درد دل سہنے کو دل بھی بڑا چاہیے
انسان کو سب سے پہلے جینے کے لیے ملاوٹ سے پاک غذا اور پانی چاہیے پھر علاج، اس کے بعد رہائش اور تعلیم۔
یہاں اس قول کے برعکس ہے، اگر آپکا دل بڑھ جاتا ہے تو یہ دریا دلی نہیں بلکہ بیماری ہے۔ دریا دلی تو یہ ہوئی کہ پاکستان کے کسی ادارے میں سب کچھ مفت پہلی بار دیکھنے میں آیا اور وہ ہے (NICVD)َ۔ یہاں پہلے 10روپے اور بعدازاں 100 روپے دے کر پرچی بنوانی پڑتی تھی اور دوا مفت ملتی تھی، مگر اب اس ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم قمرکی سربراہی میں ڈاکٹروں اور عملے کی اجتماعی کوششوں کے نتیجے میں سب کچھ مفت ہوگیا ہے یعنی تمام ٹیسٹ، انجیوگرافی، انجیو پلاسٹی، بیٹری والا دل اور دل کا ٹرانس پلانٹ، بائی پاس، دوا سب کچھ مفت کردیا گیا ہے اور سہولت صرف کراچی میں نہیں بلکہ حیدرآباد، سیہون، نواب شاہ، لاڑکانہ، سکھر، خیر پور، مٹھی اور ٹنڈوآدم میں بھی۔ ریکارڈ کے مطابق فروری 2015 ء سے مئی 2018ء تک سندھ کے 9 کارڈیو مراکز میں 17470ابتدائی انجیو پلاسٹی کی گئی ۔
یہ دنیا کا سب سے بڑا ابتدائی پی سی آئی مرکز ہے۔ یہاں مصنوعی دل LVADایمپلانٹ ہوتا ہے یہاں تک کہ زندگی بچانے کے لیے آخری حکمت عملی کے طور پر ڈیوائس بھی لگائی جاتی ہے جسکی قیمت 750000رو پے کی ہے ۔ اندورن سندھ میں اگرکسی اسپتال میں مریض کی داخلے کی گنجائش نہ ہو تو دوسرے اسپتال میں جہاں گنجائش ہے وہاں تک سرکاری ایمبولینس کے ذریعے 90منٹ میں مریض کو پہنچایا جاسکتا ہے
۔کراچی میں ٹریفک جام کی وجہ سے اگر مرکزی اسپتال میں مریض نہیں پہنچ پا رہا ہے تو اسے ہنگامی طور پر چیک اپ کرنے کے لیے سات سینے کے درد کے مراکز قائم کیے گئے ہیں جس میں گلشن چورنگی فلائی اوورکے نیچے، گلبرگ فلائی اوورکے نیچے، ملیر ہالٹ فلا ئی اوورکے نیچے، کے پی ٹی فلائی اوورکے نیچے ، قیوم آباد چورنگی، ناگن چورنگی فلائی اوور، آئی آئی چندریگر روڈ کے نزدیک اور لیاری جنرل اسپتال میں قائم ہیں ۔
یہاں ایک ڈاکٹر ، ایک نرس اور ایک ایمبولینس ہر وقت موجود ہوتی ہے اور اگر مریض کی حالت خطرناک ہو تو اسے ایمبولینس کے ذریعے فوری مرکزی این آئی سی وی ڈی میں لے جایا جا سکتا ہے۔گزشتہ سال 56731 مریض چیسٹ پین مراکز میں آئے جن میں 2986 ہارٹ اٹیک (حملہ قلب) کی وجہ سے آئے جنھیں کارڈیوکرا چی کے مرکزمیں فوری انجیو پلاسٹی کے لیے پہنچایا گیا ۔
اس اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم قمر عالمی شہرت یافتہ سرجن ہیں جن کی کاوشوں اور پی ایم اے کے تعاون سے یہ عظیم کام انجام پا رہا ہے تاہم اسے سبوتاژ کرنے کے لیے بعض تحقیقاتی اداروں کی جانب سے درجنوں افراد کرپشن کے نام پر اسپتال پر چھاپے مارنے، باتھ روم کی چیکنگ ، مریضوں اور ڈاکٹروں کو خوفزدہ اور تردد میں ڈالنے کی روش انتہائی حیرتناک اور انسانیت سوز ہے ۔ پاکستان میں آج تک ایسے مفت اور بھلائی کے کام کسی سرکاری ادارے نے انجام نہیں دیے۔
بجائے اسے سراہنے، حوصلہ افزائی کرنے اور اعزازات سے نوازنے کے ان پر اس طرح کے چھاپے مارے گئے جیسے محبوس شہریوں کی بازیابی کے لیے لاک اپ پر چھاپے مارے جاتے ہیں ۔ تحقیقاتی اداروں کی جانب سے ایسی کارروائی پر شہریوں کا رد عمل فطری ہے۔ مان لیا جائے کہ اگر وہاں کوئی کرپشن ہے تو ڈائریکٹرکو بلوایا جاسکتا ہے یا پھر کوئی افسر کوئی نمایندہ خاموشی سے ڈائریکٹر سے ملاقات کرکے پتہ کرسکتا ہے لیکن اچانک کمانڈو کارروائی کی شکل میں ایک حساس اسپتال کا معائنہ کرنے کے عمل سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اسے وفاق میں شامل کرنے کے لیے اندرون خانہ کوئی سازش ترتیب دی گئی ہے ۔اس تاثر کا مٹانا از حد ضروری ہے۔
دنیا بھر میں انسانوں کو مارنے کے لیے کھربوں ڈالرکے اسلحے کی پیداوارکی جا رہی ہے جب کہ بیماری، علاج معالجے اور صحت پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں بہت کم خرچ کیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں زیادہ تر اسپتال خدمات کی بجائے تجارتی مراکز بنے ہوئے ہیں ۔ دل کے امراض کے علاج کے لیے دو لاکھ سے آ ٹھ لاکھ روپے تک خرچ ہوجاتے ہیں۔
این آئی سی وی ڈی کے اس اسپتال کو مفت چلتا ہوا دیکھ کر تجارتی اسپتال کے مالکان کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے ہیں ، اس لیے کہ ان کا روزانہ لاکھوں روپے کا نقصان ہورہا ہے، اگر حکام کوکرپشن کا شبہ ہے تو سندھ کے وزیراعلیٰ اور ڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم قمر سے رجوع کرتے ۔کوئی خرابی ہے تو سدھاریں لیکن عوام کو انتہائی معقول، بروقت اور مفت سہولت فراہم کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں ۔ ایک محنت کش جس کی کل تنخواہ دس ہزار روپے ہے وہ تین لاکھ روپے دے کرکہاں سے بائی پاس یا انجیوپلاسٹی کروائے گا ۔ جب کہ ہو نا یہ چاہیے کہ اس اسپتال کو مثال بناکر ملک بھر میں امراض قلب کے مفت علاج کے اسپتال قائم کیے جائیں ۔کارڈیو ویسکولر اسپتال غریب پروری کی اپنی ایک شناخت رکھتا ہے۔
کیوبا دنیا کا ایک ایسا سوشلسٹ ملک ہے جہاں دنیا میں سب سے زیادہ صحت کا بجٹ ہوتا ہے۔ 90 ترقی پذیر ملکوں میں کیوبا کے 36 ہزار ڈاکٹرز خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہاں کا صحت کا بجٹ گیارہ فیصد ہے۔ایڈز اورکینسر ناپید ہیں۔ کیوبا کے وزیر صحت نے تو امریکا اور برطانیہ کو پیشکش کی تھی کہ وہ کیوبا سے اگر علاج کے لیے اپیل کریں تو ان امراض کے لیے کیوبا کے ڈاکٹرز مفت علاج کر نے کے لیے تیار ہیں۔
پاکستان میں 2005ء میں کشمیر اور خیبر پختون خوا کے کچھ علاقوں میں زلزلے آئے تھے توکیوبا کے 2600 ڈاکٹرز نے زلزلہ زدگان کا علاج کیا تھا۔ انھوں نے 11 لاکھ مریضوں کا علاج کیا تھا 34 عارضی اسپتال قائم کیے اور 1000طلبہ کو میڈیکل کی تعلیم دینے کے لیے کیوبا ہوانا لے گئے۔کئی برسوں تک پاکستان سے 500طلبہ ہر سال کیوبا ڈاکٹری پڑھنے جاتے رہے پھر بیچ میں نہ جانے کیا ہوا۔
بہرحال بات ہو رہی تھی دل کے اسپتال کی۔ کارڈیو میں پہلے مریضوں کو ایک بجے تک دوا دی جاتی تھی مگر اب صبح 9بجے سے شام 5 بجے تک دی جاتی ہے، ہفتے کے روز بھی ۔ ایک ہفتے سے لے کر تین ماہ تک کی دوا ایک ساتھ دی جاتی ہے۔ اب ایسے اسپتال بلوچستان ، خیبر پختون خوا اور پنجاب میں بھی قائم کرنے کی ضرورت ہے بلکہ تمام شعبوں کے اسپتال، ہر علاقے ، شہر، محلے میں مفت، معقول اور بروقت علاج کے لیے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
انسان کو سب سے پہلے جینے کے لیے ملاوٹ سے پاک غذا اور پانی چاہیے پھر علاج، اس کے بعد رہائش اور تعلیم جب کہ ہمارے ملک اور عالمی سرمایہ داری میں سب سے زیادہ اسلحے کی پیداوار اور تجارت ہو رہی ہے جو انسان کو قتل توکرسکتی ہے مگر بچا نہیں سکتی کرپشن کے خلاف مہم اور شفاف تحقیقات ضروری ہے مگر جہاں تسکین قلب وجاں کے لیے مریض زیر علاج ہیں انھیں کسی ہراسمنٹ کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔تحقیقات بے شک جاری رکھیں۔