سائنس نے 100 سال میں دنیا کیسے بدل دی

ہر ضرورت پوری کرنے میں سائنس نے انسان کی ہمیشہ مدد کی۔


مالک خان سیال September 27, 2018
ہر ضرورت پوری کرنے میں سائنس نے انسان کی ہمیشہ مدد کی۔ فوٹو: فائل

کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور انسان نے اس کرہ ارض پر جنم لینے کے بعد اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اسی زمین پر مختلف ایجادات کی ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ حضرت انسان نے جس چیز کی ضرورت محسوس کی وہ اسے حاصل ہوئی اور اس حصول کے لئے ہردور میں سائنس نے انسان کی مدد کی۔ سائنس انسانی ذہن کی تحقیق و جستجو کا نام ہے۔

بنیادی طور پر تو سائنس ایک منظم طریق کار کے تحت کسی بات کو جاننے یا اس کا علم حاصل کرنے کو کہا جاتا ہے، مزید برآں یہ کہ موجودہ معلومات کی بنیاد پر حقائق کو پرکھنا اور حاصل کردہ معلومات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے منطق بندی کرنا سائنس کہلاتا ہے۔ انسانی ذہن اپنی ضرورت کے مطابق سوچ کا دائرہ پھیلاتا ہے اور چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے تدبیریں سوچتا ہے اور آخر کار مختلف طریقے اپنا کر اپنی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔

کرہ ارض پر پیدا ہوتے ہی انسان نے اپنی بقا کو پیش نظر رکھا۔ اس نے اپنے آپ کوآسمانی اور زمینی آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے۔ جب ننگا تھا تو تن ڈھانپنے کے لیے اس نے مختلف تدابیر اختیار کیں۔

درختوں کے پتوں تک کا استعمال کیا لیکن گرمی اور سردی کا احساس ختم نہ ہوا۔ اب اس کا ذہن شکار کیے گئے جانوروں کی طرف گیا تو اس نے اپنے جسم کو چھپانے کے لیے ان کی کھالوں کا استعمال کیا۔

رفتہ رفتہ لباس کے معاملہ میں وہ اون، کپاس اور ریشم کا استعمال کرنے لگا۔ آج وہ سائنس کی بدولت گرمی اور سردی کی نسبت سے لباس کا استعمال کرتا ہے۔ رہائش اور خوراک انسانی زندگی میں بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ انسان نے رہائش کے معاملے میں غاروں سے پختہ مکانات تک کا سفر کیا اور جانوروں کا کچاگوشت کھانے سے لے کر اسے پکا کر لذیز کھانوں تک رسائی حاصل کی۔ یوں انسان کی دور جاہلیت سے جدید دنیا تک کی ترقی کا راز سائنس کی ترقی میں پوشیدہ ہے۔ سائنس کی ترقی نے انسان کو جاہل سے مہذب بنا دیا۔ آج یہ مہذب انسان سائنس کی بدولت تسخیر کائنات کے خواب دیکھ رہا ہے۔

اگر آج کسی طرح سو سال پہلے کا کوئی آدمی معجزاتی طور پر اٹھ کر آجائے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جائے کہ جن مسائل نے انسان کو صدیوں سے پریشان کر رکھا تھا آج کے انسان نے ان کا بڑی حد تک حل تلاش کر لیا ہے۔ اسے اپنی آنکھوں پر اعتبار نہ آئے اور شاید مارے حیرت وہ پھر مر جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ سائنسی دریافتوں نے ایک مختصر دورانیے میں ہمارا تصور کائنات بدل کر رکھ دیا ہے۔

ان سو سالوں میں سائنس میں کئی بڑے لمحے آئے، جیسے ڈی این اے کی ساخت کی دریافت۔ لیکن خود یہ دریافت بھی ڈارون اور مینڈل کی وجہ سے ممکن ہو سکی اور اس نے بعد میں بائیو ٹیکنالوجی کے دروازے کھول دیے۔ آج ہم انسان کے مکمل ڈی این اے (جسے 'جینوم' کہتے ہیں) کا آسانی سے جائزہ لے سکتے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملی ہے کہ جینیاتی بیماریاں کیسے لاحق ہوتی ہیں اور انھیں کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔

حال ہی میں سائنس دانوں نے ایک بچی کے جینز میں تبدیلی لا کر اسے لاحق کینسر کا مرض دور کر دیا۔ آج ہم دنیا کو بڑی حد تک ایک الیکٹرانک سکرین پر دیکھتے ہیں۔ کمپیوٹر مختلف شکلوں میں علم کا ماخذ ہے۔آج کے دور کی ایک انتہائی عام چیز یعنی سمارٹ فون بھی کئی بنیادی دریافتوں کی مرہونِ منت ہے۔ اس کے اندر موجود کمپیوٹر انٹی گریٹڈ چپ کی مدد سے کام کرتا ہے۔

خود انٹی گریٹڈ چپ ٹرانزسٹروں سے بنی ہوتی ہے، جن کی دریافت کوانٹم مکینکس کی تفہیم کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ اس وقت کمپیوٹرز نئی دریافتوں میں مدد دے رہے ہیں جن کی وجہ سے ہمارا دنیا کے بارے میں تصور بدلتا جا رہا ہے۔ اس وقت ہمارے درمیان ایسی مشینیں موجود ہیں جو خود سیکھ سکتی ہیں اور وہ ہماری دنیا کو تبدیل کر رہی ہیں۔

ایجادات اخلاقی طور پر بری ہوتی ہیں نہ اچھی، ہمارا استعمال انھیں اچھا یا برا بنا دیتا ہے۔ ایک دریافت جس نے ہمیں دو حصوں میں تقسیم کر دیا وہ ایٹم کی تقسیم تھی، اس دریافت نے دنیا کے خطرناک ترین ہتھیار ایجاد کرنے کی راہ ہموار کی۔ سائنس خود ہمارے بارے میں اور ہمارے ارد گرد کی دنیا کے بارے میں جاننے کی جستجو کا نام ہے۔

اسی جستجو نے ہمارے دنیا کے بارے میں تصورات بھی بدلے ہیں اور ہماری زندگیوں کو بھی بدل دیا ہے۔ آج ہماری عمریں سو سال پہلے کے لوگوں کے مقابلے پر دگنی ہیں اور معیارِ زندگی بھی پہلے سے کہیں بہتر ہے۔ لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کے استعمال نے صرف سائنس دانوں ہی پر اثر نہیں ڈالا۔ ان کا انحصار ثقافتی، معاشی اور سیاسی عوامل پر ہے۔ سائنس انسانی علم کی فتح ہے، اور اس کی تفہیم اور استعمال سے ہمیں دور رس فیصلے کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں