بے وقوف ٹیکس فائلرز
مہنگائی میں اضافے کے بغیر، صاحب استطاعت امیر ترین افراد پر لگژری ٹیکس لازماً لاگو ہونا چاہیے۔
معیشت کا حال ابتر ہے، قومی خزانہ دیوالیہ پن کے دہانے پر ہے اور قرضے آسمان کو چھو رہے ہیں، ایسے حالات میں از سر نو مالیاتی اقدامات ناگزیر ہوچکے تھے۔ ان حالات کے پیش نظر پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کو مالیاتی بل برائے 2018 ء میں ستمبر ہی میں ترمیم کرنا پڑی۔
مثبت پہلوؤں کے باوجود ''منی بجٹ'' میں ایسے اقدامات کیے گئے ہیں جو نہ صرف پریشان کُن ہیں بلکہ ان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کا پالیسی سازی سے متعلق وژن دھندلا گیا ہے۔ نان فائلرز پر عائد چالیس لاکھ روپے سے زائد مالیت کی جائیداد اور گاڑی خریدنے کی پابندی کے خاتمے کو بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا ہے۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت نے گزشتہ بجٹ میں یہ پابندی عائد کی تھی جس کے بعد کار مینوفیکچررز اور جائیداد کی خریدوفروخت اور تعمیرات سے متعلق شعبے کی جانب سے یہ شکایت سامنے آئی تھی کہ اس فیصلے کے نتیجے میں گاڑیوں کی فروخت میں 20 سے 50 فی صد تک کمی واقع ہوگی اور جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار بھی متاثر ہوگا۔ درحقیقت ، بالائی متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی باہر، کاروں اور جائیداد کی قیمتیں نیچے آئیں۔
پی ٹی آئی کے بیان کردہ مقاصد میں ٹیکس نیٹ میں اضافہ بھی شامل تھا اور اسد عمر کا فیصلہ اس کے برعکس ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا یہ اقدام نون لیگ کی بہتر پالیسیوں میں سے تھا، جو وہ نان فائلرز پر مزید پابندیاں اور مالی جرمانے عائد کرنے کے لیے کررہی تھی۔ اس میں قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ کی تجدید وغیرہ کے ذریعے انھیں ٹیکس نیٹ میں لانے جیسے اقدامات بھی شامل تھے۔ اسد عمر نے کئی خصوصی مفاداتی گروپس کے لیے ، جو یہ پابندی ختم کرنے کا واویلا کررہے تھے، راہیں کھول دی ہیں۔ کیا اسے مستقبل کے لیے مثال سمجھا جائے؟
ہمارے جی ڈی پی میں ٹیکس کا حصہ محض 12فی صد ہے، ہماری مجموعی آبادی میں آمدن پر ٹیکس ادا کرنے والوں کی شرح ترقی پذیر ممالک کی اوسط سے کم ہے۔ ہمارے ہاں یہ شرح پڑوسی ملک بھارت، سری لنکا اور نیپال سے بھی کم ہے۔
2017ء میں عالمی بینک کی جانب سے جنوبی ایشیا سے متعلق کاروباری اشاریوں کی جو درجہ بندی جاری کی گئی تھی اس میں پاکستان 190ممالک میں 172ویں نمبر پر تھا۔ 22 کروڑ کے ملک میں صرف 14 لاکھ افراد ریٹرنز فائل کرتے ہیں، یہ تعداد آبادی کا ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ کم ٹیکس جمع ہونے کے بعد صحت عامہ اور تعلیم کے شعبوں کے اخراجات پر زد پڑتی ہے جو بالترتیب ہمارے جی ڈی بھی کا صرف0.7اور دو فیصد تک محدود ہیں۔ اس کے نتیجے میں ملکی ترقی کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
اسد عمر کا یہ دعویٰ بھی انتہائی غیر دانش مندانہ ہے کہ بیرون ملک پاکستانی چونکہ ٹیکس ریٹرنز فائلر نہیں ہوتے، اس لیے یہ پابندی پاکستان میں ان کے لیے سرمایہ کاری اور کاروبار میں رکاوٹ بنے گی۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے شہری پہلے نان فائلرز ہی تصور ہوتے تھے اور ان پر وہی قواعد بھی لاگو کیے جاتے تھے۔
ایف بی آر نے ان علاقوں کے باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے والے ٹیکس دہندگان کو فائلرز تسلیم کرلیا اور انھیں رقوم کی منتقلی، گاڑی کی رجسٹریشن اور جائیداد کی خریدو فروخت میں پاکستانی ٹیکس دہندگان جیسی رعایتیں فراہم کردی گئیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے بھی یہی طریقہ اپنایا جاسکتا ہے۔ اس معاملے میں ایک حل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فائلرز اور نان فائلز کے لیے آیندہ پانچ برسوں تک ٹیکس کی مختلف شرح مقرر کردی جائے ، سفری اور کمرشل گاڑیوں پر فائلر کو حاصل کم سہولت سے عوام میں ریٹرنز فائل کرنے کی حوصلہ افزائی بھی ہوگی۔
مفاد پرست طبقہ معاشی اصلاحات کا راستہ روکتا رہے گا۔ یہ پُر خلوص حب الوطنی ہی تھی کہ معین الدین خان نے اپنا کیرئیر قربان کردیا۔ وہ ہانک گانگ میں اسٹینڈرڈ چارٹرڈ کے صدر تھے ، وہاں سے مستعفی ہو کر انھوں نے سینٹرل بورڈ آف ریونیو( سی بی آر) کے چیئرمین کا عہدہ قبول کیا، جہاں انھیں اپنے سابقہ ادارے سے 20فی صد کم تنخواہ پر کام کرنا پڑا۔ معین بینکاری کے شعبے میں جانا مانا نام تھے، بنیادی اصلاحات ان کے لیے یکسر نیا میدان تھا لیکن وہ سی بی آر میں بڑی حد تک تبدیلیاں لے آئے۔
پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی کہ میاں نواز شریف جو پہلے عزم صمیم کے ساتھ اصلاحات کرناچاہتے تھے انھیں بھی مقبولیت کی فکر لاحق ہوگئی۔ ٹیکس چور موٹے بلّوں پر ہاتھ ڈالنا معین کی بڑی غلطی ثابت ہوئی۔ وہ سی بی آر سے مستعفی ہوگئے۔مجھے ان کے ساتھ ٹیکس چوروں کو قابو میں لانے کے لیے شروع کردہ ''آپریشن فوکس ہنٹ'' کے سلسلے میں کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ بطور وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے یہ اقدامات شروع کیے تھے، اس وقت اسحاق ڈار بھی ہاں میں ہاں ملاتے رہے لیکن وزارت خزانہ کا قلم دان سنبھالتے ہی انھوں نے یہ اقدامات روک دیے۔
پی ٹی آئی نے اپنے مقاصد میں یہ کہا ہے کہ جمہوریت کے استحکام اور قومی ہم آہنگی کے لیے امیروغریب کا فرق ختم کرکے غریب کے حالات میں بہتری لانا ناگزیر ہے۔ ٹیکس جمع ہوتا ہے تو حکومت کے مالی حالات بہتر رہتے ہیں جس کے بعد ہی سماجی خدمات میں بہتری آتی ہے، روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکس دہندگان کا ملک سے تعلق بھی گہرا اور مستحکم ہوتا ہے۔
انھیں پالیسی سازی سے دل چسپی پیدا ہوتی ہے اور وہ ملک سے متعلق خود کو ذمے دار تصور کرنے لگتے ہیں۔'' نمایندگی کے بغیر ٹیکس نہیں'' اٹھارہویں صدی میں امریکی آبادکاروں نے یہ نعرہ لگایا تھا کیوں کہ انھیں لندن کی برطانوی پارلیمنٹ میں نمایندگی نہیں دی جاتی تھی۔ پاکستان میں یہ کلیہ ''ٹیکس دیے بغیر کوئی نمایندگی نہیں '' ہونا چاہے تاکہ نان فائلرز کو یہ پیغام جائے کہ جب وہ ملکی ترقی میں اپنا مطلوبہ کردار ہی ادا نہیں کرتے تو انھیں اس ملک میں سیاسی اور دیگر حقوق کی بات کرنے کا بھی کوئی حق نہیں۔
حقوق ہمیشہ ذمے داریوں کے ساتھ ملتے ہیں اور شہری حقوق کے اعتبار سے اس میں ٹیکس ادائیگی سب سے بڑی ذمے داری ہے۔ بنیادی طور پر سبھی شہریوں کو ، چاہے کم ہو زیادہ، اپنی آمدن ظاہر کرنی چاہیے۔ ریٹرنز فائل کرنے سے ریاست سے اپنے تعلق کا احساس بڑھتا ہے چاہے ٹیکس ادا کیا جائے یا یہ رقم بہت تھوڑی ہی کیوں نہ ہو۔ جو بھی ذاتی گاڑی خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے اسے ٹیکس دہندہ بنایا جا سکتا ہے اور ایسے فرد کو فائلر بھی ہونا چاہیے۔
ٹیکس نظام کو سادہ بنانے سے ہمارا صنعتی شعبہ بھی مستحکم ہوگا۔ بنیادی طورپر ہماری معیشت کا انحصار زراعت کے شعبے پر ہے۔ زرعی شعبے سے متعلقہ صنعتوں کو اگرچہ زیادہ مالیاتی سہولیات حاصل نہیں لیکن اسی کی بدولت دیہات میں روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، کسانوں کی آمدن بڑھتی ہے، صنعتی پیداوار اور زرعی مصنوعات کی برآمد میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔
ہماری زرعی صنعتوں میں چاول، آٹے اور شکر کی ملیں سر فہرست ہیں اس کے علاوہ تیل، پولٹری، فش پراسیسنگ، ڈیری مصنوعات وغیرہ بھی اسی شعبے سے متعلق ہیں۔ اپنی صنعتوں کو فروغ دینے کے بجائے ہم ڈبل روٹی، مکھن، پنیر، دودھ، ٹافیاں، بسکٹ حتی کہ لسّی بھی درآمد کررہے ہیں، جب کہ یہ سب اشیا ہمارے ہاں تیار کی جاتی ہیں۔ ہمارے اسٹوروں میں درآمداتی اشیا کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، ایسی غیر ضروری درآمدات ہی مقامی صنعتوں کو برباد کرتی ہیں۔
مہنگائی میں اضافے کے بغیر، صاحب استطاعت امیر ترین افراد پر لگژری ٹیکس لازماً لاگو ہونا چاہیے۔ ہم فائلرز بے وقوف ہیں جو بیس کروڑ آبادی (جس میں تیس لاکھ نان فائلر بھی شامل ہیں)کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ کیا اسد عمر ہمیں واقعی بے وقوف سمجھتے ہیں؟ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
مثبت پہلوؤں کے باوجود ''منی بجٹ'' میں ایسے اقدامات کیے گئے ہیں جو نہ صرف پریشان کُن ہیں بلکہ ان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کا پالیسی سازی سے متعلق وژن دھندلا گیا ہے۔ نان فائلرز پر عائد چالیس لاکھ روپے سے زائد مالیت کی جائیداد اور گاڑی خریدنے کی پابندی کے خاتمے کو بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا ہے۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت نے گزشتہ بجٹ میں یہ پابندی عائد کی تھی جس کے بعد کار مینوفیکچررز اور جائیداد کی خریدوفروخت اور تعمیرات سے متعلق شعبے کی جانب سے یہ شکایت سامنے آئی تھی کہ اس فیصلے کے نتیجے میں گاڑیوں کی فروخت میں 20 سے 50 فی صد تک کمی واقع ہوگی اور جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار بھی متاثر ہوگا۔ درحقیقت ، بالائی متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی باہر، کاروں اور جائیداد کی قیمتیں نیچے آئیں۔
پی ٹی آئی کے بیان کردہ مقاصد میں ٹیکس نیٹ میں اضافہ بھی شامل تھا اور اسد عمر کا فیصلہ اس کے برعکس ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا یہ اقدام نون لیگ کی بہتر پالیسیوں میں سے تھا، جو وہ نان فائلرز پر مزید پابندیاں اور مالی جرمانے عائد کرنے کے لیے کررہی تھی۔ اس میں قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ کی تجدید وغیرہ کے ذریعے انھیں ٹیکس نیٹ میں لانے جیسے اقدامات بھی شامل تھے۔ اسد عمر نے کئی خصوصی مفاداتی گروپس کے لیے ، جو یہ پابندی ختم کرنے کا واویلا کررہے تھے، راہیں کھول دی ہیں۔ کیا اسے مستقبل کے لیے مثال سمجھا جائے؟
ہمارے جی ڈی پی میں ٹیکس کا حصہ محض 12فی صد ہے، ہماری مجموعی آبادی میں آمدن پر ٹیکس ادا کرنے والوں کی شرح ترقی پذیر ممالک کی اوسط سے کم ہے۔ ہمارے ہاں یہ شرح پڑوسی ملک بھارت، سری لنکا اور نیپال سے بھی کم ہے۔
2017ء میں عالمی بینک کی جانب سے جنوبی ایشیا سے متعلق کاروباری اشاریوں کی جو درجہ بندی جاری کی گئی تھی اس میں پاکستان 190ممالک میں 172ویں نمبر پر تھا۔ 22 کروڑ کے ملک میں صرف 14 لاکھ افراد ریٹرنز فائل کرتے ہیں، یہ تعداد آبادی کا ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ کم ٹیکس جمع ہونے کے بعد صحت عامہ اور تعلیم کے شعبوں کے اخراجات پر زد پڑتی ہے جو بالترتیب ہمارے جی ڈی بھی کا صرف0.7اور دو فیصد تک محدود ہیں۔ اس کے نتیجے میں ملکی ترقی کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
اسد عمر کا یہ دعویٰ بھی انتہائی غیر دانش مندانہ ہے کہ بیرون ملک پاکستانی چونکہ ٹیکس ریٹرنز فائلر نہیں ہوتے، اس لیے یہ پابندی پاکستان میں ان کے لیے سرمایہ کاری اور کاروبار میں رکاوٹ بنے گی۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے شہری پہلے نان فائلرز ہی تصور ہوتے تھے اور ان پر وہی قواعد بھی لاگو کیے جاتے تھے۔
ایف بی آر نے ان علاقوں کے باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے والے ٹیکس دہندگان کو فائلرز تسلیم کرلیا اور انھیں رقوم کی منتقلی، گاڑی کی رجسٹریشن اور جائیداد کی خریدو فروخت میں پاکستانی ٹیکس دہندگان جیسی رعایتیں فراہم کردی گئیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے بھی یہی طریقہ اپنایا جاسکتا ہے۔ اس معاملے میں ایک حل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فائلرز اور نان فائلز کے لیے آیندہ پانچ برسوں تک ٹیکس کی مختلف شرح مقرر کردی جائے ، سفری اور کمرشل گاڑیوں پر فائلر کو حاصل کم سہولت سے عوام میں ریٹرنز فائل کرنے کی حوصلہ افزائی بھی ہوگی۔
مفاد پرست طبقہ معاشی اصلاحات کا راستہ روکتا رہے گا۔ یہ پُر خلوص حب الوطنی ہی تھی کہ معین الدین خان نے اپنا کیرئیر قربان کردیا۔ وہ ہانک گانگ میں اسٹینڈرڈ چارٹرڈ کے صدر تھے ، وہاں سے مستعفی ہو کر انھوں نے سینٹرل بورڈ آف ریونیو( سی بی آر) کے چیئرمین کا عہدہ قبول کیا، جہاں انھیں اپنے سابقہ ادارے سے 20فی صد کم تنخواہ پر کام کرنا پڑا۔ معین بینکاری کے شعبے میں جانا مانا نام تھے، بنیادی اصلاحات ان کے لیے یکسر نیا میدان تھا لیکن وہ سی بی آر میں بڑی حد تک تبدیلیاں لے آئے۔
پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی کہ میاں نواز شریف جو پہلے عزم صمیم کے ساتھ اصلاحات کرناچاہتے تھے انھیں بھی مقبولیت کی فکر لاحق ہوگئی۔ ٹیکس چور موٹے بلّوں پر ہاتھ ڈالنا معین کی بڑی غلطی ثابت ہوئی۔ وہ سی بی آر سے مستعفی ہوگئے۔مجھے ان کے ساتھ ٹیکس چوروں کو قابو میں لانے کے لیے شروع کردہ ''آپریشن فوکس ہنٹ'' کے سلسلے میں کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ بطور وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے یہ اقدامات شروع کیے تھے، اس وقت اسحاق ڈار بھی ہاں میں ہاں ملاتے رہے لیکن وزارت خزانہ کا قلم دان سنبھالتے ہی انھوں نے یہ اقدامات روک دیے۔
پی ٹی آئی نے اپنے مقاصد میں یہ کہا ہے کہ جمہوریت کے استحکام اور قومی ہم آہنگی کے لیے امیروغریب کا فرق ختم کرکے غریب کے حالات میں بہتری لانا ناگزیر ہے۔ ٹیکس جمع ہوتا ہے تو حکومت کے مالی حالات بہتر رہتے ہیں جس کے بعد ہی سماجی خدمات میں بہتری آتی ہے، روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکس دہندگان کا ملک سے تعلق بھی گہرا اور مستحکم ہوتا ہے۔
انھیں پالیسی سازی سے دل چسپی پیدا ہوتی ہے اور وہ ملک سے متعلق خود کو ذمے دار تصور کرنے لگتے ہیں۔'' نمایندگی کے بغیر ٹیکس نہیں'' اٹھارہویں صدی میں امریکی آبادکاروں نے یہ نعرہ لگایا تھا کیوں کہ انھیں لندن کی برطانوی پارلیمنٹ میں نمایندگی نہیں دی جاتی تھی۔ پاکستان میں یہ کلیہ ''ٹیکس دیے بغیر کوئی نمایندگی نہیں '' ہونا چاہے تاکہ نان فائلرز کو یہ پیغام جائے کہ جب وہ ملکی ترقی میں اپنا مطلوبہ کردار ہی ادا نہیں کرتے تو انھیں اس ملک میں سیاسی اور دیگر حقوق کی بات کرنے کا بھی کوئی حق نہیں۔
حقوق ہمیشہ ذمے داریوں کے ساتھ ملتے ہیں اور شہری حقوق کے اعتبار سے اس میں ٹیکس ادائیگی سب سے بڑی ذمے داری ہے۔ بنیادی طور پر سبھی شہریوں کو ، چاہے کم ہو زیادہ، اپنی آمدن ظاہر کرنی چاہیے۔ ریٹرنز فائل کرنے سے ریاست سے اپنے تعلق کا احساس بڑھتا ہے چاہے ٹیکس ادا کیا جائے یا یہ رقم بہت تھوڑی ہی کیوں نہ ہو۔ جو بھی ذاتی گاڑی خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے اسے ٹیکس دہندہ بنایا جا سکتا ہے اور ایسے فرد کو فائلر بھی ہونا چاہیے۔
ٹیکس نظام کو سادہ بنانے سے ہمارا صنعتی شعبہ بھی مستحکم ہوگا۔ بنیادی طورپر ہماری معیشت کا انحصار زراعت کے شعبے پر ہے۔ زرعی شعبے سے متعلقہ صنعتوں کو اگرچہ زیادہ مالیاتی سہولیات حاصل نہیں لیکن اسی کی بدولت دیہات میں روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، کسانوں کی آمدن بڑھتی ہے، صنعتی پیداوار اور زرعی مصنوعات کی برآمد میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔
ہماری زرعی صنعتوں میں چاول، آٹے اور شکر کی ملیں سر فہرست ہیں اس کے علاوہ تیل، پولٹری، فش پراسیسنگ، ڈیری مصنوعات وغیرہ بھی اسی شعبے سے متعلق ہیں۔ اپنی صنعتوں کو فروغ دینے کے بجائے ہم ڈبل روٹی، مکھن، پنیر، دودھ، ٹافیاں، بسکٹ حتی کہ لسّی بھی درآمد کررہے ہیں، جب کہ یہ سب اشیا ہمارے ہاں تیار کی جاتی ہیں۔ ہمارے اسٹوروں میں درآمداتی اشیا کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، ایسی غیر ضروری درآمدات ہی مقامی صنعتوں کو برباد کرتی ہیں۔
مہنگائی میں اضافے کے بغیر، صاحب استطاعت امیر ترین افراد پر لگژری ٹیکس لازماً لاگو ہونا چاہیے۔ ہم فائلرز بے وقوف ہیں جو بیس کروڑ آبادی (جس میں تیس لاکھ نان فائلر بھی شامل ہیں)کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ کیا اسد عمر ہمیں واقعی بے وقوف سمجھتے ہیں؟ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)