اپنا گردہ بھائی کو دینے کے لیے تیار ہیں۔ یہاں SIUTوالے اس بارے میں مہم چلاتے رہتے ہیں کہ رشتے داروں کو اپنے اعضاء دینے کے لیے رضا مند کرسکیں ۔ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس سے ان کی جان کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا، اس کے باوجود وہ بہت کم لوگوں کو اس بات پر رضا مند کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی میں انھیں یقین دلانا چاہتی ہوں کہ یہ بے بسی اور بے کسی بڑے شہروں میں رہنے والے غریبوں کی بھی ہے۔
اقتدار میں آنے سے پہلے وعدے اور دعوے سب کرتے ہیں اور اقتدار میں آتے ہی تمام باتیں بھول جاتے ہیں ۔ غریب اسی طرح بدحال رہتا ہے ۔ ریحانہ بی بی اور اس کے بیمار بھائی ناصر خان کے لیے کوئی ادارہ یا چند مخیر حضرات و خواتین ناصر کی بیماری کے بارے میں اپنی تسلی کے بعد اگر کچھ کرسکیں تو یہ ان کا ہم سب پر احسان ہوگا ۔ بہ طور خاص SIUTکے ڈاکٹر ادیب رضوی اور ڈاکٹر نقوی سے استدعا ہے کہ و ہ اس بارے میں اگر کچھ کرسکیں۔