دیرآید۔ درست آید
آج جس دل میں بھی انسانیت کا شعلہ روشن ہے گویا وہ ندیم دھڑکتا ہے۔
احمد ندیم قاسمی صاحب کو ہم سے جدا ہوئے بارہ برس ہو چلے ہیں۔ 2016ء میں ''ندیم صدی'' کے زیرعنوان پاکستان اور پوری اردو دنیا میں ان کی ذات اورفکر وفن کے حوالے سے مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا ، ان کی تقریباً تمام کتابوں کی از سر نو اشاعت عمل میں لائی گئی اور ان کے بارے میں ایک خصوصی ڈاکیومینٹری بھی تیار کی گئی جسے ان کے صد سالہ یوم پیدائش پر سترہ ملکوں میں دکھایا گیا۔
2017ء میں انقرہ یونیورسٹی (ترکی) میں ان کے حوالے سے ایک سہ روزہ عالمی ادبی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا اور کچھ ماہ قبل اسلام آباد کی مشہور سیونتھ اسٹریٹ کو ان کے نام سے معنون کیا گیا ہے۔ ندیم صدی تقریبات کے آخری اور مرکزی پروگرام میں ان کی صاحبزادی ڈاکٹر ناہید قاسمی اور نواسے نیئر حیات قاسمی نے ''فنون'' کا ندیم صدی نمبر نکالنے کا اعلان کیا اور بتایا کہ اس میں قاسمی صاحب کی بعض خودنوشت اور احباب کی ان سے متعلق ایسی تحریریں بھی شامل ہوں گی۔ جنھیں بلاشبہ نوادرات کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔
امید تھی کہ یہ شمارہ ان کی اگلی برسی (10جولائی) یا آیندہ 20نومبر کو ان کی ایک سو ایک ویں سالگرہ تک منظرعام پر آ جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا وجہ اس کی یہ بنی کہ ایسی عہدساز اور بسیار نویس شخصیت کی90 سالہ شاندار زندگی کے پھیلاؤ کو سمیٹنا بوجوہ مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا تھا۔ یہ رسالہ اب یعنی ستمبر2018ء میں دو جلدوں اور 1832صفحات (156+880+796) پر کچھ اس انداز سے شایع ہوا ہے کہ بے اختیار دیر آید درست آید کہنے کو جی چاہتا ہے اس پر کی گئی محنت اور جمع کردہ تحریروں کی تعداد کا اندازہ اس بات سے کر لیجیے کہ اس کے صرف مندرجات کی فہرست ہی 17صفحات پر مشتمل ہے جب کہ اطلاعات کے مطابق ابھی تقریباً اتنا ہی قابل اشاعت مواد مزید موجود تھا۔
قاسمی صاحب نے افسانے' شاعری' کالم نگاری' اور اداریہ نویسی میں جو کمال دکھائے ہیں ان سے تو اردو زبان و ادب سے شغف رکھنے والا ہر قاری کسی نہ کسی حد تک آشنا ہے مگر شائد بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ ان کے خطوط' ڈرامے ' بچوں کے لیے لکھا گیا ادب اور پنجابی کلام بھی معیار اور مقدار دونوں حوالوں سے اپنی جگہ پر ایک بے مثال ادبی سرمایہ ہیں، ان کے موضوعات کی وسعت اور نادر اور نایاب تحریروں کی تعداد بھی حیران کن ہے۔
محترمہ ناہید قاسمی نے اپنے ادارتی مضمون میں یہ بھی بتایا ہے کہ ان نادر و نایاب تحریروں میں بہت سی ایسی ہیں جن کو خود ساری عمر قاسمی صاحب ڈھونڈتے رہے کہ بہت سی چیزیں بار بار کی دفتر' نقل مکانی اور انگہ کے آبائی گھر میں طوفانی بارشوں کی تباہ کاری کے باعث ضایع یا مفقود الخبر ہوگئی تھیں۔ ندیم صدی نمبر کے مشمولات کو جن ضمنی عنوانات کے تحت رکھا گیا ہے ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
1 -حمد و نعت'2- دو نہایت اہم اور یاد گار ملی نغمے'3- ارض وطن'4-مضامین و مقالات' 5-تجزیئے'6- ندیم کی کتابوں سے متعلق کچھ اولین تجزیاتی تبصرے'7-تشکیلی دور کی اہم یاد گار(محمد حسن عسکری کے 33نایاب خطوط مع عکس'8- عکس ندیم'9- ہمہ جہت ندیم (قند مکرر)' 10- خاکے' 11- نذر ندیم (غزلیں)'12- گل پاشی (نظمیں)' 13- ندیم کے دو نہایت اہم کلیدی خطبے' 14- روزن در سے '15- ندیم خزینے'16- نایاب ندیم (عکس و تحریر)' 17- عکس ندیم '18- تاثرات '19- کچھ پیش لفظ (ندیم کی کتب سے)'20- یادداشتیں'21- نوادرات ندیم (عکس)'22- ندیم گفتگو'23- خطوط '24- بچوں کا ندیم' 25-پنجابی دریچہ '26-ندیم صدی تقریبات'27-ندیم کوائف نامہ'28-ندیم صدی نمبر کا انگریزی حصہ۔
اب ان میں حرف اول(احمد ندیم قاسمی) حرف ثانی ۔(منیر حیات قاسمی) اور بین السطور ڈاکٹر ناہید قاسمی کے ساتھ ان یادگار تصاویر کو بھی جمع کرلیجیے جن میں قاسمی صاحب کی زندگی کے مختلف ادوار' اہل خانہ' کمرے اوران کی ذہنی وفکری تربیت کے حوالے سے چند منتخب افراد شامل ہیں تو یہ دستاویز اپنی جگہ پر ایک خاصے کی چیز بن جاتی ہے ۔ قاسمی صاحب کا ادبی کریز دورانیے کے اعتبار سے بھی غالباً پہلی صف میں ہو گا کہ شائد ہی عالمی ادب میں گنتی کے چند بڑے ادیب ایسے ہوں جن کے لکھنے کی عمر 75 برس یا اس کے لگ بھگ ہو۔ میری ان سے پہلی بالمشافہ ملاقات جنوری1966ء میں ہوئی اور ان کی وفات یعنی2006ء تک تقریباً40برس مجھے ان سے رفاقت اور سیکھنے کا موقع ملا ۔
پاکستان کے اندر اور ملک سے باہر بے شمار اسفار میں ان کی ہم سفری رہی اور ہر آنے والے دن میں ان کی شفقت اور میری طرح میرے بے شمار ہم عصروں کی ان سے محبت میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہا کہ ''فنون'' میں لکھنے والوں کی برادری اپنی وسعت' معیار اور اہمیت کے اعتبار سے قیام پاکستان کے بعد بننے والی سب سے نمایاں اور فعال ادبی برادری ہے اور اس اتنی بڑی برادری میں شائد ہی کوئی ایساہو جو دل سے ان کی محبت اور رہنمائی کا معترف اور قائل نہ ہو۔ بلاشبہ ان سب لوگوں نے جلد یا بدیر اپنے فطری جوہر کی بنیاد پر ادب میں نام کمایا تھا لیکن جس طرح سے قاسمی صاحب نے ان کی حوصلہ افزائی کی ان کے رستوں کو آسان بنایا اور ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے بروقت اور مناسب ترین مشورے دیے، اس میں ان کا کوئی ثانی دور دور تک نظر نہیںآتا۔
ان کے نواسے اور فنون کے مدیر منیر حیات قاسمی نے اپنے ''حرف ثانی'' میں ان کی شخصیت اور ادبی خدمات کی طرف جو اشارے کیے ہیں وہ بہت اہم اور قابل توجہ ہیں اور یقینا ان لوگوں اور بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے قاسمی صاحب کا ایک بھرپور تعارف ہیں جن کو انھیں دیکھنے یا ان سے ملنے کا موقع نہیں مل سکا سو آخر میں چند سطریں اس تحریر کے آخری پیراگراف سے۔
''ان کو جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوئے ایک دہائی سے زیادہ مدت بیت چکی ہے۔ مگر ان کی آواز ''انسان عظیم ہے خدایا'' کی گونج آج بھی وادیوں سے پلٹتی ہے اور کائنات کے سروں کو جا چھوتی ہے وہ رہنما مشعل ''فنون'' کی صورت آج بھی روشن ہے جس کے بارے میں وہ خود کہہ گئے تھے کہ ''میں شب کے مسافروں کی خاطر... مشعل نہ ملے تو گھر جلاؤں'' اور نئی نسل سے ان کی مضبوط امیدیں ''امکان پر اس قدر یقین ہے... صحراؤں میں بیج ڈال آؤں'' کے مانند آج کونپلوں کی صورت میں لہلہا رہی ہیں۔
ان کی تعلیمات اور ادبی کاوشیں محض ادب برائے ادب نہیں تھیں بلکہ ضابطہ حیات کا تسلسل ہیں کہ ''میں چھوڑ کر سیدھے راستوں کو... بھٹکی ہوئی نیکیاں کماؤں'' اور ان کا یہ اظہار کہ ''یوں بٹ کے بکھر کے رہ گیا ہوں... ہر شخص میں اپنا عکس پاؤں''۔ آج جس دل میں بھی انسانیت کا شعلہ روشن ہے گویا وہ ندیم دھڑکتا ہے... اس کے تخلیقی ادب کا دنیا کی کسی زبان میں بھی ترجمہ کیا جائے تو انسانیت کااحترام ' اس کے حسن وخیر اور اس کی عظمت ایک ایسا روشن پہلو بن کر نمایاں ہو گی جو احمد ندیم قاسمی کو دنیا بھر کے انسانوں سے منسلک کر دیتی ہے کیونکہ قاسمی صاحب کا مقصد بھی سوچ کی وہ وسعت تھی جس کا پھیلاؤ ہمہ جہت نوعیت کا ہو۔
وہ اعتماد ہے مجھ کو سرشت انساں پر
کسی بھی شہر میں جاؤں' غریب شہر نہیں
2017ء میں انقرہ یونیورسٹی (ترکی) میں ان کے حوالے سے ایک سہ روزہ عالمی ادبی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا اور کچھ ماہ قبل اسلام آباد کی مشہور سیونتھ اسٹریٹ کو ان کے نام سے معنون کیا گیا ہے۔ ندیم صدی تقریبات کے آخری اور مرکزی پروگرام میں ان کی صاحبزادی ڈاکٹر ناہید قاسمی اور نواسے نیئر حیات قاسمی نے ''فنون'' کا ندیم صدی نمبر نکالنے کا اعلان کیا اور بتایا کہ اس میں قاسمی صاحب کی بعض خودنوشت اور احباب کی ان سے متعلق ایسی تحریریں بھی شامل ہوں گی۔ جنھیں بلاشبہ نوادرات کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔
امید تھی کہ یہ شمارہ ان کی اگلی برسی (10جولائی) یا آیندہ 20نومبر کو ان کی ایک سو ایک ویں سالگرہ تک منظرعام پر آ جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا وجہ اس کی یہ بنی کہ ایسی عہدساز اور بسیار نویس شخصیت کی90 سالہ شاندار زندگی کے پھیلاؤ کو سمیٹنا بوجوہ مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا تھا۔ یہ رسالہ اب یعنی ستمبر2018ء میں دو جلدوں اور 1832صفحات (156+880+796) پر کچھ اس انداز سے شایع ہوا ہے کہ بے اختیار دیر آید درست آید کہنے کو جی چاہتا ہے اس پر کی گئی محنت اور جمع کردہ تحریروں کی تعداد کا اندازہ اس بات سے کر لیجیے کہ اس کے صرف مندرجات کی فہرست ہی 17صفحات پر مشتمل ہے جب کہ اطلاعات کے مطابق ابھی تقریباً اتنا ہی قابل اشاعت مواد مزید موجود تھا۔
قاسمی صاحب نے افسانے' شاعری' کالم نگاری' اور اداریہ نویسی میں جو کمال دکھائے ہیں ان سے تو اردو زبان و ادب سے شغف رکھنے والا ہر قاری کسی نہ کسی حد تک آشنا ہے مگر شائد بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ ان کے خطوط' ڈرامے ' بچوں کے لیے لکھا گیا ادب اور پنجابی کلام بھی معیار اور مقدار دونوں حوالوں سے اپنی جگہ پر ایک بے مثال ادبی سرمایہ ہیں، ان کے موضوعات کی وسعت اور نادر اور نایاب تحریروں کی تعداد بھی حیران کن ہے۔
محترمہ ناہید قاسمی نے اپنے ادارتی مضمون میں یہ بھی بتایا ہے کہ ان نادر و نایاب تحریروں میں بہت سی ایسی ہیں جن کو خود ساری عمر قاسمی صاحب ڈھونڈتے رہے کہ بہت سی چیزیں بار بار کی دفتر' نقل مکانی اور انگہ کے آبائی گھر میں طوفانی بارشوں کی تباہ کاری کے باعث ضایع یا مفقود الخبر ہوگئی تھیں۔ ندیم صدی نمبر کے مشمولات کو جن ضمنی عنوانات کے تحت رکھا گیا ہے ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
1 -حمد و نعت'2- دو نہایت اہم اور یاد گار ملی نغمے'3- ارض وطن'4-مضامین و مقالات' 5-تجزیئے'6- ندیم کی کتابوں سے متعلق کچھ اولین تجزیاتی تبصرے'7-تشکیلی دور کی اہم یاد گار(محمد حسن عسکری کے 33نایاب خطوط مع عکس'8- عکس ندیم'9- ہمہ جہت ندیم (قند مکرر)' 10- خاکے' 11- نذر ندیم (غزلیں)'12- گل پاشی (نظمیں)' 13- ندیم کے دو نہایت اہم کلیدی خطبے' 14- روزن در سے '15- ندیم خزینے'16- نایاب ندیم (عکس و تحریر)' 17- عکس ندیم '18- تاثرات '19- کچھ پیش لفظ (ندیم کی کتب سے)'20- یادداشتیں'21- نوادرات ندیم (عکس)'22- ندیم گفتگو'23- خطوط '24- بچوں کا ندیم' 25-پنجابی دریچہ '26-ندیم صدی تقریبات'27-ندیم کوائف نامہ'28-ندیم صدی نمبر کا انگریزی حصہ۔
اب ان میں حرف اول(احمد ندیم قاسمی) حرف ثانی ۔(منیر حیات قاسمی) اور بین السطور ڈاکٹر ناہید قاسمی کے ساتھ ان یادگار تصاویر کو بھی جمع کرلیجیے جن میں قاسمی صاحب کی زندگی کے مختلف ادوار' اہل خانہ' کمرے اوران کی ذہنی وفکری تربیت کے حوالے سے چند منتخب افراد شامل ہیں تو یہ دستاویز اپنی جگہ پر ایک خاصے کی چیز بن جاتی ہے ۔ قاسمی صاحب کا ادبی کریز دورانیے کے اعتبار سے بھی غالباً پہلی صف میں ہو گا کہ شائد ہی عالمی ادب میں گنتی کے چند بڑے ادیب ایسے ہوں جن کے لکھنے کی عمر 75 برس یا اس کے لگ بھگ ہو۔ میری ان سے پہلی بالمشافہ ملاقات جنوری1966ء میں ہوئی اور ان کی وفات یعنی2006ء تک تقریباً40برس مجھے ان سے رفاقت اور سیکھنے کا موقع ملا ۔
پاکستان کے اندر اور ملک سے باہر بے شمار اسفار میں ان کی ہم سفری رہی اور ہر آنے والے دن میں ان کی شفقت اور میری طرح میرے بے شمار ہم عصروں کی ان سے محبت میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہا کہ ''فنون'' میں لکھنے والوں کی برادری اپنی وسعت' معیار اور اہمیت کے اعتبار سے قیام پاکستان کے بعد بننے والی سب سے نمایاں اور فعال ادبی برادری ہے اور اس اتنی بڑی برادری میں شائد ہی کوئی ایساہو جو دل سے ان کی محبت اور رہنمائی کا معترف اور قائل نہ ہو۔ بلاشبہ ان سب لوگوں نے جلد یا بدیر اپنے فطری جوہر کی بنیاد پر ادب میں نام کمایا تھا لیکن جس طرح سے قاسمی صاحب نے ان کی حوصلہ افزائی کی ان کے رستوں کو آسان بنایا اور ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے بروقت اور مناسب ترین مشورے دیے، اس میں ان کا کوئی ثانی دور دور تک نظر نہیںآتا۔
ان کے نواسے اور فنون کے مدیر منیر حیات قاسمی نے اپنے ''حرف ثانی'' میں ان کی شخصیت اور ادبی خدمات کی طرف جو اشارے کیے ہیں وہ بہت اہم اور قابل توجہ ہیں اور یقینا ان لوگوں اور بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے قاسمی صاحب کا ایک بھرپور تعارف ہیں جن کو انھیں دیکھنے یا ان سے ملنے کا موقع نہیں مل سکا سو آخر میں چند سطریں اس تحریر کے آخری پیراگراف سے۔
''ان کو جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوئے ایک دہائی سے زیادہ مدت بیت چکی ہے۔ مگر ان کی آواز ''انسان عظیم ہے خدایا'' کی گونج آج بھی وادیوں سے پلٹتی ہے اور کائنات کے سروں کو جا چھوتی ہے وہ رہنما مشعل ''فنون'' کی صورت آج بھی روشن ہے جس کے بارے میں وہ خود کہہ گئے تھے کہ ''میں شب کے مسافروں کی خاطر... مشعل نہ ملے تو گھر جلاؤں'' اور نئی نسل سے ان کی مضبوط امیدیں ''امکان پر اس قدر یقین ہے... صحراؤں میں بیج ڈال آؤں'' کے مانند آج کونپلوں کی صورت میں لہلہا رہی ہیں۔
ان کی تعلیمات اور ادبی کاوشیں محض ادب برائے ادب نہیں تھیں بلکہ ضابطہ حیات کا تسلسل ہیں کہ ''میں چھوڑ کر سیدھے راستوں کو... بھٹکی ہوئی نیکیاں کماؤں'' اور ان کا یہ اظہار کہ ''یوں بٹ کے بکھر کے رہ گیا ہوں... ہر شخص میں اپنا عکس پاؤں''۔ آج جس دل میں بھی انسانیت کا شعلہ روشن ہے گویا وہ ندیم دھڑکتا ہے... اس کے تخلیقی ادب کا دنیا کی کسی زبان میں بھی ترجمہ کیا جائے تو انسانیت کااحترام ' اس کے حسن وخیر اور اس کی عظمت ایک ایسا روشن پہلو بن کر نمایاں ہو گی جو احمد ندیم قاسمی کو دنیا بھر کے انسانوں سے منسلک کر دیتی ہے کیونکہ قاسمی صاحب کا مقصد بھی سوچ کی وہ وسعت تھی جس کا پھیلاؤ ہمہ جہت نوعیت کا ہو۔
وہ اعتماد ہے مجھ کو سرشت انساں پر
کسی بھی شہر میں جاؤں' غریب شہر نہیں