انٹرنیٹ مجاہدین سے معذرت
انٹرنیٹ مجاہدوں کو میرے جیسے ’’لفافہ صحافیوں‘‘ کا صدر زرداری سے ’’چاپلوسانہ سوالات‘‘ کرتے ہوئے برافروختہ ہوجانا...
LONDON:
میں اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ہاتھ جوڑ کر انٹرنیٹ مجاہدین سے معافی کا طلب گار ہوں کہ صدر آصف علی زرداری کے ساتھ اپنے دوسرے صحافی ساتھیوں سمیت انٹرویو کرتے ہوئے میں انھیں ''اوئے زرداری'' کہہ کر مخاطب نہیں کرسکا۔ نہ ہی میں انھیں کرپشن کہانیوں کے ضمن میں تابڑ توڑ سوالات کرتے ہوئے دیوار کے ساتھ لگاسکا۔ انٹرنیٹ مجاہدوں کو میرے جیسے ''لفافہ صحافیوں'' کا صدر زرداری سے ''چاپلوسانہ سوالات'' کرتے ہوئے برافروختہ ہوجانا سمجھا جاسکتا ہے۔ مگر واقعتا دُکھ اپنے چند بڑے ہی قریبی اور معتبر مانے صحافیوں کے تبصروں پر ہوا۔ مجھے یہ گماں تھا کہ وہ مجھے اچھی طرح جانتے ہوئے اس بات کا بھی کافی علم رکھتے ہیں کہ میں بطور صحافی اپنے کام سے کام رکھتا ہوں۔ انھیں مجھ سے پاکستان کے منتخب صدر کا انٹرویو کرتے ہوئے ایک تھڑے باز کا انداز اختیار کرنے کی امید نہیں کرنا چاہیے تھی۔
میں نے 1975ء سے سوائے کل وقتی صحافت کے اور کچھ نہیں کیا ہے۔ ان 28برسوں میں اپنے کئی ساتھیوں کو اکیلے یا کسی پینل میں بیٹھ کر پاکستان کے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کے انٹرویو کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں 2002ء سے ان کے زوال تک مجھے ان تک رسائی کو سرکاری طورپرناممکن بنادیا گیاتھا۔ اسی پورے عرصے میں صدر زرداری سے نفرت کرنے والے میرے کئی دوست ان سے کافی ''باغیانہ انٹرویو'' کرتے رہے۔ اس کے علاوہ کہانیاں اور بھی ہیں جو اُڑتی اُڑتی میرے کانوں تک بھی پہنچی ہیں۔ لیکن میں اپنے ساتھیوں کا احترام کرنے کی لت میں مبتلا ہوں۔ میرا ایمان ہے کہ خود کو پاکستان کا واحد متقی،ایماندار اور باغی صحافی ثابت کرنے کے چکر میں اپنے دوسرے ساتھیوں کی تضحیک کرتے ہوئے انھیں بے ایمان اور چاپلوس ثابت کرتے ہوئے میرے جی دار ساتھی دراصل اپنے پیشے کی کلی حیثیت کی تذلیل کاباعث بنتے ہیں اور میں اجتماعی رسوائی کے لیے رچائے جانے والے اس کھیل میں حصہ ڈالنے کو ہرگز تیار نہیں ہوںگا۔
11مئی کے انتخابات کے بعد ایوانِ صدر کو بہت سارے صحافی انٹرویوز کے لیے مجبور کررہے تھے۔ میری ٹھوس اطلاع کے مطابق صدر زرداری اس کے لیے بالکل تیار نہ تھے۔ بالآخر اپنے معاونین کے اصرار پر وہ تیار ہوگئے۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ بجائے کسی ایک صحافی کے ساتھ انٹرویو کے وہ مختلف اداروں کے نامزد کردہ لوگوں کے ایک پینل کے ساتھ مختصر گفتگو کریں گے۔ جب اس ضمن میں میرے ادارے کو رجوع کیا گیا تو انھوں نے میرا نام دیا۔ صدر زرداری کی سیاست اور ان کی ذات سے نفرت یا محبت سے قطع نظر میرا ان سے ایک ذاتی تعلق بھی ہے اور میں اس کے بارے میں ہرگز شرمندہ نہیں۔ باہمی عزت اور احترام کے ایسے رشتے میرے نواز شریف، محمود خان اچکزئی اور اسفندیارولی کے ساتھ بھی ہیں۔
شاید یہ بات انٹرنیٹ مجاہدین کے لیے ایک خبر ہو کہ عمران خان بھی ذاتی طورپر میری بڑی قدر کرتے ہیں اور مختلف حوالوں سے میری سخت ترین تنقید کے جواب میں تفصیلی وضاحتیں اور شکوے شکایات کرتے رہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ تھوڑی ضد کرنے کے بعد میں صدر زرداری کے ساتھ ایک Exclusiveانٹرویو بھی کرسکتا تھا۔ مگر میں نے اس کی ہرگز کوشش نہ کی۔ اس کالم میں بارہا لکھ چکا ہوں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے المناک قتل کے بعد سے وہ اپنے قریب ترین لوگوں کی محفل میں بھی کھل کر بات نہیں کرتے۔ کیمرے پر کسی صحافی کو سب کچھ بتادینا تو بہت دور کی بات ہے۔ بہرحال جب وہ صحافیوں کے ایک پینل کو انٹرویو دینے پر تیار ہوگئے تو بلاول ہائوس کراچی پہنچ کر میں نے اصرار کرکے ان سے یہ فیصلہ کروایا کہ ان کا انٹرویو ریکارڈ ہوجانے کے بعد ان کے میڈیا منیجرز اس میں کوئی کانٹ چھانٹ نہیں کروائیں گے۔
وہ کمال مہربانی سے بغیر کسی تامل کے اس بات پر تیار ہوگئے۔ مگر انٹرویو شروع ہونے سے پہلے اور اس کے درمیان بار بار اصرار کرتے رہے کہ وہ یہ انٹرویو صدر پاکستان کی حیثیت میں دے رہے ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ کے طورپر نہیں۔ پیشہ ور صحافی ہوتے ہوئے ہمیں ان سے سوالات کرتے ہوئے اس پہلو کو نظر میں رکھنا ضروری تھا۔ مگر میرا نہیں خیال کہ مختصر وقت میں کوئی ایسا سوال رہ گیا جو اہم معاملات سے متعلق سمجھا جاسکتا ہے۔ پھر بھی آصف علی زرداری کے موجودہ منصب کے حوالے سے ان سے آن کیمرہ جو حدود وقیود ایک صحافی محسوس کرتا انھیںذہن میں رکھتے ہوئے میں نے اپنے تئیں پھر بھی تھوڑی بہت لبرٹی لینے کی بارہا کوشش کی۔ ''اوئے زرداری'' کہہ کر مخاطب کرنے کی جرأت نہ کرسکا۔ اس کے لیے ایک بار پھر معافی کا طلب گار ہوں۔ جب وہ ایوانِ صدر سے گھر لوٹ گئے اور موقعہ ملا تو اپنی اس کوتاہی کی تلافی کرنے کی کوشش کروں گا۔
انٹرنیٹ جہادیوں اور مستند صحافیوں کے غصے اور بے اطمینانی کے باوجود میں یہ عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ اپنے انٹرویو میں صدر زرداری نے کئی اہم پیغامات دیے ہیں۔ وہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شکست دل سے تسلیم کرکے آگے بڑھنا چاہ رہے ہیں۔ امریکا سے ان کے بہت زیادہ شکوے شکایات ہیں جن میں سے اکثر وہ آیندہ طشت ازبام کرتے رہیں گے۔ بجلی کا بحران ان کے دور میں کیوں حل نہ ہوپایا اس کا کچھ جواز ان کے پاس موجود ہے اورپھر Establishmentکا ان کے ساتھ رویہ۔
اس رویے کے حوالے سے ان کا ایک فقرہ بڑا معنی خیز تھا جس میں انھوں نے اشارہ دیا کہ اب جمہوری حکومتوں کو مستحکم یا غیر مستحکم کرنے والی Establishmentماضی کی طرح صرف عسکری قیادت تک محدود نہیں رہی۔ اس میں کچھ اور لوگ اور ادارے بھی شامل ہوگئے ہیں۔ یقینا وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنے چنے ہوئے مرحلے پر ان پہلوئوں کے بارے میں تفصیل سے باتیں کریں گے جن کی طرف انھوں نے اپنے انٹرویو میں اشارے دیے ہیں۔ فی الوقت تو ان کا پیغام صرف یہ تھا کہ وہ 11مئی کے انتخابات کے بعد بالآخر ایوانِ صدر سے نکلنے کے بعد بھی ملکی سیاست میں متحرک رہیں گے۔ ان کے سارے پتے11مئی کے روز شکست کھاکر ختم نہیں ہوئے۔ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔
میں اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ہاتھ جوڑ کر انٹرنیٹ مجاہدین سے معافی کا طلب گار ہوں کہ صدر آصف علی زرداری کے ساتھ اپنے دوسرے صحافی ساتھیوں سمیت انٹرویو کرتے ہوئے میں انھیں ''اوئے زرداری'' کہہ کر مخاطب نہیں کرسکا۔ نہ ہی میں انھیں کرپشن کہانیوں کے ضمن میں تابڑ توڑ سوالات کرتے ہوئے دیوار کے ساتھ لگاسکا۔ انٹرنیٹ مجاہدوں کو میرے جیسے ''لفافہ صحافیوں'' کا صدر زرداری سے ''چاپلوسانہ سوالات'' کرتے ہوئے برافروختہ ہوجانا سمجھا جاسکتا ہے۔ مگر واقعتا دُکھ اپنے چند بڑے ہی قریبی اور معتبر مانے صحافیوں کے تبصروں پر ہوا۔ مجھے یہ گماں تھا کہ وہ مجھے اچھی طرح جانتے ہوئے اس بات کا بھی کافی علم رکھتے ہیں کہ میں بطور صحافی اپنے کام سے کام رکھتا ہوں۔ انھیں مجھ سے پاکستان کے منتخب صدر کا انٹرویو کرتے ہوئے ایک تھڑے باز کا انداز اختیار کرنے کی امید نہیں کرنا چاہیے تھی۔
میں نے 1975ء سے سوائے کل وقتی صحافت کے اور کچھ نہیں کیا ہے۔ ان 28برسوں میں اپنے کئی ساتھیوں کو اکیلے یا کسی پینل میں بیٹھ کر پاکستان کے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کے انٹرویو کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں 2002ء سے ان کے زوال تک مجھے ان تک رسائی کو سرکاری طورپرناممکن بنادیا گیاتھا۔ اسی پورے عرصے میں صدر زرداری سے نفرت کرنے والے میرے کئی دوست ان سے کافی ''باغیانہ انٹرویو'' کرتے رہے۔ اس کے علاوہ کہانیاں اور بھی ہیں جو اُڑتی اُڑتی میرے کانوں تک بھی پہنچی ہیں۔ لیکن میں اپنے ساتھیوں کا احترام کرنے کی لت میں مبتلا ہوں۔ میرا ایمان ہے کہ خود کو پاکستان کا واحد متقی،ایماندار اور باغی صحافی ثابت کرنے کے چکر میں اپنے دوسرے ساتھیوں کی تضحیک کرتے ہوئے انھیں بے ایمان اور چاپلوس ثابت کرتے ہوئے میرے جی دار ساتھی دراصل اپنے پیشے کی کلی حیثیت کی تذلیل کاباعث بنتے ہیں اور میں اجتماعی رسوائی کے لیے رچائے جانے والے اس کھیل میں حصہ ڈالنے کو ہرگز تیار نہیں ہوںگا۔
11مئی کے انتخابات کے بعد ایوانِ صدر کو بہت سارے صحافی انٹرویوز کے لیے مجبور کررہے تھے۔ میری ٹھوس اطلاع کے مطابق صدر زرداری اس کے لیے بالکل تیار نہ تھے۔ بالآخر اپنے معاونین کے اصرار پر وہ تیار ہوگئے۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ بجائے کسی ایک صحافی کے ساتھ انٹرویو کے وہ مختلف اداروں کے نامزد کردہ لوگوں کے ایک پینل کے ساتھ مختصر گفتگو کریں گے۔ جب اس ضمن میں میرے ادارے کو رجوع کیا گیا تو انھوں نے میرا نام دیا۔ صدر زرداری کی سیاست اور ان کی ذات سے نفرت یا محبت سے قطع نظر میرا ان سے ایک ذاتی تعلق بھی ہے اور میں اس کے بارے میں ہرگز شرمندہ نہیں۔ باہمی عزت اور احترام کے ایسے رشتے میرے نواز شریف، محمود خان اچکزئی اور اسفندیارولی کے ساتھ بھی ہیں۔
شاید یہ بات انٹرنیٹ مجاہدین کے لیے ایک خبر ہو کہ عمران خان بھی ذاتی طورپر میری بڑی قدر کرتے ہیں اور مختلف حوالوں سے میری سخت ترین تنقید کے جواب میں تفصیلی وضاحتیں اور شکوے شکایات کرتے رہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ تھوڑی ضد کرنے کے بعد میں صدر زرداری کے ساتھ ایک Exclusiveانٹرویو بھی کرسکتا تھا۔ مگر میں نے اس کی ہرگز کوشش نہ کی۔ اس کالم میں بارہا لکھ چکا ہوں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے المناک قتل کے بعد سے وہ اپنے قریب ترین لوگوں کی محفل میں بھی کھل کر بات نہیں کرتے۔ کیمرے پر کسی صحافی کو سب کچھ بتادینا تو بہت دور کی بات ہے۔ بہرحال جب وہ صحافیوں کے ایک پینل کو انٹرویو دینے پر تیار ہوگئے تو بلاول ہائوس کراچی پہنچ کر میں نے اصرار کرکے ان سے یہ فیصلہ کروایا کہ ان کا انٹرویو ریکارڈ ہوجانے کے بعد ان کے میڈیا منیجرز اس میں کوئی کانٹ چھانٹ نہیں کروائیں گے۔
وہ کمال مہربانی سے بغیر کسی تامل کے اس بات پر تیار ہوگئے۔ مگر انٹرویو شروع ہونے سے پہلے اور اس کے درمیان بار بار اصرار کرتے رہے کہ وہ یہ انٹرویو صدر پاکستان کی حیثیت میں دے رہے ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ کے طورپر نہیں۔ پیشہ ور صحافی ہوتے ہوئے ہمیں ان سے سوالات کرتے ہوئے اس پہلو کو نظر میں رکھنا ضروری تھا۔ مگر میرا نہیں خیال کہ مختصر وقت میں کوئی ایسا سوال رہ گیا جو اہم معاملات سے متعلق سمجھا جاسکتا ہے۔ پھر بھی آصف علی زرداری کے موجودہ منصب کے حوالے سے ان سے آن کیمرہ جو حدود وقیود ایک صحافی محسوس کرتا انھیںذہن میں رکھتے ہوئے میں نے اپنے تئیں پھر بھی تھوڑی بہت لبرٹی لینے کی بارہا کوشش کی۔ ''اوئے زرداری'' کہہ کر مخاطب کرنے کی جرأت نہ کرسکا۔ اس کے لیے ایک بار پھر معافی کا طلب گار ہوں۔ جب وہ ایوانِ صدر سے گھر لوٹ گئے اور موقعہ ملا تو اپنی اس کوتاہی کی تلافی کرنے کی کوشش کروں گا۔
انٹرنیٹ جہادیوں اور مستند صحافیوں کے غصے اور بے اطمینانی کے باوجود میں یہ عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ اپنے انٹرویو میں صدر زرداری نے کئی اہم پیغامات دیے ہیں۔ وہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شکست دل سے تسلیم کرکے آگے بڑھنا چاہ رہے ہیں۔ امریکا سے ان کے بہت زیادہ شکوے شکایات ہیں جن میں سے اکثر وہ آیندہ طشت ازبام کرتے رہیں گے۔ بجلی کا بحران ان کے دور میں کیوں حل نہ ہوپایا اس کا کچھ جواز ان کے پاس موجود ہے اورپھر Establishmentکا ان کے ساتھ رویہ۔
اس رویے کے حوالے سے ان کا ایک فقرہ بڑا معنی خیز تھا جس میں انھوں نے اشارہ دیا کہ اب جمہوری حکومتوں کو مستحکم یا غیر مستحکم کرنے والی Establishmentماضی کی طرح صرف عسکری قیادت تک محدود نہیں رہی۔ اس میں کچھ اور لوگ اور ادارے بھی شامل ہوگئے ہیں۔ یقینا وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنے چنے ہوئے مرحلے پر ان پہلوئوں کے بارے میں تفصیل سے باتیں کریں گے جن کی طرف انھوں نے اپنے انٹرویو میں اشارے دیے ہیں۔ فی الوقت تو ان کا پیغام صرف یہ تھا کہ وہ 11مئی کے انتخابات کے بعد بالآخر ایوانِ صدر سے نکلنے کے بعد بھی ملکی سیاست میں متحرک رہیں گے۔ ان کے سارے پتے11مئی کے روز شکست کھاکر ختم نہیں ہوئے۔ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔