حقوق و فرائض

ہمیں صرف اپنے حقوق یاد ہیں، اپنے فرائض ہم بُھول چکے ہیں۔


ہمیں صرف اپنے حقوق یاد ہیں، اپنے فرائض ہم بُھول چکے ہیں۔ فوٹو: فائل

معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے، اگر لوگ ایک دوسرے سے شاکی رہنے لگیں تو معاشرے میں بے حسی، ابتری اور ایک دوسرے سے تنائو کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

آج کل ہمارا معاشرہ بھی اسی ابتری کا شکار ہے اور ہر شخص دوسرے سے نالاں نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے حقوق کا تو پتا ہے مگر ہم نے اپنے فرائض بُھلا دیے ہیں۔ ہم برملا یہ تو کہتے ہیں کہ ہمارے حقوق ادا نہیں کیے جاتے لیکن اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے نظر آتے ہیں۔ گھر کی چار دیواری سے لے کر محلے اور پھر ملکی سطح پر ایک خود غرضی اور بے حسی کی فضا مسلط ہے۔ قربانی، ایثار، وفا اور محبت کے اسباق ہم نے فراموش کر دیے ہیں۔

گھر کی چار دیواری میں والدین اولاد سے اور اولاد والدین سے، بہن بھائیوں سے اور بھائی بہنوں سے، بیوی شوہر سے اور شوہر بیوی سے نالاں ہے۔ ہمسائے، ہمسائے سے، رشتے دار رشتے داروں سے، استاد شاگرد سے، شاگر د استاد سے، عوام حکم رانوں سے اور حکم ران عوام سے غرض ہر شخص دوسرے سے بے زار ہے۔ ساتھ رہنا، نہ چاہتے ہوئے بھی تعلق نبھانا محض مجبوری ہے۔ والدین کہتے ہیں اولاد ہماری نافرمانی کرتی ہے ہماری نگہہ داشت نہیں کرتی، ہمارا کہنا نہیں مانتی، ہمارا حق ادا نہیں کرتی، ہم نے اپنی خواہشات کو پس پشت ڈال کر ان کی خواہشات پوری کیں مگر ان کے پاس ہمارے لیے وقت نہیں، انہیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا، معاشرے میں باعزت روزگار کے لیے پیٹ کاٹ کر تعلیم دلائی مگر اب شادی بیاہ جیسے معاملات میں ہمیں چھوڑ کر دوسروں کو اولیت دیتی اور ہماری رائے کی کوئی اہمیت نہیں دیتی۔

اولاد کا کہنا ہے ماں باپ ہم سے محبت نہیں کرتے، ہمیں پیدا کیا اچھی پرورش کی، تعلیم دلائی یہ ان کا فرض تھا مگر ہمارے والدین ہم پر اب ہر وقت احسان جتاتے ہیں، ہم جوان ہوچکے ہیں انہیں اپنی لڑائی جھگڑے سے فرصت نہیں، ماں باپ کی ہر وقت کی لڑائی کی وجہ سے ہمارا گھر آنے کو دل نہیں چاہتا، گھر میں سکون نام کو نہیں، ہمیں اپنی مرضی نہیں کرنے دیتے جب ہم نابالغ تھے تو ان کی ہر بات مانی اب ہم اپنی مرضی سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں مگر ہمیں آزادی میسر نہیں، ہم کوئی کام اپنی مرضی سے نہیں کرسکتے یہاں تک اپنی پسند سے مضمون کا انتخاب بھی نہیں کرسکتے، رشتے داروں اور دوستوں کے سامنے ڈانٹتے ہیں۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ دونوں اپنے حق کی بات تو کرتے ہیں مگر فرائض دونوں بُھول چکے ہیں۔ انسان کو زمانے کے مطابق تبدیل ہونا چاہیے۔ یہ بات بالکل سچ ہے جو کل فیشن تھا وہ آج تبدیل ہو چکا ہے، والدین کا فرض ہے کہ وہ بچوں سے محبت کریں، ان کی اچھی تربیت کریں، انہیں اچھی تعلیم دلائیں، جب وہ بالغ ہوجائیں تو ان کی شادی کرائیں، ان سے دوستانہ سلوک کریں، کچھ ان کی مانیں اور کچھ اپنی منوائیں تاکہ انہیں احساس ہوکہ والدین کے نزدیک ان کی اہمیت ہے۔ کسی کے سامنے انہیں ڈانٹیں نہیں، لڑائی جھگڑا نہ کریں۔ اکثر بچے والدین کی آپس کی ناچاقی سے اور دوسروں کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ سے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اپنے بچوں کو پرسکون ماحول دیں۔

زمانے کی تبدیلی کے مطابق جینے کا حق دیں تاکہ بچے معاشرے کے مفید رکن بن سکیں۔ پرانی روایات جدید دور سے ہم آہنگ کریں تا کہ بچے اسے اپنانے میں عار محسوس نہ کریں۔ برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کریں۔ ایسے والدین جو اپنے فرائض کو اچھی طرح سے سر انجام دیتے ہیں وہی جنّت میں گھر بنانے کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ گالی گلوچ، مار پیٹ اور اپنے فرائض کو درست طریقے سے انجام نہ دینے والے والدین سے جنّت بھی روٹھ جاتی ہے۔ اسی طرح اولاد کا فرض ہے کہ وہ والدین کی خدمت کریں ان کی حکم عدولی نہ کریں اگر کسی بات پر اختلاف ہے تو آرام اور تحمل سے اپنی بات سمجھائیں ان کو وقت دیں اور یہ باور کرائیں کہ والدین ان پر بوجھ نہیں بل کہ والدین کے دم سے ان کے گھر میں برکت ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنے حقوق میں پہلوتہی تو معاف کر دے گا مگر اس انسان کو اُس وقت معافی نہیں جب تک وہ انسان اُسے معاف نہ کرے جس کا اُس نے دل دکھایا ہو۔ ہمیں اپنے فرائض اور حقوق کا دراک ہونا چاہیے تاکہ ہم اسلامی معاشرہ تشکیل دے سکیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں