کیا امریکا مذاکرات کا خواہاں ہے
طالبان کی جانب سے امن مذکرات کی پیشکش ترک کرنے کے اقدام کی وجہ سے عالمی اداروں نے پاکستان میں داخلی امن کے...
طالبان کی جانب سے امن مذکرات کی پیشکش ترک کرنے کے اقدام کی وجہ سے عالمی اداروں نے پاکستان میں داخلی امن کے قیام کے لیے اچھا موقع بلاشبہ گنوا دیا جب کہ طالبان کے ساتھ امن و امان قائم کرنے کے لیے مذاکرات کا یہ اچھا وقت تھا ''میں بدھ 29 مئی کو ڈرون حملے میں ولی الرحمٰن کی ہلاکت کی تصدیق کرتا ہوں، ہمیں ان کی ہلاکت سے صدمہ ہوا، تاہم ان کی قربانیوں پر فخر ہے، ہم ان کی ہلاکت کا بدلہ لیں گے، ہم نے اخلاص کے ساتھ حکومت کو امن مذاکرات کی پیشکش کی مگر ہمیں یقین ہے کہ ڈرون حملوں میں حکومت کا کردار ہے، طالبان سمجھتے ہیں کہ حکومت خطے میں ڈرون حملوں کی ذمے دار ہے۔ کیونکہ حکومت اقوام متحدہ کو معلومات پہنچاتی ہے'' (طالبان کے ترجمان احسان اﷲ احسان کی ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو،30مئی) واضح رہے کہ پاکستان کے حالیہ قومی و صوبائی انتخابات کے انعقاد اور امریکی صدر بارک اوباما کی ڈرون حملوں کے بارے میں نئی پالیسی کے اعلان کے بعد شمالی وزیرستان میں بدھ کو پہلا ڈرون حملہ کیا گیا۔
جس کے نتیجے میں طالبان کمانڈر ولی الرحمٰن کے علاوہ فخر عالم، نصیر الدین اور نصر اﷲ مارے گئے۔ جب کہ شہاب الدین اور سید الرحمٰن زخمی ہوئے، بدھ کی صبح شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں شہر سے20 کلو میٹر دور چشمہ پل کے قریب کتوخیل میں امریکی جاسوس طیارے نے ایک مکان کو نشانہ بنایا، مکان پر 2 میزائل فائر کیے گئے۔ جس کے نتیجے میں مکان مکمل طور پر تباہ ہو گیا، نشانہ بننے والا مکان ایک گنجان آباد علاقے میں تھا، جس کی وجہ سے قریبی مکانوں کو بھی جزوی نقصان پہنچا۔ جس علاقے میں یہ حملہ ہوا وہ طالبان اور القاعدہ کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ ڈرون حملے کا نشانہ ولی الرحمٰن ہی تھے۔ جس کے سر پر امریکی حکومت نے50 لاکھ ڈالر (5 ملین ڈالر) کی انعامی رقم بھی لگائی ہوئی تھی۔
خیال رہے کہ پیر20 مئی کو مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور تیسری مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے پر متمکن ہونے والے میاں محمد نواز شریف نے پارٹی کے پارلیمانی گروپ سے لاہور میں خطاب کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے آپشن کو استعمال کرنے کا عندیہ دیا تھا جو کہ پوری پاکستانی قوم کی آواز ہے۔ اس اعلان سے قبل میاں صاحب اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔ اس تناظر میں اس اعلان کو بہت اہمیت دی گئی کہ اس اعلان کے پیچھے یقیناً پاک آرمی کی تائید بھی شامل ہے۔ اس سے پہلے میاں نواز شریف نے مولانا فضل الرحمٰن سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور مولانا سمیع الحق کے پاس اپنا ایک نمایندہ بھجوایا۔ ان دونوں نے، جن کا طالبان کے اندر خاصا اثر و رسوخ سمجھا جاتا ہے، اپنے پورے تعاون کا یقین دلایا۔ اگرچہ انتخابات کے فوری بعد طالبان کی طرف سے بھی اس پیشکش کو دہرایا جا چکا ہے جو الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے کی گئی تھی مگر اس سے بوجوہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا تھا اب ولی الرحمٰن کی ہلاکت کی وجہ سے طالبان نے مذاکرات کی پیشکش واپس لی ہے۔ اﷲ خیر کرے!۔
دفاعی امور کے ماہر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں سے طالبان پر دبائو بڑھا ہے کیونکہ وہ ڈرون حملوں کے خلاف جوابی کارروائی کے معاملے میں بے بس ہیں۔ ولی الرحمٰن کی ہلاکت طالبان کے لیے دھچکا ہے اور دوسری جانب اس حملے سے امریکا کی عسکری قوت کا عملی مظاہرہ سامنے آیا ہے۔ اس حملے سے طالبان پر نفسیاتی دبائو میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ عام تاثر ہے کہ ولی الرحمٰن سیاسی سمجھ بوجھ اور مذاکرات پر یقین رکھنے والا آدمی تھا۔ اس کے جے یو آئی (ف) کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ منظر نامے سے اس کا ہٹ جانا امن کے لیے کوششوں کو آگے بڑھانے میں منفی عمل ثابت ہو گا۔
ولی الرحمٰن کی ہلاکت سے طالبان امن کے لیے کوششوں سے مزید دور ہو گئے۔ طالبان سمجھتے ہیں کہ ڈرون حملوں میں پاک فوج امریکا کی معاونت کر رہی ہے۔ اپنے انتقام کی آگ بجھانے کے لیے وہ امریکا پر تو حملے کر نہیں سکتے، البتہ پاک فوج پر حملوں کی شدت ضرور بڑھا سکتے ہیں۔ ولی الرحمٰن کی ہلاکت کے فوری بعد پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کو ڈرون حملے پر شدید تحفظات ہیں۔ پاکستان کا مستقل موقف یہی ہے کہ ڈرون حملوں کے نقصانات ان سے حاصل ہونے والے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ جہاں ان حملوں میں معصوم شہری ہلاک ہوتے ہیں وہیں یہ ملکی سالمیت کے اصولوں اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔
حالیہ عام انتخابات کے بعد مرکز میں اکثریت حاصل کرنیوالی جماعت مسلم لیگ (ن) اور خیبر پختونخوا میں اکثریتی جماعت تحریک انصاف دونوں ہی ڈرون حملوں کے خلاف سخت موقف رکھتی ہیں۔ ایک بیان میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ڈرون حملے سفاکانہ ہیں۔ پاکستانی بچوں کے قتل پر چپ نہیں بیٹھ سکتا، قوم نے انتخابات میں نواز شریف کو ڈرون حملوں کے خلاف مینڈیٹ دیا، امریکا اگر قائل نہیں ہوتا تو ڈرون گرانے کا آغاز کیا جائے۔ ایک عجب صورتحال سامنے آ رہی ہے، ایک طرف امریکا نومنتخب پاکستانی حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کا عندیہ دیتے ہوئے یہ بھی کہتا ہے کہ امریکا پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کا احترام کرتا ہے تو دوسری طرف امریکی صدر باراک اوباما انٹرنیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں خطاب فرماتے ہیں کہ ''نائن الیون کو ہم پر حملہ کیا گیا، اس کے ہفتے بعد کانگریس نے ہمیں طاقت کے استعمال کا اختیار دیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ ختم ہونے کے قریب ہے، ڈرون حملے قانونی ہیں۔2014ء کے آخر تک جاری رہیں گے۔
ان سے دشمن کو آسانی سے نشانہ بنا سکتے ہیں'' خیال رہے کہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں اب تک 50 ہزار پاکستانی شہری ہلاک ہوئے ہیں جب کہ اس جنگ میں پاکستان کے ہزاروں فوجیوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ جب کہ امریکا نے 2011ء سے اب تک ڈرون حملوں میں4 امریکی شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ آئی سی جی نے پاکستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں کے بارے میں اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ان حملوں میں شدت پسندوں سے زیادہ بے گناہ پاکستانی شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ امریکا کی یہ مہم عالمی قوانین کے متصادم ہے اور اوباما انتظامیہ کو اس پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔
گزشتہ ہفتے امریکی حکومت نے ڈرون حملوں سے متعلق نئی خفیہ پالیسی تیار کر لی ہے۔ جس کے تحت دنیا بھر میں ڈرون حملوں کا کنٹرول پینٹا گون کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ تاہم پاکستان میں ڈرون حملوں کا اختیار بدستور سی آئی اے کے پاس رہے گا۔ ایک امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے متعلق ڈرون پالیسی کا ہر 6 ماہ میں جائزہ لیا جائے گا کہ آیا پاکستان میں القاعدہ کس حد تک کمزور ہو چکی ہے اور افغانستان میں اتحادی فوج کو کوئی خطرات تو نہیں۔ امریکی حکام کے مطابق 2014ء کے آخر میں افغانستان سے انخلاء کے وقت ڈرونز کا کنٹرول پینٹا گون کے حوالے کیا جا سکے گا۔
ادھر ممتاز امریکی اسکالر نوم چومسکی نے کہا ہے کہ 2003ء میں عراق پر حملے، پاکستان، افغانستان میں ڈرون حملوں اور عرب ریاستوں میں شورش برپا کرنے پر امریکی صدر باراک اوباما، سابق صدر جارج بش اور سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمات چلائے جائیں، ڈرون حملے خوفناک اور دہشت پھیلانے والا ہتھیار ہیں ( روسی میگزین رشیا ٹو ڈے کو انٹرویو۔ مئی2013ء)
جہاں تک پاکستان کی طالبان سے مذاکرات کی بات ہے اس سلسلے میں پاکستان میں تعینات امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''طالبان سے مذاکرات پاکستانی حکومت کی صوابدید ہے۔ مذاکرات آنے والی حکومت کی مرضی سے ہوں گے۔ جہاں تک تحفظات کا تعلق ہے تو ان کا انحصار مذاکرات کی شرائط کے مطابق ہو گا۔''
بادی النظر میں امریکا افغانستان چھوڑنے سے پہلے وہاں کے تمام فریقین سے جن میں طالبان شامل ہیں بات چیت کے ذریعے اس جنگ کے خاتمے کا خواہاں ہے جس طرح اس نے ویت نام میں جنگ کے ساتھ ساتھ وہاں کے لوگوں کے ساتھ رابطے استوار رکھے تھے اور بالآخر مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا تھا۔