ڈی این اے ٹیسٹ اور علما

ملک کے اعلیٰ سطح اسلامی رہنما ادارے کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی نے چند روز قبل اپنے ایک اجلاس میں زنا بالجبر کے کیسز...


Mahnaz Rehman June 06, 2013

ملک کے اعلیٰ سطح اسلامی رہنما ادارے کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی نے چند روز قبل اپنے ایک اجلاس میں زنا بالجبر کے کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ کو ناقابل قبول ثبوت قرار دیا ہے۔علاوہ ازیں انھوں نے کلوننگ کو بھی غیر اخلاقی اورغیر اسلامی قرار دیا ۔ یہ فیصلے کونسل کے ارکان نے مولانا محمد خان شیرانی کی صدارت میں ہونے والے دو روزہ اجلاس میںکیے۔ قانون کے تحت زنا بالجبر کے کیسز میں کون سے ثبوت قابل قبول ہوں گے، اس پر تفصیلی بحث کی گئی۔

ارکان کی اکثریت کی رائے میں اسلام نے معاشرے کے کسی رکن کے زنا بالجبر کی صورت میںکیس کی نوعیت، جواز، الزام،سزا اور معاوضہ کے معاملے میں تفصیلی ہدایات فراہم کی ہیں۔ چند علما کی رائے میں زنا بالجبرکے کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ خاطر خواہ ثبوت نہیں ہے۔کمزور ثبوت مسئلے کے سنگینی کو کم کر سکتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس طرح کے کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ بہت مددگار ثابت ہوسکتا ہے،اس لیے اسے ثانوی ثبوت کے طور پر قبول کیا جانا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ زنا جیسا جرم ثبوت کے معاملے میں بہت زیادہ احتیاط کا متقاضی ہے اور ڈی این اے ٹیسٹ اتنا مستند نہیں ہوتا۔

علما کے اجلاس میں توہین رسالت کے قانون کو برقرار رکھنے مگر اس کے غلط استعمال کو روکنے اور تعلیمی نصاب کا جائزہ لینے اور اسلامی ناموں جیسے پیغمبر اور مسجد کے مترا دفات استعمال نہ کرنے کی بھی بات کی گئی اور محکمہ تعلیم کو ہدایات جاری کی گئیں۔انتخابات اور پھر نئی حکومتوں کے دھوم دھڑکے کے باوجود کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی ان بیانات کی وجہ سے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہو گئی ہے اور سول سوسائٹی کو ضیاالحق کا دور یاد آنے لگا ہے۔

کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی کے چئیرمین کا کہنا ہے کہ یہ ان کی ذاتی رائے نہیں بلکہ اسلام میں چار لوگوں کی گواہی کو بنیادی ثبوت مانا گیا ہے۔ بہرحال قانونی ماہرین کی رائے میںمذہبی عناصر جدید ٹیکنالوجیز سے واقف نہیں ہیں اور ہر نئی چیز کو مذہب کے خلاف سمجھتے ہیں۔ مزید یہ کہ زنا بالجبر کے کیس میں چار گواہوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔زنا یا اپنی مرضی سے جنسی عمل کی صورت میں الزام لگانے والے کوچارگواہوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی کی تجاویز پر عمل کرنا حکومت یا قانونی اتھارٹی کے لیے لازمی نہیں ہوتا۔ البتہ انھیں کسی کیس میں اعانت یا قائل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔قانونی نظام کے تحت دیگر عدالتوں کے علاوہ وفاقی شریعت عدالت بھی واقعاتی شواہد جیسے میڈیکل لیگل معائنہ اور ڈی این اے کی بنیاد پر سزائیں سناتی رہی ہے۔

یہاں سوال یہ یپداہوتا ہے کہ ڈی این اے آخر ہے کیا؟ ڈی این اے ہمارے جسم کے ہر خلیے میں موجود ہے اور یہ ہماری جسمانی خصوصیات جیسے آنکھ، بال اور جلد کی رنگت کا تعین کرتا ہے۔ ڈی این اے کے شواہد پسینے،خون، لعاب اور منی میں ملتے ہیں۔ ڈی این اے مظلوم یا مقتول کے جسم پر بشمول ناخنوں،لباس، پینے کے پانی کے گلاس، فرنیچر، ہتھیاروں پر ملتا ہے۔ملزم جس چیز کو بھی چھوئے،اس سے ڈی این اے کا ثبوت مل سکتا ہے۔تربیت یافتہ ماہرین وقوعہ کی جگہ سے ڈی این اے کا ثبوت جمع کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ثبوت ضایع نہ ہونے پائے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں اور تفتیش کاروں کو ڈی این اے کے ثبوت اکٹھا کرنے کی خصوصی تربیت دینا ضروری ہے تا کہ ثبوت آلودہ یا ضایع نہ ہونے پائے۔

ولیم اینڈ میری جرنل آف ویمن اینڈ دی لاکی جلد سات شمارہ دو میں اسٹیفنی پارک لکھتی ہیں:زیادتی کا ارتکاب کرنے والے شخص کی شناخت نہ ہونے کی بنا پر اسے سزا دلانا نا ممکن ہو جاتا ہے مگر اب ڈی این اے ٹیسٹ کی وجہ سے یہ ممکن ہوگیا ہے۔کسی بھی ملزم سے زنا بالجبر کا اعتراف کرانا بہت مشکل ہوتا ہے اس لیے ڈی این اے ثبوت کو استعمال کرنے کے حق کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔مغرب میں کلاسک ریپ اسے کہا جاتا ہے جب کوئی اجنبی شخص کسی عورت پر اچانک اور پر تشدد حملہ کرتا ہے اور اس کی آبرو ریزی کرتا ہے تو اسے کلاسک ریپ کہا جاتا ہے۔اس طرح کے کیس میں مجرم کی شناخت عام طور پر مسئلہ بن جاتی ہے۔مغرب میں اس طرح کے کیس عام طور پر رپورٹ ضرورکیے جاتے ہیں۔

زنا بالجبر عورتوں پر نفسیاتی طور پر مختلف طرح سے اثر انداز ہوتا ہے۔اس تشدد کا شکار ہونے والی عورت عام طور پر تین مراحل سے گزرتی ہے، پہلا مرحلہ ذہنی جھٹکے اور صدمے کا ہوتا ہے جو چند دنوں تک جاری رہتا ہے۔دوسرے مرحلے میں ایک طرح کی جعلی ایڈجسٹمنٹ کی کوشش کی جاتی ہے۔جس کی خصوصیت واقعہ سے انکار اور جذبات کو دبانا ہوتا ہے۔تیسرے مرحلے میں پہلی علامتیں دوبارہ نمودار ہونا شروع ہوتی ہیں۔چند ہفتوں تک ان علامتوں میںاضافہ ہوتا رہتا ہے۔نفسیاتی رد عمل کے علاوہ اس کا نتیجہ حمل ٹھہرنے ، جنسی بیماری اورمالی نقصان کی صورت میں بھی سامنے آ سکتا ہے۔جہاں تک سماجی رویوں کا تعلق ہے، یہ واحد جرم ہے جس میں مظلوم کو عمر بھر کی رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔عدالتی عمل بھی طویل اور صبر آزما ہوتا ہے۔

عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے حلقوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ آیا ڈی این اے ٹیسٹ کی وجہ سے زنا بالجبر کے جرائم میں کمی واقع ہو گی؟حقوق نسواں کی علمبرداروں کا کہنا ہے کہ عورتوں پر صدیوں سے ظلم ہوتا چلا آیا ہے،اس لیے وہ ہر نئی ٹیکنالوجی کا اس نقطہ نظر سے جائزہ لیں گی کہ آیا اس سے عورتوں پر ہونے والے ظلم میں کمی واقع ہو گی یا نہیں۔اور کیا یہ منصفانہ معاشرے کو فروغ دے گی۔اس کے لیے درج ذیل سوالوں پر غور کرنا ضروری ہے:

٭کیا ڈی این اے ٹیسٹ قابل عمل ہے؟کیا یہ مستند اور قابل اعتبار ہے؟اس ٹیکنالوجی کی افادیت کا تعین کرتے وقت کن اقدار کو ملحوظ رکھا گیا؟کیا یہ اقدار صنفی تعصب پر مبنی ہیں؟

٭یہ ٹیکنالوجی کس تناظر میں بنائی اوراستعمال کی گئی؟کون اسے فروغ دے رہا ہے؟کیا لاگت/فائدہ کا تجزیہ کیا گیا تھا؟لاگت کس کے ذمے ہو گی اور فائدہ کسے ہو گا۔کیا یہ ٹیکنالوجی ضرورت مندوں کو میسر ہو گی؟کیا اس سے ظلم کا خاتمہ ہو گا اور بے بس طبقات با اختیار ہو جائیں گے؟

٭اس ٹیکنالوجی کا عورتوں پر کیا اثر پڑے گا،انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔

ڈی این اے ٹیسٹ کا مقصد یہ جاننا ہے کہ جائے وقوعہ پر مشکوک شخص کا خون، لعاب،منی یا بال موجود تھے۔(ہیلن بیکوریٹ ہولمز)

ڈی این اے ٹیکنالوجی کا استعمال 1980کے عشرے کے وسط سے شروع ہوا لیکن سرمائے اور تربیت یافتہ عملے کی کمی کی وجہ سے اسے پورے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکا۔امریکا میں اس حوالے سے ایک نیا قانون بھی بنایا گیا جو ڈیبی اسمتھ ایکٹ یا انصاف سب کے لیے کہلاتا ہے۔ڈیبی اسمتھ نامی خاتون کو 3 مارچ 1989کو ایک نقاب پوش نے اسلحہ کے زور پر زنا بالجبر کا نشانہ بنایا تھا،ان کے شوہر نے ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جس کی بدولت ۴۲ جولائی 1995 کو اس حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا۔اس کیس کے نتیجے میں بہت سی قانونی اصلاحات متعارف ہوئیں جنہوں نے بالآخر ایک قانون کی شکل اختیار کر لی۔

فروری 2013 میں بنگلہ دیش میں ہونے والی کانفرنس میںسو ڈاکٹرز، وکلا،پالیسی ساز، پولیس افسر، سماجی کارکن اور سول سوسائٹی کے کارکنوں نے ڈی این اے ٹیسٹ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے زنا بالجبر کے کیسز میں شواہد جمع کرنے کے مروجہ طریقوں کو بدلنے پر زور دیا۔شرکا کا کہنا تھا کہ ریپ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں بلکہ یہ ایک جرم ہے اور اس سے اس طرح نمٹنا چاہیے۔سب نے دو انگلیوں سے معائنے کی مذمت کی اور ڈی این اے ٹیسٹ کرانے پر زور دیا۔

زنا بالجبر اور دیگر تشدد آمیز جرائم ہمیشہ سے عوام کے لیے باعث تشویش رہے ہیں،ایسے جرائم کی تفتیش کے لیے فارنسک ڈی این اے ٹیکنالوجی بہت موثر ثابت ہوئی ہے۔اس کے لیے لیباریٹریز کے معیار کو بہتر بنانا بھی ضروری ہے۔اس کے لیے سائنسدانوں اور حکومت دونوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ڈی این اے ٹیسٹ کی وجہ سے کسی بے گناہ کو زنا کے الزام میں سزا نہیں سنائی جا سکتی۔جب کہ اس کی بدولت اصل مجرم کی شناخت کی جا سکتی ہے۔مگر کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی کا کہنا ہے کہ بنیادی ثبوت چار گواہوں کی موجودگی ہے اور ڈی این اے ٹیسٹ ثانوی ثبوت کی حیثیت رکھتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چار گواہوں کی موجودگی میں کوئی ایسے فعل کی ہمت کیسے لائے گا دوسرے یہ شرط مرضی سے جنسی عمل کے لیے ہے، زنا بالجبر کے لیے نہیں، اس کے لیے ہمیں ڈی این اے ٹیسٹ پر ہی انحصار کرنا ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں