بظاہر معمولی دکھائی دینے والی علامات

ان علامات کو نظر انداز کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔

ان علامات کو نظر انداز کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

جبڑے، گردن اور بازوؤں پردباؤ یا سختی کا احساس:

آپ کو شاید یقین نہ آئے لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ دل کے دورے کی علامات ہوسکتی ہیں۔ خاص طور پر اگر آپ ایک خاتون ہیں۔ دل کے دورے سے پہلے سینے میں درد کی شکایت ہونا ہی واحد علامت نہیں۔ 55 سال سے کم عمر کی وہ خواتین جو دل کے دورے کا شکار ہوچکی ہوں اکثر و بیشتر دورے سے قبل ان سے بھی کہیں زیادہ معمولی علامات ظاہر ہونے کے تجربے سے گزرتی ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ عام سی علامات عموماً یا تو نظر انداز کردی جاتی ہیں اور یا پھر تشخیص کے دوران ان کی تشریح غلط سمجھی جاتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کئی بار ڈاکٹرز بھی ان کو صحیح طرح نہیں سمجھ پاتے جس کی وجہ سے اپنے ہم عمر مردوں کی نسبت زیادہ تر خواتین موت کے خطرے سے دوچار ہوجاتی ہیں۔ اس لیے عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ ان علامات کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے۔

پاؤں میں صرف ایک طرفاٹھنے والا درد:

ہوسکتا ہے کہ ایسا درد محض پٹھے کے کھچاؤ کا نتیجہ ہو تاہم اگر متاثرہ حصہ گرم محسوس ہو اور اس میں سوجن بھی ہو اور پاؤں اوپر اٹھانے پر یہ علامات مزید شدت اختیار کرجائیں تو آپ ہوشیار ہوجائیں کیونکہ یہ ایک جان لیوا مرض کی علامت بھی ہوسکتی ہے۔ جسے 'ڈیپ وین تھرومبوسیس' (Deep Vein Thrombosis) کہتے ہیں۔

اس کی وجہ پاؤں کے نچلے حصے یا ران کی اندرونی رگ میں خون کے ایک لوتھڑے کا پیدا ہوجانا ہے جو قابل علاج تو ہے لیکن اگر اس لوتھڑے کا بروقت پتہ نہ چلے اور یہ ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر پھیپھڑوں میں پہنچ جائے تو مہلک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ اس بیماری کی حالت میں لمبے فضائی سفر سے گریز کرنا چاہیے۔ نیز کسی آپریشن یا بیماری کے بعد آرام کی نسبت سے بیٹھے رہنے، مانع حمل گولیوں کا استعمال یا 'ہارمون ریپلیسمنٹ تھراپی' (Hormone Replacement Theropy) وغیرہ سے پرہیز لازم ہے۔

آنکھوں میں روشنی کے جھماکے ہونا یا آنکھوں کے سامنے ہیولے تیرنا:

کبھی کبھار آنکھوں کے سامنے روشنی کے جھماکے ہونا یا بے معنی سی شبہیوں کا ناچنا پریشانی کی بات نہیں۔ ہاورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق عام طور پر اپنی زندگی کی چھٹی دہائی کو پہنچنے والے ایک چوتھائی لوگوں کو یہ مسئلہ درپیش آتا ہے جبکہ 80 برس کی عمر کو پہنچنے والے دو تہائی بزرگ اس پریشانی کا سامنا کرتے ہیں یا پھر جن لوگوں کی دور کی نظر کمزور ہو یا وہ لوگ جو ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہوں تو ان میں یہ مسئلہ عام ہوتا ہے۔

تاہم اگر یہ علامات اچانک ظہور پذیر ہوں اور ان میں مسلسل اضافہ بھی ہورہا ہو تو فوراً کسی ماہر امراض چشم سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ یہ آنکھ کے پردۂ بصارت کے پھٹنے کا اشارہ ہوسکتا ہے، جو بعدازاں اس پردے کے آنکھ سے بالکل جدا ہونے اور بصارت سے مستقل محرومی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس مرض کی ابتداء ہی میں تشخیص اور علاج، جو عموماً لیزر شعاعوں اور 'کرایو تھراپی' (Cryotherapy) کے ذریعے کہا جاتا ہے، سے اندھے پن سے بچاؤ مشکل نہیں۔ قارئین کی معلومات کے لیے بتاتے چلیں کہ ''کرایو تھراپی'' میں مشینوں کے ذریعے پیدا کی جانے والی بے تحاشہ ٹھنڈ کو استعمال کرکے پردۂ بصارت کو آنکھ کے ساتھ دوبارہ منسلک کردیا جاتا ہے۔

مسلسل رہنے والا سر کا درد:

ویسے تو سردرد ہوجانا اتنا کوئی اہم مسئلہ نہیں اور اس میں خطرے والی بھی کوئی بات نہیں ہوتی کیونکہ یہ نظر کی کمزوری کا شاخسانہ بھی ہوسکتا، جس سے آنکھیں ٹیسٹ کرواکے اور عینک لگا کر بچا جاسکتا ہے اور یا پھر اس سردرد کی وجہ کسی قسم کی الرجی بھی ہوسکتی ہے جسے کسی بھی اچھی الرجی کش دوا سے دور ہوسکتا ہے۔ تاہم سر میں رہنے والا مستقل درد کسی اور مرض کی علامت بھی ہوسکتا ہے۔


جس میں سب سے عام مرض دائمی الرجی یا کھوپڑی کی ہڈیوں میں آنکھوں کے اوپر اور نیچے واقع خلاوؤں، جنہیں 'سینوسس' (Sinuses) کہتے ہیں، میں فاسد مادے کا جم جانا جیسے عوامل شامل ہیں۔ ماہر امراض سروگردن کا کہنا ہے کہ سر میں مسلسل رہنے والا درد دماغ میں رسولی اور دماغی دورے جیسے خطرناک اور پیچیدہ امراض کی علامت بھی ہوسکتا ہے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فرق کیسے کیا جائے کہ یہ درد عام ہے یا کسی خاص مرض کا اشارہ ؟ تو اس کا حل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے یعنی پہلے قدم کے طور پر نظریں ٹیسٹ کروائی جائیں اور اگر الرجی کا معاملہ ہو تو اس کی ادویات استعمال کی جائیں۔

اس کے باوجود اگر سردرد ٹھیک نہ ہو تو پھر جلد از جلد کسی مستند ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے تاکہ مرض کی صحیح تشخیص ہوسکے۔ سر میں مسلسل درد کے ساتھ اگر متلی کی کیفیت بھی ہوتی ہو، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھایا رہتا ہو، دست لگے رہتے ہوں، کمزوری محسوس ہوتی ہو، چکر آتے ہوں، معدے میں گیس کی شکایت بھی ہو اور بے ربط گفتگو یا ہکلاہٹ و لکنت وغیرہ کا مسئلہ بھی ہو تو یہ تشویش ناک علامتیں ہیں اور آپ کی فوری توجہ کی متقاضی ہیں۔

پیشاب کی زیادتی:

اس بات کا پیمانہ کیا ہے کہ آپ پیشاب کی زیادتی کا شکار ہیں ؟ ماہرین کے نزدیک 24 گھنٹوں میں 2 لیٹرز مائع (پانی یا جوس وغیرہ) پینے کے بعد اگر سات مرتبہ سے زیادہ پیشاب کی حاجت محسوس ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو معمول سے زیادہ پیشاب آرہا ہے لیکن کسی ڈاکٹر کے پاس جانے سے قبل بہتر ہے کہ آپ ''کیفین'' اور ''الکوحل'' کے اجزاء والے مشروبات کا استعمال کم یا ترک کرکے دیکھیں۔ پھر بھی اگر پیشاب معمول سے زیادہ آرہا ہو تو اب یقینا ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس صورت میں یہ ذیابیطس، پیشاب کی نالی کی انفیکشن اور سوزش، گردے کے مسائل، مثانے کے غدود پر دباؤ اور ان کا بڑھنا (پروسٹیٹ) وغیرہ جسے امراض کی نشانی ہوسکتا ہے۔

فلو کی علامات کے ساتھ ساتھ گردن کا اکڑنا:

نزلہ زکام کے دوران سر میں درد یا گردن کے پٹھوں میں اکڑو معمول کی بات ہے لیکن اگر گردن میں درد شدید ہو اور ٹھوڑی سے لے کر سینے تک کے حصے کو چھونے سے بھی تکلیف ہوتی ہو تو پھر ڈاکٹر سے فوری ملنا بنتا ہے۔ ہمارے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی جیسے اہم ترین اعضاء کی حفاظت کے لیے قدرت نے انہیں ایک جھلی میں لپیٹ کر محفوظ کیا ہوا ہے۔

کیونکہ ان سے منسلک اعصابی ریشوں کے رابطے کے ذریعے ہی ہمارا سارا جسم کام کرتا ہے۔ اس جھلی میں اگر مضر جراثیم پیدا ہو کر اسے نقصان پہنچائیں تو اس کے نتیجے میں موت واقع ہو جانے کا واضح امکان ہوتا ہے۔ اس کو گردن توڑ بخار کہتے ہیں اور کئی بار اس میں چند ہی گھنٹوں میں موت واقع ہوجاتی ہے۔ اس کی دیگر علامات میں روشنی سے حساسیت کا بڑھ جانا اور جلد پر دھپڑوں کا پڑجانا شامل ہیں۔ جلد پر دھپڑوں کے نمودار ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مرض بہت بڑھ چکا ہے اور اس حالت میں عام طور پر علاج کارگر نہیں ہوتا۔

تلوں میں کھجلی اور خون کا رساؤ:

ہمارا جسم ایک حیرت کدہ ہے جو تلوں، ڈمپلز اور دیگر خوبصورتیوں سے مزین ہے۔ تل اکثر جہاں شخصیت کی دلکشی باعث ہوتے ہیں وہیں کئی بار جسم میں رونما ہونے والی کسی خرابی کی خبر بھی دے دیتے ہیں۔

تلوں میں اگر خارش ہوتی ہو اور ازاں بعد خون بھی رسنے لگتا ہو تو یہ 'میلانوما' (Melanoma) نامی جلدی کینسر کی علامت ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ تلوں کے حجم اور رنگ وغیرہ میں تبدیلی اور بے قاعدگی ظاہر ہونے لگے تو یہ خطرے کا الارم ہے۔ ''میلانوما'' چونکہ جلد کے کینسروں میں مبتلا لوگوں میں سے صرف ایک فیصد افراد میں پایا جاتا ہے اسی لیے یہ زیادہ تر جان لیوا ہی ثابت ہوتا ہے۔
Load Next Story