تربیتِ اولاد میں باپ کا کردار

’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔‘‘


راحیل گوہر September 28, 2018
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔‘‘ فوٹو؛ فائل

رحمۃ للعالمین، سرورِ کائنات، محسن انسانیت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے، مفہوم: '' کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی عطیہ اور تحفہ حسن ادب اور اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا۔'' (جامع ترمذی)

یعنی ایک باپ کا اپنی اولاد کے لیے خواہ وہ بیٹی ہو یا بیٹا، سب سے اعلیٰ اور بیش بہا تحفہ یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت اسلام کے بتائے ہوئے ان خطوط پر کرے جس کے نتیجے میں وہ معاشرے میں اعلیٰ اخلاق اور سیرت و کردار کے اعتبار سے دوسروں کے لیے مثال اور نمونہ بن جائے۔ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، یہ عالم انسانیت کے لیے محبت و اخوت، رحمت، ایثار و قربانی، دکھی انسانیت کی داد رسی اور عدل اجتماعی کا پیام بر بن کے آیا ہے۔

اس حقیقت کو اسلامی معاشرے کے جس فرد نے اچھی طرح سمجھ لیا پھر خواہ وہ کسی بھی مکتبِ فکر اور کسی بھی گروہ سے تعلق رکھتا ہو اگر وہ معاشرے کا ایک ذ مے دار اور فعال شخص ہے تو وہ نہ صرف ذاتی طور بھی اپنے طرزِ عمل کو حسنِ سلوک کا آئینہ بنا کر رکھتا ہے بل کہ اپنے متعلقین اور خاص طور پر اپنی اولاد کی بہتر سے بہتر تربیت کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے۔

قرآنِ حکیم میں ارشاد ِربانی کا مفہوم ہے: '' اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔'' یعنی اس آیہ مبارکہ میں اہل ایمان کو متنبہ کر تے ہوئے ایک اہم ذمے داری کا احساس دلایا گیا ہے کہ اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی اصلاح اور ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کریں تاکہ یہ سب جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں۔

امام زمخشریؒ '' تفسیر کشاف'' میں لکھتے ہیں کہ '' قواانفسکم'' کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو معاصی ترک کر کے اور طاعات بجا لاکر دوزخ کی آگ سے بچاؤ اور اپنے گھر والوں کو بھی اسی طرح آگ سے بچاؤ۔ اور جیسے تم اپنا مؤاخذہ اور محاسبہ کر تے ہو، اسی طرح ان کا بھی مؤاخذہ کیا کرو۔'' بچوں کی اصلاح و تربیت کی ذمے داری اٹھانا والدین پر فرض ہے۔ ان کو اچھے کاموں کا عادی بنانا انتہائی ضروری ہے، اور یہ ہی انبیا ء و مرسلینؑ کا راستہ ہے۔ چناں چہ سیدنا نوح ؑ نے اپنے بیٹے کو ایمان لانے کی دعوت دی اور اسی طرح امام الانبیاء حضرت ابراہیم ؑ نے بھی اپنی اولاد کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی کر نے کی وصیت فرمائی۔

انھی روایات کو قائم رکھتے ہوئے رسول کریم ؐ نے تربیت اولاد کے بنیادی اصول بتائے کہ: ''جب بچہ سات سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اسے نماز کی تلقین کرو اور دس سال کی عمر کے بچوں میں نماز میں سستی دیکھو تو انہیں سرزنش کرو۔''

(سنن ابوداؤد، جامع ترمذی)

اسلام دین فطرت ہے، وہ جب کسی برائی کو روکنا چاہتا ہے تو اس طرف جانے والے راستے پر قدغن لگا دیتا ہے، مثلاً زنا جیسے کبیرہ گناہ سے بچنے کے لیے پردے کا حکم دیا، مخلوط محفلوں پر پابندی عاید کی، فحاشی اور عریانیت کی مذمت کی، کیوں کہ یہی انسان کے لیے زنا کی راہیں ہم وار کر تی ہیں۔ اسی طرح جب ربّ کائنات اپنے بندوں کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے لیے بھی واضح ہدایات دیتا ہے۔ چناں چہ بچے کا وجود رحم مادر میں آنے سے پہلے ہی اس کی شخصیت کو ایک صالح انسان بننے کا سبب پید ا فرما دیا۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: '' جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جانے کا ارادہ کرے تو پہلے بسم اللہ پڑھ کر دعا کرے کہ : اے اللہ ہم دونوں کو شیطان (کے شر) سے محفوظ رکھنا اور ہماری اولاد سے بھی شیطان کو دور رکھیو جو تو ہمیں عطا فرمائے۔'' (ابوداؤد، باب فی جامع النکاح)

نبی رحمت ﷺ کا یہ عمل ایک عظیم مقصد اور حکمت کا حامل ہے۔

امام غزالیؒ اپنے رسالے ''ایھا الولد'' میں رقم طراز ہیں: '' تربیت کا مفہوم اس کاشت کار کے کام سے مشابہت رکھتا ہے جو زمین سے کانٹے نکالتا ہے اور کھیت میں سے ناموزوں گھاس وغیرہ اکھاڑ ڈالتا ہے تاکہ اس کی پیدا وار اچھی ہو اور مکمل طور پر ہو۔''

اپنی اولاد کو پاکیزہ خیالات، تعمیری عادات اطوار، مثبت عقائد و افکار اور صالح سیرت سے آراستہ کرنا مسلمان باپ کی ذمے داری ہے۔ اگرچہ اولاد کی بہتر تعلیم و تربیت میں اس کی ماں کا بھی بہت بڑا کر دار ہوتا ہے۔ ماں کی گود کو تو اولاد کے لیے پہلا مدرسہ قرار دیا گیا ہے، مگر خاندان کے بعض معاملات میں ماں مجبور و بے بس بھی ہوجاتی ہے، کیوں کہ ہمارا معاشرہ بلاشبہ مَردوں کا معاشرہ ہے۔ اکثر معاملات میں حتمی اور آخری فیصلہ مَردوں کا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے عورت کسی حد تک رعایت کی حق دار سمجھی جاتی ہے۔

ایک مؤمن ہونے کے ناتے انسان پر، خواہ معاشرہ میں اس کی سماجی حیثیت کچھ بھی ہو اسے بہ ہر حال نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا بھی اس کی ذمے داری ہے۔ اور جب کہ معاملہ اپنی صلبی اولاد کا ہو، تب تو اس کے لیے راہ فرار ممکن ہی نہیں ہے۔ حافظ ابن القیم ؒ نے باپ کی اس ذمے داری کو بڑے پرزور تاکیدی انداز میں بیان فرمایا : '' اہل علم کہتے ہیں کہ قیامت کے روز والد سے اس کی اولاد کے متعلق باز پرس ہوگی، کیوں کہ جس طرح باپ کا اپنے بیٹے پر حق ہے اسی طرح بیٹے کا بھی اس کے باپ پر حق ہے۔''

رسول کریم ؐ کے ارشاد کا مفہوم : اپنی اولاد کے ساتھ مساوی سلوک کرو۔'' اس سے پتا چلا کہ اولاد کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو حکم والدین کو دیا ہے، وہ اس حکم پر مقدم ہے جس میں اولاد کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا کہا گیا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بچہ شعور و ادراک سے عاری ہوتا ہے، نہ وہ اپنے نفع نقصان کو سمجھتا ہے اور نہ والدین کی عظمت اور ان کے مقام و مرتبے کے بارے میں اسے صحیح آگہی ہوتی ہے۔ اس کا ذہن کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے، اس کی والدین جو کچھ اس پر لکھ دیتے ہیں اسی کے مطابق وہ اپنی زندگی کی راہیں استوار کر لیتا ہے۔

نبی رحمت ﷺ کا ارشاد کا مفہوم ہے: '' ہر بچہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، مجوسی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔'' ( بخاری، ابوداؤد)

گویا ہر پیدا ہونے والا بچہ پیدائشی مسلمان ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس کی شخصیت کی تشکیل و تعمیر کرتے ہیں۔ اور وہ جس رنگ میں چاہیں اسے ڈھال دیتے ہیں۔ یعنی بچے کے بناؤ اور بگاڑ کے معیارات والدین کے اپنے ہاتھوں میں ہوتے ہے۔

ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ والدین کا بچوں کی تعلیم پر جتنا زور ہوتا ہے اور اس معاملے میں وہ جتنی شدید حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس کا چوتھائی بھی بچوں کی بہتر تربیت پر دھیان نہیں ہوتا۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے پیچھے جو مقصدکار فرما ہوتا ہے وہ یہ ہے اس کے ذریعے اولاد کو بہترین ملازمت ملے اور اس کا معیارِ زندگی جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوجائے۔ عصری اور جدید تقاضوں کے مطابق اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلوانا ہرگز کوئی معیوب بات نہیں، کیوں کہ علم جہالت کے اندھیروں کو دور کر کے شعور و آگہی بخشتا ہے۔ زندہ رہنے کا سلیقہ اور مزاج میں ٹھیراؤ اور اعتدال پیدا کرتا ہے۔ ذہنوں کی مثبت نشو و نما اور ثمردار آبیاری کرتا ہے۔ مگر جب تک دین کا شعور انسان کے اندر پیدا نہیں ہوگا اسے ہدایت نصیب نہیں ہوگی۔ اور خالق کائنات کی ہدایت اور راہ نمائی انسان کے ساتھ نہ ہو تو بسا اوقات بڑے سے بڑا علم اس کی بدبختی اور خسارے کا موجب بن جاتا ہے۔ چناں چہ جب محض دنیا ہی پیش نظر ہو اور دین نظروں سے اوجھل رہے تو انسان کی دنیوی کام یابی بھی اس کے لیے آخرت میں وبال جان بن جائے گی۔

ہمارے معاشرے میں اکثریت ایسے والدین کی ہے جو سوچتے ہیں کہ دنیا میں وہ خود جن آسائشوں، مادی لذتوں اور اکل و شرب کی حلاوتوں سے محروم رہے ہیں، ان کا بچہ ان چیزوں سے تہی دست نہ رہ جائے۔ اس دیرینہ خواہش کی تکمیل میں بعض اوقات ان سے اللہ کی نافرمانیاں بھی سرزد ہوتی ہیں اور انسان اپنی حدود سے تجاوز کر جاتا ہے۔ شیطان دنیا کی لذتوں کو انسان کی نظروں میں مزین کرکے دکھا تا ہے۔ یوں انسان اس فانی دنیا کی غلام گردشوں میں ہی بھٹکتا پھر تا ہے۔ جب کہ سچی بات یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں والدین کی سعادت اور نیک بختی یہ ہے کہ وہ اولاد کی مثالی تربیت کریں۔ نبی کریم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے: '' اپنی اولاد کو عزت دو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔'' (سنن ابن ماجہ)

ان حقائق کی روشنی میں والدین کو سوچنا چاہیے کہ جس اولاد کی دنیا بنانے کے لیے وہ اپنی عاقبت برباد کرتے ہیں، روز قیامت وہی اولاد ان کے کسی کام نہ آسکے گی اور ربّ کائنات کے سامنے سوائے ندامت اور ذلت و رسوائی کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں