نواز شریف سے بریک تھرو کی امیدیں

مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف تیسری بار ملک کے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔

مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف تیسری بار ملک کے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ فوٹو: این این آئی

KARACHI:
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف تیسری بار ملک کے وزیراعظم منتخب ہوگئے ۔ ملکی سیاسی تاریخ میں وہ اس منصب جلیلہ تک پہنچنے والے پہلے سیاسی رہنما ہیں جن کی جیت اب ان کے لیے ایک بڑی آزمائش اور اعصاب شکن چیلنج بھی ہے۔ نواز شریف نے 342 کے ایوان میں 244 ووٹ حاصل کیے جب کہ پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم امین فہیم اور پاکستان تحریک انصاف کے جاوید ہاشمی کو بالترتیب 42 اور31 ووٹ ملے۔

نوازشریف اس سے قبل 1990ء کے عام انتخابات میں پہلی بار وزیراعظم منتخب ہوئے تاہم وہ اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہ کرسکے تھے انھیں اس وقت کے صدرغلام اسحاق خان نے ان کے عہدے سے فارغ کردیا تھا۔ 1997ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کو دوتہائی اکثریت سے کامیابی ملی،جس کے نتیجے میں نوازشریف دوسری بار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے تاہم اکتوبر 1999ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت ختم کردی گئی ۔ قومی نفسیات میں یہ احساس آج بھی موجود ہے کہ آمریت نے جمہوریت کا وحشیانہ انداز میں تعاقب کیا جب کہ ملکی تاریخ میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی چار حکومتوں کو یکے بعد دیگرے کوچہ جمہوریت سے بزور قوت نکالا گیا۔ جمہوری نظام کو لگنے والے یہ وہ کاری زخم تھے جن کے اثرات و مضمرات نے ملکی سیاست کودو نیم کردیا۔

مگر حالیہ انتخابات قوم کی تقدیر بدلنے کا وسیلہ بن گئے اور سلطانی جمہور نے ووٹوں کی طاقت سے جمہوری نظام کے استحکام اور ملکی ترقی کے لیے نواز شریف پر ایک بار پھر اعتماد کیا ہے ۔اب وقت بتائے گا کہ قوم خود انحصاری، خود مختاری ، اقتصادی استحکام اور عوامی خوشحالی کی منزل تک کب پہنچے گی ۔تاہم ایک طرف عوامی توقعات اور امیدوں کا امڈتا سمندر ہے تو دوسری جانب نئے وزیراعظم کو کرپشن کے خاتمے، دہشت گردی اور ڈرون حملوں کی روک تھام، ملکی معیشت کے استحکام ،توانائی کے بحران اور جنوب مشرقی ایشیا میں امن وسلامتی کے قیام اور فروغ کے صبر آزما چیلنجز درپیش ہیں۔ نواز شریف کو ان تمام مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے پاک بھارت تعلقات اور خطے میں امن و ترقی اور خیر سگالی کی فضا قائم کرنے کی کوششوں میں مسئلہ کشمیر کوآیندہ مذاکرات کے ایجنڈے میں سر فہرست رکھنا چاہیے۔

وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے جن کی دعوت پر سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری باجپائی 11فروری 1999ء کو واہگہ کے راستے پاکستان آئے، نئی دہلی اور لاہور کے درمیان بس سروس شروع ہوئی۔21 فروری 1999ء کو لاہور ڈیکلریشن جاری ہوا جس میں مسئلہ کشمیر سمیت دوطرفہ تعلقات اور دیگر ایٹمی امور اور خطے میں سلامتی اور جنگ و اسلحہ کی دوڑ محدود کرنے کی سمت اہم پیش رفت ہوئی ، اور قریب تھا کہ مسئلہ کشمیر کا آگے چل کرکوئی دو طرفہ حل نکل آتا کہ شومیٔ قسمت سے ایک آمر کی مہم جوئی اور منتخب حکومت کی برطرفی نے سارا معاملہ تلپٹ کردیا اور پاک بھارت جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ۔اب وقت آگیا ہے کہ نئی حکومت زمینی حقائق کو سامنے رکھے۔


پاک بھارت تعلقات میں اعتماد، ٹھہرائو، بردباری، بہتر ہمسائیگی اور مختلف شعبوں میں باہمی اشتراک کے امکانات ضرور تلاش کیے جانے چاہئیں تاہم کور ایشو مسئلہ کشمیر ہے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ بھارت میں بھی اب زمینی حقائق کے گہرے ادراک کی نشاندہی ان کے اپنے دانشور اور سیاست دان کرنے لگے ہیں ۔بھارتی رکن پارلیمنٹ مانی شنکر نے کہا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے حوالے سے رویہ تبدیل کرنا ہوگا، پاکستان کے بھارت مخالف رویے میں تبدیلی آئی ہے،امید ہے نوازشریف کے دورحکومت میں پاک بھارت تعلقات میں بہتری آئے گی، پاکستانیوں کوشدت پسندی اوردہشت گردی سے بہت نقصان ہوا، بھارت کو پاکستان کے ساتھ بلا رکاوٹ مذاکرات جاری رکھنے چاہئیں۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کے بھارت مخالف روایتی رویے کی شدت میں کمی آ رہی ہے،بھارت کو بھی اپنا رویہ بدلنا ہوگا، پاکستان کی نوجوان نسل میں بھارت مخالف رویے کی شدت کم ہوئی ہے،وقت کے ساتھ ساتھ اس شدت میں مزیدکمی آئے گی مگربھارت میں یہ چیزنظر نہیں آرہی،نوازشریف کے گزشتہ2 ادوارمیں پاک بھارت تعلقات اتنے اچھے نہیں رہے تاہم موجودہ دورمیں دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی توقع ہے ۔ادھر پاکستانی ہائی کمیشن کے فرسٹ سیکریٹری تجارت ضرغام رضا پر نامعلوم افرادکے تشدد پر پاکستان نے بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنرکودفتر خارجہ طلب کر کے شدید احتجاج کیا ہے۔دفتر خارجہ نے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کر کے حکومت پاکستان کوآگاہ کیاجائے۔

بھارتی سیکریٹری خارجہ رنجن متھائی نے پاکستانی ہم منصب جلیل عباس جیلانی کو ٹیلی فون کرکے پاکستانی سفارتکار کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر معذرت کی ہے اور یقین دہانی کرائی ہے کہ بھارتی حکومت اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرا کے ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔بھارتی میڈیا نے روایتی تنگ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستانی سفارتکار پرحملے میں ملوث افراد کوبیگناہ قرار دے دیا۔ بھارتی خارجہ پالیسی کونسل نے پاکستان اور بھارت کو مشورہ دیا ہے کہ دونوں ممالک کشمیر سے فوجیں ہٹالیں تو مسئلہ کشمیر کا حل نکل سکتا ہے۔خطہ کشمیر پر کئی طاقتوںکی نظریں مرکوز ہیں، بروقت فیصلہ نہ کیا گیا تو یہ طاقتیں کشمیری عوام کو غلام بنانے کے لیے وارکرسکتی ہیں۔خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر وی پی ویدک نے پاک بھارت تعلقات اور مستقبل کے عنوان سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ بھارت کشمیریوں کوآزادی دینے کے حق میںہے تاہم انھوں نے کہا کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہ کیا گیا جنوبی ایشیاء میں امن کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

ڈاکٹر ویدک نے کہا کہ کشمیر کے تینوں فریق پاکستان،بھارت اورکشمیریوں کو بامقصد بات چیت میں شامل کیا جانا چاہیے اور متفقہ حل سامنے لانا چاہیے۔ ان معروضات کے گہرے مطالعہ کی ضرورت ہے اور دوطرفہ سطح پر پاک بھارت حکام مسئلہ کشمیر سمیت دیگر تصفیہ طلب امور کے ضمن میں بات چیت کا راستہ اپنائیں ۔ کشمیر فلیش پوائنٹ ہے۔ عالمی قوتوں کی دلچسپی کی گیند ان کے مخصوص سامراجی و استعماری مفادات کے گرد گھومتی ہے ، ہمیں ان سے خبردار رہنے کی بھی ضرورت ہے ۔ کشمیریوں کو حق رائے دہی دلانے کے لیے پاکستان نے ہر فورم پر اصولی موقف اختیار کیا ہے جب کہ نواز شریف پر قوم نے اعتماد پہلے بھی کیا تھا اور اب بھی مسئلہ کشمیر کے حل میں بریک تھرو کرنے کی صلاحیت نواز شریف کے پاس ہے۔12 مئی2013 کی اشاعت میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف کا انتخابات میں اچھا نتیجہ ہے۔

وہ اس پوزیشن میں ہیں ڈھیر ساری سیاسی جماعتوں سے پریشان کن اتحاد کے بجائے بڑی سیاسی قوتوں سے اشتراک کریں،ان کا سفر پر خطر اور دشوار ضرورہے مگر ان کی انتخابی جیت واضح ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک جمہوری عمل اور پارلیمانی تسلسل کے جس خوش آیند راستے پر چل نکلا ہے وہ قوم کے حق رائے دہی کا جمہوری نتیجہ ہے۔ نواز شریف نے جمہوریت کو ترقی اور بقا کا واحد راستہ قرار دیا ہے اس لیے عوام کو دہشت گردی ، مہنگائی، توانائی کے بحران،کرپشن، مایوسی ،اور بے یقینی کی تاریکیوں سے نکالا جائے۔نواز شریف کو 13 برس کی سیاسی تپسیا کے بعد قوم کی رہنمائی کا حق ملا ہے۔وہ پاکستان کی معیشت کی بحالی ،دہشت گردی کی روک تھام اور عالمی طاقتوں سے ملکی مفادات کی روشنی میں سیاسی استحکام ،امن، اقتصادی ترقی اور قومی خوش حالی کے سفر کا آغاز کریں تو عوام کی تقدیر ضرور بدلے گی۔
Load Next Story