بیوروکریسی میں اصلاحات اور چیلنجز
میرٹ پر سختی سے عمل درآمد کرتے ہوئے پیشہ ورانہ،لسانی اور آئی ٹی کی مہارت کے اعتبار سے انتخاب اس جانب پہلا قدم ہوگا۔
کسی بھی انتظامی محکمے کا بنیادی ہدف ہر سطح پر بہترین طرز حکمرانی کا نفاذ ہوتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ برسوں یہ شعبہ جتھہ بندی اور نسلی تعصبات سے اس قدر متاثر ہوا کہ اپنی اثر پذیری ہی سے محروم ہو گیا۔ اس کی اصلاح میں ایک اور بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ جن تعلیمی مراحل سے گزر کے اس کے امیدوار سامنے آتے ہیں وہ پورا نظام ہی ناقص ہوچکا ہے۔
کسی ملک کی حکومت میں پالیسی سازی اور اس پر عمل درآمد کے لیے سول سروس کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ حکومت اور منتخب عہدے داران کو تکنیکی اور پیشہ ورانہ رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ بہترین حکومت کاری (گڈگورننس) ایک اہل اور مؤثر سول سروس کے ذریعے ہی ممکن ہے جو عوامی خدمت کا جذبہ رکھتی ہو اور امور مملکت کے لیے ''آہنی شکنجہ'' کا کردار ادا کرے۔ بدقسمتی سے یہ خود حکمران بن بیٹھے اور ان کی خود سری اور مطلق العنانی ملک کے دولخت ہونے کے بنیادی اسباب میں شامل ہے۔
5اگست 2010ء کو اپنے ایک کالم میں لکھا تھا ''1951ء میں لیاقت علی خان کی وفات کے بعد بیوروکریسی سیاہ وسفید کی مالک بن بیٹھی۔ اسکندر مرزا کی قیادت میں بیوروکریسی نے پہلے خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزیر اعظم بننے پر قائل کیا، جس کے بعد ایک بیوروکریٹ غلام محمد نے یہ عہدہ سنبھال لیا اور وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین اس بااختیار گورنر جنرل کے سامنے زیادہ عرصہ ٹک نہیں سکے۔ اس کے بعد بیورو کریسی نے دیگر سروسز کے وہ اختیار بھی ہڑپنا شروع کردیے جو سول سروسز آف پاکستان(سی ایس پی) کے دائرے میں نہیں آتے تھے۔
اس میں مثال کے طور پر کسٹمز، انکم ٹیکس، پولیس، سیکریٹیریٹ گروپ، صنعت و تجارت اور ریلوے کے اختیارات شامل تھے، لیکن سب سے اہم صوبائی سول سروس(پی سی ایس) پر ان کی اجارہ داری تھی۔1954ء میں ''دماغی طور پر نااہل'' غلام محمد کی جگہ اسکندر مرزا نے لی اور گورنر جنرل بن گئے۔ اس کے بعد وزیر اعظم بننے والی سیاسی شخصیات کو کسی نہ کسی بہانے عہدوں سے فارغ کیا جاتا رہا۔ سول سروس کے ان افسران نے انگریزوں سے تقسیم کرو اور حکومت کرو کا گُر اچھی طرح سیکھ رکھا تھا۔''
حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان نے سرکاری افسران سے خطاب میں اگلے دو برسوں تک اپنی ''غیر روایتی'' اصلاحات کے عمل میں تعاون طلب کیا ہے۔ انھوں نے سول بیوروکریسی کے، جہاں تقرریوں میں میرٹ نظر انداز کیا جاتا ہے، کاموں میں سیاسی مداخلت کے خاتمے کی یقین دہانی کروائی۔ وزیر اعظم نے وعدہ کیا کہ وہ فرض شناس اور کام کرنے والے افسران کے ساتھ کھڑے ہوں گے، کیوں کہ ہماری بیوروکریسی جو کبھی ایشیا میں ہمارا فخر ہوتی تھی، اسے عالمی معیار تک لانے کے لیے ایسی کارکردگی درکار ہے۔
9ستمبر 2010ء میں اپنے ایک کالم میں لکھا تھا:''وفاقی سطح پر تبدیلی کے بعد، 1973ء میں سول سروس آف پاکستان اور پولیس سروس آف پاکستان (پی ایس پی) کے ارکان اپنے عہدوں کے ساتھ آل پاکستان یونیفائڈ گریڈ میں شامل ہوگئے۔
سینٹرل سپیرئیر سروسز(سی ایس ایس)کے تمام گروپ (مثلاً پوسٹل، ریلوے، انکم ٹیکس ، وغیرہ) جو ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ(ڈی ایم جی) کا حصہ نہیں تھے انھیں نوازنے کے لیے ''گریڈ'' کو ''گروپ'' میں تبدیل کردیا گیا۔ بدقسمتی یہ رہی کہ حقیقی معنوں میں نچلی سطح پر حکومتی نظم و نسق کو سنبھالنے والی صوبائی سول سروس(پی سی ایس) اور صوبائی پولیس سروس(پی پی ایس) کو اے پی یو جی سے باہر رکھا گیا۔ ڈی ایم جی ترقی اور تعیناتیوں کے حوالے سے انتہائی بااختیار ہوگیا۔ پی ایس پی افسران نے پی پی ایس افسروں کے ساتھ امتیازی سلوک کی انتہا کردی، قابل افسران کو یا تو عضوئے معطل بنادیا گیا یا وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے دنوں تک معمول کی ترقی ہی کے منتظر رہے۔ سینیئر پی پی ایس افسران کو میرٹ یا تجربہ نہ رکھنے والے جونیئر پی ایس پی افسران کے ماتحت کام کرنا پڑا۔''
ہزاروں صوبائی سرکاری ملازمین پر ڈی ایم جی کا تسلط قائم ہوگیاجس نے ببانگ دہل آئین و قانون کے مطابق حاصل انھیں ملازمت کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کے جرم کا ارتکاب کیا۔ پی سی ایس اور پی پی ایس افسران پر ڈی ایم جی کا خوف منڈلاتا رہتا ہے، وہ ان کی خواہشات کے خلاف ایک قدم نہیں اٹھا سکتے، یہ حقیقت برسر اقتدار آنے والی کسی حکومت کی نظر سے پوشیدہ نہیں، اس کے باوجود یہ تماشا جاری ہے۔''
حال ہی میں سول سروسز میں اصلاحات کے لیے وزیر اعظم نے اٹھارہ ارکان اور ایک سیکریٹری پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے۔ ان میں سے دس ارکان نامزد کیے جاچکے، آٹھ کو عہدے کے اعتبار سے شامل کیا جائے گا جب کہ سیکریٹری ابھی مقرر نہیں کیا گیا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مقرر کردہ آٹھ کے آٹھ افسران پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس(پی اے ایس) سے لیے جائیں گے جب کہ ان کے علاوہ جن کے نام دیے گئے ہیں وہ آئی سی ایس یا ڈی ایم جی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ طبقہ جس کے خیال میں پی اے ایس اپنے اختیارات کے تحفظ میں زیادہ دل چسپی رکھتا ہے، اس تشکیل میں اس کی جانب سے مزاحمت مخالفت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ کیا یہ صاحبان سول سروس میں ایسی اصلاحات لانے کا عزم رکھتے ہوں گے جن کے نتیجے میں ان کے اپنے رفقائے کار کے اختیارات اور اجارہ داری متاثر ہو؟
تقریباً 800ڈی ایم جی اور 1750پی ایس پی افسران میں سے 85سے 90فیصد انتہائی دیانتدار اور مخلص ہیں، ناقابل برداشت حد تک مغرور افسر دس سے پندرہ فیصد ہی ہوں گے۔ یہ اس قدر طاقتور ہیں کہ کسی قاعدے قانون کی پروا کیے بغیر اپنے عہدوں پر قائم ہیں۔ ہمارے ہاں کئی بار پبلک سروس کے شعبے میں اصلاحات کا آغاز کیا گیا لیکن اس کا نتیجہ محدود کامیابیوں کی صورت ہی میں نکلا۔ تاریخی اعتبار سے، پبلک سروس نوآبادیاتی ورثہ ہے۔ کسی بھی انتظامی محکمے کا بنیادی ہدف ہر سطح پر بہترین طرز حکمرانی کا نفاذ ہوتا ہے۔
بد قسمتی یہ ہے کہ برسوں یہ شعبہ جتھہ بندی اور نسلی تعصبات سے اس قدر متاثر ہوا ہے کہ اپنی اثر پذیری ہی سے محروم ہوچکا۔ سرکاری ملازمتوں کے لیے ہونے والے امتحانات کے نظام کی کمزوریاں دور کرکے اسے مزید جامع بنانے کی ضرورت ہے۔ میرٹ پر سختی سے عمل درآمد کرتے ہوئے پیشہ ورانہ،لسانی اور آئی ٹی کی مہارت کے اعتبار سے انتخاب اس جانب پہلا قدم ہوگا۔ اس کے بعد بھرتی ہونے والے امیدواروں کی اہلیت میں اضافے کے لیے انھیں دوران ملازمت ایسے وسائل فراہم کیے جائیں جو نسلی، سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر پیدا ہونے والے تعصبات سے پیدا ہونے والے چیلنجز کے مقابلے میں ان کے مددگار ثابت ہوں۔
نظم و ضبط، دیانت داری، قومی افتخار، فرض شناسی اور وقت کے ساتھ سیکھنے کی اقدار کو فروغ دینا چاہے، پبلک سروس کے لیے منتخب ہونے والے امیدوار سماج کا حصہ ہیں۔ ان کی کارکردگی اور تعلیم میں بہتری کا عمل ساتھ ساتھ چلنا چاہیے۔
تحریک انصاف کی حکومت بیوروکریسی کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کروانے کے لیے جس جنگ کا آغاز کرنا چاہتی ہے، اس کی کام یابی میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ پروونشل مینجمنٹ گروپ(پی ایم ایس) کے افسران پہلے ہی احتجاج درج کرواچکے ہیں کہ ٹاسک فورس میں ان کا ایک افسر بھی شامل نہیں کیا گیا، جب کہ ان افسران کی مجموعی تعداد 4000کے قریب ہے اور پورے ملک میں یہ نظام حکومت کے سب سے بڑے شراکت دار ہیں، ان کی ذمے داریوں میں صوبائی سے لے کر نچلی سطح تک کے امور چلانا شامل ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ہر صوبے سے کم از کم دو پی ایم ایس افسران اس ٹاسک فورس میں شامل کیے جائیں۔ وزیر اعظم کی ٹاسک فورس میں دونوں سروس گروپوں کی نمایندگی لازمی ہونی چاہیے، متناسب نمایندگی کے ذریعے ہی شفاف طرز حکمرانی کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔
اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ ڈی ایم جی افسران کی غالب اکثریت دیانتدار اور باصلاحیت ہے اور یہ پوری تندہی اور وفاداری کے ساتھ ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)